Tag: Hakim Muhammad Saeed

  • آج حکیم محمد سعید کا100 واں یومِ ولادت ہے

    آج حکیم محمد سعید کا100 واں یومِ ولادت ہے

    آج سابق گورنر سندھ اور سماجی رہنما اور حکمت کی دنیا کے مایہ ناز نام حکیم محمد سعید کا سو واں یومِ ولادت ہے، آپ کو17 اکتوبر 1998کو کراچی میں مطب کے سامنے روزے کی حالت میں گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

    حکیم محمد سعید9 جنوری 1920 کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں پیدا ہوئے، دو سال کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا مہربان بھائی نے آپ کی پرورش کی۔ ان ہی کے زیرِ سایہ تربیت پائی اور وہیں ہمدرد فاؤنڈیشن نامی ادارے کی بنیاد رکھی، تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان تشریف لے آئے۔

    حکیم محمد سعید بچپن سے ہی غیرمعمولی ذہانت اورحیرت انگیز یاداشت کے مالک تھے، آپ نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر حکمت کی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔ مریضوں کے اس بے مثال مسیحا نے تمام کاروبار، عیش و آرام اور دولت کو چھوڑ کر تقسیم کے وقت پاکستان کا رخ کیا اور9 جنوری 1948 کو کراچی آگئے۔

    انہوں نے حکمت میں اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں، مذہب اورطب وحکمت پر200 سے زائد کتابیں لکھیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔

    حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔

    مایہ نازطبیب حکیم محمد سعید سنہ 1993 سے 1994 تک گورنرسندھ کے عہدے پر فائز رہے ، اس کے علاوہ بھی انہیں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا ہے، انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ ٔامتیازسے بھی نوازا گیا۔

    اکتوبر 1998،17ء کو انہیں کراچی کے علاقے صدر میں واقع ان کے ادارے ہمدرد دواخانہ کی سب سے قدیم شاخ کے سامنے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ۔ ان کے قتل کے الزام میں سیاسی جماعت سے وابستہ تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا اورعدالتوں سے انہیں سزا بھی ہوئی تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا تھا۔

    جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے ،یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفاء نہیں ہوتی۔

    حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہے۔

  • برکاتی صاحب نے کہا: بس آپ سوال نامہ بھجوا دیں

    برکاتی صاحب نے کہا: بس آپ سوال نامہ بھجوا دیں

    عام خیال ہے کہ کسی جریدے کا مدیر ہونا بے ثمر کام ہے، آدمی کتنی ہی جان مار لے، کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، نہ تو مالی آسودگی ملتی ہے، نہ ہی شہرت۔

    البتہ اگر معاملہ "نونہال” کی ادارت کا ہو، تو صورت حال بدل جاتی ہے کہ یہ پرچہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کی اس نے۔

    اب اگر کسی نے اس جریدے کی ادارت لگ بھگ نصف صدی سنبھالی ہو اور یوں سنبھالی ہو کہ لاکھوں، بلکہ کہہ لیجیے کروڑوں افراد کو گرویدہ بنایا ہو، تو وہ حق دار ہے کہ اسے اکیس توپوں کی سلامی پیش نہ بھی کی جائے، تب بھی احترام اور محبت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

    آج جو ہم مسعود احمد برکاتی کو یاد کر رہے ہیں، علمی اور ادبی حلقے انھیں فیس بک اور ٹوئٹر پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ، ان کی بابت مضامین باندھے جارہے ہیں،تو سبب یہی ہے کہ انھوں نے دو نسلوں کی آب یاری کی۔

    مدیرمسعود احمد برکاتی کی نمازِ جنازہ ادا*

    اس نابغہ روزگار شخص کے انتقال کی خبر غیرمتوقع نہیں تھی کہ وہ عرصے سے بیمار تھے، مگر یہ خبر کتنے ہی دلوں کو سوگوار کر گئی۔ گیارہ دسمبر کو ان کی تدفین ہوئی، تو گویا ایک عہد تمام ہوا۔

    آگے بڑھنے سے پہلے کیوں ناں ان کے حالات زندگی کھنگال لیے جائیں۔

    ایک نظر حالات زندگی پر

    مسعود احمد برکاتی ٹونک کے تھے۔ 1931 میں پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد ادھر چلے آئے۔ کچھ زمانہ حیدرآباد اور جام شورو میں گزرا۔

    پھر کراچی پہنچے۔ باصلاحیت تھے، ضرورت ایک پلیٹ فورم کی تھی، جو مہیا کیا ہمدرد فاؤنڈیشن نے۔ 1953 میں ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالی، تو اس سفر کا آغاز ہوا، جو انھیں امر کرنے والا تھا۔

    مترجم بھی تھے۔ کئی عظیم ناولز کی تلخیص ہم تک ان کے قلم سے یا ان کے وسیلے پہنچی۔ ڈوما کا ناول ’’تین بندوقچی‘‘ تو سب کو یاد ہوگا۔ بچوں کے لیے لکھی کتابیں ایک درجن سے زاید ہیں۔

    بحیثیت ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی ایک طویل عرصے تک ’’پہلی بات‘‘ کے نام سے نونہال کا اداریہ لکھتے رہے، جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھا۔ حکیم محمد سعید کی تحریروں کی نوک پلک بھی وہی سنوارتے تھے۔

    ایک یادگار واقعہ

    اوروں کی طرح ہم بھی ان کے معتقد تھے۔ ان سے چند ملاقات بھی ہوئیں، مگر جو واقعہ یہاں موضوع، وہ ان کے انٹرویو سے جڑا ہے۔

    بڑی خواہش تھی کہ ان کا انٹرویو کیا جائے۔

    فون پر خواہش ظاہر کی، تو بولے پہلے ملاقات کرلیجیے۔  ہم سمجھ گئے، وہ انٹرویو دینے سے پہلے ہمارا انٹرویو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    ہم جب ان کے انٹرویو میں ’’پاس‘‘ ہوگئے، تو فرمانے لگے، آپ سوال نامہ بھجوا دیں، میں جواب لکھ کر بجھوا دوں گا۔

    ہم سٹپٹا گئے ۔ ہم تو کہانی سننے کا ارادہ لیے گئے تھے اور وہ ہمیں کہانی پڑھوانے پر مصر تھے۔ جواز دل چسپ تھا۔ کہنے لگے، اسی طرح لکھنے میں سہولت ہے، یوں آپ اور ہم بولنے کی اذیت سے بچ جائیں گے۔

    خیر! ہم نے جواز مان لیا اور لگ بھگ 30 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ارسال کر دیا۔ چند روز میں انھوں نے مطلع کیا کہ جوابات تیار ہیں۔ ہم دوڑے دوڑے پہنچے۔

    انھوں نے مسکراتے ہوئے تیس پینتیس صفحات پر مشتمل پلندہ پکڑایا، تو ہم گھبرا گئے کہ یا خدا، اسے ایڈٹ کرنے والا مدیر کہاں سے لائیں گے، مگر جب جائزہ لیا، تو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

    دراصل انہوں نے ہر سوال کے لیے الگ الگ صفحات مختص کر لیے تھے۔ اب چاہے جواب ایک لفظ جیسے ہاں یا ناں پر مشتمل ہو یا تین چار پیراگراف پر، سب کے حصے میں پورا پورا صفحہ آیا۔ یہ سوالات پر برکاتی صاحب کی مہربانی تھی۔

    اچھا، ساتھ اپنی کچھ یادگار تصاویر بھی دیں، جو لگ بھگ ایک صدی جینے والے اس شخص کی بصری کہانی بیان کرتی تھیں۔

    افسوس، وہ سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں گم ہوئیں. باقی رہ گئی فقط برکاتی صاحب کی یاد۔

    اور یہ یاد کئی برس مہکتی رہے گی۔