Tag: Giraffe

  • شیروں کا جتھہ زرافے پر حملہ آور، زرافے نے کیسے جان بچائی؟

    شیروں کا جتھہ زرافے پر حملہ آور، زرافے نے کیسے جان بچائی؟

    جنگلات میں شیر عموماً ایسے جانوروں کو اپنا شکار بناتے ہیں جنہیں وہ آسانی سے قابو کرسکیں، لیکن بعض اوقات وہ اپنے سے بڑے کسی جانور پر بھی حملہ کردیتے ہیں تاہم منہ کی کھاتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔

    شیر کی شکار کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ جس پر حملہ کرے اس کی گردن کو نشانہ بنائے تاکہ وہ جانور بے بس ہوسکے، اگر کبھی اسے چھوٹا جانور نہ مل سکے تو وہ اپنے سے بڑے جانور کی طرف بھی لپکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں وہ بچے، حاملہ یا کمزور جانور کو نشانہ بناتا ہے۔

    غالباً ان میں سے کوئی جانور شیروں کے اس جتھے کو ہاتھ نہ لگا تب ہی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک صحت مند زرافے پر حملہ کرتے ہیں۔

    3 سے 4 شیر ایک ایک کر کے زرافے کی پشت سے اس پر جھپٹتے ہیں لیکن زرافہ اپنی لمبی ٹانگوں سے زوردار دھکے دے کر انہیں ہٹا دیتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Wildlife Stories (@wildlife_stories_)

    شیروں کی کوشش ہے کہ وہ زرافے کی گردن تک پہنچ سکیں لیکن زرافے کی روز دار ککس سے وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو ہزاروں افراد کی جانب سے دیکھا اور پسند کیا گیا ہے۔

  • لمبی گردن والا معصوم زرافہ معدوم ہونے کو ہے

    لمبی گردن والا معصوم زرافہ معدوم ہونے کو ہے

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، زمین کے ایک کرے پر سال کے سب سے طویل دن اور دوسرے کرے پر طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافے کو جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانوروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

    اس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 68 ہزار رہ گئی ہے۔ گزشتہ برس صرف نائجیریا میں 600 زرافے ہلاک ہوئے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

  • غصے سے بھرا زرافہ سیاحوں کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگا

    غصے سے بھرا زرافہ سیاحوں کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگا

    کینیا میں غصے سے بھرا ایک زرافہ سیاحوں کو دشمن سمجھ کر ان کا پیچھا کرنے لگا، خوفزدہ سیاح زرافے کو دیکھ کر تیز رفتاری سے گاڑی بھگاتے رہے۔

    افریقی ملک کینیا کا یہ گیم ریزرو زرافوں سے بھرا ہوا ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا، ڈکن نامی 27 سالہ سیاح اپنے چند دوستوں کے ساتھ زرافوں کو دیکھ کر اور تصاویر بنا کر وہاں سے باہر نکل رہے تھے جب ایک زرافے کو انہوں نے اپنے پیچھے آتے دیکھا۔

    وہ نہایت تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے ان کا پیچھا کرنے لگا جس کے بعد سیاحوں نے بھی گاڑی بھگانی شروع کردی۔

    ڈکن کا کہنا تھا کہ اس کے غصے سے لگ رہا تھا کہ شاید وہ انہیں اپنا دشمن سمجھا۔ ایک جگہ پر زرافے نے ان کا راستہ بھی روکا جس کے بعد انہوں نے ریورس میں گاڑی کو دوڑایا۔

    کافی دیر پیچھا کرنے کے بعد بالآخر زرافے کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس نے سیاحوں کی جان چھوڑ کر اپنی راہ لی۔

    سیاحوں کا کہنا تھا کہ ابتدا میں انہیں وہ زرافہ نہایت بے ضرر لگا تاہم جب وہ ان کا پیچھا کرنے لگا تو نہایت خطرناک بن گیا، ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا ایک خوفناک مگر یادگار ایڈونچر تھا۔

  • زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے طویل دن اور طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    نیروبی: شمالی افریقی ملک کینیا میں دنیا کے 2 نہایت نایاب سفید زرافوں کا شکار کرلیا گیا، ان زرافوں کی تعداد دنیا بھر میں صرف 3 تھی اور ان دو زرافوں کی موت کے بعد اب اپنی نوعیت کا ایک ہی زرافہ واحد بچا ہے۔

    کینیا میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پولیس کو مادہ زرافے اور اس کے بچے کی باقیات شمالی مشرقی کینیا کی گریسا کاؤنٹی سے ملیں۔ یہ تلاش ماں اور بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔

    اب ان کے بعد اس نوعیت کا صرف ایک زرافہ بچا ہے جو تنزانیہ میں ہے اور دنیا بھر میں پایا جانے والا واحد سفید زرافہ ہے۔

    تنزانیہ میں بچنے والا دنیا کا واحد سفید زرافہ

    مقامی تنظیموں کے مطابق ان زرافوں کو سب سے پہلے 2017 میں دیکھا گیا تھا، علاوہ ازیں تنزانیہ میں موجود سفید زرافہ اس سے قبل 2016 میں دیکھا گیا تھا۔

    ان تنظیموں کے ساتھ مقامی اسحٰق بنی ہیرولا کمیونٹی بھی جانوروں کی رکھوالی اور حفاظت کے کام میں شریک تھی اور ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا دکھ بھرا دن ہے۔

    ان لوگوں کے مطابق ان کی کمیونٹی ان نایاب زرافوں کی رکھوالی کرنے والی دنیا کی واحد کمیونٹی ہے۔

    شکار ہونے والا زرافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نایاب زرافے ایک جینیاتی بگاڑ لیوک ازم کا شکار تھے۔ اس بیماری میں خلیوں میں موجود رنگ دینے والے پگمنٹس کم ہوجاتے ہیں۔

    یہ بیماری البانزم (یا برص) سے مختلف ہے، ایک مرض جسم کو جزوی طور پر سفید کرتا ہے جبکہ دوسرا جسم کو مکمل طور پر سفید کردیتا ہے۔ اس کی الٹ بیماری میلینزم کی ہے جس میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں اور جانور کا جسم مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔

    افریقہ کی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ 30 سال میں گوشت اور کھال کے لیے زرافوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا ہے جس سے زرافوں کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (آئی یو سی این) کے مطابق سنہ 1985 میں زرافوں کی آبادی 1 لاکھ 55 ہزار تھی جو سنہ 2015 تک گھٹ کر صرف 97 ہزار رہ گئی۔

  • سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟ ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ نے زرافوں کو لڑتے دیکھا ہے؟

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔

    معدومی کی طرف گامزن

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • سال کا طویل ترین دن سب سے طویل القامت جانور کے نام

    سال کا طویل ترین دن سب سے طویل القامت جانور کے نام

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زمین پر پایا جانے والا سب سے طویل القامت جاندار زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جو افریقہ کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔


    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔

    مکمل رپورٹ یہاں پڑھیں


    معدومی کی طرف گامزن

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    عالمی ادارے کے مطابق مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

    یاد رہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں جن میں زمین سے 70 فیصد سے زائد زندگی کا خاتمہ ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد زندگی نئے سرے سے جنم لیتی تھی اور اس کا ارتقا ہوتا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ نے زرافوں کو لڑتے دیکھا ہے؟

    کیا آپ نے زرافوں کو لڑتے دیکھا ہے؟

    زرافہ زمین پر پایا جانے والا سب سے طویل القامت جانور ہے۔ انسانوں کے لیے بے ضرر یہ جانور افریقی جنگلات میں پایا جاتا ہے اور سیاحوں کے لیے خاصی کشش کا باعث ہے۔

    ایک عام خیال ہے کہ زرافے کا لمبا قد اس کی غذائی عادات کی وجہ سے ہے۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    حال ہی میں نیشنل جیوگرافک نے زرافوں کے لڑنے کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دو زرافے آپس میں لڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    جس طرح سے یہ زرافے آپس میں لڑ رہے ہیں اور زوردار طریقے سے ایک دوسرے کو اپنی گردن مار رہے ہیں، ماہرین کے مطابق اگر ان میں سے ایک فریق زرافے کی جگہ کوئی دوسرا جانور ہو تو ایک ہی ٹکر میں اس کی گردن ٹوٹ سکتی ہے۔

    لیکن زرافے کی گردن خاصی لچکدار ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے جارحانہ حملوں میں بھی اپنی گردن صحیح سلامت بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔

    ایسی لڑائیوں میں جیت ہمیشہ اسی فریق کی ہوتی ہے جس کا سر دوسرے فریق کے سر سے زیادہ مضبوط ہو اور وہ اسے گزند پہنچانے میں کامیاب رہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    ہم نے اسکول میں پڑھا ہے کہ دنیا کا لمبا ترین اور لمبی گردن رکھنے والا جانور زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔ درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    زرافہ دنیا کا لمبا ترین ممالیہ ہے۔ نر زرافوں کی لمبائی عموماً 5.5 میٹر ہوتی ہے جبکہ مادہ زرافہ اس سے ذرا سی ہی چھوٹی ہوتی ہے۔

    g3

    ڈارون کے نظریہ ارتقا کے تحت زرافے کی لمبی گردن کا نظریہ یوں پیش کیا گیا کہ دیگر جانوروں سے غذا کے حصول کے لیے لڑائی کے باعث زرافوں نے ان جگہوں پر پہنچنے کی کوشش کی جہاں دوسرے جانور نہیں پہنچ سکتے تھے یعنی درختوں کی اونچی شاخوں تک۔

    جب زرافوں نے اس عادت کو اپنا معمول بنا لیا تو ان کے جسم نے آہستہ آہستہ اس عادت سے مطابقت شروع کردی۔

    ہر نئے پیدا ہونے والے زرافے میں گردن اور ٹانگوں کی لمبائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس سے قبل زرافے دیگر جانداروں کی طرح اوسط قد کے تھے اور ان کی ٹانگیں اور گردن بھی عام لمبائی کی حامل تھی۔

    یہ ارتقا کئی نسلوں (اندازاً 10 لاکھ سال) تک چلا یہاں تک یہ خصوصیات زرافے کی نسل میں مستقلاً آگئیں۔ یوں کئی نسلوں کا فرق رکھنے والوں زرافوں میں زمین آسمان کا فرق آگیا اور زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔

    g2

    مگر ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق زرافے کے جسمانی ارتقا کی وجہ یہ نہیں ہے۔

    اس رپورٹ میں ایک ماہر حیوانیات رابرٹ سمنز کا ذکر کیا گیا جس نے 1996 میں ایک تحقیق پیش کی تھی۔ تحقیق کے مطابق زرافے تمام وقت اونچی شاخوں سے نہیں کھاتے تھے۔ جب موسم خشک ہوتا تھا اس دوران وہ زمین پر لگے نباتات سے اپنی بھوک مٹاتے تھے۔

    اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    g1

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممکن ہے جن زرافوں کی گردن لمبی ہوتی ہو وہ لڑائی میں جیت جاتے ہوں۔ ایک مشاہدہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مادہ زرافہ بھی ان زرافوں کی جانب زیادہ متوجہ ہوتی ہیں جن کی گردن دوسرے زرافوں سے لمبی ہوتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔