Tag: Greenland

  • نیٹو کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور

    نیٹو کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور

    نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) ممالک نے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور کررہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیٹو ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈنمارک کے جزیرے پر قبضے کے لیے امریکی فوج کو استعمال کرنے کی دھمکی کے جواب میں گرین لینڈ میں فوج فوج بھیجنے پر غور کررہی ہے۔

    برطانوی اخبار ٹیلی گراف کا دعویٰ ہے کہ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک کی بات چیت جاری ہے، اگر امریکی صدر نے اپنی دھمکیوں پر عمل کیا تو ’نیٹو کے دستے کیا کریں گے‘ اس بارے میں بات چیت جاری ہے۔

    واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آرکٹک میں ڈنمارک کے ایک خودمختار علاقے اور دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے میں نئی ​​دلچسپی ظاہر کی ہے۔

    ٹرمپ نے سب سے پہلے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران 2019 میں گرین لینڈ خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اب انھوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے اور گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کی بات کی ہے۔

    انہوں نے سات جنوری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے۔

    دوسری جانب گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ نے گزشتہ ماہ واضح طور پر کہا تھا کہ گرین لینڈ اس کے لوگوں کا ہے اور یہ برائے فروخت نہیں ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/president-trump-at-the-national-prayer-breakfast/

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ پر قبضے کی خواہش سے اتحادی پریشان

    ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ پر قبضے کی خواہش سے اتحادی پریشان

    واشنگٹن: نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ پر قبضے کی خواہش سے اتحادی پریشان ہونے لگے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیرخارجہ بلنکن نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو م مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت ضائع نہ کریں ایسا نہیں ہوسکتا۔

    وزیراعظم گرین لینڈ کا کہنا ہے کہ ملک ہمارا ہے اور اس کی آزادی اور مستقبل کیلئے لڑینگے جبکہ جرمنی اور فرانس کی جانب سے بھی یورپی یونین کے مکمل دفاع کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کے بیان کے بعد ٹرمپ اورکینیڈین حکام کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کرگئی۔

    کینیڈین صوبے اونٹاریوکے وزیراعظم نے امریکی ریاست الاسکا خریدنے کی پیشکش کردی ہے۔وزیراعظم اونٹاریو کا کہنا ہے کہ کینیڈا امریکا سے الاسکا اور منی سوٹا کی ریاستیں خرید سکتا ہے۔

    اس سے قبل کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈا قیامت تک امریکا میں ضم نہیں ہوسکتا۔

    کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹرمپ کے کینیڈا کے امریکا میں ضم ہونے کے موقف کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا قیامت تک امریکا میں ضم نہیں ہوسکتا۔

    ٹروڈو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا‘دونوں ممالک میں کارکن اور برادریاں ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی اور سکیورٹی پارٹنر ہونے سے فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن کینیڈا امریکا کا حصہ بن جائے، یہ خارج از امکان ہے۔

    کینیڈین وزیرِخارجہ کا ردِ عمل:

    کینیڈین وزیرِخارجہ نے بھی ردعمل میں کہا کہ ٹرمپ سمجھ ہی نہیں سکے کینیڈا کی اصل طاقت کیا ہے،کینیڈا کبھی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوگا۔

    نومنتخب صدر نے کیا کہا تھا؟

    یاد رہے امریکا کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کینیڈین وزیراعظم کے استعفے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈا کے شہری امریکا کی اکیاون ویں ریاست بننے پر بہت خوش ہوں گے۔

    امریکا کے نو منتخب صدر کا کہنا تھا کہ کینیڈا کو زندہ رکھنے کیلئے امریکا تجارتی خسارہ اور بڑی سبسڈیز کا متحمل نہیں ہوسکتا، جس سے کینیڈا گزر رہا ہے، جسٹن ٹروڈو کو اس بات کا اندازہ تھا اس لیے وہ مستعفی ہو گئے۔

    ٹرمپ نے امریکا کا نیا نقشہ پیش کر دیا

    ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کا ارادہ دہراتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈا کو امریکا کی اکیاونویں ریاست بنانے کے لیے اقتصادی طاقت استعمال کرسکتے ہیں، اگر کینیڈا امریکا کے ساتھ ’ضم‘ ہو جاتا ہے تو انہیں خسارے کا سامنا بھی نہیں کرنا ہو گا اور کینیڈین کم ٹیکس ادا کریں گے۔

  • شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    دنیا بھر میں تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اس کی وجہ سے زمین کو بے شمار خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے سے اس صدی کے اختتام تک عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں لگ بھگ ایک فٹ کا اضافہ ہوسکتا ہے اور ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوگا۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ آنے والے برسوں میں گرین لینڈ کی 3.3 فیصد برفانی چادر پگھل جائے گی جو کہ 110 ٹریلین میٹرک ٹن برف کے برابر ہے۔

    اس برف کے پگھلنے سے 2022 سے 2100 کے درمیان سمندروں کی سطح میں 10 انچ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج فوری طور پر روک دیا جائے تو بھی گرین لینڈ کی برف کو پگھلنے سے روکنا اب ممکن نہیں۔

    گرین لینڈ کی برفانی چادر انٹار کٹیکا کے بعد سب سے بڑی ہے اور اس جزیرے کے 80 فیصد حصے پر پھیلی ہوئی ہے۔

    ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں بتایا گیا تھا کہ اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں 23 فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 2000 سے 2019 تک کے سیٹلائیٹ ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تھی۔

    انہوں نے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے کی شرح کا اندازہ برفباری کی مقدار سے کیا اور تخمینہ لگایا کہ اس صدی کے اختتام تک 3.3 فیصد برف پگھل جائے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین لینڈ میں موسم گرما کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس سے برفانی چادر زیادہ تیزی سے پگھلنے لگی ہے۔

    سمندری سطح میں ایک فٹ کا اضافہ ساحلی علاقوں کے لگ بھگ 20 کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا، اس شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے شمالی امریکی ملک گرین لینڈ میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا۔

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈائنو سار کے کچھ لاکھ سال بعد ایک شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا، سائنس دانوں نے آخر کار گرین لینڈ میں ہیاواتھا سیارچے کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے کے وقت کا تعین کر لیا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق گرین لینڈ میں جو شہاب ثاقب گرا تھا وہ 58 ملین سال پہلے گرا تھا، یعنی صرف 8 ملین (80 لاکھ) سال بعد جب ایک شہاب ثاقب نے زمین پر ڈائنوسارز کے وجود کو مٹا دیا تھا۔یہ گڑھا 2015 میں دریافت ہوا تھا جو برف کی تہہ کے نیچے دبا ہوا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ تعین کردہ وقت اس دور سے کافی پہلے کا ہے جو اس سے قبل سمجھا جاتا تھا، درست وقت معلوم کرنے کے لیے یونیورسٹی آف کوپین ہیگن کے گلوب انسٹیٹیوٹ اور ڈنمارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ایک ٹیم نے تصادم کی جگہ کی مٹی کے ذرّات پر لیزر شعاؤں کی بمباری کی تھی۔

    یہ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جس میں لیزر شعاعوں سے مٹی کو اس وقت تک گرم کیا گیا جب تک اس سے آرگن گیس خارج ہونا شروع نہیں ہوگئی، اور پھر اس کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے گڑھے کے 5.8 کروڑ سال پُرانے ہونے کا تعین کیا۔

    سوئیڈش میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جب یورینیم – لیڈ ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے چٹان کے زِکرون کرسٹل کا تجزیہ کیا گیا تو اس سے بھی یہی دور سامنے آیا۔ گلوب انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نِکولج کروگ لارسن کا کہنا تھا کہ گڑھے کی عمر کا علم ہونا بہت شان دار ہے، ہم اس کی عمر کا تعین کرنے میں 7 سال سے محنت کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا تو اس تصادم کے نتیجے میں ایٹم بم کی نسبت کئی لاکھ گُنا زیادہ توانائی خارج ہوئی تھی اور 19 میل چوڑا اور 0.6 میل گہرا گڑھا پڑ گیا تھا۔

  • دنیا کا ایک اور خوبصورت جزیرہ دریافت

    دنیا کا ایک اور خوبصورت جزیرہ دریافت

    سائنس دانوں نے قطب شمالی کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ دریافت کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ زمین کا "انتہائی شمالی” خشک مقام ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ کے ساحلی خطے میں واقع ایک نئے جزیرے کو دنیا کا انتہائی شمال کا زمینی مقام قرار دیا گیا ہے۔

    محققین رواں برس جولائی میں اس جگہ پر پہنچے تھے، تاہم وہ سمجھے کہ شاید یہ گرین لینڈ کا شمالی علاقہ ‘عودق‘ ہے۔ عودق جزیرے کو اب تک زمین کا انتہائی شمالی علاقہ سمجھا جاتا تھا۔

    کوپن ییگن یونیورسٹی کے شعہ ارضیاتی سائنس اور قدرتی وسائل سے وابستہ اور گرین لینڈ میں آرکٹک ریسرچ اسٹیشن کے سربراہ مورٹن راش کے مطابق ہمیں بتایا گیا کہ شاید میرے جی پی ایس میں کوئی گڑ بڑ ہے، جس کی وجہ سے ہم عودق جزیرے پر آن پہنچے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارا ارادہ کسی نئے جزیرے کو دریافت کرنا نہیں تھا، ہم تو وہاں بس نمونے اکٹھے کرنے اتفاقاً وہاں گئے تھے جس کے بعد ہم پر اس بات کا انکشاف ہوا۔

    اس مقام پر پہنچنے کے بعد سائنسدانوں کا خیال تھا کہ وہ اووڈک نامی جزیرے پر موجود ہیں جس کو 1978 میں ڈنمارک کی سروے ٹیم نے دریافت کیا۔

    مگر جب انہوں نے لوکیشن کی جانچ پڑتال کی تو انہٰں احساس ہوا کہ وہ اووڈک سے شمال مغرب میں 780 میٹر دور ایک دوسرے جزیرے پر موجود ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہر ایک پہلے اس بات پر خوش تھا کہ ہم نے اووڈک جزیرے کو ڈھونڈ لیا ہے، یہ ماضی کی مہمات کی طرح تھا جب لوگ سوچتے تھے کہ وہ کسی مخصوص مقام پر ہیں مگر درحقیقت انہیں نے ایک نیا مقام دریافت کرلیا ہوتا ہے۔

    یہ چھوٹا سا جزیرہ 30 میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کا ابھی کوئی نام نہیں مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے ناردرن موسٹ آئی لینڈ کا نام تجویز کریں گے۔

    امریکا کی جانب سے حالیہ دہائیوں میں متعدد مہمات کے دوران دنیا کے انتہائی شمالی جزیرے کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نیا جزیرہ برف پگھلنے سے سامنے آیا ہے اور یہ براہ راست گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔

    جس کے باعث گرین لینڈ کی برفانی پٹی سکڑ گئی ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ بہت جلد سمندر میں گم ہوجائے گا، مگر فی الحال یہ دنیا کے شمال کا آخری  زمینی حصہ ہے جو بار بار ابھرتا ڈوبتا رہے گا۔

  • زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کے ایسے مقام پر تاریخ میں پہلی بار بارش ہوئی جہاں آج تک بارش نہیں ہوئی تھی، اس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین کے ایسے مقام پر جہاں آج تک (1950 سے جب سے ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے) بارش ریکارڈ نہیں ہوئی تھی وہاں آسمان سے پانی برسنے نے سائنسدانوں کو حیران اور پریشان کردیا۔

    گرین لینڈ کی سطح سمندر سے 2 میل بلند چوٹی پر موجود وسیع و عریض پٹی پر بارش کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا تنیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

    اس 3216 میٹر بلند چوٹی پر عموماً درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے مگر حال ہی میں وہاں گرم ہوا کے نتیجے میں شدید بارش ہوئی اور 7 ارب ٹن پانی برفانی پٹی پر برس گیا۔

    یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے موسمیاتی اسٹیشن نے 14 اگست کو اس مقام پر بارش کو برستے دیکھا مگر ان کے پاس جانچ پڑتال کے یے پیمانہ ہی نہیں تھا کیونکہ انہیں اس کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

    یہ بارش اس وقت ہوئی جب گرین لینڈ میں 3 دن درجہ حرارت اوسط سے 18 سینٹی گریڈ زیادہ رہا اور اس کے نتیجے میں گرین لینڈ کے بیشتر علاقوں میں برف پگھلتے ہوئے دیکھا گیا۔

    کولوراڈو یونیورسٹی کے نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے سائنسدان ٹیڈد اسکمبوز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، ہم نے کچھ ایسا دیکھا وہ ایک شاید صدیوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ حالات میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کرلیتے جو ہم نے فضا کے ساتھ کیا۔

    گرین لینڈ میں جولائئی میں بھی بڑے پیمانے پر برف پگھلی تھی اور 2021 گزشتہ صدی کا چوتھا سال بن گیا جب اس طرح بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔ اس سے قبل 1995، 2012 اور 2019 میں ایسا ہوا تھا۔

    14 سے 16 اگست کے دوران بارش اور برف پگھلنا اس سال کے موسمیاتی اثرات کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ جولائی اور اگست میں برف پگھلنے کی وجہ ایک ہی ہے یعنی گرم ہوا اس خطے میں اوپر کی جانب پھیلی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ایسے نہیں جو کبھی نہ ہوئے ہوں مگر ان کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سمندری سطح میں 6 میٹر تک اضافہ ہوجائے گا، اگرچہ ایسا ہونے میں صدیاں لگ سکتی ہیں، مگر 1994 سے گرین لینڈ سے کھربوں ٹن پگھل چکی ہے جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سمندری سطح میں ابھی تک 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوچکا ہے اور آئی پی سی سی کے مطاب اس میں مزید 28 سے 100میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • امریکی صدر نے گرین لینڈ کی وجہ سے ڈنمارک کا دورہ منسوخ کر دیا

    امریکی صدر نے گرین لینڈ کی وجہ سے ڈنمارک کا دورہ منسوخ کر دیا

    واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممکنہ طور پر گرین لینڈ کو خرید لینے سے متعلق تنازعے کی وجہ سے اپنا ڈنمارک کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ڈینش وزیر اعظم میٹے فریڈےرِکسن گرین لینڈ کو بیچنے کے حوالے سے گفتگو پر راضی نہیں اور وہ اس وجہ سے اپنا کوپن ہیگن کا دورہ ملتوی کر رہے ہیں۔

    گرین لینڈ ایک خود مختار علاقہ ہے لیکن یہ ڈنمارک کا حصہ ہے، اتوار کو صدر ٹرمپ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ خریدنا چاہتے ہیں لیکن ڈینش حکومت نے کہا تھا کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کیاتھا ، گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے اور اس وقت ڈنمارک کے ماتحت ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش گزشتہ برس ظاہر کی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش بھی شدید ہوگئی ہے اور انہوں نے اعلیٰ حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں سے رائے طلب کی ہے کہ گرین لینڈ کو خریدنے کا سودا کیسے رہے گا۔

    گرین لینڈ اگرچہ ڈنمارک کے ماتحت ہے، تاہم اسے دنیا بھر میں خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، گرین لینڈ دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے اور اس ملک کے رقبے کا 80 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔

    اسے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی مانا جاتا ہے۔گرین لینڈ بحر اوقیانوس اور بحر منجمند شمالی کے درمیان واقع اس ریاست کو دنیا کی خوش ترین ریاستوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، یہاں ماہی گیری کا کاروبار سب سے زیادہ ہے، تاہم گزشتہ کچھ سال سے وہاں تیل و گیس سمیت قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔

    گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت امریکی اڈہ بھی موجود ہے، جہاں 600 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں۔

  • صدر ٹرمپ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں

    صدر ٹرمپ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں

    واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ دنیا نے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کردیا ، گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے اور اس وقت ڈنمارک کے ماتحت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا یورپی ملک ڈنمارک کی خودمختار ریاست کا درجہ رکھنے والے ملک گرین لینڈ کو خریدنے کا سوچ رہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکومتی مشیروں سمیت ملک کے اعلیٰ افسران سے رائے پوچھی ہے کہ اگر گرین لینڈ کو خرید لیا جائے تو امریکا کے لیے کیسا رہے گا۔

    امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش گزشتہ برس ظاہر کی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش بھی شدید ہوگئی ہے اور انہوں نے اعلیٰ حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں سے رائے طلب کی ہے کہ گرین لینڈ کو خریدنے کا سودا کیسے رہے گا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں کو بتایا گیا ہے کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ ڈنمارک گزشتہ کچھ ماہ سے گرین لینڈ کو فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔

    یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ ایک ماہ بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے ڈنمارک کے دورے پر پہنچیں گے، تاہم اطلاعات ہیں کہ دورے کے دوران امریکی صدر گرین لینڈ کو خریدنے کی بات نہیں کریں گے۔

    گرین لینڈ اگرچہ ڈنمارک کے ماتحت ہے، تاہم اسے دنیا بھر میں خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، گرین لینڈ دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے اور اس ملک کے رقبے کا 80 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔

    اسے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی مانا جاتا ہے۔گرین لینڈ بحر اوقیانوس اور بحر منجمند شمالی کے درمیان واقع اس ریاست کو دنیا کی خوش ترین ریاستوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، یہاں ماہی گیری کا کاروبار سب سے زیادہ ہے، تاہم گزشتہ کچھ سال سے وہاں تیل و گیس سمیت قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔

    گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت امریکی اڈہ بھی موجود ہے، جہاں 600 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں۔

    خیال رہے سپر پاور ملک امریکا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس نے نہ صرف دوسرے ممالک میں زمین خرید کر وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کیے بلکہ اس نے کئی جزیرے اور ریاستیں خرید کر اپنا حصہ بھی بنائیں، امریکا نے جہاں ڈیڑھ صدی قبل ریاست الاسکا کو روس سے خرید کر اپنا حصہ بنایا تھا، وہیں امریکا نے ریاست لوویزیانا کو بھی خرید کر اپنا حصہ بنایا تھا۔

  • 500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    برفانی خطے آرکٹک میں واقع ملک گرین لینڈ میں پائی جانے والی ایک مخصوص شارک کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کی عمر 512 سال ہے۔

    سائنس جنرل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 512 سالہ شارک دریافت کی ہے جو ممکنہ طور پر سنہ 1505 میں پیدا ہوئی تھی۔

    گرین لینڈ کی یہ شارک جسے گرین لینڈ شارک کہا جاتا ہے کئی سو سال تک زندہ رہنے کے لیے مشہور ہے۔ ان کی جسامت سال میں صرف 1 سینٹی میٹر بڑھتی ہے چانچہ سائنسدانوں کے لیے اس کی جسامت سے عمر کا اندازہ لگانا نہایت آسان ہے۔

    یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی کی تلاش میں تیرتی رہتی ہیں۔

    حال ہی میں دریافت ہونے والی گرین لینڈ شارک کو دنیا کا طویل العمر ترین مہرے دار (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) جاندار کہا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شارک کی لمبائی 18 فٹ جبکہ وزن ایک ٹن کے قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی عمر 272 سال سے 512 کے درمیان ہوسکتی ہے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شارکس کو زندہ ٹائم کیپسول کہا جاتا ہے، اس جاندار نے صدیوں پر محیط تاریخی واقعات اور مختلف ارتقا کا مشاہدہ کیا ہے۔

  • 4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے جنہیں قطبین (قطب شمالی اور قطب جنوبی) کہا جاتا ہے دنیا کے سرد ترین برف سے ڈھکے ہوئے مقامات ہیں۔

    عموماً منفی 57 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے یہ علاقے زمین کے درجہ حرارت کو بھی اعتدال میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی گلوبل وارمنگ نے ان علاقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان مقامات کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

    حال ہی میں چند سائنسدانوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 4 میل طویل ایک برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا اور سمندر پر بہنے لگا۔

    برفانی تودہ ٹوٹنے کی یہ ویڈیو بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔

    گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ پہلے ہی ایک بلند و بالا برفانی تودے کے آگے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔