Tag: hatice-cengiz

  • مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے کہا ہے کہ انہیں اطالوی سپر کپ کے سعودی عرب میں انعقاد سے دلی افسوس ہوا ہے۔

    روم میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خاشقجی کی منگیتر ہیٹس کینگز کا کہنا تھا کہ یہ نہایت افسوسناک ہے کہ ایک ایسا ملک جس پر ایک ریاستی قتل کا الزام ہے، اور اس کے قاتل تاحال آزاد ہیں، اسے یہ تحفہ دیا گیا کہ اطالوی ان کی سرزمین پر فٹبال کھیلیں۔

    انہوں نے کہا کہ میں اس کے معاشی پہلوؤں سے واقف ہوں اور اس کا بائیکاٹ کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن کیا اس کے سیاسی اثرات نہیں ہوں گے؟

    واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

    ان کے قتل پر سعودی حکومت پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    سعودی صحافی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی پالیسیوں اور وژن 2030 کے سخت ناقد تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ لاحق تھا اور وہ کئی برسوں سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    بعد ازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی طور پر خود کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

  • امریکا خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں، منگیتر کا الزام

    امریکا خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں، منگیتر کا الزام

    واشنگٹن : جمال خاشقجی کی منگیتر نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا سعودی سعودی صحافی کے سفاکانہ قتل کی تفتیش میں سنجیدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار سے منسلک مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر ہیٹس کین غز نے کہا ہے کہ میں نے امریکا جانے کی صدر دونلڈ ٹرمپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاوس کی جانب سے مجھے امریکا مدعو کرنے کا مقصد عوامی رائے پر اثر انداز ہونا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ خاشقجی کو تین ہفتے قبل استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں بیہمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا جبکہ ریاض حکومت مسلسل سعودی شاہی خاندان کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے الزامات سعودی جاسوسوں پر عائد کررہی ہے۔

    دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے مطالبہ کیا ہے کہ خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں اوپر سے نیچے تک ملوث افراد کو سخت سزائیں دے کر انصاف کیا جائے۔

    خیال رہے کہ جمال خاشقجی کے قتل پر جرمن حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی گئی ہے، جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ ہم عرب ریاستوں کو اسلحے کی فروخت روک دیں ’یہ ایک جذباتی فیصلہ ہوگا نہ کہ سیاسی‘۔

    ایمینئول مکرون کا کہنا تھا کہ اسلحے کی فروخت کا جمال خاشقجی کے معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ہم دو معاملوں مشترک نہیں کرسکتے۔

    بحرین میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر برائے دفاع کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی سفارت خانے میں موت پر ہم سب کو تحفظات ہیں۔

    امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا کہنا تھا کہ امریکا ہر گز ایسے سفاکانہ اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا جسے صحافی خاشقجی کی آواز کو دبایا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کو 60 فیصد سے زیادہ اسلحہ امریکا، 20 سے 25 فیصد برطانیہ، 5 سے 8 فیصد فرانس جبکہ 3 سے 5 فیصد اسپین، سوئٹززلینڈ، جرمنی اٹلی اور 2، 2 فیصد کینیڈا، ترکی اور سوئیڈن فروخت کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ ’میں مطمئن نہیں ہوں جب تک ہم جواب نہیں تلاش کرتے‘ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پابندیاں عائد کرنے کا آپشن موجود ہے تاہم ہتھیاروں کا معاہدہ ختم کرکے امریکا کو زیادہ نقصان ہوگا۔

     

    خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی۔