Tag: HEALTH TIPS

  • اخروٹ اور اس کے بے شمار طبی فوائد

    اخروٹ اور اس کے بے شمار طبی فوائد

    اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خشک میوے میں شمار کیا جانے والا اخروٹ ہمیشہ سے طبی لحاظ سے فائدہ مند قرار دیا جاتا ہے اور اسے موٹاپے سے بچاؤ کے لیے بھی بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    مگر روزانہ کچھ مقدار میں اسے کھانا جان لیوا امراض قلب کا باعث بننے والے کولیسٹرول کے مسئلے سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    ہاسپٹ کلینک آف بارسلونا کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر کے افراد اگر روزانہ اخروٹ کی کچھ مقدار (آدھا کپ) کا استعمال عادت بنالیں تو وہ نقصان دہ کولیسٹرول یا ایل ڈی ایل کی شرح میں معتدل کمی لاسکتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ اخروٹ کھانے سے جسم میں ایل ڈی ایل ذرات کی تعداد میں بھی کمی آتی ہے جو دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا تھا کہ گریاں بالخصوص اخروٹ کھانے سے امراض قلب اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ اس گری کے کھانے سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اب ہم نے ایک اور وجہ بھی دریافت کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اخروٹ کھانے سے ایل ڈی ایل ذرات کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے، ان ذرات کا حجم مختلف ہوسکتا ہے، چھوٹے کثیف ذرات شریانوں میں خون کی روانی روکنے کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 63 سے 79 سال کی عمر کے 708 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا اور انہیں 2 سال تک اخروٹ کا استعمال کراکے کولیسٹرول پر مرتب ہونے والے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل افراد کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور ایک گروپ کی روزانہ کی غذا میں آدھے کپ اخروٹ کا اضافہ کیا گیا جبکہ دوسرے کو اس گری سے دور رکھا گیا۔

    2 سال بعد ان گروپس کے کولیسٹرول لیول کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے والے گروپ میں شامل افراد کے ایل ڈی ایل کولیسٹرول لیول میں اوسطاً 4.3 ایم جی/ڈی ایل کمی آئی ہے اور ہر قسم کے کولیسٹرول کی سطح میں اوسطاً 8.5 ایم جی/ڈی ایل کمی آئی۔

    اسی طرح روزانہ اخروٹ کھانے سے ایل ڈی ایل کے مجموعی ذرات کی شرح میں 4.3، چھوٹے ایل ڈی ایل ذرات کی تعداد میں 6.1 فیصد کمی آئی جس سے دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ کم ہوگیا۔ اس گروپ میں شامل مردوں کے کولیسٹرول کی سطح میں 7.9 فیصد جبکہ خواتین کے کولیسٹرول میں 2.6 فیصد کمی آئی۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ کوئی حیران کن کمی نہیں، مگر تحقیق میں شامل افراد صحت مند تھے جو کسی غیر متعدی بیماری سے متاثر نہیں، بلڈ کولیسٹرول کے عارضے کے شکار افراد کا کولیسٹرول لیول اس گری کے استعمال سے زیادہ کم ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ کچھ مقدار میں اخروٹ کھانا دل کی صحت کو بہتر بنانے کا ایک آسان ذریعہ ہے، اخروٹ میں موجود صحت بخش چکنائی سے وزن میں بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سرکولیشن میں شائع ہوئے۔

  • کرسی پر بیٹھ کر یوگا کیسے کریں؟ ویڈیو دیکھیں

    کرسی پر بیٹھ کر یوگا کیسے کریں؟ ویڈیو دیکھیں

    گزشتہ چند دہائیوں کے دوران یوگا کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے اس حوالے سے کی گئی تحقیق نے نہ صرف یوگا کے بہت سے فوائد کو ثابت کیا ہے بلکہ شعبہ طب سے وابستہ افراد اور دیگر اہم شخصیات بھی اس ناقابل یقین مشق کو اپنانے اور تجویز کررہی ہیں۔

    لفظ ’یوگا‘ کے اصل معنی یکجا ہونے کے ہیں، یہ ایک ایسی مشق ہے جو جسم دماغ اور روح کو سانس کے ذریعے ساتھ جوڑتا ہے۔ بہت سارے لوگ اسے تربیت کا ایک قدیم طریقہ کہتے ہیں اور دوسرے اسے مشکل پوزیشن کا ایک مجموعہ کہتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف یوگی منور حسن نے بتایا کہ یوگا کرنا انسان کو طویل عمر تک جوان، متحرک اور صحتمند رکھتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یوگا آپ کی ذہنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتا ہے، یوگا کے فوائد میں آنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یوگا واقعی کیا ہے؟

    منور حسن نے بتایا کہ یوگا دماغ مین موجود اسٹریس ہارمونز کو کم کرتا ہے، اس کے علاوہ سانس لینے کی ورزش بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔

  • بالوں کو کلر کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال لازمی رکھیں

    بالوں کو کلر کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال لازمی رکھیں

    بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بالوں میں سفیدی کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اس کے برعکس 75 سے 80 فیصد لوگ بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے مخصوص رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ خواتین میں آج کل فیشن کے لیے بھی بالوں کو رنگوانا عام سی بات ہوگئی ہے اور ایسا ایک یا دو بار نہیں بلکہ متعدد بار کیا جاتا ہے جو بالوں کی صحت کیلئے اچھی مثال نہیں یعنی بال کلر کروانا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔

    ہیئر کلرنگ ایک نازک مرحلہ ہے جس کے لیے اس کے بارے میں علم اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق بالوں کے رنگنے کے لیے پیشہ ور افراد کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔بالوں کے رنگ میں کوئی تبدیلی کرتے وقت نیچے درج کی گئی ان 10 غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

    ہیئر سیلون میں نہ جانا

    اس میدان میں ماہرین کی مہارت کا استعمال بالوں کا صحیح رنگ منتخب کرنے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین بالوں کے رنگ کا تعین کرنے میں مدد کرتے ہیں جو جلد کے رنگ سے ملتے ہیں۔

    وہ متوقع نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتے ہیں، اس کے ساتھ بالوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی بتاتے ہیں جس کے بعد بالوں کی رنگت میں استحکام رہتا ہے۔

    بالوں کے ماہرین پر اندھا اعتماد

    بالوں کا رنگ منتخب کرنے میں ذاتی رائے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا آپ کو اپنے بالوں کا رنگ منتخب کرنے کے بارے میں اپنی رائے رکھنی چاہیے۔ جہاں تک ہیئر ڈریسنگ کے شعبے میں ماہرین کے کردار کا تعلق ہے، اس کا انحصار بالوں کے مناسب رنگ کا انتخاب کرنے اور اسے صحیح طریقے سے نافذ کرنے کے لیے مشورے فراہم کرنے پر ہے۔

    بالوں کا گہرا رنگ منتخب کرنا

    بالوں کے بہت گہرے رنگ کو اپنانے سے چہرے کی چمک مدھم ہو جاتی ہیں جبکہ ہلکے رنگ اسے روشن کرتے ہیں۔ جہاں تک اس قاعدے کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ایسا بالوں کا رنگ منتخب نہیں کرنا چاہیے جو آئی برو کے رنگ سے زیادہ گہرا ہے۔

    گہرا رنگ منتخب کرنا

    بالوں کے رنگ کو مستقل تبدیل کرنا ایک خطرہ ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے مستقل رنگنے کے مرحلے پر جانے سے پہلے عارضی بالوں کا رنگ اپنایا جائے۔

    گھر میں بالوں کا رنگ ہلکا کرنا

    بالوں کا رنگ ہلکا کرنا ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے اس کے لیے ماہرین کی مہارت کی ضرورت ہے۔ گھر پر لگانے سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر بالوں کا رنگ دو ڈگری سے زیادہ ہلکا ہو جائے تو نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

    جلد کے رنگ اور آنکھوں کے ساتھ بالوں کے رنگ کا میچ نہ ہونا

    بالوں کا قدرتی رنگ عام طور پر جلد اور آنکھوں کے رنگ جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی تبدیلی مسئلے کا باعث بنتی ہے اور نتائج کی ضمانت نہیں دی جاتی۔

    بالوں کے رنگ کا ناقص انتخاب جلد کو پھیکا یا بے جان بنا سکتا ہےجبکہ آنکھوں کو تھکا ہوا اور چمک سے خالی بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عام اصول یہ ہے کہ ہلکی جلد ہلکے رنگ کے بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور سیاہ جلد سیاہ بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

    دوسرا رنگ چھپانے کے لیے بالوں کا نیا رنگ منتخب کریں

    متوقع رنگ حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی اور رنگ نہ لگائیں۔ بلکہ بالوں کے لیے ہلکا پھلکا شیمپو اپنائیں جس سے مختصر عرصے میں نتائج بہتر ہوں گے۔ ہیئر ڈریسنگ کے شعبے کے ماہرین سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ غلطی کو درست کریں جو کہ رنگنے کے دوران کی گئی ہے۔

    عارضی رنگ تبدیل کرنے کے لیے نئے رنگ کا انتخاب کرنا

    عارضی بالوں کا رنگ منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہے گا اور یہ بالوں کے بار بار دھونے سے غائب ہو جاتا ہے لہذا اسے مستقل رنگ میں چھپانے کی ضرورت ہے۔

    مہندی کا سہارا لینا

    مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا اطلاق پیچیدہ ہے اور اس کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے کے ساتھ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس میدان میں ماہرین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیئر ڈریسنگ سیلون میں مہندی لگائی جا سکتی ہے۔

    بالوں پر رنگ لگاتے وقت ان کی حالت کو نظر انداز کریں

    خراب اور بے جان بالوں کو رنگنا ایک مشکل کام ہے۔ چاہے وہ عارضی ہو یا مستقل۔ اس معاملے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بالوں کو رنگنے سے پہلے ان کی حالت کو بہتر بنایا جائے اور یہ کام ہیئر ڈریسنگ سیلون کے ماہرین کو تفویض کیا جائے خاص طور پر رنگے ہوئے بالوں کی صورت میں جو رنگ میں نئی ​​تبدیلی لاتے ہیں۔

  • کون سی غذا قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے؟

    کون سی غذا قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے؟

    انسانی جسم میں موجود قوت مدافعت کے نظام کو ایک پیچیدہ نظام سمجھا جاتا ہے جس میں جسم کے بہت سے مختلف حصے ہم آہنگی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اسی لیے اس نظام کی مضبوطی بے حد ضروری ہے۔

    قوت مدافعت کی کمزوری بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہے اس لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کی مضبوطی کیلئے ہمیں پہلے ہی اقدامات کرلینے چاہئیں۔

    آپ کا طرزِ زندگی اور خوراک آپ کے مدافعتی نظام پر بہت اثر انداز ہوتی ہے، یہ آپ کا مدافعتی نظام ہی ہے جو آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اگر بیمار ہوجائیں تو اس سے صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے۔

    نیند، ورزش اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک کا استعمال بھی آپ کو امراض کے خلاف لڑنے میں بھرپور مدد دے سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پھلوں، سبزیوں، اناج، لحمیات، خشک میوہ جات اور بیجوں کا مناسب استعمال آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھتا ہے۔

    اسی طرح کھانے پینے کی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں غذائیت بہت کم ہوتی ہے اور ان کا زیادہ استعمال آپ کو موٹاپے، ذیابیطس اور دوسرے دائمی امراض کا شکار کر سکتا ہے۔

    یہ آپ کے مدافعتی نظام پر بھی ضرب لگاتی ہیں اور آپ کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ہے تو سب سے پہلے سوڈا یعنی کولڈ ڈرنک کا استعمال بند کردیں۔

    سافٹ ڈرنکس یا carbonated مشروبات میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ موٹاپے کے علاوہ یہ آپ کو کئی دائمی امراض میں مبتلا کر سکتی ہیں کہ جن کا تعلق کمزور مدافعتی نظام سے ہے۔ چینی کا بہت زیادہ استعمال سوزش (inflammation) میں اضافہ کرتا ہے جس سے امراض سے لڑنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

    سافٹ کے علاوہ ہارڈ ڈرنکس بھی مدافعتی نظام کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ نشہ آور مشروبات کے استعمال سے آپ کے جسم میں بیماریوں کا سامنا کرنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نمونیا اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کی زد پر آ جاتے ہیں، زخم دیر سے بھرتے ہیں اور بیماریوں سے صحت یابی میں تاخیر ہوتی ہے۔

    مشروبات ہی نہیں بلکہ فروزن فوڈز یعنی جمے جمائے کھانے بھی خطرے سے خالی نہیں۔ بچے کو پانچ منٹ میں بنا بنایا کھانا گرم کرکے دینا ویسے تو اچھا اور آسان لگتا ہے لیکن یہ مدافعتی نظام کے لیے مناسب نہیں۔

    ایسے فروزن فوڈز میں سوڈیم، چینی، چکنائی اور خالص نشاستہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ غذائیت اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی خوراک سے دوری ہی بھلی۔

  • برش پر ٹوتھ پیسٹ کی مقدار کتنی ہونی چاہیے ؟ خطرناک انکشاف

    برش پر ٹوتھ پیسٹ کی مقدار کتنی ہونی چاہیے ؟ خطرناک انکشاف

    جدید سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ برش پر ضرورت سے زیادہ ٹوتھ پیسٹ لگانا صرف دانتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ انسانی صحت کے لئے بھی انتہائی خطرناک ہے۔

    زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ برش پر جتنا زیادہ ٹوتھ پیسٹ ہوتا ہے یہ دانتوں کی صفائی میں اتنا ہی زیادہ کارآمد ہوتا ہے اور جھاگ زیادہ بننے سےدانتوں کی صفائی اچھے سے ہوتی ہے۔

    اس حوالے سے کینیڈا کے ڈینٹسٹ کریتھکا سربینڈرن نے کہا ہے کہ ٹوتھ پیسٹ کی مثالی مقدار بڑوں کے لیے ایک مٹر کے سائز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جبکہ یہ تین سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے چاول کے دانے کے سائز تک کم ہو جاتی ہے۔

    ضرورت سے زیادہ ٹوتھ پیسٹ کے نقصانات

    الرجل ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر کریتھکا سربندران نے نشاندہی کی ہے کہ لاکھوں لوگ ٹوتھ پیسٹ کی بہت زیادہ مقدار استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ منفی نتائج اور دانتوں کے مسوڑھوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور ان کے ٹوٹنے اور گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ٹوتھ پیسٹ میں فلورائیڈ جیسے فعال کھرچنے والے مواد ہوتے ہیں جو دانتوں کو اور مسوڑھوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، دانتوں کو برش سے زور سے رگڑنے کی وجہ سے دراڑیں اور سوراخ بھی ہو جاتے ہیں جن کا علاج مشکل ہوتا ہے۔

    یہ فلورائیڈ زہر کے برعکس ہے، ایک قسم کی بیماری جو دانتوں کی رنگت یا ان پر داغوں کے ظاہر ہونے کی خصوصیت رکھتی ہے۔ یہ بیماری ان بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے جو ٹوتھ پیسٹ کو اس کے ذائقے کی وجہ سے نگل جاتے ہیں۔

  • وٹامنز کی گولیوں کا استعمال کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟

    وٹامنز کی گولیوں کا استعمال کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟

    ماہرین نے صحت متنبہ کیا ہے کہ ملٹی وٹامنز کی گولیوں اور فوڈ سپلیمنٹ کا استعمال صحت کو فائدہ پہنچانے کے بجائے مختلف امراض میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    ان میں سے چند ایک مفید بھی ہیں لیکن بیشتر کے مسلسل استعمال سے خطرناک بیماریوں کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے، تحقیق کے بعد ماہرین نے یہ اخذ کیا ہے کہ سبزیاں کھائیں، خوب پانی پیئیں، ورزش کریں اور بہتر ہے کہ وٹامن کی گولیوں سے پرہیز کریں۔

    کون کون سے وٹامنز کی گولیوں اور فوڈ سپلیمنٹ کے ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر غذائیت ڈاکٹر اریج نے مفید مشوروں سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ لوگوں میں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر وٹامنز کا استعمال معمول بن گیا ہے جبکہ قدرتی غذاؤں سے وٹامنز اور منرلز کی کمی کو پورا کرنا ممکن بھی اور آسان بھی۔

    انہوں نے کہا کہ وٹامنز کے سپلیمنٹ ہر شخص کیلئے مؤثر اور موزوں نہیں ہوتے، اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے کیونکہ اگر جسم میں وٹامنز کی زیادتی ہوجائے تو وہ بھی نے حد نقصان دہ ہے۔

    ملٹی وٹامنز استعمال نہ کریں کیونکہ جو کچھ ملٹی وٹامن کی گولیوں میں ہوتا ہے وہ سب کچھ آپ کی متوازن غذا میں موجود ہوتا ہے۔ ملٹی وٹامن کی گولیوں کا پابندی سے استعمال گیس کی تکلیف، جگر اور گردے کے امراض کا باعث بنتا ہے۔

  • زیادہ دیر بیٹھنے کے نقصانات آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہیں، جانیے !!

    زیادہ دیر بیٹھنے کے نقصانات آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہیں، جانیے !!

    ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کاروبار یا نوکری آرام دہ ہو جس میں جسمانی مشقت کم سے کم ہو لیکن یہ چیز ہمارے جسم کیلئے کسی بھی طرح سود مند نہیں کیونکہ حرکت میں ہی برکت ہے۔

    کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ مسلسل کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے سے آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے اور قلبی امراض اور کینسر سے موت کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے؟

    Sitting in front of computer for a long time can make you sick

    درحقیقت کسی بھی نشست جیسے کسی ڈیسک پر، کرسی پر، گاڑی چلانے یا کسی اسکرین کے سامنے مسلسل بیٹھنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
    ویب سائٹ نیوز 18 کے مطابق "جب ہم بیٹھتے ہیں تو کھڑے ہونے یا چلنے کے مقابلے میں کم توانائی کا استعمال کرتے ہیں۔

    نئی تحقیق نے زیادہ دیر تک بیٹھنے کو صحت کے کئی خدشات سے جوڑ دیا ہے۔ ان میں موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، کمر کے گرد چربی میں اضافہ اور غیر معمولی کولیسٹرول شامل ہیں۔

    The dangers of sitting: why sitting is the new smoking - Better Health  Channel

    بیٹھنے کے وقت اور صحت کے خطرے والے عوامل کے درمیان ربط کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی جسمانی سرگرمی کے دن میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ بیٹھے رہتے ہیں، انہیں موت کے ایسے ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے موٹاپے یا تمباکو نوشی سے لاحق ہوتے ہیں۔

    طویل دیر تک بیٹھنا جسم پر کیسے اثر کرتا ہے؟

    سیدھا کھڑے ہونے سے ہمارا دل اور قلبی نظام زیادہ موثر انداز میں کام کرتے ہیں۔ جب ہم سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہماری آنتوں کا کام بھی زیادہ موثر ہوتا ہے۔

    عام لوگ آنتوں میں مسائل کی وجہ سے ہی ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح طویل عرصے تک بیٹھنا یا کئی گھنٹوں تک غیر فعال رہنا صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    These Are the 23 Very Scary Effects of Sitting Too Much | Slideshow | The  Active Times

    ٹانگ اور کولہے کے پٹھے:

    طویل دیر تک بیٹھنے سے ٹانگوں اور کولہوں کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ پٹھے چلنے اور ہمارے استحکام کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر یہ پٹھے کمزور ہو جائیں تو ورزش یا گرنے کی وجہ سے چوٹ لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    میٹابولزم کا مسئلہ:

    عضلات کو حرکت دینے سے ہمارے جسم میں جو چربی اور شکر ہم کھاتے ہیں ہضم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم بہت زیادہ دیر تک بیٹھتے ہیں تو نظام انہضام اتنا موثر نہیں ہوتا، لہذا جسم اس چربی اور شکر کو برقرار رکھے گا۔

    کینسر:

    نئی طبی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بیٹھے رہنے سے آپ کو پھیپھڑوں اور بڑی آنت کے کینسر سمیت کئی دیگر طرح کے کینسر ہو سکتے ہیں۔
    کام کے دوران چست اور صحت مند کیسے رہیں؟

    زیادہ دیر کے لیے بیٹھنا اتنا ہی برا ہے جیسے ایک دن میں سگریٹ کا پیکٹ پینا۔ جب آپ سرگرم ہیں تو آپ کی سطح اور برداشت میں بہتری آتی ہے اور آپ کی ہڈیوں میں طاقت برقرار رہتی ہے۔ آپ کو موقع ملنے پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوکر یا کام کرتے وقت چلنے کے راستے تلاش کرنے سے آغاز کرنا چاہیے۔

    ہر 30 منٹ بعد بیٹھنے سے وقفہ لیں:

    فون پر بات کرتے ہوئے یا ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں۔ اگر آپ کسی ڈیسک پر کام کرتے ہیں تو ایک اسٹینڈنگ ڈیسک پر کام کی کوشش کریں یا کوئی اونچی میز یا کاؤنٹر تیار کروائیں۔

  • عیدالاضحیٰ کے موقع اپنی صحت کا خاص خیال کیسے رکھا جائے؟

    عیدالاضحیٰ کے موقع اپنی صحت کا خاص خیال کیسے رکھا جائے؟

    عید الاضحٰی کے موقع پر جانور کی قربانی کے بعد اب تقریباً ہر گھر کے فرج اور ڈیپ فریزرز گوشت سے بھر چکے ہیں اور لوگ طرح طرح کے پکوانوں سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔

    اس کے علاوہ عید کے دو روز میں لوگوں نے جی بھر کر گوشت کی دعوتیں اڑائیں اور تکہ بوٹی سیخ کباب اور کڑھائی کے مزے لیے، کہیں بار بی کیو پارٹیاں منعقد کی جا رہی ہیں تو کہیں چپلی کباب کی خوشبو آپ کو بد پرہیزی پر اکسا رہی ہے۔

    یہ سلسلہ نہ صرف اگلے کئی دنوں تک جاری رہے گا بلکہ کچھ گھرانوں میں تو کئی ماہ تک قربانی کا محفوظ شدہ گوشت استعمال ہوتا رہے گا لیکن ان سب باتوں میں یہ نہ بھول جائیں کہ پیٹ آپ کا اپنا ہے اور آپ نے ہی اس کا خیال بھی رکھنا ہے۔

    اس حوالے سے آے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر اریج نے ناظرین کو اہم مشورے دیئے اور عید کے ان ایام میں خود کو کسی تکلیف یا بیماری سے محفوظ رہنے کے آسان طریقے بھی بتائے۔

    انہوں نے کہا کہ گوشت کو زیادہ دن تک فریج میں نہیں رکھنا چاہیے اس سے گوشت کی تازگی اور غذائیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے جو صحت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عید الضحٰی کے موقع پر گوشت کے استعمال میں اگر اعتدال سے کام نہ لیا جائے تو پیٹ اور معدے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں، معدے میں تیزابیت اور بد ہضمی ہونے سے دیگر امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بسیارخوری اور بہت زیادہ گوشت کھانے کی وجہ سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد اسپتال پہنچ جاتی ہے لہٰذا معتدل کھانے کے لئے دیگر اشیاء بالخصوص سبزیوں ، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

  • جگر کی خرابی کیسے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے؟؟ جانیے

    جگر کی خرابی کیسے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے؟؟ جانیے

    جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔ اگر جگر کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ باآسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

    جگر انسان جسم کے ان حصوں میں سے ایک ہے جن کو عام طور پر اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا جب تک وہ مسائل کا باعث نہیں بننے لگتے اور کچھ لوگوں کے لیے بہت تاخیر ہوجاتی ہے۔

    جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، یہاں ہم آپ کو ان علامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو جگر کی خرابی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اگر آپ کو ان میں سے کسی بھی علامت کا سامنا ہے توآپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    جگر کا درست طریقے سے کام کرنا متعدد وجوہات کے باعث اچھی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے تاہم اس کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اسے ہضم کرنے کے لیے جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر جگر کے سو سے زیادہ مختلف امراض ہوتے ہیں، جن کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہے جیسے کوئی انفیکشن، بہت زیادہ الکحل کا استعمال، مخصوص ادویات، منشیات، موٹاپا اور کینسر وغیرہ۔

    اگرچہ مختلف وجوہات کے باعث مختلف امراض کا سامنا ہوسکتا ہے مگر جگر کے بیشتر امراض سے عضو کو لگ بھگ ایک جیسے انداز سے ہی نقصان پہنچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جیسے لگتے ہیں اور ان کی علامات بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں۔

    اکثر اوقات جگر کے کسی بیماری اور اس سے متعلق علامات بہت تیزی سے ابھرتی ہیں، جس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر زیادہ تر جگر کے امراض دائمی ہوتے ہیں، یعنی ان میں عضو کو وقت کے ساتھ بتدریج نقصان پہنچتا ہے اور علامات بھی بتدریج سامنے آتی ہیں۔

    جگر کے امراض کی ابتدائی علامات

    بیشتر افراد جگر کے مختلف امراض کی ابتدائی علامات کو پہچان نہیں پاتے اور اگر ان پر توجہ چلی بھی جائے تو یہ جاننا مشکل ہوسکتا ہے کہ ان کی وجوہات کیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں درد، بھوک کا احساس نہ ہونا، تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ۔ ان علامات سے لوگوں کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ یہ عام سی بیماری ہے۔

     نمایاں علامات۔

    جلد یا آنکھوں کی رنگت پیلی ہوجانا (یرقان)

    جیسے جیسے جگر کے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے، تو مسئلے کی واضح نشانیاں ابھرنے لگتی ہیں، جلد کی رنگت معمول سے زیادہ زرد ہوسکتی

    ہیں جبکہ آنکھوں کی سفیدی میں بھی پیلاہٹ غالب آجاتی ہے، ڈاکٹر اسے یرقان کہتے ہیں۔

    خارش

    اگر جگر کے مسائل دائمی ہو تو خارش کا احساس بھی ایک علامت ہوسکتا ہے۔ ایسا اس وقت بھی ہوسکتا ہے جب کسی قسم کے جلدی مسائل کا سامنا نہ بھی ہو، یہ خارش سونا مشکل کرسکتی ہے، اگر ایسا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر ہے۔

    پیٹ پھول جانا

    اگر جگر داغ دار ہوجائے تو اس سے جگر کے لیے خون کی روانی رک سکتی ہے جس سے ارگرد کی خون کی شریانوں میں دبائو بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہونے سے سیال کا اخراج ہوتا ہے اور وہ پیٹ میں جمع ہوتا ہے۔ یہ سیال اور سوجن کم بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ بھی۔

    پیڑوں اور ٹخنوں میں ورم

    ٹانگوں کا سوجنا جگر کے امراض میں عام ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پیر اکثر سوج جاتے ہیں، تو یہ جگر میں مسائل کی نشانی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بھی سیال کے اجتماع کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں نمک کا کم استعمال یا ادویات سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

    پیشاب کی رنگت گہری ہونا
    جب جگر معمول کے مطابق بائل نامی سیال کو بنا نہیں پاتا یا جگر سے اس کا بہائو رکتا ہے، تو فضلے کی رنگت لکڑی کی طرح زرد ہوجاتی ہے جس کے ساتھ عموماً زرد جلد یا یرقان بھی نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیشاب کی رنگت بہت گہری ہوجاتی ہے۔

    تھکاوٹ اور الجھن

    ہر ایک کو کسی نہ کسی وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہی ہے مگر جگر کے امراض کے باعث جس تھکان کا تجربہ ہوتا ہے وہ بالکل متختلف ہوتی ہے۔ جگر میں خرابی کی صورت میں یہ عضو توانائی پر کنٹرول کرکے دن کو پورا کرنا انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔

    متلی اور قے

    جگر کے امراض کے نتیجے میں معدہ اکثر خراب رہنے لگتا ہے، جب مرض کی شدت بڑھتی ہے تو معاملہ بدتر ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں مسلسل قے یا متلی کا سامنا ہوتا ہے، جو جگر کے مسائل کی نشانی ہے۔ اگر جگر کے افعال تھم رہے ہیں یا جگر فیل ہورہا ہے تو قے میں خون بھی نظر آسکتا ہے۔

    جگر کے امراض سے حفاظت

    جگر کو مختلف امراض اور مسائل سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر اپنانے کی ضروت ہے۔ صحت مندانہ طرز زندگی اپنایا جائے۔ گوشت، پھل، سبزی، اور ڈیری غذائیں متوازن طریقے سے کھائی جائیں تاکہ جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری ہوں۔

  • بچے کیوں ہکلاتے ہیں ؟ اس کا آسان علاج کیا ہے؟ جانیے

    بچے کیوں ہکلاتے ہیں ؟ اس کا آسان علاج کیا ہے؟ جانیے

    ہکلانے پر قابو پانا ممکن ہے! بچوں میں ہکلاپن 2 سے 4 سال کی عمر کے درمیان پایا جاتا ہے، ہکلاہٹ کے شکار بچوں پر تنقید نہ کریں بلکہ ان کا علاج کروائیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہکلاہٹ کی پریشانی انسانوں کو کیوں ہوتی ہے اور اس پریشانی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے؟

    اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر راحیلہ خاتون نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

    ڈاکٹر راحیلہ خاتون نے بتایا کہ زبان میں پیدا ہونے والی اس لرزش یا لڑکھڑاہٹ کو ہکلاہٹ (اسٹٹرینگ) کہتے ہیں۔ اس مرض میں گفتگو کے دوران حرف کی ادائیگی میں پریشانی ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات ہمارے اطراف میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے بولتے وقت ان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے، جسے ہکلاہٹ یا لکنت کہا جاتا ہے، اگر اس مرض کو بچپن میں درست نہیں کیا گیا تو زندگی کے اہم مراحل میں یہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہکلاہٹ کی بےشمار وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں وجہ خاندانی سمجھی جاتی ہے، بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض والدین میں پائے جاتے ہیں اور بعد میں یہ پریشانی والدین کے جین کے ذریعہ بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

    تناؤنفسیاتی مسائل کے باعث بھی لوگوں کو گفتگو کرنے میں ہکلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات حادثات دماغی چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ جو ہمیں بولنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتا ہے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس شخص میں بھی ہکلاہٹ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ کبھی کبھی احساس کمتری کی وجہ سے بھی بچوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا بچوں کے ہم جماعت اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ، طنز اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ٹوکتے ہیں تو اس سے بچوں کی خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔

    اس کا علاج کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ اسپیچ تھراپی ہے، والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر میں بچوں پر درست بولنے کے لیے زبردستی دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہکلاہت خود بخود ہی وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔

    اگر یہ مسئلہ 4 سال کی عمر کے بعد بھی برقرار رہتا ہے تو والدین کو کسی ماہر اور اسپیچ لینگویج پیتھالوجسٹ (ایس ایل پی) سے رابطہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔