Tag: habib jalib potery

  • انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    کراچی : عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کی چوبیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔

    اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی، ابتداء میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    حبیب جالب کی یہ شہرہ آفاق نظم ان کی اپنی آواز میں قارئین کی نذر

    نڈر بے باک باہمت حوصلہ مند شاعر حبیب جالب حبیب جالب جب قلم اٹھاتا ہے تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھتے ہیں، ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے جالب نے جنرل ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف لکھا، جالب کی شاعری میں انقلاب کا درس ہے۔

    رقص، زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
    تو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی

    وہ ساری عمر انقلاب کی آس میں جیلیں کاٹتے رہے اور پولیس سے مار کھاتے رہے جس پر وہ فخر کا اظہار کرتے تھے۔

    ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا ‘میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سناؤں گا اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائے گا۔’

    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
    پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

    جالب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ کئی طرح سے معاشرے میں رائج روایات کے خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک کے لیے وقف کردی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوامی سطح پر وہ اس تحریک کی سب سے زیادہ وکالت کرتے تھے۔

    جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
    سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
    دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
    ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
    میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
    دیکھ اے مستقبل

    جالب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں شوشلزم کے پیچیدہ خیالات کو سیاست، شاعری اور طنز و مزاح کا روپ دینا آتا تھا۔

    habib-post-01

    دستورحبیب جالب کی ایسی نظم تھی کہ جس نے عوام کو حبیب جالب کے عشق میں گرفتار کردیا، حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کو اپنے الفاظ میں ڈھال دیا۔

    حبیب جالب تیرہ مارچ 1993ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی انقلابی شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔

  • شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب1928ء میں بھارتی پنجاب کے دسوہہ ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئےانہیں شاعرِعوام اور شاعرِ انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اینگلوعربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اور ایک نجی روزنامہ سے منسلک ہوئے، بعد ازاں لائل پورٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیارکرلی۔

    ،پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالاخرلاہور میں مستقل آباد ہوگئے، آپ اپنے ہی اس شعر کی عملی تفسیرتھےکہ

    یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
    جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

    آزادی کے بعد کراچی آگئے اورکچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی

    ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِآمریت میں متعدد بارقید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے’سرِمقتل‘ کے عنوان سے چند اشعارکہےجو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپوراحتجاج کيا

    نومبر 1999 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

    1958میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پرجالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگادی۔ ،

    ایسے دستورکو، صبح بےنورکو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    1970کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہی کیا بلکہ ان پرگولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کررہا تھاتو یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہہ رہے تھے۔

    محبت گولیوں سے بورہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

    1974میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی

    قصر شاہی سے یہ حکم صادرہوا
    لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں کہا

    ظلمت کو ضیاء صرصرکوصبا
    بندے کوخدا کیا لکھنا

    آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دورحکومت آیا اورعوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا

    وہی حالات ہیں فقیروں کے
    دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
    ہربلاول ہے دیس کا مقروض
    پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ تحریرپرشہرت حاصل ہوئی۔

    آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اور نشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔ آپ کی وفات 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوئی۔