Tag: Global warming

  • 2050 کے بعد ہر سال 5 گنا زیادہ لوگ مرنے لگیں گے

    2050 کے بعد ہر سال 5 گنا زیادہ لوگ مرنے لگیں گے

    عالمی حدت سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر مطالبات سامنے آنے کے بعد اگلے ہفتے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کا پہلا دن اس مسئلے کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے شدید گرمی، فضائی آلودگی اور مہلک متعدی بیماریوں کے بڑھتے پھیلاؤ کے سبب ماحولیاتی تبدیلی کو انسانیت کو درپیش صحت کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

    لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2050 تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیز اضافہ ہو جائے گا، اس کے بعد ہر سال گرمی سے پانچ گنا زیادہ لوگ مریں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2030 اور 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ اضافی اموات متوقع ہیں۔

    محققین نے کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ سال موسم گرما کے دوران یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، جو اس سے پہلے 62 ہزار تھیں، دریں اثنا طوفان، سیلاب اور آگ دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق گلوبل وارمنگ کے صحت پر تباہ کن اثرات کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی لاکھوں اموات کو روکنے کے لیے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف تک محدود رکھا جانا چاہیے۔ جب کہ اقوام متحدہ نے رواں ہفتے کہا کہ دنیا اس صدی میں 2.9 سینٹی گریڈ تک گرم ہونے کے راستے پر ہے۔

    سب سے زیادہ خطرہ بچوں، خواتین، بوڑھوں، تارکین وطن اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو ہوگا، جنہوں نے سب سے کم گرین ہاؤس گیسز خارج کی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سال گرم ترین ہوگا اور جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے، اس سے بھی زیادہ اور تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں آنے کی توقع ہے۔

  • ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر خطرے میں گرفتار، سائنس دانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر خطرے میں گرفتار، سائنس دانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    سائنس دانوں نے انٹارٹیکا میں ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ اس کے برف کے تختے کے نیچے غیر متوقع تبدیلی رونما ہو رہی ہے، جو اس گلیشیئر کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات رونما ہو رہے ہیں، گلوبل وارمنگ گلیشیئرز کو دیمک کی طرح چاٹنے لگی ہے، اور سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ’تھاویٹس گلیشیئر‘ المعروف ’ڈومس ڈے گلیشیئر‘ مشکل میں گرفتار نظر آ رہا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ڈومز ڈے نامی گلیشئر 1990 کی دہائی کے مقابلے میں 8 گنا تیزی سے پگھل رہا ہے، اس گلیشیئر سے ہر سال 80 ارب ٹن برف ٹوٹ کر سمندر میں شامل ہو رہی ہے جو سطح سمندر میں 4 فی صد سالانہ اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

    ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تھاویٹس گلیشئر تیزی سے تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہا ہے، عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کو نہیں روکا گیا تو یہ دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔

    واضح رہے کہ اس گلیشیئر کو ڈومس ڈے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ پگھل کر سمندر میں گر گیا تو اس سے زمین پر قیامت خیز تباہی برپا ہوگی۔ یہ گلیشیئر تقریباً فلوریڈا کے سائز کا ہے اور مغربی انٹارکٹیکا میں واقع ہے۔

  • گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دنیا کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو دنیا بھر میں بے شمار قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، اب ماہرین نے اس سے نمٹنے کے لیے خلا میں دیوار قائم کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔

    دنیا میں درجہ حرارت میں اضافے سے سنگین موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اس مسئلے کی روک تھام کے لیے سائنسدانوں کی جانب سے کافی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    مگر اس مسئلے کا جو نیا حل سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی جانب سے پیش کیا گیا ہے وہ ذہن گھما دینے والا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت چاند کی گرد کو استعمال کرکے ایک ایسی ڈھال تیار کی جائے گی جو زمین تک پہنچنے والی سورج کی حرارت کی شدت کو کم کر دے گی۔

    جرنل پلوس کلائمٹ میں امریکا کی یوٹاہ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ چاند سے لاکھوں ٹن گرد کو جمع کرکے خلا میں زمین سے 10 لاکھ میل کی دوری پر چھوڑا جائے، جہاں گرد کے ذرات سورج کی روشنی کو جزوی طور پر بلاک کر دیں گے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس گرد کے ذرات کا حجم ایسا ہے جو زمین تک آنے والی سورج کی روشنی کو مؤثر طریقے سے جزوی طور پر بلاک کرسکتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ چاند کی سطح سے ان ذرات کو لانچ کرنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں تو یہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک بہترین طریقہ کار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے زمین اور سورج کے درمیان L1 Lagrange point نامی مقام پر ایک نئے خلائی اسٹیشن کی ضرورت ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار سولر جیو انجینیئر نگ کے دیگر مجوزہ منصوبوں سے بہتر ہے اور زمین کی آب و ہوا پر اس سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

    مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا متبادل نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے ہمیں زمین پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کچھ وقت مل جائے گا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2022 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے 5 سالہ تحقیقی منصوبے پر غور کیا جارہا ہے جس میں زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار کو کم کرنے کے مختلف طریقوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔

    وائٹ ہاؤس کے آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے مطابق اس تحقیق میں مختلف طریقوں جیسے کرہ ہوائی میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے ایرو سولز کے چھڑکاؤ کے ذریعے سورج کی روشنی کو واپس خلا میں پلٹانے کا تجزیہ کیا جائے گا جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا اس طرح کے طریقہ کار سے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، زمین پر موجود تمام جانداروں کو متاثر کر رہا ہے، بعض جاندار اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں کہ ان کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، کچھوا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جس سے ان کی نسل میں جنسی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھوے کی نسل معدوم ہوسکتی ہے۔

    کچھوے کی بقا کی جنگ

    دنیا بھر میں کچھوے کی 7 نمایاں اقسام موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں، پاکستان حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے نہایت زرخیز سمجھا جاتا ہے اور 5 اقسام کے کچھوؤں کی موجودگی اس کی بہترین مثال ہے۔

    تاہم پاکستان میں کچھوے کی نسل کو مختلف خطرات لاحق رہے جس کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھی گئی، اس وقت پاکستان میں کئی ادارے کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کوششوں سے کچھوے کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

    یہ جاننا آپ کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 70 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھوے کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو نہ صرف افزائش نسل کے لیے مادہ کچھوے کو پیش آتی ہیں بلکہ ننھے کچھوے جب سمندر تک پہنچتے ہیں تب بھی انہیں بے حد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے، بعد ازاں وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔ وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    دوسری صورت میں مادہ جب انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو ساحلوں پر پھینکے کچرے کے باعث وہاں موجود کتے گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    جو انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اگر پاکستانی ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحلوں پر تفریح کے لیے آئے افراد ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوے کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سمندر تک پہنچ جانے والے کچھوؤں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی، ماہی گیروں اور ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں کم یا درمیانی عمر کے کچھوے سمندر میں شارک کا شکار بن گئے۔

    یہ تمام عوامل وہ ہیں جن کی وجہ سے کچھوے کے سروائیول کی شرح بے حد کم ہوجاتی ہے۔

    موسم سے جنس کا تعین

    سنہ 2018 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ جانوروں کے ایک جین KDM6B میں اس سرگرمی پر تحقیق کی جس کی وجہ سے بعض جانوروں کی جنس کا تعلق موسم سے ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گرم موسم میں اس جین میں ہونے والی سرگرمی یہ طے کرتی ہے کہ انڈے سے نکلنے والے جانور کی جنس مادہ ہوگی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ موسم سے جنس کے تعین کا عمل کچھوے کے علاوہ بھی کچھ ریپٹائلز میں ہوتا ہے جیسے کہ مگر مچھ اور چھپکلی کی ایک قسم بیئرڈڈ ڈریگن۔

    سنہ 2018 میں ہی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔

    اس بارے میں تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت نارمل ہوگا تو انڈے سے نکلنے والے نر یا مادہ کا امکان یکساں ہوگا، درجہ حرات کم ہوگا تو نر کی پیدائش ہوگی جبکہ گرم موسم سے مادہ کی پیدائش میں اضافہ ہوگا۔

    معظم خان کے مطابق اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا کچھوے کی جنس میں عدم توازن پیدا ہوچکا ہے یا اس کی شرح کیا ہے تاہم کچھوے کی افزائش کے اس قدرتی پہلو کے باعث یہ طے ہے کہ بہت جلد یہ بگاڑ سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ نر کچھوؤں کی تعداد کم ہوجائے اور مادہ کی زیادہ، جس سے افزائش کا عمل بھی متاثر ہوگا، کچھووؤں کی آبادی کم ہوتی جائے گی یوں ان کی نسل معدومی کی طرف بڑھتی جائے گی۔

    ایکو سسٹم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

    سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حمید خان کہتے ہیں کہ کچھوؤں کو آبی خاکروب کہا جاتا ہے، کچھوے سمندر اور آبی ذخائر کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں جس سے آبی حیات پھلتی پھولتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق کچھوے کی نسل میں اس عدم توازن کے اثرات 10 سے 15 سال بعد سامنے آنا شروع ہوسکتے ہیں، کچھوؤں کی آبادی میں کمی یا ان کی معدومی سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانداروں اور پودوں کو نقصان ہوگا، اور یہ انسانوں کے فوڈ چین کو بھی متاثر کرے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سمندری گھاس کچھوؤں کی خوراک ہے، کچھوؤں کے کھانے کی وجہ سے یہ گھاس متوازن مقدار میں سمندر میں موجود ہوتی ہے، اگر اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے سمندر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہوگا۔

    کیا اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے؟

    سنہ 2018 میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق میں جب گریٹ بیریئر ریف میں مادہ کچھوؤں کی آبادی 99 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا، اس وقت ماہرین نے تجویز کیا تھا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ریت پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنا یا مصنوعی بارشیں برسانا بہتر رہیں گی جس سے ریت کا درجہ حرارت کم ہو۔

    تاہم کیا پاکستان کے ساحلوں پر بھی ایسا ممکن ہے؟

    اس بارے میں معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اور اس پوری پٹی پر ایسے اقدامات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ریت میں موجود پلاسٹک کے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) ریت کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ ساحلوں سے پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

    معظم خان کے مطابق کچھوؤں کی نسل کو لاحق دیگر خطرات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول کے لیے بے حد اہم اس جاندار کا تحفظ کیا جاسکے۔

  • کرونا وائرس کے بعد ایک اور قاتل انسانوں کا شکار کرنے کو تیار

    کرونا وائرس کے بعد ایک اور قاتل انسانوں کا شکار کرنے کو تیار

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ سے اربوں انسانوں کو درپیش سنگین خطرات سے آگاہ کر رہی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والی ہیٹ ویوز قاتل ثابت ہوں گی جو لوگوں کی جانیں لینے کو کافی ہوں گی۔

    کلائمٹ چینج کے ابتدائی ماڈلز نے تجویز کیا تھا کہ اگر آلودگی بلا روک ٹوک اسی رفتار سے جاری رہی تو تقریباً 100 سال بعد گرمی کی ایسی
    غیر معمولی لہریں یعنی ہیٹ ویوز پیدا ہوں گی جو انسان کی برداشت سے باہر ہوں گی، اب مزید تحقیق کہتی ہے کہ گرمی کی ایسی غیر معمولی اور قاتل لہروں کا سامنا پہلے ہی ہوگا۔

    4 ہزار صفحات پر مشتمل انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج کی یہ رپورٹ فروری 2022 میں ریلیز کی جائے گی البتہ اس کے کچھ مندرجات جاری کردیے گئے ہیں۔

    یہ رپورٹ ایک مایوس کن اور ہلاکت خیز تصویر پیش کرتی ہے جس کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں اوسط 1.5 درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوتا ہے تو اس سے دنیا کی 14 فیصد آبادی کو ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ گرمی کی شدید لہر کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر مزید نصف ڈگری کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کا دائرہ 1.7 ارب افراد تک پھیل جائے گا۔

    اس سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہر متاثر ہوں گے یعنی کراچی سے کنشاسا، منیلا سے ممبئی اور لاگو سے ماناؤس تک۔

    یہ محض تھرما میٹر پر نظر آنے والا نتیجہ نہیں ہے جو حالات کو خراب کرے گا، بلکہ گرمی کے ساتھ نمی کا زیادہ تناسب ہے جو اسے مہلک بنا دیتا ہے۔ یعنی اگر ہوا خشک ہو تو زیادہ درجہ حرارت میں بھی دن گزارنا آسان ہوگا، لیکن ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو کم درجہ حرارت میں بھی زندگی بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

    اس کو ویٹ بلب ٹمپریچر کہتے ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ویٹ بلب ٹمپریچر 35 درجہ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے تو ایک صحت مند بالغ انسان کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے، باوجود اس کے کہ اگر اسے سایہ اور پینے کا پانی بھی دستیاب ہو۔

    خلیج میں گرمی کی لہروں پر حالیہ تحقیق کے نمایاں مصنف کولن ریمنڈ کہتے ہیں کہ جب ویٹ بلب ٹمپریچر بہت زیادہ ہو تو ہوا میں نمی کے تناسب کی وجہ سے پسینے کا عمل جسم کو ٹھنڈا کرنے میں غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ یوں 6 گھنٹوں بعد جسم کے اعضا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اور ٹھنڈ حاصل کرنے کے مصنوعی ذرائع مثلاً ایئر کنڈیشنر تک رسائی نہ ہو تو موت یقینی ہوگی۔

    اس ہلاکت خیز گرمی کا سامنا پہلے بھی ہوچکا ہے، سنہ 2015 میں پاکستان اور بھارت میں گرمی کی ایسی ہی ایک لہر میں 4 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تب ویٹ بلب ٹمپریچر صرف 30 درجہ سینٹی گریڈ تک ہی پہنچا تھا۔ اس سے پہلے 2003 میں مغربی یورپ میں گرمی کی لہر میں 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں حالانکہ ویٹ بلب ٹمپریچر 30 درجہ سینٹی گریڈ تک بھی نہیں پہنچا تھا۔

    زیادہ تر اموات لو لگنے، دل کے دورے پڑنے اور بہت زیادہ پسینہ بہہ جانے سے جسم میں نمکیات کی کمی کی وجہ سے ہوئیں، یعنی ان میں سے کئی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2080 تک ہر سال تقریباً 30 ہیٹ ویوز آئیں گی۔ ان علاقوں میں شہروں کی آبادیاں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ہلاکت خیز گرمی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ شہروں کی اپنی گرمی بھی انہیں ارد گرد کے علاقوں سے اوسطاً 1.5 درجہ سینٹی گریڈ گرم کر دیتی ہے۔ گرمی کو جذب کرنے والا سڑکوں کا تارکول اور عمارتیں، ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والی گرمی اور شہروں کی گنجان آبادیاں بھی اس دباؤ کو بڑھا رہی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ گرمی کی شدید لہریں بالواسطہ طور پر بھی انسانی زندگی کو متاثر کریں گی کیونکہ زیادہ درجہ حرارت سے امراض میں اضافہ ہوگا، فصلوں کی پیداوار گھٹ جائے گی اور ان کی غذائیت میں بھی کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر محنت مشقت کا کام اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی حدت کو پیرس معاہدے کے عین مطابق 1.5 درجہ سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے تو بدترین اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی کئی علاقے ایسے ہوں گے کہ جہاں عالمی اوسط سے کہیں زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور اس کے انتہائی سنگین اثرات سامنے آئیں گے۔

  • مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔

    ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔

    دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔


    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔

    چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟

    وائرس کو جگانے کے تجربات

    اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟

    یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔

    سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔

    سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔

    فیل پیکر

    اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔

    فروری 2017 میں ناسا کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی میکسیکو میں کرسٹل کے ایک غار میں انہیں 10 سے 50 ہزار سال قدیم جرثومے ملے ہیں۔

    شمالی میکسیکو کا غار

    یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔

    بیماریوں کا پنڈورا بکس

    فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔

    کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں سے ثقافتی ورثہ محفوظ بنانے کے اقدام  کررہے ہیں، صدرعارف علوی

    موسمیاتی تبدیلیوں سے ثقافتی ورثہ محفوظ بنانے کے اقدام کررہے ہیں، صدرعارف علوی

    کراچی : صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ سے پاکستان سمیت پوری دنیا متاثر ہورہی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے ملکی ثقافتی ورثہ محفوظ بنانے کے اقدام کررہے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہارانہوں نے کراچی میں سرسبز پائیدار فن تعمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، صدر مملکت نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ملکی ثقافتی ورثہ محفوظ بنانے کے اقدام کررہے ہیں۔

    حکومت کا گرین اینڈ کلین پاکستان منصوبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، گلوبل وارمنگ سے پاکستان سمیت پوری دنیا متاثر ہورہی ہے۔

    صدرعارف علوی کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے، ماحولیاتی تبدیلی سے سیاحت سمیت مختلف شعبے متاثر ہورہے ہیں۔

    دنیا کی بڑی طاقتیں گلوبل وارمنگ کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ نہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے کرہ ارض پرموجود حیات کو خطرات لاحق ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے آبی قلت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

    اس سے قبل لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور عوام سیاحت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے، میں بھی بذات خود سیاحت کا بےحد شوقین ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان قدرتی مناظر سے مالامال ملک ہے جو سیاحوں کیلئے مکمل طور پرکھلا ہے، پاکستانی حکومت سیاحت کے فروغ کیلئے خواہاں ہے، سیاحت سے مختلف تجربات اورنئی جگہیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

  • ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    کیا آپ اکثر و بیشتر فضائی سفر کرنے کے عادی ہیں؟ تو پھر آپ کو شرم آنی چاہیئے کیونکہ شہر کے اس قیامت خیز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک ذمہ دار آپ کا فضائی سفر بھی ہے۔

    ایوی ایشن انڈسٹری یعنی ہوا بازی کی صنعت اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت سے جتنا کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سفر میں نہیں ہوتا۔

    ایک ہوائی جہاز اوسطاً ایک میل کے سفر میں 53 پاؤنڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتا ہے اور اس وقت جن انسانی سرگرمیوں نے عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) میں اضافہ کیا ہے، ہوا بازی کی صنعت کا اس میں 2 فیصد حصہ ہے۔

    تو پھر جب ہم تحفظ ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنے فضائی سفر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    فلائٹ شیم کی تحریک

    فضائی سفر کرنے پر شرمندہ کرنے یعنی فلائٹ شیم کی تحریک کا آغاز سنہ 2017 میں سوئیڈن سے ہوا جب سوئیڈش گلوکار اسٹافن لنڈبرگ نے فضائی سفر کے ماحول پر بدترین اثرات دیکھتے ہوئے، آئندہ کبھی فضائی سفر نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    ملک کی دیگر کئی معروف شخصیات نے بھی اسٹافن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، جن میں ایک کلائمٹ چینج کی 16 سالہ سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ کی والدہ اور معروف اوپرا سنگر میلینا ارنمن بھی شامل تھیں۔

    جی ہاں وہی گریٹا تھنبرگ جس نے ایک سال تک ہر جمعے کو سوئیڈش پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور جس کی یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں اشکبار تقریروں نے دنیا بھر کے بااثر افراد کو مجبور کیا کہ وہ اب کلائمٹ چینج کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔

    گریٹا کی انہی کوششوں کی وجہ سے اب ہر جمعے کو دنیا بھر میں کلائمٹ اسٹرائیک کی جاتی ہے۔ خود گریٹا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی تو اس نے فضائی سفر کے بجائے 14 روز کے بحری سفر کو ترجیح دی۔

    متبادل کیا ہے؟

    اس تحریک سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فضائی سفر نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دنیا نہ گھومیں یا سفر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرا ذریعہ سفر اپنائیں جیسے ٹرین کا سفر۔

    ٹرین سے جتنا کاربن اخراج ہوتا ہے وہ فضائی سفر کے کاربن اخراج کا صرف دسواں حصہ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ممالک میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین نئی ماحول دوست ٹرینیں بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جو عام ٹرین کے کاربن اخراج سے 80 فیصد کم کاربن کا اخراج کرتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ٹرین سے سفر کرنا نہایت پرلطف تجربہ ہے، اس سفر میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو فضائی سفر کے دوران ہرگز نظر نہیں آسکتے۔

    ذاتی کاربن بجٹ

    اقوام متحدہ کی جانب سے ہر شخص کا ایک ذاتی کاربن بجٹ مختص کیا گیا ہے، یعنی کسی شخص کے لیے جب مختلف ذرائع سے کاربن اخراج ہوتا ہے، یعنی رہائش، سفر، غذا اور دیگر سہولیات تو اس کاربن کی مقدار 2 سے ڈیڑھ ٹن سالانہ ہونی چاہیئے۔

    لیکن جب آپ فضائی سفر کرتے ہیں تو آپ کا یہ کاربن بجٹ ایک جھٹکے میں بہت سا استعمال ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر لندن سے ماسکو کی فلائٹ لی جائے جس کا فاصلہ 2 ہزار 540 کلومیٹر اور دورانیہ ساڑھے 3 گھنٹے ہے، تو آپ اس فلائٹ میں اپنے کاربن بجٹ کا پانچواں حصہ استعمال کرلیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس تحریک میں شیم کا لفظ تو منفی ہے تاہم اس کا مقصد اس سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہے۔ آپ جتنا زیادہ ماحولیاتی نقصانات کے بارے میں سوچیں گے، فضائی سفر کرتے ہوئے اتنی ہی زیادہ شرمندگی محسوس کریں گے۔

    سوئیڈن کے تحفظ ماحولیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف سوئیڈن کے مطابق یہ تحریک اتنی پراثر ثابت ہورہی ہے کہ سنہ 2018 میں سوئیڈن میں فضائی سفر کرنے والوں کی تعداد میں 23 فیصد کمی آئی۔ یہ تحریک اب کینیڈا، بیلجیئم، فرانس اور برطانیہ میں بھی زور پکڑ رہی ہے۔

    کیا آپ اس تحریک کا حصہ بننا چاہیں گے؟

  • گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اور نقصان سامنے آگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سمندروں کا رنگ بھی تبدیل کررہا ہے۔

    گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے نیلے سمندروں کا رنگ مزید نیلا جبکہ سبز سمندروں کا رنگ مزید سبز ہورہا ہے۔

    رنگوں کی یہ تبدیلی سمندروں کے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سمندروں کو رنگ دینے کی ذمہ دار ایک خوردبینی الجی (کائی) ہے جسے فائٹو پلینکٹون کہا جاتا ہے۔

    یہ الجی سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہے اور آکسیجن پیدا کرتی ہے۔ جن سمندروں میں زیادہ فائٹو پلینکٹون موجود ہے وہ سبز جبکہ کم فائٹو پلینکٹون رکھنے والے سمندر نیلا رنگ رکھتے ہیں۔

    سورج کی روشنی میں اضافے کی وجہ سے زمین کے کچھ حصوں کے سمندر گہرے نیلے جبکہ کچھ گہرے سبز ہوتےجارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں کی یہ تبدیلی فوڈ چین کو متاثر کرے گی۔ یہ جنگلی حیات اور ماہی گیری پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

  • شدید گرمی کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    شدید گرمی کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بار پھر سورج سوا نیزے پر جا پہنچا۔ آج (ہفتے کے روز) زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ڈگری رہنے کا امکان ہے جبکہ سورج کی تیز شعاعوں نے شہریوں کے لیے زندگی مشکل بنادی ہے۔

    شدید گرمیوں کے اس موسم میں احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ لو لگنے یا ہیٹ اسٹروک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں مریض کو فوری طور طبی امداد نہ دینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھوپ میں لو لگنے سے موت کیوں ہوتی ہے؟

    یہاں ہم آپ کو ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہیٹ اسٹروک ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں۔


    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات

    گرم اور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیے بغیر محنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا


    ہیٹ اسٹروک کی علامات

    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج رک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا


    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    اگر آپ اپنے ارد گرد کسی شخص میں مندرجہ بالا علامات دیکھیں تو جان جائیں کہ وہ شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوا ہے اور فوری طور پر اس کی مدد کی کوشش کریں۔

    مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔

    ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں۔

    مریض کو پنکھے کے قریب کر دیں، یا کسی چیز سے پنکھا جھلیں۔

    مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔


    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

    مندرجہ ذیل تدابیر اپنا کر آپ شدید گرمی کے موسم میں اپنے آپ کو کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کریں۔ روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی لازمی پیئیں۔ پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھیں۔

    مائع اشیا کا استعمال

    طبی ماہرین کے مطابق اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس اور دیگر مائع اشیا کا استعمال کریں۔

    چائے کافی سے پرہیز

    شدید گرم موسم میں گرم اشیا، چائے، کافی کا استعمال کم کریں۔ الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔

    کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    سخت گرمیوں میں ڈھیلے لیکن مکمل اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کا استعمال کریں۔ ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے۔

    تیز دھوپ میں نکلتے ہوئے آپ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہونا چاہیئے ورنہ دھوپ براہ راست اس حصے پر پڑ کر جلد کو سرخ کر سکتی ہے۔

    کیا کھائیں؟

    گرمی کے موسم میں مائع اشیا جیسے خالص جوسز، سلاد، ہلکے پھلکے کھانے خاص طور پر سبزیاں کھائیں۔

    اپنا شیڈول ترتیب دیں

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    باہر نکلتے ہوئے احتیاط کریں

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ بعد پانی پیئیں۔

    عرق گلاب یا پیپر منٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملاا ہوا اسپرے بھی ساتھ ہونا چاہیئے جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    سخت گرمیوں میں باہر کی تیل سے بھرپور اشیا، تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دیں۔ اس کی جگہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔

    خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھائیں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، کینو، خربوزہ وغیرہ۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز

    گرمیوں کے موسم میں گرم پانی سے نہانے سے بھی پرہیز کریں۔ یہ آپ کے دوران خون پر منفی اثرات ڈال کر شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

    بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔