Tag: HABIB JALIB

  • بغاوت کے علم بردار حبیب جالب کے اہل خانہ کو بجلی کا اضافی بل موصول

    بغاوت کے علم بردار حبیب جالب کے اہل خانہ کو بجلی کا اضافی بل موصول

    لاہور: شاعری میں بغاوت کے علم بردار جالب کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر اضافی بل موصول ہوا ہے.

    ممتاز شاعر کی صاحب زادہ طاہرہ حبیب جالب کے مطابق  گذشتہ دو ماہ سے ان کا بجلی کا بل توقع سے بہت زیادہ آرہا ہے، جس کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔

    طاہرہ حبیب جالب کے مطابق دو ماہ قبل انھیں 63253 روپے  کا بل موصول ہوا تھا، جس کی بہ مشکل 22326 روپے کی اقساط کروائیں، مگر پھر موسم کی تبدیلی اور بجلی کی کھپت میں کمی کے باوجود 31267 روپے کا بھاری بل آگیا.

    ان کا کہنا ہے کہ بقایا جات ملا کر اب موجودہ بل 78527 روپے واجب الادا ہے۔

    جالب کی صاحب زادی کا کہنا ہے کہ وہ لگ بھگ ڈھائی مرلے کے پورشن میں رہائش پذیر ہیں، اے سی، استری اور واشنگ مشین کا استعمال بے حد کم ہے.

    ایک نجی ٹیکسی کمپنی سے بہ طور ڈرائیور منسلک طاہرہ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ انھیں سمجھ میں نہیں‌ آرہا کہ یہ بھاری بل کیسے ادا کریں.


     مزید پڑھیں: باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟


    انھوں‌ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کے میٹر سے کوئی بجلی چوری کر رہا ہے، کیوں کہ ماضی میں بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے.

    طاہرہ حبیب کا کہنا تھا کہ انھوں‌ نے بھاگ دوڑ کرکے بل کی قسطیں کروائی ہیں، جو  27000  روپے بنتی ہیں اور یہ بھی ایک سفید پوش شخص کے لیے بہت بھاری رقم ہے.

  • باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟

    باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 25 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔

    حبیب جالب کو شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں اور کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اوراسی جدوجہد میں اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیئے۔

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔


    جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا

    جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ


    جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔

    ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے ان دنوں ’فکر جالب فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک این جی اوکے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔

    اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔

    post-4
    طاہرہ جالب

    طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو


    اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔

    طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔

    post-1
    جالب بیماری کے ایام میں امین مغل کے ہمراہ

    اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟

    طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

    اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟

    طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔

    اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟

    طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔

    post-3
    جالب کی گرفتاری کا منظر

    اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔

    اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟

    طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔

    سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔

    دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔

    post-2

    بیگم ممتازجالب کا کردار

    اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔

    یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔

    اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟

    طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔

    اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

    طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔


     

  • دستور: میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
    میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
    جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
    چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
    اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
    چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    *********

  • بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

    بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
    نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

    تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
    کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

    نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
    عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

    اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
    یہ کیسی شام ِخرابات ہو گئی پیارے

    وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
    ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

    تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
    الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

    *********

  • اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

    اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
    زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

    یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
    تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

    حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
    ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

    ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
    ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

    کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
    کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

    ********

  • دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

    دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
    ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

    بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
    لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

    ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
    دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

    جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
    آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

    وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
    اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

    **********

  • شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب1928ء میں بھارتی پنجاب کے دسوہہ ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئےانہیں شاعرِعوام اور شاعرِ انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اینگلوعربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اور ایک نجی روزنامہ سے منسلک ہوئے، بعد ازاں لائل پورٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیارکرلی۔

    ،پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالاخرلاہور میں مستقل آباد ہوگئے، آپ اپنے ہی اس شعر کی عملی تفسیرتھےکہ

    یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
    جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

    آزادی کے بعد کراچی آگئے اورکچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی

    ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِآمریت میں متعدد بارقید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے’سرِمقتل‘ کے عنوان سے چند اشعارکہےجو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپوراحتجاج کيا

    نومبر 1999 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

    1958میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پرجالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگادی۔ ،

    ایسے دستورکو، صبح بےنورکو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    1970کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہی کیا بلکہ ان پرگولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کررہا تھاتو یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہہ رہے تھے۔

    محبت گولیوں سے بورہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

    1974میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی

    قصر شاہی سے یہ حکم صادرہوا
    لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں کہا

    ظلمت کو ضیاء صرصرکوصبا
    بندے کوخدا کیا لکھنا

    آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دورحکومت آیا اورعوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا

    وہی حالات ہیں فقیروں کے
    دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
    ہربلاول ہے دیس کا مقروض
    پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ تحریرپرشہرت حاصل ہوئی۔

    آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اور نشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔ آپ کی وفات 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوئی۔