آج اردو کے ممتاز شاعر مظفر وارثی کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے، آپ کی وجہ شہرت لازوال حمد اورنعتیں تخلیق کرنا ہے، ماضی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی ان کے بغیر ادھوری تھی۔
صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے حمد و نعت گو شاعر اور سیکڑوں فلمی گیتوں کے خالق مظفر وارثی کو اس دنیا سے کوچ کئے آٹھ برس بیت گئے۔
مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے تھےان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا۔ ان کے والد الحاج محمد شرف الدین احمد، صوفی وارثی کے نام سے معروف تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اورانہیں فصیح الہند اورشرف الشعرا کے خطابات عطا ہوئے تھے،قیام پاکستان کے بعد مظفر وارثی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور جلد ہی ممتاز شعراء کرام میں شمار ہونے لگے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری مظفر وارثی کے بغیر ادھوری تھی، میرٹھ کے علمی گھرانے میں جنم لینے والے مظفروارثی کا آواز و انداز گنا چنا شمار ہوتا تھا، مظفر وارثی نغمہ نگار، موسیقار اور نعت نگار تھے۔
ان کے مشہور فلمی گانوں میں کیا کہوں اے دنیا والو کیا کہوں میں۔۔۔ مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والےاور۔۔۔۔ یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو ۔۔۔ عوام میں زبردست مقبولیت ملی، فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد ان کی ساری توجہ نعت گوئی پرمرکوز ہوگئی تھی، انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیاگیا،
مظفر وارثی کی مشہور نعتوں میں یارحمت اللعالمین، ورفعنالک ذکرک اورتو کجا من کجا اور حمدیہ کلام میں مشہور’حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے‘ سرفہرست ہیں۔ فلمی اور قلمی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ اٹھائیس جنوری سال دو ہزار گیارہ کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔