Tag: Health news

  • ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    پاکستان میں غیر متعدی امراض سے کم عمری کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ کی رپورٹ میں اموات کی وجہ امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان سب سے بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔

    پاکستان میں 2040 تک غیر متعدی امراض (نان کمیونیکیبل ڈیزیز) اموات کا ایک بڑا سبب ہوں گی، اس بات کا انکشاف برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں 60 فی صد اموات غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔


    ویڈیو رپورٹ: کراچی والوں کی جائیدادوں پر ڈاکا، رجسٹرار آفس کے سرکاری افسران ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے لگے


    تحقیق میں پاکستان میں امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان کے باعث ہونے والی کم عمری کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان اموات کے 10 بڑے اسباب میں اسکیمک ہارٹ ڈیزیز، اسٹروک، پیدائشی جسمانی نقائص، جگر کی اور گردوں کے مرض کو اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دل کی بیماری، کینسر اور ذیابیطس جیسی غیر متعدی بیماریاں عالمی سطح پر 74 فی صد اموات کی وجہ ہیں، جب کہ 86 فی صد اموات ترقی پذیر ممالک کی لوئر مڈل کلاس میں ہوتی ہیں، جہاں علاج کی مطلوبہ سہولیات کا حصول ایک بنیادی مسئلہ ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ذیابیطس کے مریضوں کیلئے کون سی کھجور فائدہ مند ہے؟

    ذیابیطس کے مریضوں کیلئے کون سی کھجور فائدہ مند ہے؟

    کھجور غذائیت سے بھرپور اور صحت سب سے بہترین پھل ہے، خاص طور پر بھیگی کھجور ذیابیطس کے مریضوں کیلئے انتہائی مفید ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کھجور کا باقاعدگی سے استعمال ہڈیوں کو مظبوطی اور جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔

    کھجور کا ذائقہ بے حد مزیدار ہوتا ہے، اس میں کیلوریز کی مقدار بھی دوسرے خشک میوہ جات جیسے کشمش اور انجیر کی طرح ہے۔ اس میں ریشہ، پروٹین، پوٹاشیم، میگنیشیم، آئرن اور وٹامن بی سکس کی بھرپور مقدار موجود ہے۔

    بہت سے لوگ زیادہ تر خشک کھجور کھانا پسند کرتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھیگی ہوئی کھجور ہماری صحت کے لیے زیادہ فائدہ بخش ہے تو کیا آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟

    ویسے تو خشک میوہ جات کو بھگو کر کھانا زمانہ قدیم سے رائج ہے، زیادہ تر خشک میوے اور دالیں پانی میں بھگو کر ہی کھائی جاتی ہیں۔ خشک میوہ جات میں آکسالیٹ، ٹینن، سیپونن، الکلائیڈز اور سائینائیڈ جیسے غذائیت سے بھرپور عناصر پائے جاتے ہیں جو کہ جسم میں معدنیات کی دستیابی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    کھجور

    کھجور کو بھگونے سے اس میں سے ٹیننز اور دیگر منفی مرکبات خارج ہوتے ہیں، جس سے ہمارے لیے اس سے فائدہ مند وٹامنز اور معدنیات کو جذب کرنا آسان ہو جاتا ہے، مزید یہ کہ یہ نرم ہونے کی وجہ سے ہضم ہونے میں آسان ہوجاتی ہے۔

    کھجور کو بھگو کرکھانا :

    بھیگی کھجوریں غذائی ریشہ کا بہترین ذریعہ ہیں، یہ ہمارے نظام انہضام کو نہ صرف مضبوط کرتی ہے بلکہ اسے ہضم کرنے کیلئے معدے پر زور نہیں پڑتا۔

    اس کے علاوہ یہ آنتوں کو بھی صحت مند رکھتی ہے، ہائی فائبر بھوک اور پیٹ بھرنے کا احساس فراہم کرتا ہے ،ڈائٹ کے دوران بھوک پر کنڑول رکھتا ہے۔

    توانائی میں اضافہ :

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کھجور چینی اور کاربوہائیڈریٹس کا قدرتی ذریعہ ہے۔ کاربوہائیڈریٹس توانائی کی سطح کو بڑھاتے ہیں، اس لیے اسے صبح کے اوقات میں کھایا جائے تو یہ ایک بہترین ناشتہ بن جاتا ہے۔

    ہڈیوں کی مظبوطی کے لئے :

    کھجور میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس جیسے معدنیات سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ مضبوط اور صحت مند ہڈیوں کے لیے ضروری ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں بہترین :

    کھجور میں انسولین کی پیداوار بڑھانے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس کے ساتھ آنتوں سے گلوکوز کے جذب ہونے کی شرح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    ایسی صورت حال میں یہ ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ گلوکوز کے جذب میں کمی خون میں گلوکوز کی سطح کو بنیادی طور پر کم کرتی ہے جو کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

  • ’’اُٹھ جاؤ ورنہ ساس جوتے مارے گی‘‘ فہیمہ اعوان

    ’’اُٹھ جاؤ ورنہ ساس جوتے مارے گی‘‘ فہیمہ اعوان

    صبح سویرے جلدی سو کر اٹھنا زندگی میں کامیابی سے جڑی اور بہترین عادت ہے، یہ نہ صرف صحت بلکہ ہماری زندگی میں خیر و برکت کا بھی باعث ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق صبح جلدی اٹھنے والے افراد ہمیشہ ذہنی دباؤ سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ رات کو دیر سے سونے اور صبح تاخیر سے اٹھنے والے افراد ڈپریشن کا شکار اور مختلف بیماریوں کی زد میں رہتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں پاکستان شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی معروف اداکارہ فہیمہ اعوان نے صبح جلدی جاگنے سے متعلق اپنے خیالات شیئر کیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عائشہ عباس، مدیحہ افتخار اور رباب مسعود نے بھی اظہار خیال کیا

    اداکارہ فہیمہ اعوان نے بتایا کہ شادی سے پہلے جب میں صبح دیر سے سو کر اٹھتی تھی تو امی کی ایک زور دار آواز گونجتی تھی کہ ’’اُٹھ جاؤ ورنہ ساس جوتے مارے گی‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ سسرال جیسی بھی ہو بہو کیلئے سب سے پہلا مسئلہ صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے کیونکہ ہر گھر کے بزرگوں کو یہ بات بہت بری لگتی ہے کہ صبح دیر تک سویا جائے۔

    اس موقع پر مدیحہ افتخار کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں شوہروں کو بھی چاہیے کہ اس چیز کا خیال کرتے ہوئے صبح جلدی اٹھنے کا اہتمام کریں ورنہ یہ باتیں تلخیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔

  • لہسن کا ایک جَوا کھانے سے کیا ہوگا؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    لہسن کا ایک جَوا کھانے سے کیا ہوگا؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    موسم سرما میں نزلہ زکام کھانسی وغیرہ تو عام سی بات ہے تاہم قوت مدافعت مضبوط ہو تو انسان بڑی سے بڑی بیماریوں پر بھی قابو پالیتا ہے۔

    اس حوالے سے حکماء کا کہنا ہے کہ لہسن کا استعمال مدافعتی نظام میں بہتری لاتا ہے، لہسن خون کو پتلا کرتا ہے اور بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اگر آپ جِلدی بیماری میں گھرے ہوئے ہیں تو غذا میں لہسن کا استعمال بڑھا دیں، اس عمل سے جسم میں موجود زہریلے مادے خارج ہو جائیں گے اور جِلد تر وتازہ رہے گی۔

    اس کے علاوہ لہسن کے جَوؤں کو چھیل کر باریک پیس لیں اور ان کو زیتون کے تیل میں بھگو دیں، اس مرکب کو ایک چمچ روز کھا لیا کریں اس کے بے شمار طبی فائدے ہیں۔

    لہسن قوت مدافعت بڑھانے والی خصوصیات کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے، اس میں ایلیسن جیسے مرکبات ہوتے ہیں جن میں اینٹی مائکروبیل اور اینٹی وائرل اثرات ہوتے ہیں۔ یہ سردیوں میں خاص طور پر جب نزلہ زکام اور فلو کا خطرہ زیادہ ہو، فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

    لہسن اور زیتون کا تیل دونوں ہی دل کے لیے صحت مند غذائیں ہیں، لہسن بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے جب کہ زیتون کے تیل میں مونو سیچوریٹڈ چکنائی زیادہ ہوتی ہے جو دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    دانت کے درد سے نجات

    دانت کے درد سے فوری آرام کیلئے لہسن سے مدد لے سکتے ہیں، لہسن سُن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو بس آپ کو لہسن کو متاثرہ دانت پر رگڑنے کی ضرورت ہے، جس سے درد میں کافی حد تک کمی آتی ہے اور ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے وقت مل جاتا ہے۔

    بالوں کو اگائیں

    لہسن آپ کے بالوں کے گرنے کے مسئلے کو ختم کرسکتا ہے جس کی وجہ اس میں شامل ایک جز الیسین کی بھرپور مقدار ہے، یہ سلفر کمپاﺅنڈ پیاز میں بھی پایا جاتا ہے اور ایک طبی تحقیق کے مطابق بالوں کے گرنے کی روک تھام کے لیے موثر ہے۔ لہسن کو کاٹ لیں اور اس کی پوتھیوں کو سر پر ملیں۔ آپ تیل میں بھی لہسن کو شامل کرکے مساج کے ذریعے یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

    بلڈ پریشر کم کرنے میں مددگار

    اگر آپ ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں تو لہسن کو اپنی غذا کا حصہ بنالیں، یہ شریانوں کو کشادہ کرنے کے ساتھ تناﺅکو کم کرتا ہے، ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ سردرد کی شکایت رہنے کے ساتھ ساتھ یہ دل پر بوجھ بڑھاتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ لہسن کے 4 جَوے روزانہ کھانا بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لاتا ہے جبکہ لہسن کھانے سے صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں بھی کمی آتی ہے، جس کے نتیجے میں امراض قلب یا فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    مچھروں کو دور بھگائیں

    سائنسدان پریقین تو نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ مچھروں کو لہسن پسند نہیں۔ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ لہسن کے پیسٹ کو اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مل لیتے ہیں انہیں مچھروں کا ڈر نہیں رہتا۔ اس کے لیے آپ لہسن کے تیل، پیٹرولیم جیل اور موم کو ملا کر ایک سلوشن بنالیں جو مچھروں سے تحفظ دینے والا قدرتی نسخہ ثابت ہوگا۔

    ہونٹوں پر زخم سے نجات

    شدید ٹھنڈ میں ہونٹوں کا پھٹ جانا یا زخم ہوجاتا کافی عام ہوتا ہے تو اس کے علاج کے لیے پیسے ہوئے لہسن کو کچھ دیر تک متاثرہ جگہ پر لگائے رکھیں۔ اس میں شامل قدرتی سوجن کش خصوصیات درد اور سوجن کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

    پودوں کو تحفظ فراہم کرے

    باغات میں پائے جانے والے کیڑے لہسن کو پسند نہیں کرتے تو اس کی مدد سے ایک قدرتی پیسٹی سائیڈ تیار کرلیاں جس کے لیے لہسن، منرل آئل، پانی اور لیکوئیڈ صابن کو ایک اسپرے بوتل میں آپس میں ملالیں اور پودوں پر چھڑک دیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • کیا آپ وزن کم کرنے کا یہ منفرد طریقہ جانتے ہیں؟

    کیا آپ وزن کم کرنے کا یہ منفرد طریقہ جانتے ہیں؟

    طبی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ موٹاپا بذات خود کئی بیماریوں کی آماجگاہ ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے چھٹکارہ پانے کے لئے طرح طرح کے جتین کرتے ہیں۔

    وزن کم کرنے کے لئے اکثر فراد ورزش اور ڈائٹنگ کا سہارا لیتے ہیں جب تک وہ ان پر عمل درآمد کرتے رہتے ہیں وزن کنٹرول میں رہتا ہے اور انہیں چھوڑنے پر دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔

    مگر اب برطانونی ماہر غذائیات نے کچھ ایسے منفرد طریقے بتادئیے جن پر عمل کرتے ہوئے وزن کو مستقل طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔

    امینڈرا ارسل نامی ماہر نے موٹاپے کے شکار افراد کو ایک منفرد طریقہ اپنانے کو کہا جس میں اپنے پیٹ اور معدے کو دھوکہ دیناہے، وہ اس طرح کے اپنے آپ سے جھوٹ بولیں کہ آپ بہت زیادہ کھا رہے ہیں، ٹیک آؤٹ پیزا کے بجائے سپر مارکیٹ کے برانڈ کا پیزا خریدیں اور اس پر بہت زیادہ ٹماٹر لگوائیں اور اپنے دماغ کو بات کے لئے قائل کریں کہ آپ کی خوراک بہت زیادہ ہے اسے کم کرنا چاہئے، یہ نفسیاتی حربہ والیم ٹرکس کہلاتا ہے۔

    جبکہ امینڈا نامی ماہر غذائیات کے مطابق دوسرے طریقے میں موٹے افراد اپنے شوگر سائیکل کو کنٹرول کرنے کوشش کریں، بسکٹ اور کیک وغیرہ کوغذا میں شامل رکھنے سے خون میں چینی کی سطح بڑھنے لگتی ہے جس سے انسولین کے اخراج میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اس طرز عمل سے خون میں چینی کی سطح تو کسی حد تک کم ہوجاتی ہے لیکن بھوک زیادہ لگنا شروع ہوجاتی ہے اس صورتحال سے بچنے کے لئے میٹھے اسنیکس کے بجائے صحت بخش غذا کا انتخاب کریں تاکہ جسم میں چینی کی سطح توازن میں رہے اور بے وقت کی بھوک سے بچیں رہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: ماہ رمضان میں ٹماٹو کیچپ کا استعمال کتنا ضروری ہے ؟

    امینڈا کے مطابق وزن کم کرنے کا ایک کار آمد طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر کھانے سے قبل پانی پینے کی عادت اپنائیں یا سوپ کا ایک پیالہ پی لیں تو یہ بھی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

    مذکورہ طریقہ کار پر ایک جامع تحقیق کی گئی جس میں شامل ایسے رضاکار جو کھانے سے قبل پانی یا سوپ پیتے رہے ان کا بارہ ہفتوں میں دوسروں کی نسبت دوکلوگرام زیادہ وزن کم ہوا۔

    اس کے ساتھ ہی خوراک میں تبدیلی لاکر پراسیسڈ فوڈ کی بجائے صحت بخش غذا کا انتخاب کریں، پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں،ان طریقوں کے ساتھ ہی باقائدہ ورزش کو اپنا معمول بنالیں، کیونکہ اس کے بغیر فٹ رہنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا اورنہ ہی ورزش کا کوئی نعم البدل ہے۔

  • جانئے وہ معمولی عادت جو ‘ جان لیوا’ بیماریوں سے بچائے

    جانئے وہ معمولی عادت جو ‘ جان لیوا’ بیماریوں سے بچائے

    موتیوں جیسے دانت کے باعث انسان کی مسکراہٹ دلکش دکھائی دیتی ہے اگر وہ پیلے ہوجائیں یا خراب ہونے لگے تو متاثرہ شخص لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرپاتا۔

    آج ہم آپ کو سستے اور آسان ٹوٹکے بتائیں گے تاکہ جو اعتماد دانتوں کی بیماریوں کے باعث آپ کھو چکے ہیں تاکہ وہ واپس لوٹ سکے۔

    تحقیقی اور طبی ماہرین کے مطابق وہ افراد جو دن میں تین بار برش کرتے ہیں اُن کو شوگر کا مرض لاحق ہونے کے خطرات 14 فیصد کم ہوجاتے ہیں۔امریکا کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ دانت برش کرنا انسانی صحت کے لیے مفید ہےجبکہ وہ لوگ جو دانت برش نہیں کرتے وہ کینسر جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: چمکدار دانتوں کے لیے آسان گھریلو ٹوٹکا

    ماہرین کے مطابق دانت صاف نہ کرنے کی وجہ سے مسوڑھوں کی بیماری ہوتی ہے جو منہ کے کینسر کے خطرات کو بڑھا دیتے ہے جبکہ پیٹ کا کینسر بھی امکان ہوسکتا ہے۔

    یہاں یہ با ت بھی جاننا بے حد ضروری ہے کہ اگر آپ دن میں دو سے زیادہ مرتبہ دانت برش کرتے ہیں اور چار منٹ سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں ، تو اس سے آپ کے دانتوں پر موجود اس قدرتی تہہ کو نقصان پہنچتا ہے جو دانتوں کی حفاظت کرتی ہے۔

  • عمر رسیدہ خلیات کی تبدیلی: طبی سائنس کی تحقیق نے تہلکہ مچادیا

    عمر رسیدہ خلیات کی تبدیلی: طبی سائنس کی تحقیق نے تہلکہ مچادیا

    ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی جلد تروتازہ اور حیسن رہے، اب سائنسدانوں نے عمر رسیدگی کے ظاہری اثرات کو کم کرنے کا کامیاب تجربہ کرتے ہوئے دنیا کو حیران کردیا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ای لائف میں شائع سائنسی تحقیق میں بابراہم انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے انسانی جلد کے خلیات کو الٹے وقت میں لے گئے ہیں جسے انہوں نے ٹائم جمپ کا نام دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ری پروگرامنگ کرکے انہوں نے خلیات (سیلز) کی کیفیت ویسی ہی کردی ہے جیسا کہ وہ 30 سال کی عمر میں جوان اور توانا نظرآتے ہیں، اس طرح بوڑھے خلیات میں بھی حیاتِ نو دوڑانے میں کامیابی ملی ہے۔

    اس نئی ٹیکنالوجی میں خاص قسم کے اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) لیے گئے ہیں جو ہر قسم کے خلیات میں ڈھل سکتے ہیں، ان کی بدولت بوڑھے خلیات کی ری پروگرامنگ کرکے جوان خلیات پیدا کئے گئے ہیں جو بالخصوص جلد کے خلیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

    اس ضمن میں پہلی پیشرفت 2007 میں سامنے آئی تھی، جب کہا گیا کہ اسٹیم سیل ہر قسم کے خلیات میں ڈھالے جاسکتے ہیں، اب نئے طریقے کو میچوریشن فیزٹرانزیئنٹ ری پروگرامنگ کا نام دیا گیا ہے۔

    اس میں پچاس دن لگے ہیں اور تیرہویں دن عمر رسیدہ خلیات کا بڑھاپا دور ہونا شروع ہوگیا، اب جو خلیات بنے وہ کئی ٹیسٹ کے لحاظ سے جوان اور کم عمر اور توانا تھے۔

    لیکن یہ سیل ری پروگرامنگ کا پہلا مرحلہ ہے جس میں کامیابی ملی ہے اور توقع ہے کہ اس سے کم ازکم جلد کے خلیات توانا بنانے میں کامیابی حاصل ہوسکے گی۔ تاہم اس میں مزید کئی برس لگ سکتےہیں۔

  • دوا کے بغیر ‘شوگر’ کا علاج، طبی سائنس میں انقلاب برپا ہوگیا

    دوا کے بغیر ‘شوگر’ کا علاج، طبی سائنس میں انقلاب برپا ہوگیا

    ذیابیطس کا مرض جسے عرف عام میں شوگر کہا جاتا ہے، روز بروز بڑھنے والا ایسا مرض ہے جو لوگوں کی بڑی تعداد کو مسلسل اپنے شکنجے میں جکڑ رہا ہے تاہم اب طبی ماہرین نے ‘ خاموش قاتل’ مرض میں مبتلا افراد کو بڑی نوید سنادی ہے۔

    نیچر بایومیڈیکل انجنیئرنگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مشہورِ زمانہ ییل اسکول آف میڈیسن کے سائنسدانوں نے الٹراساؤنڈ کو تین مختلف ماڈلوں پر آزمایا، انہوں نے جسم میں اس طبی عمل کو الٹراساؤنڈ سے تحریک دی ہے جو ایک ہی وقت میں ذیابیطس لانے اور اسے پلٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سائنسدانوں نے الٹراساؤنڈ موجوں کے گلوکوز حساسیت (سینسٹی ویٹی) پر تجربات کئے ہیں۔

    اس طرح بے ضرر صوتی امواج کی بدولت خون میں شکر کی مقدار کم کی جاسکے گی اور اس کے لیے کسی انسولین کی ضرورت نہ ہوگی، یہ بالکل نیا طریقہ علاج ہے جسے الٹراساؤنڈ نیوروماڈیولیشن کا نام دیا گیا ہے۔

    اگرچہ پہلی آزمائش ذبایطس کے شکار چوہوں پر کی گئی ہے لیکن سال کے آخر تک اسے انسانوں پر بھی آزمایا جاسکے گا۔ ماہرین اس تجربے کو ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج میں ایک اہم پیشرفت کہہ رہے ہیں۔

    اسے شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کے لئے نئی جہت قرار دیا جارہا ہے، اب اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا، اس طرح ذیاییطس کے وار کو پلٹانا ممکن ہوسکے گا اور انسانیت اس موذی مرض سے چھٹکارا پاسکے گی۔

  • کورونا ویکسین کا اہم جزو کیا ہے اور کیسا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    کورونا ویکسین کا اہم جزو کیا ہے اور کیسا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    نیویارک : فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی اس ویکسین کا اہم جزو میسنجر آر این اے ہے جسے ایک ننھے سے بلبلے میں مقید کیا گیا ہے، یہ بلبلہ فیٹی ایسڈ سے تیار کردہ ہے جسے نینو پارٹیکل کہا جاتا ہے۔

    گزشتہ دنوں فائزر اس کی پارٹنر جرمن کمپنی بایو این ٹیک اور موڈرنا نامی امریکی کمپنی بالآخر اپنی اپنی ایجاد کردہ ویکسین دنیا کے سامنے لے آئے۔

    دنیا بھر میں ڈرگ اتھارٹیز نے ان ویکسینز کو منظور کر لیا ہے، جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او اور امریکی ادارہ ایف ڈی اے بھی شامل ہیں۔

    اسی دوران چین کی ایک کمپنی بھی اپنی ویکسین ایجاد کرنے کا دعویٰ کرچکی ہے مگر ابھی وہ کلینیکل ٹرائلز کے مراحل میں ہے۔ سائنسی اور طبی نقطۂ نظر سے اولین دو ویکسینز کس طرح زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی اور ان ویکسینز کا میکنزم یا طریقۂ عمل کیا ہے۔

    ویکسینز کا میکنزم یا طریقۂ عمل

    یہ عام ویکسینز نہیں ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کے ایک بالکل نئی قسم کی ویکسینز ہیں۔ جنہیں عرفِ عام میں ہم میسنجر آر این اے ویکسینز کہہ سکتے ہیں، اب تک استعمال میں آنے والے ویکسینز کا طریقۂ عمل تقریباً سبھی جانتے ہیں۔ بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ غیر مؤثر کئے گئے، میسنجر آر این اے انسانی جسم میں داخل کئے جاتے ہیں تاکہ جسم میں موجود قوت ِمدافعت کو متحرک کرکے ان کے خلاف لڑائی میں استعمال کئے جائیں۔

    یہ انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ زیادہ درجۂ حرارت یا کیمیائی عمل کے ذریعے غیر مؤثر بنا دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے جسم میں موجود قوت ِمدافعت انہیں بیرونی حملہ آور سمجھتے ہوئے ان کے خلاف عمل پذیر ہوتا ہے اور اس کی مدافعت کے لیے اینٹی باڈیز بناتا ہے جو ایک طرح سے اس مخصوص وائرس کے خلاف انسانی جسم کا ہتھیار ہوتا ہے۔

    اس لڑائی سے ان کی میموری میں یہ بیرونی اجسام اس طرح محفوظ ہوجاتے ہیں کہ جونہی اصل بیماری کا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے، اینٹی باڈیز اسے پہچان کر حرکت میں آتے ہیں اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے قبل ہی اس وائرس کو ختم کر دیتے ہیں لیکن اس قسم کی روایتی ویکسینز کی تیاری ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزر کر ہی ممکن ہوتی ہے اور فارماسوٹیکل انڈسٹریز کو ان کی بڑے پیمانے پر تیاری میں بہت سے دوسرے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    سائنسدان اس میدان میں پہلے ہی ڈی این اے کے ذریعے ویکسینز کی تیاری میں کامیابی حاصل کرچکے تھے اور مزید کام کر رہے تھے۔ فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی ویکسینز اسی عمل کے ذریعے تیار کی گئی ہیں جنہیں ہم میسنجر آر این اے ویکسینز کہتے ہیں۔

    نئی تیکنیک کے ذریعے جو ویکسینز تیار کئے گئے ہیں ان میں بیماری سے متعلق انسانی جسم میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ خود انسانی جسم اور خلیوں کے اندر ان اینٹی جینز کو بنا کر بیماری کے خلاف مدافعت تیار کی گئی ہے۔ اس پورے عمل کو سمجھنے کے لیے پہلے انسانی جسم اور اس میں موجود خلیاتی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    انسانی جسم کے اندر موجود خلیوں کی اساس ڈی این اے ہے۔ ڈی این اے دراصل وہ مالیکیول ہے، جس کی اندر انسان کی تمام تر جینیاتی خصوصیات محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کے اندر وہ تمام اطلاعات موجود ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر یہ آگے خلیوں کو پروٹینز کی تعمیر کے لیے پیغام بھیجتا ہے اور یوں انسانی خلیئے ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پروٹین کے بڑے مالیکیولز کی تعمیر کرتے ہیں۔

    ڈی این اے سے ان پیغامات کو آگے خلیوں تک پہنچانے کے لیے ایک اور مالیکیول کی ضرورت ہوتی ہے جسے میسنجر آر این اے کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہییے کہ اینٹی جینز جنہیں ویکسین کی شکل میں انسانی جسم میں وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کی غرض سے داخل کیا جاتا ہے دراصل پروٹین ہی ہوتی ہیں جو وائرس کے سیل وال یا خلیاتی دیوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    ڈی این اے کی جینیاتی ترتیب کو سائنسی تحقیقات کے ذریعے بہت پہلے ہی ڈی کوڈ کرلیا گیا ہے اور اب یہ جاننا کوئی اسرار نہیں کہ جسم میں داخل کئے گئے اینٹی جینز کی جینیاتی ترتیب کون سے کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہے۔ اب اصل ویکسین کی تیاری کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

    کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سائنسدانوں نے پہلے ہی ڈی کوڈ کرلیا تھا۔ ڈیکوڈنگ کرنے کے بعد سیل کے اندر اس کی تعمیر کے لیے اس مخصوص کیمیائی ترتیب پر مشتمل میسنجر آر این اے کو لیباریٹری میں تیار کیا گیا اور پھر اس میسنجر آر این اے کو جسم میں ویکسین کی طرح داخل کیا گیا۔

    یہ باہر سے ہدایات لے کرآتا ہے اور براہ راست انسانی مسلز کے اندر اس کے سیل تک پہنچ کر کورونا وائرس کے مساوی اینٹی جنز کی تعمیر کی ہدایات پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا جب یہ اینٹی جینز تیار ہوئے تو انہوں نے جسم کے مدافعتی نظام کو تحریک دی ،جس سے یہ نظام ان اینٹی جینز پر حملہ آور ہوکر ان کی شکل اپنے میموری میں محفوظ کرلیتا ہے اور جونہی اصل وائرس کے مقابل آتا ہے اسے زیر کرنے میں دیر نہیں کرتا۔

    ڈی این اے بیسڈ ویکسینز پہلے تیار کئے جاچکے ہیں لیکن ایم آر این اے بیسڈ ویکسینز اس لحاظ سے مزید فائدہ مند ثابت ہوں گے کہ یہاں جسم میں موجود ڈی این اے کو چھیڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔

    یا یوں کہیں کہ بجائے ڈی این اے کو ایک نئی ترکیب بنا کر ایم آر این اے کے ذریعے آگے پہچانے کا کام دینے کے بجائے باہر سے براہ راست تیار کردہ ایم آر این اے کو وہی پیغامات اور ہدایات فراہم کردی گئیں جو وہ اصل میں ڈی این اے سے حاصل کرتا اور خلیئے تک لے کر جاتا ہے۔

    یہ طر یقہ زیادہ محفوظ ثابت ہوا جس میں انسانی جسم کے اندرونی نظام کے ساتھ کم سے کم چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ۔اس بات سے دنیا میں پھیلے اس افواہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانوں کے ڈی این اے میں اپنی مرضی کے مطابق ترامیم کی جا سکتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔

    ویکسین کا اہم جزو کیا ہے ؟

    فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی اس ویکسین کا اہم جزو میسنجر آر این اے ہے جسے ایک ننھے سے بلبلے میں مقید کیا گیا ہے۔ یہ بلبلہ فیٹی ایسڈ سے تیار کردہ ہے جسے نینو پارٹیکل کہا جاتا ہے۔ یہ بلبلے اس محلول میں معلق ہوتے ہیں جو دراصل سلائن ہوتا ہے۔ یہ سلائن مریض کے جسم میں ایسے ہی داخل کیا جاتا ہے جو کسی بھی مریض کو کمزوری دور کرنے کی خاطر ڈرپ کے ذریعے عام طور پردیا جاتا ہے۔

    اس ویکسین کی افادیت اور اس کا اثر کتنا طویل ہو سکتا ہے ابھی کمپنیاں اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فی الحال چھ ماہ کا اثر بھی قابل قبول ہوگا، تاہم موڈرنا کے سی ای او کا کہنا ہے کہ یہ اثر کئی سال بھی رہ سکتا ہے۔

    وبا میں مبتلا دنیا کے لیے اس وقت یہی بڑی خبر ہے کہ نئے ویکسین کا نتیجہ90 فی صد سے زیادہ ہے۔ خطرناک وبا سے خوفزدہ انسانیت کے لیے یہ کچھ دیر دم لینے کا وقت ہے، اگر یہ ویکسین چار سے چھ ماہ کے لیے بھی مؤثر رہتی ہے تو کم از کم اس وقت تک کے لیے جب تک مزید تحقیقات اور ترقیاتی کام جاری رہے اور لوگ خوف و ہراس کے ماحول سے باہر آ سکیں گے۔

    جہاں تک اس طریقۂ علاج اور ویکسین کے میکنزم کا تعلق ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اثر طویل المعیاد ہی ہوگا اور اس دوران ہونے والی مزید پیش رفت کورونا وائرس کی کسی بھی قسم کی واپسی اور دوبارہ سر اُٹھانے کے امکان کو یکسر نہیں تو بہت حد تک ختم کرچکی ہوگی۔

    خوشی آئند بات یہ ہے کہ اس دوران پاکستان میں ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم بھی صحت یاب ہوجانے والے مریضوں سے حاصل کئے گئے پلازمہ کی مدد سے ویکسین کی تیاری کا کام کر رہی ہے۔

    نیز چینی فارماسیوٹیکل کمپنی کے اشتراک سے بننے والی ویکسین بھی تب تک کلینیکل ٹرائلز سے آگے بڑھ کر ہیلتھ ریگولیٹرز کی منظوری حاصل کر چکی ہوگی۔

    ان تمام اقدام کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کرنا بے جا نہ ہوگا کہ سال 2021ءکے اوائل میں دنیا کووِیڈ19 کے خوف سے کچھ نہ کچھ حد تک نجات حاصل کرلے گی۔

  • نمونیا کیا ہے ؟ بیماری کی علامات اورعلاج

    نمونیا کیا ہے ؟ بیماری کی علامات اورعلاج

    نمونیا پھپھڑوں اور نیچے کی سانس کی نالی میں انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے، اس کی نشانیاں اور علامات کیا ہوتی ہیں اس کے علاج کیلئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔

    نمونیا ایک خطرناک مرض ہے جس کے باعث دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سبق ویب سائٹ کے مطابق نمونیا کی مختلف علامات ہوتی ہیں، جیسے سینے میں تکلیف، سانس لینے میں دشواری، زور دار کھانسی، گلے میں درد، شدید تھکاوٹ کا احساس اور بخار وغیرہ۔

    اس کی دیگر علامات

    اس کے علاوہ نمونیا کی علامات مختلف بھی ہوسکتی ہیں، وہ نزلہ و زکام یا نظامِ تنفس کے بالائی راستے کی علامات سے مماثلت رکھ سکتی ہیں،اس کی عام نشانیاں اور علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

    تیز بخار، کھانسی، سانس کا تیز تیز چلنا یا سانس لینے میں دشواری پیش آنا، پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آتی ہوں، بھوک کا نہ لگنا، کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا، عام طور پر تھکن سے چور اور ذہنی، جِسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا اور معدہ (پیٹ) کا درد بھی اس کی علامات میں شامل ہیں۔

    نمونیا عام طور پر نزلہ یا انفلوئنزا سے شروع ہوتا ہے  جس کے بعد بیماری کے پھیپھڑوں میں گھر کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر نمونیا کسی وائرس کی وجہ سے ہوا ہو تو ابتدائی دنوں میں اس کی علامات انفلوئنزا جیسی ہوں گی۔

    اس کے بعد کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بلغم بڑھ جاتی ہے، بخار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور سانس میں تنگی شروع ہو جاتی ہے۔

    بیکٹریا سے ہونے والا نمونیا جسم کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے جس وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے، اسی طرح سانس لینے میں دشواری بھی ہونے لگتی ہے۔

    نمونیا ہونے کے اسباب

    نمونیا کسی وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ بذات خود متعدی مرض نہیں ہے البتہ اس کے جراثیم کسی دوسرے شخص کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    اگر نمونیا کسی وائرس کے نتیجے میں ہوا ہو تو یہ جراثیم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس صورت میں شدید خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔

    خطرے کے عوامل

    نمونیا کا مقابلہ ایک صحت مند انسانی جسم باآسانی کر سکتا ہے، البتہ بچوں اور بوڑھوں کے لیے اس کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی کی عادت بھی نمونیا ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔

    علاج کیسے کیا جائے؟

    ڈاکٹرز ابتدائی طور پر تو سینے کا ایکسرے تجویز کرتے ہیں جس سے پھیپھڑوں کے بارے میں صحیح معلومات ملتی ہیں۔
    وائرس کے نتیجے میں ہونے والے نمونیا کے لیے اینٹی وائرس ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔

    نمونیا سے کیسے بچا جاسکتا ہے

    بیماری سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگوانے کی تجویز دی جاتی ہے جو سب سے مؤثر حل بھی سمجھا جاتا ہے۔ نمونیا اکثر انفلوئنزا کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لیے ہر سال فلو ویکسین لگوانا ہی اس سے بچاؤ کا بہترین حل ہو سکتا ہے۔