Tag: hazrat lal shahbaz qalandar

  • حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کی تقریبات کا آغاز آج سے  ہوگا

    حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کی تقریبات کا آغاز آج سے ہوگا

    جامشورو: حضرت لال شہباز  قلندر کےعرس کی تین روزہ تقریبات آج سےشروع ہورہی ہیں، ملک بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، عرس کے موقع پر سیکیورٹی کے فل پروف انتظامات کئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حضرت لال شہباز قلندر کے 767 ویں عرس کی تقریبات کا باقاعدہ آغازآج سے سیہون شریف میں ہوگا، 3گورنرسندھ عمران اسماعیل مزار پر چادر چڑھا کر 3 روزہ سرکاری تقریبات کا آغاز کریں گ

    حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کا عرس ہر سال اٹھارہ شعبان کو شروع ہو کر اکیس شعبان تک جاری رہتا ہے۔

    سیکورٹی پلان کے تحت 8 زون میں سیکورٹی ہوگی ، جس میں 4 ہزار 500 پولیس اہل کار اور 300 سے زائد رینجرز کے جوان سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہل کار بھی سیکورٹی کے فرائض ادا کریں گے۔

    گزشتہ روز لعل شہباز قلندر کے عرس کے انتظامات سے متعلق چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقدہ ہوا تھا ، جس میں چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے کہا تھا کہ اس مرتبہ لعل شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر 25 لاکھ سے زائد زائرین کی آمد متوقع ہے، عرس پر سیکورٹی اوّلین ترجیح ہے۔

    اجلاس کو بتایا گیا کہ درگاہ کے آس پاس تمام تجاوزات کو ہٹا دیا گیا ہے، رینجرز، پولیس اور نیوی کی ٹیمیں دریائے سندھ پر موجود ہوں گی، ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ زائرین کو واک تھرو گیٹ سے داخل کر کے کلیئر قرار دے کر مزار کی طرف روانہ کیا جائے گا۔

    ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کا سفر زندگی


    عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی ولادت 538 ہجری کوآذر بائیجان کے گاؤں مروند میں ہوئی۔ آپ کانام سید عثمان رکھا گیا مگر بعد میں آپ نے لعل شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی۔

    شہباز قلندر میں صوفیوں والی بے چینی ہمہ وقت موجود تھی اور صوفی سفر کرتا ہےکائنات کے اسرار جاننے کی دھن میں اس لیے قلندر بھی سفر پر نکلے۔

    آپ کے ہم عصر اولیا کرام میں حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ(نقشبندی سلسلے کے بانی)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر:(فریدی سلسلے کے بانی)،حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ شامل ہیں، آپ چاروں دوستوں کی طرح تھے تاہم آپ ان چاروں میں سب سے کم عمر تھے۔

    آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمان بن مروند کو خلوت میں بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒ بنادیا، بعدازاں باری باری تینوں اولیا کرام کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔

    بابا فریدؒ کے حکم پر لعل شہبازؒ منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھا۔

    لعل شہاز قلندرؒ ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں لعل شہبازؒ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو وہ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید میں مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیر بابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

    آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا۔

    لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، بابا فریدؒ نے لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا اور سو خلفا آپ کے ماتحت کیے اور آپ سہون کے ہوگئے۔

    سہون شریف میں دور سے نظر آتا سنہری گنبد اس عظیم ہستی کی آخری آرام گاہ ہے جو امن اور محبت کا پیغام لیے مروند سے چلا اور سفر کرتا ہوا سندھ دھرتی پہنچا۔

  • سیہون میں حضرت لعل شہبازقلندر کے 766 ویں عرس کا آغاز

    سیہون میں حضرت لعل شہبازقلندر کے 766 ویں عرس کا آغاز

    سیہون : حضرت لعل شہبازقلندر کے 766 عرس کی تقریبات کا آغاز ہوگیا، عرس کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوفی بزرگ حضرت لعل شہبازقلندرکا سات 766واں عرس شروع ہوگیا، وزیراعلی سندھ کے معاون خصوصی برائے اوقاف سید غلام شاہ جیلانی نے درگاہ پر چادر اور فاتحہ خانی کر کے عرس کا باقاعدہ آغاز کیا۔

    عرس میں ملک بھر سے آئے زائرین کی آمدورفت جاری ہے، کوئی عقیدت کے پھول چڑھارہا ہے توکوئی چادر جبکہ روایتی دھمال بھی ہوتا رہا۔

    عرس کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئےہیں، ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ شہر بھر میں دو سو سے زائد سی سی وی کیمرے نصب، ساڑھے چار ہزار پولیس اور رینجرز کے اہلکار متعین کئےگئےہیں۔

    سالانہ عرس میں اس سال بیس لاکھ زائرین کی آمدمتوقع ہے جبکہ عرس کی تقریبات آٹھ مئی تک جاری رہےگا۔

    وزیرداخلہ سندھ سہیل انورسیال بھی سیہون شریف پہنچے اور درگاہ شہبازقلندر پر حاضری دی اور پھول چڑھائے، ایس ایس پی پرویز عمرانی نے عرس کی سیکیورٹی پر بریفنگ دی۔

    وزیرداخلہ سندھ سہیل انورسیال کا کہنا تھا کہ خواتین کے کانوں سے بالیاں اتارنے کا نوٹس لیا ہے، لیڈیزاہلکاروں کو لیڈیز پورشن میں تعینات کیا، درگاہ اور گردو نواح میں سی سی ٹی وی نصب ہیں۔

    خیال رہے کہ حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کا عرس ہر سال اٹھارہ شعبان کو شروع ہو کر اکیس شعبان تک جاری رہتا ہے۔

    سیہون میں شدید گرمی سے بچاؤ کیلئے زائرین کیلئے محکمہ اوقاف اور حکومت سندھ کی جانب سے ہیٹ اسٹوک کیمپ بھی لگائے گئے ہیں۔

    ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کا سفر زندگی


    عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی ولادت 538 ہجری کوآذر بائیجان کے گاؤں مروند میں ہوئی۔ آپ کانام سید عثمان رکھا گیا مگر بعد میں آپ نے لعل شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی۔

    شہباز قلندر میں صوفیوں والی بے چینی ہمہ وقت موجود تھی اور صوفی سفر کرتا ہےکائنات کے اسرار جاننے کی دھن میں اس لیے قلندر بھی سفر پر نکلے۔

    آپ کے ہم عصر اولیا کرام میں حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ(نقشبندی سلسلے کے بانی)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر:(فریدی سلسلے کے بانی)،حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ شامل ہیں، آپ چاروں دوستوں کی طرح تھے  تاہم آپ ان چاروں میں سب سے کم عمر تھے۔

    آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمان بن مروند  کو خلوت میں بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے  لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒ بنادیا، بعدازاں باری باری تینوں اولیا کرام کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔

    بابا فریدؒ کے حکم پر لعل شہبازؒ منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھا۔

    لعل شہاز قلندرؒ ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں لعل شہبازؒ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو وہ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید میں مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیر بابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

    آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا۔

    لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، بابا فریدؒ نے لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا اور سو خلفا آپ کے ماتحت کیے اور آپ سہون کے ہوگئے۔

    سہون شریف میں دور سے نظر آتا سنہری گنبد اس عظیم ہستی کی آخری آرام گاہ ہے جو امن اور محبت کا پیغام لیے مروند سے چلا اور سفر کرتا ہوا سندھ دھرتی پہنچا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حضرت لعل شہباز ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کے 766 ویں عرس کی تقر یبات کا آغاز آج سے ہوگا

    حضرت لعل شہباز ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کے 766 ویں عرس کی تقر یبات کا آغاز آج سے ہوگا

    سہیون شریف : پاکستان کے صوبہ سندھ میں سیہون کے مقام پر صوفی بزرگ لعل شہباز ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کے سالانہ عرس کی تقریبات آج سے شروع ہورہی ہیں، جو آٹھ مئی تک جاری رہیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سیہون میں مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے 766 ویں عرس کی 3 روزہ تقریبات کا آغاز آج مغرب کے بعد ہوگا، عرس میں شرکت کیلئے ملک بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

    تقریبات کا آغاز مزار پر چادر چڑھا کر کیا جاتا ہے، اس موقع پر ناصرف سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین موجود ہوتے ہیں، بلکہ ملک کے کونے کونے سے انگنت عقیدت مند مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔

    حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کا عرس ہر سال اٹھارہ شعبان کو شروع ہو کر اکیس شعبان تک جاری رہتا ہے۔

    عرس کے موقع پر محکمہ اوقاف کی جانب سے زائرین کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلیئے گئے ہیں، سندھ بھر کی طرح سیہون میں شدید گرمی سے بچاؤ کیلئے زائرین کیلئے محکمہ اوقاف اور حکومت سندھ کی جانب سے ہیٹ اسٹوک کیمپ بھی لگائے گئے ہیں۔

    عرس کی سیکیورٹی کیلئے پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے پولیس کو جاری احکامات میں کہا ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے عرس کی تین روزہ تقریبات کے موقع پر صوبے بھر میں سیکیورٹی کے جملہ اقدامات پر عمل درآمد کو انتہائی مستعد اور الرٹ رہتے ہوئے یقینی بنایا جائے۔

      ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ کا سفر زندگی

    عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی ولادت 538 ہجری کوآذر بائیجان کے گاؤں مروند میں ہوئی۔ آپ کانام سید عثمان رکھا گیا مگر بعد میں آپ نے لعل شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی۔

    شہباز قلندر میں صوفیوں والی بے چینی ہمہ وقت موجود تھی اور صوفی سفر کرتا ہےکائنات کے اسرار جاننے کی دھن میں اس لیے قلندر بھی سفر پر نکلے۔

    آپ کے ہم عصر اولیا کرام میں حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ(نقشبندی سلسلے کے بانی)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر:(فریدی سلسلے کے بانی)،حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ شامل ہیں، آپ چاروں دوستوں کی طرح تھے  تاہم آپ ان چاروں میں سب سے کم عمر تھے۔

    آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمان بن مروند  کو خلوت میں بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے  لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒ بنادیا، بعدازاں باری باری تینوں اولیا کرام کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔

    بابا فریدؒ کے حکم پر لعل شہبازؒ منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھا۔

    لعل شہاز قلندرؒ ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں لعل شہبازؒ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو وہ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید میں مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیر بابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

    آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا۔

    لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، بابا فریدؒ نے لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا اور سو خلفا آپ کے ماتحت کیے اور آپ سہون کے ہوگئے۔

    سہون شریف میں دور سے نظر آتا سنہری گنبد اس عظیم ہستی کی آخری آرام گاہ ہے جو امن اور محبت کا پیغام لیے مروند سے چلا اور سفر کرتا ہوا سندھ دھرتی پہنچا۔

  • حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    انیس فروری 1275 بمطابق 21 شعبان 673 ھجری سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی تاریخ وفات ہے، ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ (1177تا 1274) آپؒ کا اصل نام عثمان مروند تھا، آپ 1177 عیسوی بمطابق 573ھجری میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔

     ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلۂ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے ہوکر جعفر صادق تک پہنچتا ہے، سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق۔

    آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے "شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں ھضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔ آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا

    آپ کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گز کے قریب ہے۔ ان کا سالانہ عرس اسلامی تقویم کے مطابق 18 شعبان المعظم کو ہوتا ہے۔