Tag: hazrat ali

  • ڈپریشن کا علاج حضرت علیؓ کے اقوال میں پوشیدہ

    ڈپریشن کا علاج حضرت علیؓ کے اقوال میں پوشیدہ

    اسلامی تاریخ کی با علم ترین شخصیت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک بار آپؓ کےلیے فرمایا، ’میں علم کا شہر ہوں، اور علیؓ اس کا دروازہ‘۔

    آج یوم علی رضی اللہ تعالی عنہ کے موقع پر ان کے ایسے اقوال جانیں جو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارے، اور دماغ کو پرسکون و مطمئن رکھنے کے بارے میں ہیں۔

    یاد رہے کہ ذہنی دباؤ کا مرض یعنی ڈپریشن اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ہوا دماغی مرض ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    :سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں

    غصہ، تناؤ اور پریشانی کے موقع پر سر پر ٹھنڈا پانی ڈالنا دماغ کو پرسکون کرتا ہے۔ اس بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا، ’جب کبھی ایسا دکھ محسوس ہو جس کی وجہ معلوم نہ ہوسکے، تو اپنے سر پر پانی ڈالو‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :خدا کی یاد

    دکھ اور تکلیف کے وقت میں خدا کو یاد کرنا اس بات پر یقین پختہ کرتا ہے کہ یہ وقت جلد گزر جائے گا اور خدا اس وقت میں ہمارا ہاتھ نہیں چھوڑے گا۔ ’جب دکھ بڑھ جائے تو کہو، اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں جو بچا سکے‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :صفائی نصف ایمان

    ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ انفرادی صفائی سے لے کر اجتماعی طور پر گھروں، گلی، محلوں، شہروں اور ملکوں کی صفائی انسانی نفسیات پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہننا اور خوشبوئیں لگانا ہمارے دماغ کو ہلکا پھلکا کرتا ہے۔

    حضرت علیؓ کا قول ہے، ’صاف کپڑے پہننا دکھ اور غم کو دور کرتا ہے‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    صرف طبی ماہرین ہی نہیں بلکہ دماغی و سماجی مسائل پر کام کرنے والے ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ صاف ستھرا لباس زیب تن کرنا اور صاف ستھرا رہنا نہ صرف دماغ کو تازہ دم کرتا ہے بلکہ آپ کی نفسیات اور موڈ پر بھی خوشوگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    :انگورکا حیران کن اثر

    بعض روایات سے موسوم ہے کہ حضرت علیؓ تکلیف اور ذہنی تناؤ کے مواقعوں پر انگور کھایا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔

    :حسد سے گریز

    حدیث نبویﷺ ہے، ’حسد انسان کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو‘۔

    حضرت علیؓ نے بھی اس بارے میں فرمایا کہ میں نے اس شخص کو خود اس کا سب سے بڑا دشمن دیکھا جو حسد میں مبتلا ہے۔ حسد کی وجہ سے وہ مستقل انتقامی کیفیت، بے سکونی اور دکھ کا شکار رہتا ہے۔ ( مفہوم ۔ بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :طرز زندگی میں تبدیلی

    ماہرین عمرانیات کے مطابق ہم مادی اشیا سے جتنا دل لگاتے ہیں یہ ہمیں اتنا ہی زیادہ بے چینی اور بے سکونی میں مبتلا کرتی ہیں جو ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔

    حضرت علیؓ کا قول ہے، ’دنیا کی اشیا دکھ اور غم دینے کا سبب بنیں گی اور ان سے چھٹکارہ پالو گے تو یہ جسم اور دل کے لیے باعث راحت ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

    :شکر گزاری

    ہم دوسروں کی کامیابیوں پر حسد کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ایسی کتنی ہی نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے جو کئی افراد کو میسر نہیں۔ شکر گزاری دل و دماغ کو سکون پہنچاتی ہے۔

    حضرت علیؓ نے فرمایا، ’اللہ نے یقین اور اطمینان میں سکون اور خوشی رکھی ہے۔ جو بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہوگا وہ دکھی اور غمزدہ ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت منا یا جارہا ہے

    آج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت منا یا جارہا ہے

    آج عالمِ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت باسعادت منارہا ہے،آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور خلیفہ راشد چہارم تھے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔

    آپ کا حسبِ نسب


    آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔

    آپ کی پرورش یوں بھی مبارک تھی کہ وہ تمام کے تمام ایامِ، دورِ شیر خوارگی چھوڑ کر حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے زیرِ سایہ رہی۔ وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضور ان کو تنہا نہیں چھو ڑتے تھے ۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔

    حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں احادیثِ مبارکہ


    عالم ِ اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی سے منسوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔

    علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔

    میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے

    تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؓ ہے۔

    علیؓ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔

    یہ (علیؓ) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

    حضت علی کرم اللہ وجہہ کی تین فضیلتیں


    وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔

    جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا ۔

    آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

    حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ  کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا، زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

  • شیرِخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایومِ شہادت دنیا بھرمیں منایا جارہا ہے

    شیرِخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایومِ شہادت دنیا بھرمیں منایا جارہا ہے

    آج عالمِ اسلام حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا یوم شہادت منارہا ہے، آپ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے،19 رمضان40 ہجری کو کوفہ میں ابن ملجم نامی ایک خارجی نےآپ کو زہر آلود تلوار سے دوران نماز ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔

    روضہ حضرت علیؑ – نجف عراق

    آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔

    ہجرت کی شب آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اپنے پاس موجود تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے مدینے روانہ ہوگئے اور آپ تلواروں کی چھاؤں میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھ کر سوگئے۔

    مدینے میں مواخات کے موقع پر جب رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا تو کہا کہ ’’اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو اور تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔

    ہجرت کے بعد جب جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر معرکے میں آگے آگے رہے یہاں تک کے خیبر کی سخت ترین جنگ میں انہیں لشکر اسلام کا علمدار مقرر کیا گیا۔

    قلعہِ خیبر

    جنگ ِ احد میں جب گھمسان کا رن پڑا تو آپ کے ہاتھ میں پے درپے تلواریں ٹوٹیں جب آخری تلوار ٹوٹی آسمان صے حضرت جبریل ایک تلوار لے کر رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے جو کہ انہوں نے حضرت علی کو مرحمت فرمائی۔ اس تلوار کا نام ’’ذوالفقار‘‘ہے اور یہ کربلا تک آپ کے فرزند امام حسین کی ملکیت رہی اور اس کے بعد عوام سے اوجھل ہوگئی۔

    ذوالفقار

    آپ کے دستِ مبارک سے اسلام کے بدترین دشمن جن میں شیبہ، انتر ، مرحب ، حارث اور عمر ابن عبدوود جیسے افراد شامل ہیں جہنم واصل ہوئے۔

    پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا عقد اپنی چہیتی بیٹی جنابِ فاطمہ علیہ السلام سے کیا جن سے آپؑ کوجنابِ حسنین کریمین اور جنابِ زینب جیسی عزت ماب ہستیوں کے والد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

    آپ کے مشہور القاب ابوالحسن، ابوتراب اسد اللہ الغالب، حیدر ِکرار، صاحب الذوالفقار، خیبر شکن اور امیر المومنین ہیں۔

    جب عیسائیوں سے مباہلے کا مرحلہ آیا تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا نفس قرار دیا۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ساری زندگی دین کی سربلندی کے لئے گزری آپ کاتبِ وحی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور پیغمبرِ اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی تمام ترخط وکتابت اور معاہدوں کے مسودے تحریر کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری تھی۔

    پیغمر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرغدیرِ خم کے میدان میں آُپ کو عوام پر اپنا نائب مقرر کیا تھا۔

    آپ قران اور فقہ کے بلند پایہ عالم تھے جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن عباس، محمد بن ابی بکر، اور عبداللہ ابن عمر جیسے بلند پایہ عالمِ حدیث آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ خطبات پر مشتمل کتاب کا نام نہج البلاغہ ہے جسے عالم اسلام میں اہم حیثیت حاصل ہے خصوصاً مالک اشتر کو جب مصر کا گورنر نامزد کیا تو ایک طویل ہدایت نامہ تحریر کیا جسے کسی بھی جدید فلاحی مملکت کے آٗینکی بنیاد تصور کیا جاسکتا ہے۔

    حضرت علیؑ کے ہاتھ کا لکھا قران

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 35 ہجری کے شورش زدہ دورمیں اکابرین اسلام کے اصرار پر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ، یہ سارا دور تنازعات سے بھرپور رہا جس میں خوارج نامی فتنہ انتہائی اہم تھا جس کی سرکوبی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل کرنا پڑا۔

    جنگ صفین کے بعد 19رمضان 40 ہجری کو شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر زہر بجھی تلوار سے وارکیا جو کہ فوری جسم میں سرایت کردیا۔

    مسجد کوفہ – عراق

    زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

    آپ عالم بالعمل تھے اور آپ کا سب مشہور قول ہے کہ ’’ میں جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ (اللہ) عبادت کے لائق ہے‘‘۔

    ضریحِ مبارک
  • ولادت خلیفہ چہارم، شیر خدا، حیدر کرار سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ

    ولادت خلیفہ چہارم، شیر خدا، حیدر کرار سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ

    آج عالمِ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت باسعادت منارہا ہے،آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور خلیفہ راشد چہارم تھے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔

    آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔

    آپ کی پرورش یوں بھی مبارک تھی کہ وہ تمام کے تمام ایامِ، دورِ شیر خوارگی چھوڑ کر حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے زیرِ سایہ رہی۔ وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضور ان کو تنہا نہیں چھو ڑتے تھے ۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔

    حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔

    حضرت علی سے منسوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔

    علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔

    میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے

    تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؓ ہے۔

    علیؓ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔

    علیؓ مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

    وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔

    جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا ۔

    آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

    حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ  کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا، زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

     

  • کوئی ہے! جو ہدایت پاسکے

    ہوش سمبھالتے ہی اپنے معاشرہ میں ایک انجانی بحث کو سنا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اسقدر تیزی آئی کے نفرتوں اور بغض کی آگ نے ہمارے معاشرے کو تباە کردیا۔ یہ بحث خود کو فرشتہ سمجھنے اور دوسرے کے ایمان میں شک پیدا کرنے کی بحث تھی۔ اس بحث نے خود پسندی اور فرقہ واریت کےایک نہ رکنے والے سلسلے کو شروع کیا جس نے آج پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج بھی روزاول کی طرح سازش کہیں اور تیار ہوتی ہےاور اسے نافض اسلامی سلطنت میں موجود منافق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ الله تبارک وتعالی نےقرآن کریم میں بار بار منافقین کی چالوں کا ذکر فرمایا۔

    سازشوں کا سلسلہ تو اسلام کی آمد سے ہی شروع ہوگیا تھا جس میں تیزی حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہےاورشاید قیامت تک جاری رہےکیونکہ آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیاتھا کے میری امت میں 73 فرقے بن جائیں گے۔

    آخر کون سی وجوہات تھیں کہ دشمن نے ہمیں آپس میں لڑا دیا۔ یقینا ہمارا دشمن جانتا ہے کہ وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتا لہذا انہوں نے ہمارے اندر نفرت کا ایسا بیج بویا تاکہ ہم خود ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں اور دشمن بیٹھ کے تماشہ دیکھے۔

    غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں نےامت مسلمہ کےاجتماعیت کےاصول کو شدید نقصان پہنچایا۔ آج کوئی کیا ہے تو کوئی کیا۔ میں یہاں فرقوں کے نام نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ میں امت محمدی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بس دو نام جانتا ہوں۔ یہ دو نام مسلمان اور مومن ہیں۔ اور یہ وہی نام ہیں جن سے الله تبارک و تعالی نے اس امت کو مخاطب کیا۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی تعارف نہیں ہوسکتا۔

    قرآن کریم میں اگر فرقہ کا ذکر آیا بھی ہے تو ان کی ممانعت کی صورت میں آیا- فرقہ واریت میں ڈوبےاور دین میں نئے راستے نکالنے والوں کی آنکھیں کھولنے کیلۓ قرآن پاک کی یہ آیات کافی ہیں۔

    "اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا”

    (3:105)

    "جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا”

    (6:159)

    "(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے”

    (30:32)

    ان آیات میں الله تبارک وتعالی نے تمام باتوں کو نہایت وضاحت سے بیان فرمادیا ہے۔ الله کی کتاب تو کھلی ہدایت ہے۔ "تو ہے کوئی ہدایت لینے والا؟”

    نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں جاہلیت کے ان تمام دساتیر کو رد کر کے اسلام میں ذات برادری، فرقہ بندی کو ختم کردیا۔ اسی روز الله کے رسول صلی الله وآلہ علیہ وسلم نے باربار اجتماعیت اور بھائی چارے کا درس دیا۔

    قرآن کو سمجھیے اور خود کو کسی فرقہ سے مت جوڑئے اپنی پہچان کو وہی رہنے دیجیے جو الله تبارک تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے۔

    اسلام میں کسی کو دوسرے پر برتری نہیں ہے اگر برتری ہے بھی تو تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی زندگیوں کو پڑہئے۔ ان میں سے کسی ہستی نے خود کو مکمل نہیں کہا بلکہ اپنی زندگیوں کو الله تبارک وتعالی کے احکامات پرعمل کرتے ہوۓ گزاردیا۔

    ہم ان تمام ہستیوں کےمبارک قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں مگر یہی ہمارے رہنما ہیں اور انکی رہنمائی ہی باعث نجات ہے۔

    مسلمان الله تبارک و تعالی کا دیا ہوا نام ہے جبکہ فرقے انسانوں کی تخلیق ہیں۔

    حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے علاوە کوئی مکمل نہیں ہے۔ ہم سب میں الله تبارک وتعالی نے خیر بھی رکھا ہےاور شر بھی۔ خیر سے فائدە اٹھانا ہمارا کام ہے اور شر کے بارے میں فیصلہ کرنا الله تبارک و تعالی کا استحقاق ہے۔

    ہمیں چاہئے کہ ہم اس جشن آزادی پر ہر فرقے کے بت کو توڑ کر خود کو صرف اور صرف سچا اور پکامسلمان بناتے ہیں

  • آج ملک بھر میں یوم ِ شہادت ِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ منایا جارہا ہے

    آج ملک بھر میں یوم ِ شہادت ِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ منایا جارہا ہے

    کراچی: رمضان کی اکیس تاریخ پیعمبر ِاسلام حضرت محمدؐ کے چچا زاد بھائی اور عالم اسلام کے خلیفۂ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت سے منسوب ہے اوران کی یاد میں ملک بھر میں جلوس و مجالس ِ عزا اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

    آج ملک بھر میں شہادت ِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے منعقد ہونے والی مجالس ِ عزا اور جلوسوں کی سیکیورٹی کے لئے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔ کراچی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ مرکزی شہروں میں حکومت نے موبائل آپریٹرز کو کسی بھی وقت سروس منقطع کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ماتمی جلوسوں کی گزرگاہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے اور اس کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بھی گزرگاہوں کی تلاشی لی ہے۔

    کراچی کا مرکزی جلوس نشتر پارک نمائش سے برآمد ہوگا  مجلس سے خاورامام بارگاہ حسینیہ ایرانیان پر اختتام پذیرہوگا اس موقع پر شہر بھر میں سولہ ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔

    لاہور شہر کا مرکزی جلوس نثار حویلی سے برآمد ہوا ہے جلوس کی حفاظت کے لئے اندرون شہر آنے والے راستوں پر ناکے بھی قائم کئے گئے ہیں اور کل دس ہزار اہلکار اس موقع پر سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو 19 رمضان سن چالیس ہجری میں عبدالرحمن ابن ملجم نامی ایک خارجی نے مسجدِ کوفہ میں زہر بجھی تلوار سے اس وقت قتل کیا کہ جب آپ      روزے سے تھے اور حالت ِ نماز میں تھے، تین دن زہر کے زیر اثر رہنے کے بعد اکیس رمضان کو آپ کی شہادت ہوئی۔