Tag: Health

  • وزن میں کمی کیلیے یہ ’قہوہ‘ انتہائی مفید ہے

    وزن میں کمی کیلیے یہ ’قہوہ‘ انتہائی مفید ہے

    سبز چائے جسے انگریزی میں گرین ٹی بھی کہا جاتا ہے اس کے بہت سے فوائد ہیں، جن میں وزن میں کمی، امراض قلب سے بچاؤ اور دماغی کارکردگی کو بہتر بنانا شامل ہیں۔

    تاہم دوسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس کے مضر اثرات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، جیسے نیند میں خلل، اضطراب اور ہاضمے کے مسائل وغیرہ۔

    گرین ٹی کے فوائد

    گرین ٹی میٹا بولزم کو بڑھاتی ہے اور چربی جلانے میں مدد دیتی ہے، کولیسٹرول کم کرنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں بھی معاون ہے۔

    اس کے علاوہ اینٹی آکسیڈنٹس دماغ کو بڑھاپے سے بچاتے ہیں اور ذہنی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔گرین ٹی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس کینسر کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی گرین ٹی یا قہوہ بنانے کا طریقہ بیان کر رہے ہیں کہ جس کو نوش کرنے سے ہاضمہ بہترین اور وزن میں نمایاں کمی محسوس ہوگی۔

    قہوہ بنانے کا طریقہ

    پانی ۔۔۔ ڈیڑھ گلاس
    چھوٹی الائچی ۔۔۔ 4 عدد
    پودینے کی پتیاں ۔۔۔ 5 گرام
    سونف ۔۔۔ ایک چائے کا چمچ
    سونٹھ ۔۔۔ دو عدد ٹکڑے

    ان تمام اشیاء کو پانی میں ملاکر جوش دیں۔ اس کو اتنا پکائیں کہ پانی ایک گلاس یا اس سے تھوڑا کم رہ جائے تو اس کو چھان لیں۔ اس کے بعد آخر میں آدھا چمچ میٹھا سوڈا بھی شامل کرلیں

    اس کے علاوہ ذائقے کو بہتر بنانے کیلیے اس میں حسب ذائقہ شہد گڑ یا چینی بھی شامل کرسکتے ہیں۔

    یہ قہوہ آپ کے نظام ہاضمہ کو تو بہتر کرے گا ہی لیکن ساتھ ہی جو لوگ اپنا وزن کم کرنے کے خواہشمند ہیں ان کیلیے بھی یہ قہوہ بے حد مفید ہے۔ لہٰذا گرین ٹی کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں اور اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوں۔

  • دانتوں میں کیڑا لگنے کا آسان اور مؤثرعلاج

    دانتوں میں کیڑا لگنے کا آسان اور مؤثرعلاج

    انسان کے دانتوں کا جسمانی صحت سے براہ راست تعلق ہوتا ہے، بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں دانت گِرنے اور دانتوں میں کیڑا لگنے جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    دانتوں میں کیڑا لگ جانا ایک عام مسئلہ بن چکا ہے جو بچوں سے لے کر بڑوں تک ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگر دانتوں میں کیڑا لگ جانے کے بعد اس کا مؤثر علاج نہیں کیا جائے تو یہ باقی تمام دانتوں کو تباہ کرسکتا ہے۔

    دانتوں میں کیڑا لگنے کی بنیادی وجوہات میں ناقص غذا، میٹھے کھانوں کا زیادہ استعمال، منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھنا اور بیکٹریا کی افزائش شامل ہیں۔

    ماہرینِ کے مطابق جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ا س کے چند ٹکڑے ہمارے دانتوں میں پھنس جاتے ہیں، جب دانتوں میں پھنسے ہوئے کھانے سے منہ میں موجود بیکٹیریا آملتے ہیں تو اس کی وجہ سے دانتوں میں پلاک جمنا شروع ہو جاتا ہے۔

    پلاک میں موجود بیکٹیریا ایک ایسا ایسڈ (تیزاب) خارج کرتے ہیں جو دانتوں کی جڑوں اور سطح کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ جسے کیڑا لگنا کہتے ہیں۔

    یہ کیڑے دانتوں میں چھوٹے سیاہ گڑھوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ دانتوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں جس سے درد اور دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    اگر آپ دانتوں کے کیڑوں سے جلدی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے باورچی خانے میں موجود چند قدرتی چیزیں اس میں آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ کون سی چیزیں ہیں اور انہیں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    لہسن (Garlic) : ایک یا دو جوے کچا لہسن چبا کر کھائیں۔ اس کے علاوہ لہسن کا پیسٹ بنا کر متاثرہ دانت پر لگا سکتے ہیں۔ ایک کپڑے میں لہسن لپیٹ کر دانتوں پر رکھنے سے بھی آرام مل سکتا ہے۔

    لونگ (Clove) : لونگ کو دانتوں کے درد کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں قدرتی اینٹی سیپٹک اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو دانتوں کے کیڑوں کو ختم کرنے اور درد کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    لونگ کے تیل کو روئی کی مدد سے متاثرہ دانت پر لگائیں۔اگر لونگ کا تیل نہ ہو تو ایک لونگ کو چبا کر اس کا عرق متاثرہ جگہ پر لگا سکتے ہیں۔گرم پانی میں لونگ ڈال کر اس سے کلی کرنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

    ناریل کا تیل (Coconut Oil) : ناریل کا تیل دانتوں کی صحت کے لیے بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ایسے قدرتی اجزاء پائے جاتے ہیں جو بیکٹیریا کو ختم کرنے اور دانتوں کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔

    ایک چمچ ناریل کے تیل کو منہ میں رکھ کر 10-15 منٹ تک گھمائیں اور پھر تھوک دیں (اسے نگلنے سے گریز کریں)۔ ناریل کے تیل کو روئی میں لگا کر متاثرہ دانت پر رکھیں۔اس تیل کو روزانہ برش سے پہلے استعمال کریں تاکہ دانتوں کو کیڑوں سے بچایا جا سکے۔

    نمکین پانی (Salt Water Rinse) : نمکین پانی کا غرارہ کرنا ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے جو دانتوں کے کیڑوں کو کم کرنے اور منہ کی صفائی میں مدد دیتا ہے۔ نمک میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں جو دانتوں کے انفیکشن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    نیم گرم پانی میں ایک چمچ نمک ملا کر اچھی طرح حل کریں۔اس پانی سے دن میں دو سے تین بار کلی کریں۔
    یہ نہ صرف دانتوں کی صفائی میں مدد دے گا بلکہ مسوڑھوں کی صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔

    اگر آپ دانتوں کو خراب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو 6 ماہ میں ایک مرتبہ دانتوں کے ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔

    دانتوں کو دن میں دو مرتبہ ہلکے ہاتھوں سے اچھی طرح برش کریں، اور ایسے ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کریں جس میں فلورائیڈ ہو۔

    دن میں ایک مرتبہ فلاس ضرور کریں لیکن اس دوران ایک بات کو دماغ میں ضرور رکھیں کہ فلاس کے لیے صرف میڈیکل سے ہی فلاسنگ تھریڈ خرید کر اس سے فلاس کریں،

    دن بھر زیادہ سے زیادہ پانی پئیں کیونکہ خشک منہ میں بیکٹیریا پیدا ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ روزانہ سوڈا، کولڈ ڈرنکس اور جوسز کا استعمال نہ کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • منہ کی بدبو سے فوری چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    منہ کی بدبو سے فوری چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    کسی بھی شخص کے منہ سے آنے والی بدبو اس کے آس پاس کے لوگوں کیلیے انتہائی ناگوار ہوتی ہے، اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔

    یہ بدبو آخر ہے کیا اور کیوں اور کیسے پید اہوتی ہے؟ اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مسلسل منہ سے بدبو آنے کی وجہ وہ جراثیم ہوتے ہیں جو منہ کے اندر موجود ہوتے ہیں۔

    یہ بیکٹیریا انسان کے منہ کے اندر ایسی گیس پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے منہ سے بدبو آنے لگتی ہے۔

    منہ کی بدبو

    منہ سے بدبو ایک عام مسئلہ ہے جسے ہیلیٹوسس کہا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں ناقص زبانی حفظان صحت، خشک منہ، تمباکو نوشی، کچھ غذائیں اور طبی مسائل شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ سانس کی نالی میں انفیکشن، خشک منہ، نظامی بیماریاں جیسے گردے، پھیپھڑوں یا جگر کی بیماری، ذیابیطس، معدے کے مسائل جن میں تیزابیت اور ہاضمے کے دیگر مسائل شامل ہیں۔

    احتیاط و علاج :

    اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے منہ میں حفظان صحت کی صورتحال کو بہتر بنائیں دانتوں کو دن میں دو بار برش کریں، فلاس کریں، اور زبان کو صاف رکھیں۔

    ماہرین کے مطابق پانی پی کر منہ کو تر رکھیں اور لوزینجز یا گم کا استعمال کریں۔ یاد رکھیں تمباکو نوشی بھی منہ کی بدبو اور مجموعی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

    صحت مند غذا کھائیں اور ایسی غذائیں کم کھائیں جو منہ کی بدبو کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو کوئی طبی مسئلہ ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ اپنے دانتوں کا باقاعدگی سے معائنہ اور صفائی کروائیں۔

  • غذا میں فائبر ہونا کتنا ضروری ہے؟

    غذا میں فائبر ہونا کتنا ضروری ہے؟

    فائبر جسے ریشہ بھی کہا جاتا ہے، انسانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے، یہ ہاضمے کے نظام کو بہتر بنانے، وزن کم کرنے، بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے اور مختلف بیماریوں سے بچاؤ میں مدد کرتا ہے۔

    فائبر کی افادیت:

    فائبر ہاضمے کے نظام کو بہتر بناتا ہے، آنتوں کی حرکت کو منظم کرتا ہے اور قبض سے بچاتا ہے۔ وزن کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    اس کے علاوہ فائبر کھانے کے بعد پیٹ بھرا ہوا محسوس کراتا ہے، جس سے کم کھانے میں مدد ملتی ہے۔ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے۔

    فائبر خون میں شوگر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتا ہے، جو ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے بہت ضروری ہے۔

    فائبر کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے، جو دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
    کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ فائبر آنتوں کے کینسر اور چھاتی کے کینسر سے بھی بچا سکتا ہے۔

    غذا میں یومیہ کتنا فائبر ضروری ہے؟

    عام طور پر بالغوں کو روزانہ 25 سے 30 گرام فائبر لینا چاہیے۔ بچوں اور بوڑھوں کے لیے یہ مقدار مختلف ہو سکتی ہے۔ خواتین کو عام طور پر مردوں کی نسبت کم فائبر کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کن غذاؤں میں فائبر زیادہ پایا جاتا ہے؟

    پھل اور سبزیاں (چھلکے سمیت)، اناج (خاص طور پر جو، گندم، اور چاول), دالیں (جیسے لوبیا، چنے، اور مسور), گری دار میوے اور بیج وغیرہ۔

    فائبر کو اپنی غذا میں شامل کرنے کے طریقہ یہ ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کو چھلکے سمیت کھائیں، اناج اور دالوں کا استعمال کریں۔

    ناشتے میں فائبر سے بھرپور غذا کھائیں، جیسے کہ دلیا یا گندم کی روٹی، سلاد اور سبزیوں کا استعمال بڑھائیں۔
    پھلوں اور سبزیوں کو سلاد، سوپ اور دیگر کھانوں میں شامل کریں ساتھ ہی میٹھے مشروبات کی بجائے پانی یا پھلوں کے جوس کا بھی استعمال کریں۔

     

  • قوت مدافعت کا تعلق کس وٹامن سے ہے؟

    قوت مدافعت کا تعلق کس وٹامن سے ہے؟

    وٹامن سی کے بہت سارے فوائد ہیں یہ نہ صرف قوت مدافعت بڑھاتا ہے بلکہ مجموعی صحت کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں بھی طبی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قوت مدافعت کو مضبوط رکھا جائے اور وٹامن سی قوت مدافعت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    وٹامن سی کا چونکہ قوت مدافعت سے براہ راست تعلق ہے، اس لیے اس کی کمی کی وجہ سے کئی امراض لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس بات کے کئی ثبوت ہیں کہ وٹامن سی کئی امراض سے نجات دلانے میں معاون ہوتا ہے، جیسے نمونیہ اور مثانے کے امراض وغیرہ، وٹامن سی دل کی بیماریوں اور کینسر کے حملے سے بھی محفوظ رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔

    نیوٹریشن جرنل میں شائع ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وٹامن سی متاثرہ افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔ سانس سے متعلق تکلیف کو کم روکنے کے علاوہ وٹامن سی پھیپھڑوں کی صحت کو بھی بہتر کرتا ہے۔

    جسم میں وٹامن سی کی کمی کی چند علامات ہیں جن میں موٹاپا، جلد کا خشک ہونا یا مسوڑھوں سے خون بہنا شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متوازن غذا کھانے سے کوئی بھی شخص وٹامن سی کی کمی کو باآسانی پوری کر سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی کا حصول روزانہ کی بنیاد پر اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ انسانی جسم نہ تو وٹامن سی خود پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے۔

    وٹامن سی کی کمی کی وجوہات

    ایسے افراد جو متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے ان کے جسم میں عموماً وٹامن سی کی کمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد جن کا ڈائیلاسز چل رہا ہو یا تمباکو نوشی کے عادی افراد کو روزانہ 35 ملی گرام وٹامن سی کی اضافی مقدار لینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے جسم میں ایسے فری ریڈیکل پیدا ہو جاتے ہیں جن کے لیے وٹامن سی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی کی کمی کی علامات تین ماہ کے اندر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

  • قربانی کے گوشت کو زیادہ دن فریز کرنا کتنا خطرناک ہے؟

    قربانی کے گوشت کو زیادہ دن فریز کرنا کتنا خطرناک ہے؟

    قربانی کے گوشت کو زیادہ دن فریز کرنا کتنا خطرناک ہے؟

    عید الاضحیٰ میں قربانی کے گوشت کو فریج کے بغیر زیادہ دیر رکھنے سے وہ قابل استعمال نہیں رہتا، لیکن اگر اسے زیادہ فریز کرلیا جائے تو بھی نقصان کا باعث ہے۔

    موسم گرما میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عید الاضحی پر قربانی کے گوشت کو محفوظ رکھنا شہریوں کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت دھونے کے بعد اسے صاف کپڑے سے اچھی طرح خشک کیا جائے اور پھر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ایئر ٹائٹ ڈبے یا پالیتھن بیگز میں رکھ کر فریز کیا کردیا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عاصم جاوید نے قربانی کے گوشت کو فریز کرنے سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ گوشت کو مائنس 18 پر فریز کیا جائے لیکن گرم موسم اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے فریزر کا درجہ حرارت قائم نہیں رہتا جس کی وجہ سے گوشت میں موجود خون بہنے لگتا ہے جو جراثیم کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے۔

    مزید پڑھیں : فریز کئے گئے گوشت کا ممکنہ نقصان سامنے آگیا

    ان کا کہنا تھا کہ فرزر میں گوشت کو زیادہ سے زیادہ 2 ہفتے رکھنا چاہیے اس کے علاوہ گوشت کو کسی کے ساتھ بنایا جائے اور مسالہ جات کا استعمال بھی کم سے کم کیا جائے۔ اور کھانے کے بعد لیموں پانی یا ڈیٹاکس واٹر لازمی پئیں۔

  • کیا آپ کا دل کمزور ہے؟ اپنی صحت سے متعلق اہم راز جانیے

    کیا آپ کا دل کمزور ہے؟ اپنی صحت سے متعلق اہم راز جانیے

    ہمارے جسم میں دل ایک ایسا عضو ہے جب یہ کمزور ہونا شروع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کئی علامات سامنے آتی ہے جنہیں شناخت کرکے ہم دل کے صحت پر قابو پاسکتے ہیں۔

    مجموعی صحت کیلیے سب سے پہلے دل کا مضبوط ہونا لازمی امر ہے جس کیلیے ضروری ہے کہ اس کی دیکھ بھال اور علاج کا فوری بندوبست کیا جائے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں ایسی 3 علامات کا ذکر کیا جارہا ہے جو دل کی کمزوری یا دل کی خرابی کی جانب اشارہ کر سکتی ہے۔

    ڈاکٹر جیریمی لندن، جو کہ ساوانا، جارجیا کے ایک ہارٹ سرجن ہیں نے کہا کہ اگر کسی شخص کو چلنے یا لیٹنے کی صورت میں سانس لینے میں مشکل پیش آئے یا ٹانگوں میں سوجن محسوس ہو، تو یہ دل کے کمزور ہونے کی جانب اشارہ ہے۔

    سانس پھولنا

    جب آپ کو چلتے ہوئے سانس یا آکسیجن لینے میں مشکل پیش آرہی ہو اور آپ کو عام سے زیادہ تیز، گہری سانسیں لینا پڑرہی ہوں تو یہ عام طور پر دل یا پھیپھڑوں کی کسی بیماری کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

    لیٹنے پر سانس لینے میں دشواری

    آرتھوپینیا ایک طبی اصطلاح ہے جس میں لیٹنے پر سانس پھولنے لگتی ہے، لیکن عام طور پر بیٹھنے یا کھڑے ہونے سے راحت ملتی ہے۔

    اگر کسی کا دل کمزور ہے، تو ایسی صورت میں لیٹتے وقت ٹانگوں سے پھیپھڑوں کی طرف منتقل ہونے والے خون کو پمپ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    ٹانگوں میں سوجن

    جسم کے ٹشوز میں سیال جمع ہونے سے سوجن ہونے لگتی ہے، جسے ایڈیما کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کی ٹانگوں کی رگوں میں خون پیچھے ہٹنا شروع ہو جائے تو یہ اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، یہ عام طور پر دل کی ناکامی کی پہلی قابلِ مشاہدہ علامت ہوتی ہے۔

    اگر کسی بھی شخص میں یہ علامت ظاہر ہونا شروع ہوں تو ایسی صورت میں وہ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرے تاکہ معالج جسمانی معائنہ کے ساتھ کچھ ٹیسٹ بھی تجویز کرے۔

     

  • امراض قلب سے بچاؤ کیلیے 6 اہم غذائیں کون سی ہیں؟

    امراض قلب سے بچاؤ کیلیے 6 اہم غذائیں کون سی ہیں؟

    دنیا بھر میں دل کی بیماریاں سب سے زیادہ اموات کا باعث بنتی ہیں، امراض قلب کی بنیادی وجہ صحت مند اور متوازن غذا کا ستعمال نہ کرنا ہے۔

    اگر صحت مند طرز زندگی اور اچھی خوراک کو معمول بنا لیا جائے تو بیماریوں پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے زیر نظر مضمون میں ان 6 اہم غذاؤں کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں بیان کی گئی غذائیں ایسی ہیں جو سوزش، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو کم کرکے دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

     مچھلی

    ایسٹرن فن لینڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ چربی والی مچھلی بالخصوص سالمن، میکریل اور سارڈینز اقسام کی مچھلیاں۔ ان کو ہفتہ بھر میں 4 دفعہ کھانا جسم میں صحت کے لیے فائدہ مند کولیسٹرول کی شرح بڑھانے اور امراض قلب کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    اس سے قبل بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مچھلی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دل کی دھڑکن کی رفتار میں غیرمعمولی تبدیلی، شریانوں میں زہریلا مواد جمع ہونے وغیرہ خطرہ کم کرتا ہے۔

    جئی یا جوے

    رپورٹ کے مطابق پورے اناج جیسے جئی، پیچیدہ کاربوہائیڈریٹ خون میں شکر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ پورے اناج سوزش کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ خون کی نالیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    پتوں والی سبزیاں

    پالک، ساگ ، دھنیا اور پودینے میں وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسیڈنٹس جیسے غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کیلوریز کم اور فائبر زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ غذائیں دل کی صحت کو بہتر رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پتوں والی سبزیاں سوزش کو کم اور بلڈ پریشر کو بہتر کرسکتی ہیں، جن کی وجہ سے دل کی بیماری کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اپنے سلاد یا اسموتھیز میں پتوں والی سبزیاں شامل کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ دل کو مزید صحت مند بنائیں۔

    زیتون کا تیل

    کولیسٹرول کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک ایل ڈی ایل (نقصان دہ) اور دوسری ایچ ڈی ایل (فائدہ مند)، امراض قلب سے بچنے کے لیے ایل ڈی ایل کی سطح کو کم رکھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ دوسری کی سطح بڑھانا ہوتی ہے، اس کا ایک ذریعہ زیتون کا تیل، سبزیاں، پھل اور اجناس پر مشتمل غذا کا استعمال ہے۔

    ٹماٹر

    ٹماٹر میں دل کے لیے فائدہ مند پوٹاشیم کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ اینٹی آکسائیڈنٹ لائیکوپین کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔ یہ اینٹی آکسائیڈنٹ نقصان دہ کولیسٹرول سے نجات میں مدد دے سکتا ہے، جس سے خون کی شریانیں کشادہ رہتی ہیں اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    گری دار میوے

    بادام، اخروٹ اور پستہ جیسے گری دار میوے صحت مند چکنائی، فائبر اور پروٹین کے بہترین ذرائع ہیں۔ مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گری دار میوے کھانے سے کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے جو دل کی بیماری کے خطرات کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    تاہم، گری دار میوے کیلوری میں بہت زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو اعتدال میں کھانا ضروری ہے، انہیں اپنے سلاد یا دلیا میں مٹھی بھر شامل کرنے کی کوشش کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • موسمی الرجی سے محفوظ رہنے کی 6 بہترین تدابیر

    موسمی الرجی سے محفوظ رہنے کی 6 بہترین تدابیر

    آب و ہوا میں موجود گردو غبار اور آلودگی کے باعث نزلہ زکام اور کھانسی کے باعث ہر دوسرا شخص چھینکتا اور گلے کے مسائل کا شکار نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ موسمی الرجی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق موسمی الرجی کا مسئلہ موسمِ سرما میں زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور مختلف بیماریوں اور بخار کا بھی باعث بن جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ ناقص اور آلودہ پانی اور سیوریج کی صورتحال بھی سانس اور جِلد کی الرجی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

    کوئی ایسی چیز کھانا یا جسم پر لگانا، جسے آپ کا جسم قبول نہ کرے تو اس سے الرجی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم پر خارش اور بےچینی محسوس ہوتی ہے۔ مختلف اشیا جیسے مونگ پھلی، اخروٹ، بادام، کاجو، انڈے، گائے کا دودھ اور مخصوص مچھلی کھانے سے بھی لوگ الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں،اس کے علاوہ کیڑوں کے کاٹنے، ادویات اور کیمیکلز سے جِلدی الرجی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔

    بہار کے موسم میں زیادہ تر لوگ تھکاوٹ اور سر چکرانے کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جسے "اسپرنگ الرجی” کہا جاتا ہے۔ یہ صورتحال دماغ پر نظر نہ آنے والے اثرات کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔

    پولن الرجی کو موسم بہار میں سب سے نمایاں صحت کے مسائل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس الرجی میں ناک بھرنے اور کھانسی کے علاوہ چھینک اور آنکھوں میں پانی بھرنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے بریگھم اور خواتین کے ہسپتال کی الرجسٹ ڈاکٹر ماریانا کاسٹیلز نے وضاحت کی ہے کہ الرجی نیند کو متاثر کر سکتی ہے اور تھکاوٹ اور چکر کا باعث بنتی ہے۔

    جب جرگ کے دانے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو مدافعتی نظام ہسٹامائن جیسے کیمیکلز کو خارج کرنا شروع کر دیتا ہے جو ٹشوز کو متاثر کرتا ہے اور الرجی کی علامات ظاہر ہونے کا باعث بنتا ہے۔ تاہم موسم بہار کی الرجی سے بچنے کے لیے 5 تجاویز پر عمل کرکے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

    دروازے کھڑکیاں بند کریں

    پہلا قدم کھڑکیوں کو بند کرنا ہے۔ گھر اور گاڑی کی کھڑکیاں بند کرنا ہوں گی۔

    دن کے وقت گھر میں قیام کریں

    نیز صبح یا دوپہر کے اوقات میں باہر جانے سے گریز کریں۔ یہ وہ اوقات ہیں جب پولن کی سطح اپنے عروج پر ہوتی ہے۔

    روزانہ کپڑے تبدیل اور غسل کریں

    گھر سے نکلنے کے بعد واپس آکر غسل کرنا اور کپڑے تبدیل کرنا بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔

    ایئر پیوریفائر استعمال کریں

    اس موسم میں ایئر پیوریفائر کا استعمال بھی مؤثر ہے خاص طور پر یہ پولن کی سطح کو کم کرتا ہے۔

    دھوپ کا چشمہ

    دھوپ کا چشمہ آپ کی آنکھوں کو جرگ سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر پر ٹوپی پولن الرجی کو آپ کے بالوں میں جانے سے روکنے میں مدد کر سکتی ہے۔

    اینٹی الرجی ادویات

    آخر میں اینٹی ہسٹامائن علامات کو دور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں لیکن ان کے استعمال سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے؟

    وٹامن ڈی کی کمی کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے؟

    ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کسی ہارمون کی طرح کام کرتا ہے، انسانی جسم کے لئے اس کا سب سے بڑا ذریعہ کیا ہے؟ اور اس کی کمی یا زیادتی سے کون سے بیماریاں جنم  لے سکتی ہیں؟۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن پروفیسر محمد پرویز انجم  نے ناظرین کو کئی مفید باتیں بتائیں اور اس کی افادیت سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کے لئے وٹامنز کا سب سے بڑا اور قدرتی ذریعہ سورج کی روشنی ہے مگر گرمیوں میں زیادہ دیر دھوپ میں بیٹھنے کا نقصان یہ ہے کہ ہمارا جسم ایک خاص وقت تک سورج کی شعاعیں جذب کرتا ہے اس کے بعد وہ سلسلہ رک جاتا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز انجم  نے بتایا کہ کہ ہمارے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے یہ وٹامنز جذب ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ دھوپ کا کمر اور گھٹنوں پر لگنا ضروری ہے، ہاں یہ حقیقت ہے کہ جتنی زیادہ دھوپ ہوگی، اتنی تیزی سے وٹامنز حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک عام انسان میں وٹامن ڈی کا کم از کم لیول 30 ہونا چاہیے مگر غیر متوازن غذاؤں کے باعث بہت کم لوگوں کا یہ لیول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل بیشتر مرد و خواتین اس وٹامن کی کمی کا شکار ہیں۔

    آرتھو پیڈک سرجن نے بتایا کہ صبح نو بجے تک سرج کی روشنی لینا فائدہ مند ہے، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ضروری نہیں آپ سورج کی روشنی سے وٹامنز حاصل کریں,واک کرنا بھی وٹامن حاصل کرنے کا بڑا سبب ہے۔

    اس کے علاوہ خوراک میں دودھ سب سے اہم غذا ہے، اس کے حصول کے لئے دودھ کا استعمال نہایت ضروری ہے، اس کے علاوہ جتنی بھی ڈیری مصنوعات ہیں سب سے یہ وٹامن حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    وٹامن ڈی کی کمی کے نقصانات :

    اس کی کمی سے ہڈیاں کمزور اور ان میں درد کی شکایت، جوڑوں کی تکلیف اور آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    مدافعتی نظام کمزور ہونے سے جسم انفیکشنز اور بیماریوں جیسے نزلہ زکام اور وائرل بیماریوں کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے۔

    اس کی کمی ذہنی دباؤ، اداسی اور ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہے، جسمانی توانائی کم ہوجاتی ہے اور مسلسل تھکن محسوس ہوتی ہے۔ اس وٹامن کی کمی سے بال پتلے اور کمزور ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔

    وٹامن ڈی کے فوائد :

    یہ کیلشیم کو بہتر طریقے سے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے، جس سے ہڈیاں اور دانت مضبوط ہوتے ہیں۔ مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر جسم کو بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتا ہے۔

    ذہنی صحت میں بہتری کے سبب ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جسمانی کمزوری کو دور کرکے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے۔

    دل کی صحت کے لیے فائدہ مند دل کے افعال کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے خطرے کو کم کرتا ہے، انسولین کی کارکردگی کو بہتر بنا کر ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وزن کم کرنے میں مددگار  ہے میٹا بولزم کو بہتر بنا کر وزن کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔