Tag: HEALTH TIPS

  • ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    یابیطس ایک مرض ہے جو ایسی صورت میں ہوتا ہے جب آپ کا جسم خون کے گلوکوز کو مناسب طرح سے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ ہمارا جسم خون میں گلوکوز کو توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    جب ہم کوئی ایسی غذا کھاتے ہیں یا پیتے ہیں جس میں کاربوہائیڈریٹ ہو، جیسے کہ چپاتی، چاول، بریڈ، آلو، پاستا، بسکٹس، مٹھائیاں، مشروبات اور پھلوں کا رس تو خون میں گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

    جب آپ کو ذیابیطس ہوتا ہے تو، آپ کے خون میں گلوکوز کی سطحیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ آپ کا جسم اس توانائی کے لیے اس گلوکوز کو مناسب طور پر استعمال نہیں کرپاتا جس کی اسے ضرورت ہے۔

    اگر اسے درست نہ کیا جائے تو یہ سنگین پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے جس کے سبب آپ اندھے ہوسکتے ہیں، آپ کو دل کا دورہ یا فالج ہوسکتا ہے یا یہاں تک کہ عضو کاٹنے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کا علم اکثر اس کے شکار افراد کو نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ خاموش قاتل کہنے کی وجہ ذیابیطس کے نتیجے میں جسم میں ہونے والی جان لیوا پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

    تاہم روزانہ کچھ مقدار میں پھلوں کو کھانا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔ یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس کے نتائج جریدے جرنل آف کلینکل اینڈوکرینولوجی اینڈ مٹابولزم میں شائع ہوئے۔

    اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ذیابیطس کے مریض کے دوران خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق 2019میں اس کے شکار افراد کی تعداد 46 کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس وقت بھی 37 کروڑ افراد میں ذیابیطس ٹائپ ٹو تشکیل پانے کا خطرہ ہے جو اس بیماری کی سب سے عام قسم ہے۔

    آسٹریلیا کی ایڈتھ کوون یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں پھلوں کی کچھ مقدار کو کھانا اگلے5 برسوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ 36 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایسا پھل کھانے سے ہوتا ہے اور پھلوں کے جوس سے ایسا کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور طرز زندگی میں پھلوں کو کھانے کی عادت کو اپنانا ذیابیطس سے تحفظ کے لیے زبردست حکمت عملی ہے۔

    اس تحقیق میں 7 ہزار 6 سو سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن کی جانب سے پھلوں اور پھلوں کے جوس پینے کے بارے میں تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پھل کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں 5 برسوں میں ذیابیطس کا خطرہ 36 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے پھلوں کے کھانے اور انسولین کی حساسیت کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا، یعنی جو لوگ زیادہ پھل کاتے ہیں ان میں بلڈ گلوکوز کی سطح کو کم کرنے کے لیے انسولین کی مقدار بھی کم بنتی ہے۔

    یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ انسولین کی زیادہ مقدار کی گردش سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ذیابیطس کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • لانگ کوویڈ کی کیا علامات ہیں اور یہ کیوں ہوتا ہے؟ جانیے

    لانگ کوویڈ کی کیا علامات ہیں اور یہ کیوں ہوتا ہے؟ جانیے

    کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس حوالے سے کئی ماہ سے مسلسل تحقیقی کام جاری ہے۔

    اب تک ایسا کوئی مصدقہ رسمی ٹیسٹ یا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس سے یہ تصدیق ہوسکے کہ کوویڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کو اس کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    تاہم اب ایسے مریضوں میں متعدد اقسام کی علامات کو دریافت کیا جاچکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر10 میں سے ایک یا 3 میں سے ایک مریض کو کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا رہتا ہے۔

    ابھی یہ واضح نہیں کہ لانگ کوویڈ کی علامات براہ راست وائرس کا نتیجہ ہوتی ہیں یا بیماری کے نتیجے میں جسم میں تناؤ اور صدمے کی کیفیت اس کا باعث ہے۔تاہم طبی ماہرین نے لانگ کوویڈ سے متاثرہ افراد میں درج ذیل علامات کو شناخت کیا ہے۔

    دماغی دھند، تھکاوٹ، نیند کے مسائل، سانس لینے میں مشکلات اور مسلسل کھانسی، دل کے مسائل، دماغی علامات اور امراض، سونگھنے کی حس سے محرومی، نظام ہاضمہ کے مسائل، خارش اور بالوں کا گرنا، سینے میں کھچاؤ، جوڑوں اور مسلز کی تکلیف، ذیابیطس، گردوں کے امراض اس کے علاوہ دیگر علامات جو اب تک بڑی تحقیقی رپورٹس کا حصہ نہیں بن سکیں۔

    دماغی دھند
    لانگ کووڈ پر ہونے والی 51 تحقیقی رپورٹس کے تجزیے پر مشتمل ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے ہر 5 میں سے ایک مریض کو ابتدائی بیماری سے صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی دماغی دھند کا سامنا ہوتا ہے، یعنی ذہنی الجھن، چیزیں بھولنا اور توجہ مرکوز نہ کرپانے جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق جس کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے، میں بتایا گیا کہ ان کا سامنا ایسے مریضوں کو بھی ہوسکتا ہے جن کو اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    تھکاوٹ
    چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کوویڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والی یعنی جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ہر 10میں سے 6 افراد کو بھی صحتیابی کے 6 ماہ بعد تھکاوٹ اور کمزوری کا سامنا ہوتا ہے۔

    نیند کے مسائل
    51تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے کے مطابق لانگ کوویڈ کے ہر5 میں سے ایک مریض کو بیماری کے 6 ماہ بعد بھی نیند کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    سانس لینے میں مشکلات اور مسلسل کھانسی
    73ہزار امریکی مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کوویڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں ایک سے 6 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات اور مسلسل کھانسی جیسی علامات عام ہوتی ہیں۔

    دل کے مسائل
    امریکا میں ہونے والے ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنا یا بے ترتیبی جیسے مسائل عام ہوتے ہیں۔ اسی طرح کووڈ 19 کے متاثرین میں صحتیابی کے 6 ماہ بعد ہارٹ فیلیئر اور بلڈ کلاٹس جیسی خطرناک پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں میں دل کے پٹھوں کے ورم کو بھی دریافت کیا گیا ہے۔

    دماغی علامات اور امراض
    ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے ایک تہائی مریضوں کو دماغی علامات یا ذہنی امراض کا سامنا 6 ماہ کے اندر  ہوسکتا ہے، ایسے افراد میں ذہنی بے چینی، چڑچڑا پن اور ڈپریشن جیسی علامات عام ہوتی ہیں۔

    سونگھنے کی حس سے محرومی
    ایک محدود تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن لوگوں کو کووڈ 19 کے دوران سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے، ان میں سے ایک تہائی کی یہ حس بیماری کے کئی ماہ بعد بھی بحال نہیں ہوتی۔

    نظام ہاضمہ کے مسائل
    چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 40 فیصد سے زیادہ مریضوں کو صحتیابی کے 3 ماہ بعد بھی نظام ہاضمہ کے مسائل جیسے کھانے کی اشتہا ختم ہوجانا، متلی، سینے میں جلن اور ہیضہ عام ہوتے ہیں۔

    خارش اور بالوں کا گرنا
    ایک تحقیق میں دریاافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں 6 ماہ بعد بھی جلد پر خارش کا سامنا تھا جبکہ چین میں ایک تحقیق میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں 6 ماہ بعد بالوں سے محرومی کو رپورٹ کیا گیا۔

    سینے میں کھچاؤ، جوڑوں اور مسلز کی تکلیف،
    لانگ کووڈ کی علامات پر ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 10 میں سے 9 افراد نے سینے میں کھچاؤ، مسلز میں تکلیف اور جوڑوں میں تکلیف جیسی علامات کو بیماری کے ایک مہینے بعد رپورٹ کیا۔ یہ علامات کچھ افراد میں کم از کم 7 ماہ تک موجود رہی تھیں، تاہم اس تحقیق کے نتائج تاحال کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔

    ذیابیطس
    ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں بیماری کے 6 ماہ بعد ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    گردوں کے امراض
    کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں گردوں کے دائمی امراض کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علامات بھی ہیں جو اب تک بڑی تحقیقی رپورٹس کا حصہ نہیں بن سکیں۔

    دیگر علامات
    لانگ کوویڈ کے مریضوں کی جانب سے متعدد دیگر علامات کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے جن کی سائنسدان ابھی تصدیق یا جانچ پڑتال نہیں کرسکے۔

    مثال کے طور پر کچھ مریضوں نے کانوں میں مسلسل گھنٹیاں بجنے کے مسئلے کو رپورٹ کیا جبکہ کچھ خواتین نے ماہواری یا مخصوص ایام
    میں بے ترتیبی کے بارے میں بتایا۔

  • گردوں کے امراض کے کیا اسباب ہیں؟ نئی تحقیق

    گردوں کے امراض کے کیا اسباب ہیں؟ نئی تحقیق

    چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن افراد کو اکثر ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بعد کی زندگی میں گردوں کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    دنیا بھر میں ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے جس کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے اور اس میں مبتلا شخص جب اس کا شدت سے شکار ہوتا ہے تو یہ متعدد ذہنی و جسمانی امراض کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں ڈپریشن کی علامات اور گردوں کے امراض کے شکار افراد میں گردوں کے افعال میں تیزی سے کمی کو دریافت کیا تھا۔ اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈپریشن کسی فرد کے گردوں کے صحت مند افعال پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔

    چین کی سدرن میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4 ہزار 700 سے زیادہ ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے گردے صحت مند تھے۔ تحقیق کے آغاز میں ان رضاکاروں میں سے 39 فیصد میں ڈپریشن کی شدید علامات موجود تھیں اور ان کا جائزہ 4 سال تک لیا گیا۔

    اس عرصے میں 6 فیصد کے گردوں کے افعال میں بہت تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔ محققین کے مطابق تحقیق کے آغاز میں ڈپریشن کی علامات اور آنے والے برسوں میں گردوں کے افعال میں تیزی سے آنے والی کمی کے درمیان نمایاں تعلق موجود ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اکثر ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے افعال میں کمی کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 1.4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    گردوں کے دائمی امراض دل کی شریانوں سے جڑی بیماریوں، گردے فیل ہونے اور اموات کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ثابت ہوتے ہیں تو ان امراض کا خطرہ بڑھانے والے عوامل کی شناخت سے متعدد پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ اگر نتائج کی مزید تصدیق ہوئی تو ہمارے ڈیٹا سے کچھ شواہد مل سکیں گے کہ کس طرح ڈپریشن کی علامات کی اسکریننگ سے گردوں کے امراض کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جلد جریدے سی جے اے ایس این میں شائع ہوں گے۔

  • آنکھوں میں سوجن یا ورم، احتیاط کیسے کی جائے؟

    آنکھوں میں سوجن یا ورم، احتیاط کیسے کی جائے؟

    آنکھوں کے نیچے پڑنے والے سیاہ حلقے اور سوجن خواتین کی خوبصورتی کو ماند کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خواتین آنکھوں کی دلکشی اور خوبصورتی بڑھانے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔

    آج کے دور میں روز مرہ کی مصروفیات، ذہنی و جسمانی صحت، غذائی عادات اور رہن سہن میں پہلے کی نسبت کافی حد تک نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے، مصروفیت کے اس دور میں اب انسان اپنی ظاہری خوبصورتی اور دلکشی سے بھی غافل ہو گیا ہے۔

    کیا آپ آنکھوں کی سوجن سے دوچار ہیں؟ آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ یہ کوئی غیر معمولی مسئلہ نہیں ہے۔

    سیدتی میگزین میں شائع رپورٹ کے مطابق جینیاتی عوامل، آنکھوں میں تناؤ یا پھر جلد کے مسائل یا روزمرہ کی غیر صحت بخش عادات آنکھوں میں سوزش کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آنکھوں کے نیچے کھیرے رکھنے یا کچھ کریم استعمال کرنے کے بجائے اس کی وجہ تک پہنچنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔

    آنکھوں میں سوجن اور ورم کا کیا سبب ہوتا ہے؟

    جسم میں کسی بھی وقت ضرورت سے زیادہ سوجن ہوسکتی ہے، اسے ورم ہونا کہتے ہیں۔ چونکہ آنکھوں کے آس پاس کی جلد فطرت کے مطابق پتلی ہوتی ہے ، اس وجہ سے یہ سوجن کے علاوہ سیاہ ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

    کچھ لوگوں کو حیرت ہوسکتی ہے کہ اس حصے میں مائع کیوں جمع ہوتے ہیں اور اس میں سوجن کیوں آتی ہے؟ اس کی بڑی وجہ آپ کی کچھ عادتیں ہیں۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ خود اپنی آنکھوں کی سوجن میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں کچھ چیزیں ہیں جو آپ کرتے ہیں اس سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    بہت زیادہ نمک کھانا

    سب سے پہلے کھانے میں اپنے نمک کی مقدار کو چیک کریں۔ نمک خود بخود جسم کے مائع کو اکٹھا کرلیتا ہے جو آپ کی آنکھوں اور دل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دل کا دورہ پڑنا اور فالج ہونے کی یہی وجہ بنتا ہے، تجویز کیا جاتا ہے کہ آپ روزانہ 2300 ملی گرام سے زیادہ نمک نہ لیں۔

    کم مقدار میں پانی پینا

    جب جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے تو آنکھیں پھول جاتی ہیں۔ دراصل، آنکھوں کے آس پاس کے حصے رگوں اور اعصاب سے بھرے ہوئے ہیں، پانی کی مقدار میں اضافہ کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ کافی پانی پی رہے ہیں۔

    کم سونا

    جب آپ کو مناسب آرام نہیں ملتا تو آپ اگلی صبح صرف اپنی آنکھوں میں دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب مناسب نیند نہیں لیں گے ت آنکھوں کے گرد سوجن ہوگی۔ رات کو کم از کم 6-8 گھنٹے اچھی نیند لینا اور مناسب آرام حاصل کرنا آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔

    رات کو میک اپ نہ دھونا

    خواتین آنکھوں کے نیچے کے حصے میں بھی میک اپ کا ستعمال کرتی ہیں جاسکتا ہے اس لیے اس حصے کو تروتازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کو اپنے چہرے کو دھوئیں۔

    تمباکو کی مصنوعات کا استعمال

    سگریٹ میں موجود زہریلا مواد جلد کی لچک کو ختم کردیتا ہے، جنیکوٹین ، سگریٹ میں پایا جانے والا مادہ آپ کو متحرک رکھتا ہے اور نیند کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

    سورج کی تیز روشنی کا سامنا کرنا

    سورج کی گرمی سے جلد کے ان خلیوں کو نقصان ہوتا ہے جو آپ کی جلد کو لچکدار بناتے ہیں۔ سورج کے سامنے آنے کے دوران سورج کو براہ راست دیکھنے سے اجتناب کریں۔

  • اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔

    اونٹنی کا دودھ ، دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن سی، فولاد، کیلشیئم، انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

    اونٹنی کے دودھ پر عرصہ دراز سے تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک اس کے کئی فوائد سامنے آچکے ہیں تاہم تازہ ترین تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ اپنے اندر بیش بہا خصوصیات رکھتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    متحدہ عرب امارات یونیورسٹی نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ کے اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات کرنے کے منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔

    اس منصوبے پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد اس دودھ سے مزید فوائد حاصل کرنا ہے خاص طور پر وہ فوائد جن سے ذیابیطس کے مریض مستفید ہوسکیں۔

    اونٹنی کا دودھ متحدہ عرب امارات اور دنیا کے بہت سارے حصوں میں ایک مقبول شے ہے۔ یہ ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے خلاف اپنے علاج معالجے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ بھی وسیع پیمانے پر نوٹ کیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ گلیسیمک کنٹرول کو راغب کرنے کے لئے درکار انسولین کی خوراک کو کم کرتا ہے اور خون میں گلوکوز کو بہتر بناتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات دنیا بھر میں بہت سارے محققین نے کی ہیں چنانچہ متحدہ عرب امارات کے کالج آف سائنس کے شعبہ حیاتیات سے ڈاکٹر محمد ایوب، ڈاکٹر ساجد مقصود کی لیب ، متحدہ عرب امارات کے زید سینٹر برائے ہیلتھ سائنسز یو اے ای یو کے تعاون سے ، متحدہ عرب امارات کے محکمہ فوڈ سائنس ، کالج آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کی لیب نے مشترکہ طور پر اونٹنی کے دودھ کی غذائیت اور خصوصیات کا مطالعہ کیا۔

    اس مطالعے کا مقصد اونٹنی کے دودھ میں پروٹین حصوں سے جراثیم کش اینٹی ڈئباٹک ایجنٹ کی نشاندہی کرنا اور سالماتی سطح پر اس کے عمل کے انداز کو سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر ایوب اور ڈاکٹر مقصود نے حال ہی میں ایک مطالعہ شائع کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اونٹ کے دودھ سے نکالا جانے والا جیوپیوٹک پیپٹائڈس انسانی انسولین ریسیپٹر اور خلیوں میں گلوکوز کی نقل و حمل پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک اور تحقیق میں اونٹنی کے دودھ میں پروٹین کے علاوہ ذیابیطس سے بچنے والی خصوصیات کے حق میں بھی ثبوت فراہم کیے گئے جس میں ذیابیطس چوہوں میں اینٹی ہائپرگلیسیمیک اثر کا تجربہ کیا گیا۔ یہ نتائج انتہائی امید افزا ہیں اور اونٹ کے دودھ کی بنی مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ذیابیطس کے خلاف جنگ میں ایک پیشرفت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    اس طرح اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک ڈیزاسٹ خصوصیات کی تحقیقات سے ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور متحدہ عرب امارات اور دنیا میں اس دائمی بیماری کے خلاف جنگ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

    اس کے علاوہ اس طرح کی دریافتیں متحدہ عرب امارات کی معاشی نمو میں خاص طور پر اونٹنی کے دودھ پر مبنی ذیابیطس کے علاج سے متعلق ادوایات کی دریافت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کو ایک اہم معاشی وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے ہیں۔

  • آپ کے پیٹ اور کمر کا سائز دل کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ جانیے

    آپ کے پیٹ اور کمر کا سائز دل کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ جانیے

    ماہرین طب اور محققین کا کہنا ہے کہ پیٹ اور کمر کے سائز سے کسی بھی انسان میں دل کی خطرناک بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    محققین نے کہا ہے کہ انسانی جسم کے دو اہم حصے، پیٹ اور کمر کی گولائی یا اس کے محیط سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس انسان میں دل کی مہلک بیماریوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔

    اگر آپ موٹاپے سے متعلق امراض جیسے دل کی شریانوں کی بیماریاں یا ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کمر کے حجم پر نظر رکھنا ہوگی۔

    جسمانی وزن کے ساتھ کمر کا حجم دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کے خطرے کی پیشگوئی کا ایک بڑا  ذریعہ ہوسکتا ہے۔

    یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ  موٹاپے کی طرح توند نکلنا یعنی پیٹ اور کمر کا حجم بڑھ جانا دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ہے۔

    تحقیق کے مطابق ڈاکٹروں کو جسمانی وزن کے ساتھ کمر کے حجم پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے قبل بھی مختلف تحقیقی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ توند نکلنا بھی لوگوں میں امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    مگر کینیڈا کی کوئینز یونیورسٹی اس کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ کمر کی پیمائش کو اکثر کرنا دیگر اہم نشانیوں کی طرح اہم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ماہرین تمام مریضوں کے بلڈ پریشر کو دیکھتے ہیں، تو کمر کی پیمائش بلڈ پریشر سے زیادہ مشکل نہیں، جس کے لیے بس2منٹ درکار ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ توند کا نکلنا امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ یہ خطرہ ان افراد میں کم ہوتا ہے جن کی توند نہیں نکلی ہوئی ہوتی۔

    محققین نے بتایا کہ درمیانی عمر یا بوڑھے افراد میں جسمانی وزن سے ہی ان کو لاحق طبی خطرات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

    طبی جریدے نیچر ریویوز اینڈوکرینولوجی میں شائع تحقیق میں کمر کا حجم بڑھنے اور قبل از وقت موت کے خطرے میں مضبوط تعلق کو دریافت کیا گیا اور ایسا کم جسمانی وزن کے حامل افراد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

  • بچوں میں آئرن کی کمی، علامات اور علاج

    بچوں میں آئرن کی کمی، علامات اور علاج

    غذا میں آئرن کی کمی جسم میں خون کی کمی کی ایک عام وجہ ہے، بچے ملیریا اور پیٹ میں کیڑوں کی وجہ سے بھی خون کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    آئرن کی کمی شیرخوار اور چھوٹے بچوں میں جسمانی اور ذہنی نشوونماء کو نقصان پہنچا سکتی ہے یہاں تک کہ معمولی سی کمی بھی ذہنی نشوونما کو متاثر کرسکتی ہے۔

    کسی بھی بچے کے جسم میں اگر آئرن کی کمی ہو جائے تو اسے انیمیا کہتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں میں آئرن کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟ بچوں کی نشونمأ اور افزائش کے لیے آئرن سے بھرپور غذا لازمی ہے۔

    بچوں کو بڑا ہونے کے لیے لگاتار آئرن کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ جسم میں آئرن کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایسے بچے جو آئرن والی خوراک نہیں کھاتے یا پھر بعض بچوں کا جسم آئرن لینے سے انکار کر دیتا ہے، انہیں انیمیا ہو جاتا ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ جسم کے خلیوں کو صحیح مقدار میں آکسیجن نہیں پہنچ رہی، جس کی وجہ سے بچے کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کمزور، تھکا ہوا اور چڑچڑا محسوس کرتا ہے۔

    خون کی کمی کی علامات میں ہتھیلیوں، زبان، پلکوں کے اندر کی جانب اور ہونٹوں پر زردی کے ساتھ ساتھ تھکن اور سانس کا پھولنا شامل ہے۔

    آئرن کی کمی کیسے پورا کیا جائے؟

    آئرن کی کمی دور کرنے کے لیے بچے کو سپلیمنٹ (فیرس سلفیٹ) دینا ضروری ہے، جس کے لیے بچوں کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

    آئرن سپلیمنٹ وٹامن سی کے ساتھ دیں تو وہ جلدی ہضم ہوجاتا ہے یا پھر اسے خالی پیٹ دیاجائے۔ اگر کھانے کے ساتھ دیا جائے تو اس کا اثر کم ہو جاتا ہے، آئرن سپلیمنٹ دودھ یا دودھ سے بنی کسی شے کے ساتھ نہ دیا جائے۔

    آئرن حاصل کرنے والے فارمولے یا سیریل، گندم کی کریم، دلیہ، آئرن سے بھرے ناشتے کے سیریل، پھلیاں، کابلی چنے، مسور کی دال،پکے پکائے بین (کین کے اندر)، اوون میں پکے آلو (چھلکے سمیت)، خشک پھل، خشک خوبانی، خشک انجیر، میوے، پرون جوس، اعلیٰ قسم کا پاستا، اعلیٰ قسم کے چاول، سخت ٹوفو، گڑ کا شیرہ، بلیک اسٹریپ، بروکلی، پالک۔

    جانوروں اور پودوں سے حاصل کی گئی خوراک میں آئرن پایا جاتا ہے، جانوروں سے حاصل کیا گیا آئرن ہیمی آئرن کہلاتا ہے جبکہ پودوں سے حاصل کیا گیا آئرن نان ہیمی آئرن کہلاتا ہے۔ انسانی جسم نان ہیمی آئرن کی نسبت ہیمی آئرن کو زیادہ اچھی طرح سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ آئرن ایک معدنی شے ہے اور ہر شخص کے جسم کو اپنا کام کرنے اور ہیموگلوبن بنانے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہیموگلوبن خون میں سرخ جرثومے ہوتے ہیں جو آکسیجن کو جسم کے دوسرے حصوں میں پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

  • وزن کم کرنے کا نہایت آسان اور سستا طریقہ

    وزن کم کرنے کا نہایت آسان اور سستا طریقہ

    زیادہ وزن یا موٹاپا، اگر آپ ان مسائل سے دوچار ہیں تو یہ جان کر آپ کو اچھا لگے گا کہ بھوکا رہنے یا کم کھائے بغیر بھی وزن کم کیا جاسکتا ہے۔

    آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں سے زیادہ صحت مند غذا کون سی رہے گی اس کیلئے ہمیشہ غذائیت سے بھرپور اشیاء کا انتخاب کریں۔

    اس بات میں کوئی شک نہیں جب لوگ وزن کم کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ کم سے کم وقت میں ہی حل ہو جائے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ہربلسٹ رانی آپا نے وزن کم کرنے کا نہایت آسان نسخہ بتایا جس پر عمل کرکے آپ باآسانی اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

    مسئلہ سے چھٹکارا پانے کیلئے رانی آپا نے ایک سفوف بنانے کا طریقہ بیان کیا جس کو دن میں ایک چمچ تین بار استعمال کرنا ہے اور اس کے کوئی مضراثرات بھی نہیں ہیں۔

    سفوف بنانے کا طریقہ :

    دار چینی پاؤڈر25 گرام، چھوٹی الائچی دس گرام، سفید زیرہ25گرام، سونٹھ یعنی سوکھی ادرک پسی ہوئی25گرام ، دس گرام اجوائن اور کڑی پتہ پچیس گرام۔ چھوٹی الائچی کا چھلکا اتار کر ڈالا جائے۔

    اب ان تمام اشیاء کو اچھی طرح پیس کر اس کا سفوف بنالیں اور دن میں تین بار سادے پانی کے ساتھ اسے استعمال کریں اور یاد رہے کہ اس کے کوئی سائیڈ افیکٹس نہیں ہیں۔

    یہ بات یاد رکھیں کہ وزن کے بڑھنے میں کیلوریز کا براہِ راست کردار ہوتا ہے، مثلاً آپ کتنی کیلوریز کھاتےہیں، اس میں سے کتنی کیلوریز آپ جسمانی مشقت کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور کتنی آپ کے جسم میں بچ جاتی ہیں۔

    آپ کو استعمال ہونے والی کیلوریز میں سے جسم میں بچ جانے والی کیلوریز میں توازن پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے جسم میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز بچا رہے ہیں اور انہیں جسمانی مشقت کے ذریعے استعمال نہیں کررہے تو یقیناً آپ کا وزن بڑھنا شروع ہوجائے گا۔

  • بالوں کی سفیدی روکنے کا آسان علاج اور مفید مشورے

    بالوں کی سفیدی روکنے کا آسان علاج اور مفید مشورے

    انسان کے بال عموماً 35 سال کی عمر کے بعد تقریباً سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں لیکن اس کا آغاز نوجوانی میں بھی ممکن ہے آج کل ان مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    بالوں کے سفید ہونے کی اہم علامت یہ ہے کہ بالوں کو باقاعدہ نشوونما کا موقع نہیں ملتا،35 سال کی عمر سے پہلے بالوں کاسفید ہوجانا قبل از وقت کہلاتا ہے، یہ انقلابی تبدیلی تیزی سے آتی ہے لیکن بے شک راتوں رات نہیں ہوتی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بتول اشرف ناظرین کو اپنے مفید مشوروں سے آگاہ کیا اور سفید بالوں کے علاج کیلئے سستا اور آسان طریقہ بیان کیا۔

    ڈاکٹر بتول اشرف نے بتایا کہ بالوں کی سفیدی روکنے کیلئے زنک کا ستعمال بہت ضروری ہے یہ زنک ہمیں مچھلی آم آلوچے سے وافر مقدار میں ملتا ہے، اس کے علاوہ بیر میں بھی زنک کی کافی مقدار ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کے بال اگر سفید ہونے لگیں تو انہیں زنک کا سیرپ پلانا چاہیے، دس سال سے زائد عمر کے بچوں کو دن میں ایک بار ایک چائے کا چمچ پلاسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ڈاکٹر بتول اشرف نے سفید بالوں کو کالا کرنے کیلئے تیل بنانے کا نسخہ بھی بتایا۔

    تیل بنانے کا طریقہ:

    آدھا گلاس پانی میں دس نیم کے پتے اچھی طرح گرم کرلیں اس کے بعد لیونڈر آئل کے پانچ قطرے ڈال لیں، اگر یہ نہ ملے تو بادام کا تیل بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس کے بعد روز میری کے دو چمچ اس میں اور شامل کرلیں اور چار یا پانچ چھوٹی الائچی کے دانے اور 25 سے 30عدد لونگ ڈالیں اس کے ساتھ تیز پات کے چند پتے بھی ڈال لیں۔

    جب پانی میں ابال آجائے تو سوتی کپڑے سے اس پانی کو چھان لیں اور اس پکڑے کی پوٹلی بنا کر اسی پانی میں ہلکا سا ڈبوئیں اور بالوں کی جڑ سے لے کر نوک تک لگائیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تیل لگانے کے زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے بعد نہا سکتے ہیں، یہ عمل تین مہینے تک کریں، اس نسخے کو بچے اور بڑے سب استعمال کرسکتے ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق صحت مند بالوں کے لیے وٹامن ای لازمی ہے مگر چینی اس وٹامن کے جذب ہونے کے عمل کو روک دیتی ہے، اس لیے بال سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں، چینی کا استعمال کم کرکے بالوں کو سفید ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

  • ڈائٹنگ کیوں اور کیسے کرنی چاہیے؟

    ڈائٹنگ کیوں اور کیسے کرنی چاہیے؟

    ڈائٹنگ کا نام سن کر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں کھانا پینا بالکل چھوڑ دینا چاہیے لیکن ایسا کرنے سے کبھی کبھی ہمارا وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ بھی جاتا ہے۔

    طبی و غذائی ماہرین کے مطابق وزن میں کمی اور متحرک زندگی کے لیے ہر انسان کو ڈائٹنگ کرنی چاہیے، ڈائٹنگ کھانے پینے کا ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان صرف مثبت اور بہتر غذا کا انتخاب کرتا ہے اور مضر صحت غذاؤں اور مشروبات سے خود کو دور رکھتا ہے۔

    وزن کم کرنے کے لیے جاری ڈائٹنگ کے دوران اپنی پسندیدہ غذا کھانے کو "چیٹ میل” کہا جاتا ہے جبکہ جس دن ڈائٹنگ چھوڑ کر بلاجھجک اپنی پسند کی غذا کا استعمال کیا جائے اسے”چیٹ ڈے” کہتے ہیں۔

    ماہرین کا "چیٹ میل” سے متعلق کہنا ہے کہ صرف یہ اہم نہیں ہے کہ چیٹ میل میں کیا کھایا جا رہا ہے بلکہ کس وقت کھایا جا رہا ہے اور کونسا وقت بہتر ہے یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے۔

    مثبت غذاؤں میں پھل، سبزیاں اور ان سے بنی ہوئی اسموتھی، سوپ سلاد شامل ہے جن کا ذائقہ کسی کو بھی پسند نہیں آتا اور ہر کوئی اپنی پسند کا کھانا کھانے کے لیے "چیٹ ڈے” کا انتظار کرتا ہے۔

    چیٹ ڈے اور چیٹ میل غذائی ماہرین کی جانب سے مثبت قرار دیا جاتا ہے، ڈائٹنگ کے دوران اپنی من پسند غذاؤں سے مکمل طور پر منہ موڑ لینا مثبت عادت نہیں، ایسا کرنے سے انسان میں غصہ اور غذا سے متعلق بھوک بڑھنے لگتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے بھر میں ایک دن چیٹ ڈے بھی ہونا چاہیے، چیٹ ڈے کے سبب انسان خود کو پر سکون اور مطمئن محسوس کرتا ہے اور آنے والے ہفتے میں ڈائٹنگ کے لیے ذہنی طور پر دوبارہ تیار بھی ہو جاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ صبح کھایا ہوا کھانا جلد ہضم اور کیلوریز کے جلنے کا عمل تیز ہوتا ہے جبکہ شام کے اوقات میں مرغن، میٹھی، فاسٹ فوڈ اور چٹ پٹی غذائیں تاخیر سے ہضم ہوتی ہیں اور کیلوریز بھی جلنے کے بجائے جسم میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔