Tag: Hafeez jalandhri

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    کراچی : قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم وفات آج عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ اس موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی جن میں شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری سنہ 1900 کو پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔ حفیظؔ مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مسجد سے منسلک مدرسے سے حاصل کی، پھرایک مقامی اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    شاعری میں ان کو نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ ہجرت کر کے لاہور منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل حفیظؔ جالندھری 1922ء سے 1929ء تک مختلف ماہناموں کے مدیر رہے جن میں نونہال، ہزار داستان، تہذیبِ نسواں، مخزن جیسے مجلے شامل ہیں۔

     

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "نغمہ ء زار” 1935ء میں شائع ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ "سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ” کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دور میں انہوں نے بہت سے ایسے نغمے اور گیت لکھے جو عوام میں بہت مقبول ہوئے۔

    حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا، اس کے ذریعے انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    jalindhari-post-01

    ان کے شاعرانہ کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ شاہنامہ فردوسی کے انداز میں شاہنامہ اسلام کی تخلیق ہے جس نے ان کی شہرت کو بقائے دوام بخشا۔

    اس طویل نظم میں انہوں نے اسلام کے دورِ زریں کی تاریخ بیان کی ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ہے جسے موسیقار احمد جی چھاگلا نے سُروں سے سجایا ہے۔ اس قومی ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کی شاعری میں پائی جانے والی غنائیت اور مشاعروں میں ان کے ساحرانہ ترنم کی وجہ سے ان کو شعراء میں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ عام طور پر ان کی شاعری میں عشق، مذہب، حب الوطنی اور قدرت کے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے موضوعات برصغیر کے مخصوص ماحول کے تناظر میں چنتے ہیں۔

    ان کی زبان میں اردو اور ہندی کا بڑا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے جو جنوبی ایشیا کی مخصوص ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ حفیظ ؔ مرحوم کو ان کی خدمات کی بنا پر حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغہ ء حسنِ کارکردگی اور ہلال ِ امتیاز سے نوازا گیا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ با، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ قابل ذکر ہیں۔

    ابوالاثر حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں وفات پائی ، وہ مینار پاکستان کے سائے تلے آسودہ خاک ہیں۔

  • ابوالاثرحفیظ جالندھری کی بتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ابوالاثرحفیظ جالندھری کی بتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ارض پاک کی فضاؤں میں گونجتے قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری کو ہم سے بچھڑے بتیس برس بیت گئے۔ ان کی برسی آج ملک بھر میں عقیدت واحترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    ہم ہی میں نہ تھی کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
    تم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے

    دلوں میں اتر جانے والے لطیف اشعار کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری چودہ جنوری انیس سومیں بھارتی شہرجالندھرمیں پیداہوئے۔

    خوبصورت نظموں، شگفتہ غزلوں اور گرجدار رزمیہ گیتوں کے تخلیق کار حفیظ کو شاعراسلام اورشاعرپاکستان کےخطابات سےنوازا گیا۔

    دنیائے ادب میں ان کاایک بڑاکارنامہ شاہنامہ اسلام ہےجس میں انھوں نےتاریخ اسلام کو پرشکوہ الفاظ کاجامہ پہنایا۔انہوں نے مرثیہ نگاری میں بھی ممتاز مقام حاصل کیا۔

    حفیظ  جالندھری بذلہ سنجی اوربرجستہ مکالمےبازی میں بھی کمال کاہنر رکھتے تھے، ان کے اشعار میں لطافت اور مٹھاس ہوتی ہے۔ ان کا ہرشعر سننے اور پڑھنے والوں کےدلوں میں اترجاتاہے۔

    انیس سوپچیس میں نغمہ زارکے نام سے حفیظ کاپہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔

    مشہور گیت ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اسی مجموعے میں شامل تھا۔ اس کےبعد سوزوساز ،تلخابہ شیریں،چراغ سحر اوربزم نہیں رزم کے عنوانات سےان کےمجموعہ ہائےکلام سامنے آئے۔ اکیس دسمبر انیس سو بیاسی کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    نگار ہائے فِتنہ گر۔۔۔ کوئی اِدھر کوئی اُدھر
    اُبھارتے ہوں عیش پر۔۔۔ تو کیا کرے کوئی بشر
    چلو جی قصّہ مختصر  ۔۔۔ تمہارا نقطہء نظر
    درست ہے،تو ہو،مگر۔۔۔ابھی تو میں جوان ہوں

    …………………………………………………….