Tag: Harmful to health

  • برانڈڈ کباب اور کوفتے کس طرح گندگی سے تیار ہوتے ہیں؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو

    برانڈڈ کباب اور کوفتے کس طرح گندگی سے تیار ہوتے ہیں؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو

    گزشتہ سے پیوستہ

    سموسہ رول پٹی کے لیے میدے کا جو آٹا گوندھا جاتا ہے اور ساتھ ہی برانڈڈ کباب اور رول کس طرح گندگی سے تیار ہوتے ہیں، اس کے طریقہ کار کو دیکھ کر ٹیم سرعام کے کارکنان کے ہوش اُڑ گئے۔

    اس کارخانے میں سموسہ رول پٹی کیلیے میدہ پیروں کی مدد سے گوندھا جا رہا تھا، اس موقع پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایک افسر نے بتایا کہ یہاں اس قدر گندگی سے کام کیا جاتا ہے کہ جس مقام پر یہ پٹیاں کاٹی جارہی ہیں وہ جگہ واش روم کے ساتھ ہے اور واش روم کے اندر کی ساری گندگی بھی پیروں کے ساتھ لگ کر آتی ہے۔ اس کے علاوہ سموسہ رول پٹی کیلیے جو کھلا نمک استعمال کیا جارہا تھا وہ بھی انتہائی غیر معیاری تھا۔

    ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید نے بتایا کہ ہم ہر سال خاص طور پر ایس او پیز جاری کرتے ہیں اور سختی سے ہدایات دی جاتی ہیں لیکن یہ لوگ شروع میں تو عمل کرتے ہیں اور کچھ روز بعد اپنی ڈگر پر واپس آجاتے ہیں۔

    برانڈڈ کباب اور رول کس طرح گندگی سے تیار ہوتے ہیں؟ آپ بھی دیکھیں

    مذکورہ کارخانے میں سموسہ رول پٹی کے علاوہ برانڈڈ کباب جس میں چپلی کباب، رول کباب، چکن کوفتہ اور دیگر اشیاء مشہور برانڈ کے نام سے تیار کی جا رہی تھیں، لیکن اس کیلیے بھی کسی قسم کی ایس او پیز یا صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام بھی نہیں کیا گیا تھا۔

  • سموسہ رول پٹی : مکڑی کے جالے اور کیڑے مکوڑے، ہم کیا کھاتے ہیں؟

    سموسہ رول پٹی : مکڑی کے جالے اور کیڑے مکوڑے، ہم کیا کھاتے ہیں؟

    ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں بڑی تعداد میں مضر صحت سموسہ رول پٹی اور غیر معیاری فروزن چیزوں کی تیاری اور فروخت عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

    ان اشیاء کی تیاری کس طرح کی جاتی ہے اور کس طرح اس میں حفظان صحت اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عملے کے ہمراہ لاہور میں چوک یتیم خانہ کے عقب میں واقع ایک مخدوش سی عمارت میں کارروائی کی جہاں اسی طریقے سے سموسہ رول پٹی تیار کی جارہی تھی۔

    ٹیم سرعام اور پی ایف اے کا عملہ جب اس گھر کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ یہاں بہت بڑے پیمانے پر کام ہورہا تھا، 40 سے 50 ملازمین سموسہ رول پٹی کی تیاری میں مصروف عمل تھے اور صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی قابل اعتراض تھی اور ملازمین بدبودار ماحول میں کام کررہے تھے۔

    یہاں کی دیواروں پر مکڑی کے جالے اور سامان پر بے تحاشا مکھیاں بیٹھی تھیں، سموسہ رول پٹی کیلیے میدہ پیروں کی مدد سے گوندھا جا رہا تھا، پٹیوں میں استعمال ہونے والی روٹی کی تیاری کیلیے جو گھی رکھا ہوا تھا اس میں کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات الارض گرے ہوئے تھے۔

    اس موقع پر کارخانے کے منیجر شاہ زیب نے ساری صورتحال کے سامنے آنے پر اپنی غلطی کا برملا اعتراف کیا۔ بعد ازاں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس فیکٹری پر 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرکے اس کو سیل کردیا۔

  • سردیوں میں گرم دودھ پینا کن لوگوں کیلیے نقصان دہ ہے؟

    سردیوں میں گرم دودھ پینا کن لوگوں کیلیے نقصان دہ ہے؟

    اکثر لوگ سردیوں میں گرم دودھ اور گرمیوں میں ٹھنڈے دودھ سے لطف اندوز ہو تے ہیں مگر اب ماہرین نے خبردار کردیا ہے۔

    کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے معدے کے ماہر ڈاکٹر پلائی ایم مینکم نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ تیس سال سے زائد عمر کے افراد میں آہستہ آہستہ لیکٹوس انزائم کی کمی شروع ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا جسم گرم دودھ ہضم کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

    دودھ میں پروٹین اور کیلشیم وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جبکہ یہ وٹامن اے، بی ٹو اور بی 12 سے بھرپور ہوتا ہے، بیشتر افراد رات کو سونے سے پہلے گرم دودھ کا استعمال کرتے ہیں۔

    عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سونے سے پہلے گرم دودھ پینے سے نیند اچھی آتی ہے، مگر کچھ افراد کو دودھ پینے کے فوری بعد کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے، جس میں سب سے عام بدہضمی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایسا لیکٹوس انٹالرینس کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکٹوس عمومی طور پر ڈیری مصنوعات میں پائی جاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ لیکٹوس انزائم ہماری چھوٹی آنت میں پایا جاتا ہے جو دودھ میں موجود لیکٹوس کو چھوٹے چھوٹے مالیکیولز جیسے گلوکوز اور گلیگٹوزمیں توڑنے کا کام سرانجام دیتا ہے تاکہ یہ آسانی سے جذب ہوسکے۔

    ڈاکٹر پلائی اپم نے مزید بتایا کہ تیس سال کے بعد ہماری چھوٹی آنت میں لیکٹوس انزائم کی پیداوار میں کمی شروع ہوجاتی ہے، لیکٹاس انزائم کے بغیر دودھ بڑی آنت میں چلا جاتا ہے اور اس میں موجود بیکٹریا کو بدہضمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ڈاکٹر پلائی اپم کا کہنا تھا کہ یہی نہیں سونے سے پہلے دودھ پینا آپ کی انسولین کی سطح کو بڑھاسکتا ہے کیونکہ دودھ میں موجود کاربوہائیڈریٹ باڈی کلاک کو ختم کرتا ہے۔

  • غذا کو دیر تک محفوظ رکھنے والے کیمیکلز کس قدر خطرناک ہیں؟

    غذا کو دیر تک محفوظ رکھنے والے کیمیکلز کس قدر خطرناک ہیں؟

    موجودہ دور میں پھلوں، سبزیوں اور پکے پکائے کھانوں کو محفوظ اور تازہ رکھنے کے لئے کیمیکلز استعمال کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کسی طور بھی صحت کیلیے موزوں نہیں۔

    ان اشیاء کو تازہ اور فریش رکھنے کے لیے عمومی طور پر جن کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے اس میں کیلشیم، کاربائیڈ، آرسینک اور فاسفورس وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

    دنیا کے کئی ممالک میں اس قسم کے کمیکلز کے استعمال پر پابندی عائد ہے لیکن پاکستان میں ان کمیکلز کا پھلوں اور سبزیوں میں استعمال عام ہے جو کہ انتہائی مضر صحت ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر غذائیت ڈاکٹر سمیرا نسیم نے غذاؤں میں ان کیمکلز کے نقصانات اور صحت پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ خوراک ایک ایسی چیز ہے جسے ہم آج کھاتے ہیں تو اس کا اثر 20 سے 25 سال بعد آتا ہے، جو کھانے ڈبوں میں بند ہوتے ہیں ان میں نمک اور چینی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈبوں میں پیک اشیاء کو انتہائی ضرورت اور بحالت مجبوری استعمال کرنا چاہیے، اور جو تازہ سبزی یا پھل مارکیٹ میں مل رہے ہوں انہیں خریدا جائے۔

    تیار شدہ غذاؤں، مشروبات اور میک اپ مصنوعات میں ایسے ہزاروں کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جو بظاہر اس وقت انسان کو نقصان نہیں پہچاتے لیکن ایسے کیمیکلز کے طویل المدتی اثرات ہوتے ہیں، جن سے طبی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر سمیرا نسیم نے کہا کہ آپ بے شک پیزا کھائیں اور فاسٹ فوڈز کھائیں لکین ان چیزوں کو گھر میں بنائیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کیمیکلز کے نقصانات سے بچنے کیلیے مغربی ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد اب دوبارہ گھر میں بنے پکوانوں کو فوقیت دے رہے ہیں۔

  • فریز کیے ہوئے کھانے کتنا نقصان پہچاتے ہیں؟

    فریز کیے ہوئے کھانے کتنا نقصان پہچاتے ہیں؟

    آج کل فروزن فوڈز کے استعمال میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، اگرچہ فروزن فوڈز کی وجہ سے کھانے پکانے اور انہیں محفوظ بنانے کا عمل انتہائی آسان ہوگیا ہے لیکن ان کے مضر صحت اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    ہم اکثر فروزن پھل یا کھانا کھانے کے معاملے میں دھوکا کھا جاتے ہیں کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ کھانے کو تازه رکھنے کے لیے اس کو فریز کرنا ضروری ہے لیکن یہ ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے ہم بہت سی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہماری صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔

    فروزن فوڈ کو فریش رکھنے اور ان کا ذائقہ قائم رکھنے کے لئے اس میں اسٹارچ شامل کیا جاتا ہے جو جسم میں ہائی گلوکوز لیول کا باعث بنتا ہے، یہ انسانی صحت خصوصاً ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

    جب پھل یا کسی بھی کھانے کی چیز کو کاشت کیا جاتا ہے تو کھاد استعمال کی جاتی ہے، اس میں خاص قسم کے بیکٹیریا اور دیگر جراثیم ہوتے ہیں، اگر یہ بیکٹیریا اگنے والے پودے کے پھل میں منتقل ہو جائیں اور اس کے بعد پھل کو انسان فریز کر دے تو وہ بیکٹیریا بھی پھل میں ہی فریز ہو جاتے ہیں، نتیجتاً یہ فروزن پھل انسان میں مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

    روزن فوڈز میں موجود ٹرانس فیٹس امراض قلب کا سبب بن سکتاہے جبکہ ان میں پائی جانے والی نمک کی اضافی مقدار ہائی بلڈ پریشر کے خطرات کو بڑھا دیتی ہے۔

    فروزن فوڈز کو لمبے عرصے تک خراب ہونے سے بچانے کے لئے اس میں مختلف قسم کے کیمیکلز اور سوڈیم کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضرہیں۔

    اسی طرح فروزن فوڈز میں شامل کیلوریز کی اضافی مقدار انسان کو موٹاپے کی طرف دھکیلتی ہے۔ لہٰذا فروزن فوڈز کی جگہ تازہ پھل، گوشت اور سبزیوں کا استعما ل صحت کے اعتبار سے زیادہ مفید ہے۔

  • گاڑیوں کا شور کن خطرناک امراض کا سبب ہے؟ ہوشربا تحقیق

    گاڑیوں کا شور کن خطرناک امراض کا سبب ہے؟ ہوشربا تحقیق

    جو لوگ شہروں میں خصوصاً سڑکوں کے قریب واقع مکانات یا فلیٹوں میں رہائش پذیر ہیں وہ ٹریفک کے گزرنے سے پیدا ہونے والے شور کی ذہنی اذیت سے بخوبی واقف ہیں۔

    ویسے تو گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے تو دوسری جانب انجن اور ہارن کی آوازیں بھی سننے والوں کو بے چینی کی حد تک پریشن کیے رکھتی ہیں۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق مصروف سڑکوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے ٹریفک کا شور سنگین بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    ٹریفک

    دنیا بھر کے مختلف انسٹی ٹیوٹ میں کی جانے والی حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹریفک کا شور بھی آپ کو کئی امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔

    اس حوالے سے ڈینش کینسر انسٹی ٹیوٹ، سوئٹزرلینڈ کے سوئس ٹراپیکل اینڈ پبلک ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے پیرل مین اسکول آف میڈیسن اور مینز یونیورسٹی کے شعبہ امراض قلب کے ماہرین کے مطابق ٹریفک کا شور امراض قلب اور دماغی بیماری کا سبب بنتا ہے۔

    Traffic

    کلیولینڈ کلینک نے وضاحت کی ہے کہ سیریبرو ویسکولر نامی بیماری ایک ایسی حالت ہے جو آپ کے دماغ میں خون کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہے جیسے کہ فالج، دماغ میں خون کے رساؤ اور دل کی شریانوں کی بیماری شامل ہے۔ اس لیے ٹریفک کا شور ان حالات کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔

    تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر تھامس منزیل کا کہنا ہے کہ ٹریفک کے شور پر قابو پانے کی کوششیں اور شور کو کم کرنے کے لیے بنائے جانے والے قوانین مستقبل میں صحت عامہ کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

     health

    حالیہ تحقیق میں ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں جن میں ٹریفک کے شور کو امراض قلب کے خطرے کے ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

    ٹریفک کا شور میں گاڑیوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کا شور شامل ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے رپورٹ کیا کہ دل کی بیماری دل اور خون کی شریانوں میں خرابی سے جنم لیتی ہے، ٹریفک کے شور کی وجہ سے مغربی یورپ میں ہر سال 1.6 ملین افراد متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل محققین کا کہنا ہے کہ رات کے وقت ٹریفک کا شور خاص طور پر اور بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو نیند سے جگانے کا سبب بنتا ہے اور نیند متاثر ہونے سے صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    شور شرابہ

    نیند میں خلل اسٹریس ہارمونز میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور جسم میں دماغ اور خون کی شریانوں پر آکسیڈیٹیو تناؤ کو بڑھتا ہے جو جسم میں فری ریڈیکلز کے اضافے کا باعث بنتا ہے، یہ فری ریڈیکلز خلیات کو نقصان پہنچا کر بیماری اور عمر بڑھنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

    ٹریفک کے شور کی وجہ سے نیند کی کمی اندرونی سوزش اور ہائی بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بن کر امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہیں۔

  • یہ 5 کھانے دوبارہ گرم ہرگز نہ کریں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    یہ 5 کھانے دوبارہ گرم ہرگز نہ کریں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    عام طور پر تقریباً ہر گھر میں ایک وقت میں تیار کیا گیا کھانا دوسرے وقت پر گرم کرکے کھایا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

    آج کے مضمون میں کچھ ایسے ہی چند پکوانوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں دوبارہ گرم کرکے کھانا صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کچھ کھانوں کو جب دوبارہ گرم کیا جاتا ہے تو ان میں موجود غذائیت کی کمی ہونے کے ساتھ کچھ زہریلے مادے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس کے سبب یہ کھانے مضر صحت ہوجاتے ہیں۔

     انڈے آلو

    انڈے

    انڈے کو گرم کرنے سے اس میں سالمونیلا نامی مضر صحت بیکٹیریا پیدا ہوجاتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اسے تازہ ہی کھایا جائے، جبکہ دوسری صورت میں اسے کھانا ہاضمے کو متاثر کرسکتا ہے۔

    چائے کے شوقین

    چائے

    چائے کو دوبارہ گرم کرکے پینا نہ صرف اس کے ذائقہ کو خراب کر دیتا بلکہ اس میں پولی فینولز اور کیٹاچین نامی مرکبات بھی خارج ہونے لگتے ہیں جو ہاضمہ کی خرابی کا سبب بن کر ڈائریا اور گیس جیسی دوسرے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

    کھمبی

    مشروم

    مشروم میں پروٹین کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے اگر اسے درست طریقے سے نہ رکھا جائے تو یہ پروٹین اینزائم اور بیکٹیریا میں ٹوٹ جاتا ہے، یہی وجہ ہے جب اسے گرم کیا جاتا ہے تو یہ بیکٹیریا کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے جس ہاضمے کے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔

    آلو

    آلو

    پکے ہوئے آلو اگر گھر کے درجہ حرارت میں رکھے ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں جب انہیں دوبارہ گرم کیا جاتا ہے تو اس میں سولانائن نامی زہریلا مرکب بننا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں ہیں کہ پکے ہوئے آلو دوبارہ گرم کر کے استعمال کریں تو انہیں فریج میں رکھیں اور پھر گرم کر کے استعمال کریں۔

    پالک

    مشروم کی طرح پالک میں بھی نائٹریٹس موجود ہوتا ہے گرم کرنے پر نائٹرائٹس میں تبدیل ہوجاتا ہے، نائٹرائٹس کارسوجینک بننے میں مدد دیتا ہے اس اگر آپ کے پاس بچا ہوا پالک موجود ہے تو اسے ٹھنڈا یا کمرے کے درجہ حرارت میں رکھا ہی کھا لیں گرم کرنے سے گریز کریں۔

  • ماؤتھ واش کا استعمال نقصان کا باعث بن سکتا ہے؟

    ماؤتھ واش کا استعمال نقصان کا باعث بن سکتا ہے؟

    پیٹ کی بیماریوں سے بچاؤ کیلئے منہ اور دانتوں کا صاف رہنا انتہائی ضروری ہے، اگر منہ کی صفائی ٹھیک سے نہ کی جائے تو وہاں کچھ نقصان دہ بیکٹیریا اپنے رہنے کا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور یہیں سے صحت کے کئی مسائل کا آغاز ہوجاتا ہے۔

    منہ کی صفائی کیلئے ماؤتھ واش کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اس بات سے ناواقف ہے کہ ماؤتھ واش کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو مندرجہ ذیل سطور میں ماؤتھ واش کے صحیح استعمال کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم کریں گے جس سے آپ کو صحت سے مسائل سے محفوظ رہنے میں مدد ملے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بہت بڑی آبادی منہ کی صحت و صفائی کے لیے ماؤتھ واش کا استعمال کرتی ہے تاہم فی زمانہ ماؤتھ واش کے حوالے سے کئی تحقیقات سامنے آئی ہیں جس میں اسے صحت کے لیے مضر بھی قرار دیا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ماؤتھ واش کے استعمال سے نہ صرف آپ کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے بلکہ اس سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، تو کیا اسے استعمال کیا جائے یا نہیں؟ تاہم نئے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ آپ کو فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جراثیم کش ماؤتھ واش ہائی بلڈ پریشر اور دیگر طبی حالات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہے، جس کی وجہ اس میں موجود بیکٹیریا کو مارنے والی خصوصیات ہے۔

    یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال آنتوں کے مائیکرو بایوم پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ یہ آنتوں میں موجود بیکٹیریا سمیت مختلف جرثومے جس میں اچھے اور برے بیکٹیریا شامل ہیں صفایا کرتی ہے جو ہاضمے اور مدافعتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اب زبان پر موجود مائیکرو بایوم کی طرف بھی توجہ دی جارہی ہے کیونکہ جراثیم کش ماؤتھ واش منہ میں موجود مختلف بیکٹیریا اور جرثومے کو ختم کرسکتے ہیں جو جسم کو امراض قلب اور ٹائپ 2 ذیابیطس سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔

    ڈینٹل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زو بروکس کا کہنا ہے کہ منہ میں سیکڑوں اقسام کے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں ان میں سے کچھ پلاک اور سڑنے کا سبب بنتے ہیں، جبکہ دوسرے صحت کے لیے بہت مفید ہیں اور جسم کے کئی افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    مثال کے طور پر زبان پر ایسے بیکٹیریا رہتے ہیں جو کھانے سے نائٹریٹس کو نائٹریٹ میں تبدیل کرتے ہیں جو آنت میں جاکر نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، نائٹرک آکسائیڈ مؤثر طریقے خون کی شریانوں کو آرام دہ حالت میں رکھتی ہے، جس سے بلڈ پریشر توازن میں رہتا ہے۔

    کچھ ایسے ماؤتھ واش جن میں جراثیم کش کلورہیکسیڈائن ہوتا ہے ایسے افراد جن میں پہلے ہی بلڈ پریشر بڑھتا ہے اس میں مزید اضافے کا باعث بن سکتے ہے۔

    پورٹو ریکو یونیورسٹی میں 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق ایسے تمام افراد جو دن میں دو بار یا اس سے زیادہ ماؤتھ واش استعمال کرتے ہیں ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ نہ استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح 2017 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پورٹو ریکو میں موجود اسی ریسرچ گروپ کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن رکھنے والے ایسے افراد والے جو روزانہ کم از کم دو بار اوور دی کاؤنٹر ماؤتھ واش استعمال کرتے ہیں ان میں استعمال نہ کرنے والوں کی نسبت تین سال کی مدت کےدوران ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا خطرہ 50 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ منہ کے ان اہم ترین بیکٹیریا کو مارنے سے جسم میں نائٹرک ایسڈ بنانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جو بلڈ شوگر کو توازن میں رکھتی ہے اس طرح خون میں شوگر خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جو وقت کے ساتھ ذیابیطس کا باعث بن سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ ماؤتھ واش کے صرف یہی نقصان نہیں ہے جرنل انٹینسیو کیئر میڈیسن میں شائع ہونے والی 2020 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسپتال میں داخل مریض جو اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش سیپسس کا استعمال کرتے ہیں یہ ان میں موت کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ یہ ایک جان لیوا حالت ہے جو اس وقت جنم لیتی ہے جب جسم کا مدافعتی نظام کسی انفیکشن سے لڑ رہا ہوتا ہے۔

    تو کیا ماؤتھ واش کو استعمال نہیں کرنا چاہئے؟

    ڈاکٹر بروکس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ منہ کی صحت وصفائی بہت ضروری ہے کیونکہ منہ کی ناقص صفائی سے مسوڑھوں کی بیماری جنم لیتی ہیں جو ذیابیطس اور امراض کا سبب بن سکتی ہے اس لیے دانتوں اور مسوڑھوں کو صحت مند رکھنا نہایت ضروری ہے تو کوشش کریں جراثیم کش ماؤتھ واش کے بجائے عام ماؤتھ واش استعمال کیے جائیں۔

  • پیکٹ والا دودھ کیوں استعمال کرنا چاہیے؟ ماہر صحت نے بتا دیا

    پیکٹ والا دودھ کیوں استعمال کرنا چاہیے؟ ماہر صحت نے بتا دیا

    کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکیرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا ہے کہ کھلا دودھ انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کے دوہنے سے لے کر سپلائی تک کے نظام میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ باڑوں میں دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے بھینسوں کو مختلف قسم کے انجکشنز لگائے جاتے ہیں جس کے مضر اثرات لازمی طور پر دودھ پر بھی پڑتے ہیں۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ کھلے دودھ کو ابالنے سے صرف اس میں موجود جراثیم ہی نہیں مرتے بلکہ دودھ میں کیلشئیم فیٹس منرلز اور کاربو ہائیڈریٹس کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے پیکٹ کے دودھ بنانے والی کمپنیوں میں جاکر اس کا خود مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح دودھ کو پیک کیا جاتا ہے اس میں کہیں بھی انسانی ہاتھوں کا استعمال نہیں کیا جاتا سارا کام جدید مشینوں سے لیا جاتا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر دودھ میں مضر صحت اجزا باقی رہ جائیں تو یہ دودھ چھاتی، رحم اور پروسٹٹ کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ لہٰذا کھلے دودھ سے اجنتاب کیا جائے اور ڈبے کے بند دودھ کے لیے کسی معیاری کمپنی کا انتخاب کیا جائے۔

    پروسیسڈ دودھ جیسے پنیر اور دودھ سے بنی دیگر مصنوعات میں اضافی اور غیر ضروری اشیا جیسے مصنوعی رنگ اور مٹھاس شامل کی جاتی ہے۔ یہ وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

    مزید پڑھیں : دودھ آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے

    مندرجہ بالا تمام صورتوں میں دودھ سے پرہیز کرنے اور اس سے ہونے والی تکالیف کے لیے ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کھلا دودھ بیماریوں کا سبب جبکہ ڈبے کا دودھ جراثیم سے پاک ہے، ماہر صحت

    کھلا دودھ بیماریوں کا سبب جبکہ ڈبے کا دودھ جراثیم سے پاک ہے، ماہر صحت

    کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکیرٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد نے کہا ہے کہ کھلا دودھ گندگی سے بھرا  ہوا ہوتا ہے، اس میں بے شمار قسم کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اس وقت جو دودھ استعمال کررہے ہیں اس کا معیار انتہائی خراب ہے کیونکہ اس کے نکالنے سے لے کر سپلائی کیے جانے تک ہر چیز اور عمل غیر معیاری ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ان جراثیموں سے دودھ کو پاک کرنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے جس کے باعث یہ شہریوں خصوصاً بچوں کی صحت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، لہذا عوام کو چاہیے کہ جراثیم سے پاک بند ڈبے والا دودھ استعمال کریں۔

    پاکستان میں 90فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کرتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، چند ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں کھلا دودھ فروخت نہیں کیا جاتا، دنیا کے بیشتر ممالک میں دودھ کی فروخت میں حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جان ہے تو جہان ہے آپ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کی خود حفاظت کریں، بند ڈبے کا دودھ اچھی صحت کا ضامن ہے، لہٰذا کھلے دودھ کے بجائے ڈبے میں بند دودھ استعمال کریں۔

    گزشتہ عرصے میں کیے گئے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار لگ بھگ 50 ارب لیٹر سے زائد ہے جبکہ75 فیصد عوام کو معیاری دودھ میسر نہیں ہے۔

    کھلے دودھ میں آلودہ پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، اس کو گاڑھا کرنے کیلئے مختلف قسم کے کیمیکلز کی آمیزش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس دودھ کی کوالٹی کو چیک کرنے کیلئے بھی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

    حلال جانور کا دودھ اگر چند گھنٹوں میں نہ ابالا جائے تو اس میں بیکٹیریا کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتا ہے اس لیے اسے فوراً ابالنا پڑتا ہے جس کے بعد اگر آپ اسے نارمل درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو وہ چار سے چھ گھنٹے میں خراب ہوجاتا ہے اور اگر آپ اسے ٹھنڈا کر لیتے ہیں تو وہ آٹھ سے دس گھنٹے میں خراب ہو جاتا ہے۔

    اسی طرح دودھ کی طلب اور رسد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی ملایا جاتا ہے جس کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

    اس کے علاوہ کچھ گوالے اپنی بھینسوں کو کچھ ایسے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے وہ جلد اور زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں اور یہ انجکشن جانور اور صارف دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔

    بازار یا کسی گوالے سے خریدے ہوئے دودھ کا معیار چیک کرنے اور اسے دیر تک محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دودھ کو فوری طور پر گرم کرلیں۔ دودھ گرم کرنے کے بعد اس پر جمنے والی ملائی سے اس کے خالص ہونے کا بہت آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اگر باقی رہ جانے والی ملائی میں تیل محسوس ہو تو یہ جان لیں کہ دودھ خالص ہے اگر یہ خشک محسوس ہو تو دودھ میں ملاوٹ کی گئی ہے۔