Tag: Gujarat riots

  • مودی کا خطاب، کانگریس میں گجرات فسادات پر بی بی سی کی تاریخی دستاویزی فلم دکھائی جائے گی

    مودی کا خطاب، کانگریس میں گجرات فسادات پر بی بی سی کی تاریخی دستاویزی فلم دکھائی جائے گی

    نئی دہلی: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا گھناؤنا چہرہ امریکی ارکان کانگریس کو دکھانے کے لیے سکھ کمیونٹی متحرک ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سکھ فار جسٹس کے مرکزی رہنما گرپت ونت سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں مودی کے خطاب والے روز کانگریس میں گجرات فسادات پر بی بی سی کی تاریخی دستاویزی فلم دکھائی جائے گی۔

    واضح رہے کہ کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ہردیپ سنگھ نیجار کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے سٹی میں ایک گردوارے میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔

    خالصتان کے حامی سکھ رہنما کو کینیڈا میں قتل کردیا گیا

    سرے سٹی میں پنجابی کمیونٹی کی اکثریت ہے، ہردیپ سنگھ سکھوں کی علیحدگی پسند تنظیم سکھ فار جسٹس کے سرگرم کارکن تھے اور خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    بھارتی حکومت نے کینیڈین حکام سے ہردیپ سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

  • شیو سینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا

    شیو سینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا

    نئی دہلی: بی جے پی اور شیو سینا میں ٹوٹ پھوٹ، اور تنازع شدت اختیار کر گیا، شیوسینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بی جے پی کا عسکری وِنگ شیو سینا بھی مودی سرکار پر برس پڑا، شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

    ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ اٹل بہاری نے گجرات فسادات کے دوران مودی کو راج دھرما نبھانے کا حکم دیا تھا، واجپائی نے مودی کو فسادات کے دوران اخلاقی ذمہ داری دی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ 2004 انتخابات میں شکست پر واجپائی نے مودی سے استعفیٰ بھی مانگا تھا، ادھو ٹھاکرے کے مطابق تب بال ٹھاکرے نے مودی کا سیاسی کیریئر بچانے میں کردار ادا کیا اور واجپائی کو مودی کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

    مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی

    ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ بال ٹھاکرے مودی کی پشت پر کھڑا نہ ہوتا تو مودی آج وزیر اعظم نہ ہوتا، لیکن بی جے پی اب ہندوتوا کے نظریے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

    انھوں نے کہا مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت آ چکے ہیں، کیا بھارتی عوام ایسے شخص کو دوبارہ وزیر اعظم منتخب کریں گے جس کے جرائم کے ثبوت آ چکے ہیں؟

    انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا تیسری بار وزیر اعظم بننے والا مودی خطے اور عالمی دنیا کے لیے مزید خطرہ ثابت نہیں ہوگا؟

  • گجرات فسادات سے متعلق بھارتی فوجی جنرل کے چشم کشا انکشافات

    گجرات فسادات سے متعلق بھارتی فوجی جنرل کے چشم کشا انکشافات

    نئی دہلی: سابق بھارتی فوجی جنرل ضمیر الدین شاہ نے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے حوالے سے چشم کشا انکشاف کر دیے۔

    بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل (ر) کا کہنا تھا کہ ’احمد آباد جل رہا تھا اور ہم بے بسی سے اسے جلتا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے، فوج کو حکومت کی طرف سے 34 گھنٹوں تک گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں‘۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ ’فسادات شروع ہونے کے بعد فوج کی نفری کو صورتحال قابو میں کرنے کے لیے راجسھتان سے بلایا گیا مگر  24 گھنٹے تک حکومت نے ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی‘۔

    جنرل (ر) ضمیر شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ریاست بروقت ٹرانسپورٹ کا انتظام  کر کے ہمیں اجازت دیتی تو کم از کم 300 لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا، اس واقعے کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: گجرات فسادات میں ستانوے مسلمانوں کی قاتلہ عدالت سے بری

    ضمیر شاہ نے یہ تمام انکشاف اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں کیے، جس میں اُن کا مزید کہنا ہے کہ مقامی پولیس نے ہندو انتہاء پسندوں کا ساتھ دیا اور انہیں نشاندہی کر کے قتل کروایا، جہاں پولیس ملوث نہیں تھی وہاں مقامی تھانے کے اہلکار خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔

    سابق بھارتی فوجی کا کہنا ہے کہ ’میں سیدھا وزیراعلیٰ (مودی) کی رہائش گاہ پہنچا جہاں وزیر دفاع جارج فرنانڈز بھی موجود تھے، میں نے دونوں کو بتایا کہ ہمیں فساد پر قابو پانے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی مگر ریاست نے انتظام نہ کیا اور 2 مارچ کو گاڑیاں فراہم کی گئیں جس کے بعد 48 گھنٹوں میں صورتحال کو قابو کرلیا‘۔

    یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں سن 2002 میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے، اُس وقت وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے جو آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ گجرات میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کثیر تعداد مسلمانوں کی تھی۔

    لوک سبھا کی سب سے بڑی جماعت کانگریس اور دیگر حلقوں نے گجرات فسادات کا ذمہ دار مودی کو ٹھہرایا جبکہ اُن کی جانب سے متعدد بار یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ انتہاء پسند ہندوؤں کو مسلمانوں کے قتل عام کا فری لائسنس دے دیا گیا تھا۔

    گجرات فسادات کا پس منظر 

    بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں اُس وقت ہنگامے پھوٹ پڑے تھے کہ جب گودھرا سے آنے والی ٹرین کو آگ لگا دی گئی تھی، اس میں 59 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ہندو انتہاء پسندوں نے حادثے کا الزام مسلمانوں پر لگایا اور پھر اُن کا کھلا قتل عام کیا جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔

    گجرات فسادات میں ہندو انتہاء پسندوں نے 2500 سے زائد مسلمانوں کو بے رحمانہ قتل یا انہیں زندہ جلا دیا تھا جبکہ متعدد خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی سامنے آئے تھے، اس حادثے میں ہزاروں مسلمان بے گھر بھی ہوئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: چوبیس سالہ نوجوان گجرات کے لیے امید کی نئی کرن، مودی پریشان

    فسادات کو روکنے کے لیے مقامی پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا اور نہ ہی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی نے اس کو روکنے کے کوئی احکامات جاری کیے تھے، بلواسطہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اس قتل و غارت کے سرپرست قرار پائے تھے۔

    بعد ازاں گجرات کی ہائی کورٹ میں اس سانحے کے کیس کی سماعت ہوئی جس کا فیصلہ عدالت نے رواں برس اپریل میں سناتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزیر مایا کوڈاتی پر عائد ہونے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا تھا۔

    قبل ازیں مجسٹریٹ کی عدالت نے کوڈانی کو 28 برس قید کی سزا سنائی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کردیا تھا۔

  • برطانوی پارلیمنٹ پر مودی مخالف نعرے کی ویڈیو پراجیکشن

    برطانوی پارلیمنٹ پر مودی مخالف نعرے کی ویڈیو پراجیکشن

    لندن: گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے 13 سال گزرنے کے بعد بھی متاثرین کے لواحقین اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات اور آج کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو معاف کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔

    گجرات ہنگاموں میں مارے جانے والے تین برطانوی شہریوں کے اہل خانہ نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے برطانیہ دورے پراپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔

    اپنا احتجاج رجسٹرکرانے کے لئے متاثرہ خاندانوں نے برطانوی پارلیمنٹ پرایک تصویرپراجیکٹر کےذریعے نشر کی جس پربھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی آمد کے خلاف نعرہ درج تھا۔

    یہ تصویرساڑھے سات منٹ تک بارطانوی پارلیمنٹ کی عمارت پر پراجیکٹ کی جاتی رہی تاہم اس کے بعد مظاہرین کو روک دیا گیا۔

    واضح رہے کہ سعید داؤد، شکیل داؤد اورمحمد اسوت نامی برطانوی شہریوں کو بھارت میں ایک ہائی وے پرزندہ جلادیا گیا تھا اوربرطانوی حکومت کبھی بھی ان کے لئے انصاف حاصل نہیں کرپائی تھی۔