Tag: Girls education

  • ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر ہو چکا ہے، افغان طالبان کے دور میں خواتین کے بنیادی حقوق بھی سلب کیے گئے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا، خواتین پر تعلیمی پابندیوں حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے۔

    بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان کی وجہ شہرت ان کا شدت پسندانہ رویہ ہے جو کہ بہت سے معاملات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، معاشرتی اقدار ہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلووٴں میں شدت پسندی کے علم بردار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فی صد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے واضح اثرات میں سے ایک صحت کے شعبے میں پیشہ ور خواتین کی تربیت کا فقدان ہے۔

    الجزیرہ ٹی وی کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے اور خواتین کی تعلیم پر پابندی سے افغانستان میں شعبہ صحت کی تعلیم سے منسلک خواتین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اس حوالے سے کابل کی رہائشی طالبہ بھی ان ہزاروں لڑکیوں میں شامل ہے، جو افغان طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے فیصلے سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔

    یہ طالبہ جو کابل میڈیکل اسکول سے گریجویشن کر رہی تھی اور جب طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی تو اس کی ڈگری مکمل ہونے میں چند ہفتے ہی باقی تھے، گو کہ طالبان نے پہلے سے شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دینی والی افغان خواتین جن میں ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ شامل ہے کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہے، تاہم اس حوالے سے نئی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔

    الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پابندی سے پہلے ہی میڈیکل اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والی 3,000 سے زیادہ خواتین کو پریکٹس کرنے کے لیے درکار بورڈ کے امتحانات دینے سے روک دیا گیا تھا، افغان طالبان کی جانب سے یہ سخت فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں پہلے ہی خواتین طبی عملے کی شدید کمی ہے اور نئے ڈاکٹرز کی اشد ضرورت تھی۔

    خواتین کو دباوٴ میں رکھنا اور تعلیم کے حق سے محروم کرنا کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ یہ سوال افغان طالبان کو خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔

  • افغان وزیر داخلہ نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی

    افغان وزیر داخلہ نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی

    کابل: افغان وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی، انھوں نے کہا کہ حالات کے ساتھ یہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان کے وزیر داخلہ سے اسلامی تعاون تنظیم کے وفد نے ملاقات کی ہے، اسلامی تعاون تنظیم کے اراکین نے ملک میں مجموعی امن اور استحکام کو سراہتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ دو سالوں میں مجموعی سیکیورٹی صورت حال کو مضبوط بنانے کے علاوہ مختلف شعبوں میں نمایاں پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

    مذکورہ تنظیم کے ارکان نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ نے بہترین مالیاتی پالیسی کے نفاذ، خوارج کی روک تھام اور مجرمانہ واقعات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ منشیات کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام کو یقینی بنایا ہے اور اس تنظیم سے کیے گئے بہت سے وعدے پورے کیے ہیں۔

    مذکورہ وفد نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے بعض احکام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ احکام وراثت کے حوالے سے خواتین پر ظلم و زیادتی روکنے اور دشمنیوں میں خواتین کے رشتے مقتول خاندان کے افراد کے ساتھ کرنے کی رسم میں روکنے کامیاب ہوئے ہیں۔

    وفد کے ارکان نے تعلیم کو مرد و خواتین کا مشترکہ حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم معاشرے کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

    خلیفہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ تعلیم مسلمانوں کی مشترکہ ضرورت ہے، اس سلسلے میں صبر اور حوصلے سے کام لیں کیوں کہ لڑکیوں کی تعلیم ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے جسے حالات کے ساتھ ہی شروع کر دیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امارت اسلامیہ کی حکومت اس طرح نہیں ہے جس طرح دنیا کے سامنے اس کی تصویر پیش کی گئی ہے، ان کے بقول افغان حسن سلوک اور میل جول سے بھرپور لوگ ہیں۔

  • افغانستان : لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق طالبان حکومت کا اہم فیصلہ

    افغانستان : لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق طالبان حکومت کا اہم فیصلہ

    کابل : افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے بند ہونے والے لڑکیوں کے تعلیمی ادارے طالبان نے جلد دوبارہ کھولنے کا عندیہ دے دیا۔

    افغانستان کے زیادہ تر علاقوں میں جہاں لڑکیاں گھروں میں رہتی ہیں اور لڑکے اسکول جاتے ہیں، وہیں ملک کے شمالی علاقوں میں اسکول بچیوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔

    افغان طالبان کی جانب سے لڑکوں کے تمام تعلیمی ادارے کھول دیے گئے تھے اور پرائمری تک چھوٹی بچیوں کو بھی اسکول جانے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن سیکنڈری اسکول، کالجز اور جامعات کی لڑکیوں کو پالیسی بننے تک گھر پر رہنے کا کہا گیا تھا۔

    اس حوالے سے طالبان کا مؤقف تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے باقاعدہ پالیسی مرتب کر کے طالبات کے لیے سیکنڈری اسکول اور جامعات کھول دیے جائیں گے۔

    بہت جلد لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول اور جامعات دوبارہ کھل جائیں گے: ترجمان افغان وزارت داخلہ۔ فوٹو: فائل

    اب افغانستان کی وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ بہت جلد لڑکیوں کے تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جائیں گے۔ ترجمان افغان وزارت داخلہ قاری سعید خوستی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کی حتمی تاریخ کا اعلان وزارت تعلیم کرے گی۔

    واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بچیوں کی تعلیم ایک بہت حساس موضوع بن گیا ہے، اطلاعات کے مطابق طالبان کی حکومت نے مبینہ طور پر اعلان کیا تھا کہ چھٹی جماعت کے بعد لڑکیاں گھروں سے باہر نکل کر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے نہیں جا سکتیں۔

    دوسری جانب طالبان حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے براہ راست ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے قیام کے کئی ہفتے بعد بھی ملک کے زیادہ تر علاقوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند تھے۔