Tag: Hans Christian Andersen

  • ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو یہ دنیا چھوڑے ہوئے ڈیڑھ سو سال بیت چکے ہیں اور یہ مدّت کچھ کم نہیں، لیکن ہانز، اپنے تخیّل سے آباد کردہ جہانِ ادب میں اپنے افسانوی کرداروں کی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ بچّوں ہی نہیں‌ بڑوں‌ کی بھی دل چسپی اور حیرت کا سامان کرتی کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں‌ اُس کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں‌ گی۔

    آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ آج ان پُرلطف اور سبق آموز کہانیوں کے خالق ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ‌ وفات ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ہانز کو بچّوں کا مقبول ترین ادیب مانا جاتا ہے، جس کی کہانیوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور بچّے ہی نہیں یہ کہانیاں بڑے بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ قلم کار 4 اگست 1875ء کو وفات پاگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہانز کرسچن اینڈرسن (Hans Christian Andersen) نے بچپن اور نوعمری میں کئی مسائل اور مشکلات دیکھیں، محنت مشقت کی اور پھر بڑا ادیب بنا، ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں ہانز کا ایک مجسمہ بھی نصب ہے جہاں‌ مقامی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے ضرور تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی تخلیق کردہ کہانیوں پر کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ہانز کی کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بچّوں‌ کو سچّائی کا درس دیتی ہیں‌ اور ہمّت و حوصلے سے کام لینا سکھاتی ہیں۔

    ہانز کا باپ ایک موچی تھا اور لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتا تھا۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں اچانک والد کا سایہ بھی اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس برس کا تھا جب روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ابتدا میں ہانز نے چھوٹی موٹی مزدوری کی، اور ہر قسم کا کام کرتا رہا، پھر ایک اوپیرا میں اسے کام مل گیا، لیکن قسمت نے اس موقع پر بھی مایوسی کے پتّھر اس کے دامن میں بھر دیے۔ کام بن کے نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی طرح‌ دو وقت کی روٹی کے لیے کوئی کام حاصل کر ہی لیتا تھا، مگر اس کے اندر ایک تخلیق کار چھپا ہوا تھا۔ وہ اسے لکھنے پر آمادہ کرتا رہا اور وہ وقت آیا جب ہانز شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ یہاں ہانز کی قسمت اچھی تھی کہ ایک بڑے ادیب سے قریب ہونے کا موقع ملا جس نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے ہانز کو کہا کہ وہ بچّوں کا ادب تخلیق کرے۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس کی شہرت اپنے وطن اور قرب و جوار میں‌ بھی پہنچ گئی۔ ہانز کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں شایع ہوا تھا۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا زمانۂ طالبِ علمی اتنا ہی تھا کہ وہ اسکول میں چند جماعتیں پڑھ سکا، لیکن اس عرصہ میں اسے مطالعے کا شوق ہوگیا تھا۔ جب وہ گھر سے کمانے کے لیے نکلنے پر مجبور ہوا تو کوشش کرتا کہ کام کے دوران جب بھی وقت ملے اور کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگ جائے تو بہت توجہ سے پڑھ سکے اور اسے اپنے اندر گویا جذب کرلے۔ اسی ذوق و شوق اور پڑھنے لکھنے کی لگن نے ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بھر میں نام و مرتبہ، عزّت اور بہت پیار بھی دیا۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کے لیے بھی افسانوی ادب تخلیق کیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت کی کہانیوں، انجانی دنیا کے حیرت ناک واقعات کو دل چسپ انداز میں اپنی کہانیوں‌ میں پیش کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔

    ہانز کی کہانیاں‌ جادوئی اثر رکھتی ہیں اور اس کی اسی خوبی کے پیشِ نظر دنیا اس کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتابوں کا عالمی دن مناتی ہے۔

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔