Tag: HEALTH TIPS

  • گردے کی بیماریوں سے بچاؤ کیلئے مفید سبزیاں

    گردے کی بیماریوں سے بچاؤ کیلئے مفید سبزیاں

    گردے انسانی جسم کا اہم عضو ہیں، دنیا میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

    پاکستان میں اس حوالے سے مستند اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد گردے کے امراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے نزدیک گردوں کے لیے صحت بخش غذا اپنانا ہی گردوں کے صحیح طرح کام کرنے کا عمل جاری رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔

    گردے کا کام بہتر بنانے کے مختلف طریقے پائے جاتے ہیں۔ ان میں صحت بخش غذا کھانا بہترین راستہ ہے۔ درج ذیل غذائی اشیاء کھانے سے گردوں کا عمل بھرپور بنایا جا سکتا ہے اور گردے سے متعلق امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

    گوبھی

    گوبھی کو فولک ایسڈ اور ریشے کا اچھا ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔ وٹامن سی ہونے کے سبب یہ انسانی جسم میں پیشاب کے نظام کی کارکردگی اچھی رکھتی ہے۔ گوبھی وٹامنوں سے بھرپور غذا شمار ہوتی ہے۔ اس میں سوڈیم، پوٹاشیم اور فاسفورس کا ارتکاز کم ہوتا ہے۔ یہ آلو کا ایک اچھا متبادل ہے۔

    بند گوبھی

    نباتیاتی کیمیائی مواد سے بھرپور بند گوبھی گردے کی صحت کے واسطے ایک بہترین غذا شمار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس میں وٹامن بی 6، بی 12، کے، فولک ایسڈ اور غذائی ریشہ بھی پایا جاتا ہے۔

    لہسن

    لہسن میں سوڈیم، فاسفورس اور پوٹاشیم جیسے صحت بخش عناصر اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی لہسن سوزش کے خلاف ایک بھرپور عامل شمار ہوتا ہے۔ اس سے خون میں کولسٹرول کی مقدار بھی کم ہوتی ہے۔ لہسن کھانے میں ڈالے جانے والے نمک کا اچھا متبادل ہے جو گردے کے مریضوں کے لیے کھانا ممنوع ہوتا ہے۔

    پیاز

    گردے کے لیے صحت بخش غذاؤں میں پیاز بھی شامل ہے۔ یہ نمک نہ ہونے کی صورت میں کھانے میں ذائقے کا اضافہ کرتی ہے۔ پیاز وٹامن بی، وٹامن سی اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتی ہے جو آنتوں کی صحت بہتر بناتا ہے۔ پیاز میں موجود اینٹی آکسائیڈ مواد جسم سے زہریلے عناصر کو ختم کر کے گردے کو صاف کرتے ہیں۔ لہذا کچی یا پکی ہوئی پیاز ہر طرح سے گردے کی صحت برقرار رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔

    چقندر

    چقندر کو طویل عرصے سے انسانی جسم میں خون کا بہاؤ منظم کرنے اور فشار خون کی سطح برقرار رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ چقندر کی جڑیں وٹامن بی 6 اور وٹامن کے سے بھرپور ہوتی ہیں۔ یہ دونوں گردے کی کارکردگی اچھی بنانے میں کام آتے ہیں۔

    مولی

    مولی کو اینٹی آکسائیڈز مواد سے بھرپور سبزیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاہم یہ پوٹاشیم اور فاسفورس کے کم تناسب کے سبب بھی امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ تحقیقی مطالعوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ مولی حیران کن طور پر گردے کی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

    کھیرا

    تحقیقی مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ کھیرا کھانا انسانی جسم میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کھیرے سے گردے میں موجود چھوٹی پتھریاں بھی گھل کر ختم ہو سکتی ہیں۔

  • گرمی میں کس قسم کے مشروبات مفید ہیں؟ جانیے!

    گرمی میں کس قسم کے مشروبات مفید ہیں؟ جانیے!

    کراچی : شہر قائد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں گرمی اپنے قدم جما رہی ہے، گرمی کے موسم میں جسم سے پانی پسینے کے ذریعے خارج ہوتا ہے اس لئے پیاس بھی شدید لگتی ہے۔

    پیاس کی شدت کو کم کرنے اور جسم میں نمکیات کی مقدار کو برقرار رکھنے کیلئے گھر میں بنے مشروبات فرحت بخش اور مفید ہوتے ہیں۔

    جس سے جسم میں تقویت کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی بھی پوری ہوجاتی ہے، شدید گرمی کا اثر کم کرنے اور ترو تازہ رہنے کیلئے فرحت بخش مشروبات جو آپ گھر پرباآسانی بناسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈاکٹر بلقیس نے ناظرین کو گرمی سے بچاؤ کیلئے مفید مشورے دیئے اور مشروبات کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

    ڈاکٹر بلقیس نے بتایا کہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے سب سے پہلے لسی یا کچی کا ستعمال بہت اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ ملیٹھی کا پانی بھی اس کیلئے مفید ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ آدھا چمچ ملیٹھی ایک لیٹر نیم گرم پانی میں ڈال کر استعمال کریں، اس کیلیے کوئی عمر کی قید نہیں مریض بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ یہ پیاس کی شدت کو کم کرتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈائٹنگ کرنے والے افراد نمک کا استعمال بہت ہی کم کرتے ہیں جو مناسب نہیں، گھر میں بروقت اگر کچھ دستیاب نہ ہو تو نمک اور چینی ملا پانی پیئں ہوسکے تو لیموں بھی ڈال دیں۔

    اس کے علاوہ گرمی کے موسم میں دہی کا استعمال نہایت مفید ہوتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی اور مزے دار لسی سے نہ صرف ہاضمہ درست رہتا ہے بلکہ لسی گرم ہوا سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔

  • گاڑی چلاتے ہوئے بار بار نیند آنا، علاج کیسے کیا جائے؟

    گاڑی چلاتے ہوئے بار بار نیند آنا، علاج کیسے کیا جائے؟

    کام کے دوران سوجانا ایک فطری عمل ہے، یہ کام عموماً دفاتر میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے، اس کی وجہ رات کو نیند کی کمی یا دوپہر کے کھانے کے بعد غنودگی طاری ہونا ہے۔

    لیکن گاڑی چلاتے ہوئے اونگھنا یا غنودگی کے باعث سستی کا مظاہرہ کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ذرا سی بھی غفلت بڑے حادثات کا سبب بن جاتی ہے۔

    دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی ڈرائیونگ کے دوران نیند آنے سے خوفناک ٹریفک حادثات میں کئی جانیں ضائع جاتی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق اونگھ کی وجہ سے مملکت میں یومیہ10 اموات ہورہی ہیں۔

    اس حوالے سے ایک سعودی میگزین میں ڈاکٹر سعد الشریف نے ڈرائیونگ کے دوران آنکھ لگنے کے متعدد اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور اس سے بچاؤ کا طریقہ بیان کیا ہے۔

    نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دن کے وقت اونگھنے کے بہت سارے اسباب ہیں، ان میں نمایاں ترین رات کو دیر تک جاگنا، رات کے وقت کی بھرپور نیند نہ لینا، نیند میں انتشار، ذہنی اور اعصابی پریشانی اور بعض خصوصی ادویات کا استعمال ہے۔

    ڈاکٹر سعد الشریف نے اونگھ کے مسائل سے بچنے کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ رت جگے سے پرہیز کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ نیند کے معمولات درست کیے جائیں، رات کے وقت معقول نیند کا اہتمام کیا جائے، دن کے وقت اونگھ کا باعث بننے والے صحت مسائل کا مؤثر علاج کیا جائے۔

    اپنی گفتگو میں ڈاکٹر الشریف نے ڈرائیوروں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ اونگھ آنے پر معمولی سے فاصلے کی بھی ڈرائیونگ نہ کی جائے۔

  • میٹھی غذاؤں کا استعمال کتنا نقصان دہ یا فائدہ مند ہے؟

    میٹھی غذاؤں کا استعمال کتنا نقصان دہ یا فائدہ مند ہے؟

    وہ میٹھی غذا جسے ہم اضافی مٹھاس کے طور پر کھاتے ہیں اس میں چینی، سویٹنرز، شہد اور پھلوں کے جوس شامل ہیں اسے کشید کرنے کے بعد صاف کرکے خوراک اور مشروبات میں ذائقہ بڑھانے کے لیے شامل کیا جاتا ہے۔

    پرانے دور کی نسبت میٹھے کا استعمال کم صحت مند ہے اور آج یہی میٹھا لوگوں کی صحت کا اولین دشمن بنا ہوا ہے۔ پھلوں اور گنے سے حاصل ہونے والی مٹھاس فرکٹوز کی 150 گرام یومیہ مقدار پر مشتمل خوراک انسولین کی حساسیت کو کم کر دیتی ہے۔

    دوسری جانب نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غذا میں شوگر یا قدرتی مٹھاس کا بھی زیادہ استعمال قوت مدافعت کمزور بنا کر متعدد بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    طبی و غذائی ماہرین کے مطابق قدرتی مٹھاس، شوگر یعنی کہ "فرکٹوز” زیادہ تر میٹھے مشروبات، میٹھے کھانوں، پروسیسڈ غذاؤں میں پایا جاتا ہے، ان غذاؤں کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف اور بیماریوں سے بچانے والا نظام قوت مدافعت کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان متعدد بیماریوں میں گِھر جاتا ہے۔

    لندن کے صحت عامہ سے متعلق جریدے "جرنل آف نیچر کمیونیکیشن” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پروسیسڈ سمیت قدرتی میٹھی غذاؤں میں بھی پائے جانے والا جُز فرَکٹوز انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں موٹاپے، ذیابطیس ٹائپ ٹو، جگر کے متاثر اور بڑھ جانے کے خدشات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق فرَکٹوز سے بھرپوز غذاؤں کے استعمال کے نتیجے میں جسم میں سوجن کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں، جسم کے اعضا میں سوجن یا سوزش کا ہو جانا صحت سے متعلق خطرناک علامات میں سے ایک ہے۔

    محققین کے مطابق سوجن کے سبب انسانی خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

    تحقیق کے نتیجے میں مٹھاس سے متعلق سامنے آنے والے نئے انکشاف پر طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے انسانی صحت کے لیے میٹھے مشروبات اور پروسیسڈ غذاؤں کو سب سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔

  • تانبے کے برتن استعمال کرنے کے حیرت انگیز فائدے

    تانبے کے برتن استعمال کرنے کے حیرت انگیز فائدے

    پرانے وقتوں میں مٹی کے برتنوں کے ساتھ تابنے کے برتنوں کا استعمال ہر گھر میں کیا جاتا تھا اور مشرقی روایات کے مطابق یہ برتن گھروں میں سجا کر رکھے جاتے تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا ان کی جگہ شیشے، پلاسٹک اور چینی کے برتنوں نے لے لی۔

    تابنہ ایک ایسی دھات ہے جس کا استعمال ہمارے معاشرے میں قدیم زمانے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد تابنے سے بنے برتنوں میں کھانا کھایا کرتے تھے، لیکن اب دور جدید میں ہم نے نئے متبادل تلاش کرلیے ہیں۔

    بدقسمتی سے جدید دورمیں استعمال ہونے والے ان برتنوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے ناقص میٹریل کی وجہ سے صحت انسانی پر مضر اثرات پڑتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    تانبے کی برتن میں کھانا پکانا یا اس کے برتن میں پانی کو محفوظ رکھنے کا رواج قدیم زمانے سے جاری ہے لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کے ان برتنوں کا استعمال لوگوں کو کئی امراض سے دور رکھتا ہے۔

    تابنے میں ایک قسم کا مائیکرو نیوٹرینٹ پایا جاتا ہے جو متعدد جسمانی کارگردگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ کھانا پکانے کے لیے ہم اپنے باورچی خانے میں تانبے سے لے کر پیتل اور اسٹیل سے لے کر مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    انسان نے پہلے مٹی سے بنے ہوئے برتنوں کا استعمال کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے نئی چیزوں کٓا تجربہ کیا اور اب گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم کھانا پکانے کے لیے اسٹیل، ایلومینیم، تانبے، شیشہ، سیرامک یہاں تک کہ پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا بنانے کا تجربہ بھی کرچکے ہیں لیکن تانبے کی برتن کو استعمال کرنے کے الگ ہی فائدے ہیں۔

    تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانا :

    قدیم زمانے میں تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانے کو ترجیح دی جاتی تھی اور اسے جائیداد کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ زمانہ قدیم میں کانوں سے تانبے کو دریافت کیا گیا تھا، اگر تاریخ کی جانب رخ کریں تو بر صغیر میں واقع کھیتری تابنے کے کان میں صدیوں سے تانبے کو دریافت کیا جاتا رہا ہے۔

    تانبہ گرمی کا اچھا موصل ہے کیونکہ کھانا پکانے کے دوران یہ آسانی سے درجہ حرارت کو کنٹرول کرلیتا ہے۔ تانبے کا استعمال تھوڑی مقدار میں کرنا ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، تاہم اس کا زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    آلودہ پانی یا خراب خوراک کے ذریعہ حاصل ہونے والے تانبے سے ‘کاپر ٹاکسیسیٹی ‘ ہوسکتی ہے۔ کچھ جینیاتی امراض  جیسے ‘ولسن ڈیزیز’ بھی کاپر ٹاکسیسی کا باعث بن سکتی ہے جو اسہال، سردرد، گردے کی خرابی، خون کی الٹی، آنکھوں کی پتلیوں کا  رنگ  بدل جانے ٓجیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔

    اس لئے، تانبے یا پیتل کے بنے برتنوں کے اوپر کوئی اور دھات لگادی جاتی ہے، جو تانبے کو  براہ راست کھانے کے ساتھ آمیزش سے روکتی ہے۔

    جب ہم اس برتن پر زیادہ کھانا پکانے لگتے ہیں تو برتن پر لگی دوسری دھات کی کوٹنگ دھیرے دھیرے تحلیل ہوجاتی ہے، خاص طور تیزابیت والے کھانے یا طویل وقت تک کھانا پکانا یا اسٹور کرنے سے بھی یہ کوٹنگ تحلیل ہوجاتی ہے۔

    پہلے تانبے کے برتن کے اوپر ٹن یا نکل دھات کی کوٹنگ کی جاتی تھی۔ پیتل یا تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانا مناسب نہیں ہے کیونکہ کھانے میں موجود نمک یا آیوڈین آسانی سے تانبے کے ساتھ مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے کھانے میں زیادہ تانبے کی مقدار شامل ہوجاتی ہے۔

    پیتل کی پلیٹ میں کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا ہے لیکن پیتل کے برتن میں کھانا پکانا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تانبے کی کمی کی وجہ سے ہونے والی جسمانی امراض مندرجہ ذیل ہیں۔

    تھکاوٹ اور کمزوری، ہڈیوں کا کمزور ہونا، حافظہ کا کمزور ہونا، چلنے میں پریشانی ہونا، سردی محسوس ہونا، جلد کا زرد پڑنا، بالوں کا سفید ہونا، آنکھوں کی روشنی میں کمی۔

    تانبے کے برتن کھانے بیکٹیریا کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جسم کے لئے 100 ملی گرام سے بھی کم تانبے کافی ہیں، جو آپ معمولی خوراک سے حاصل کرسکتے ہیں۔

    جگر تانبے کی تحویل کا مرکز ہے۔ یہ جسم میں ریڈ بلڈ سیل کو بڑھاتا ہے، تانبے ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے، تانبا جسم میں خون کی روانی کو متوازی رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ میں اس سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام بھی قدرے مضبوط ہوتا ہے تانبا آئرن کو جذب کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

  • دوڑنے سے پہلے کیا اقدامات کرنا ضروری ہیں؟

    دوڑنے سے پہلے کیا اقدامات کرنا ضروری ہیں؟

    صبح صبح جاگنگ کرنا صحت پر بہت اچھے اثرات ڈالتا ہے، تیز رفتار چہل قدمی یا واکنگ کا اصل نتیجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک گھنٹے میں تقریباً 4.5 کلومیٹر سے چھ کلومیٹر تک کا فاصلہ تیز رفتار چہل قدمی سے طے کیا جائے تاکہ ہم مکمل اسٹیمینا حاصل کرسکیں۔

    اسی طرح ریس کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے بھی ضروری ہے کہ حصہ لینے والا اس قدر مضبوط اور توانا ہو کہ وہ کچھ دیر بھاگنے کے بعد ہانپنے نہ لگے اور اس کے دل کی دھڑکن بھی ضرورت سے زیادہ تیز نہ ہو۔

    پچھلے دنوں سیالکوٹ میں پولیس کانسٹیبلز کی بھرتی کے لیے ٹیسٹ کے لیے دوڑ کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے دوران ایک نوجوان انتقال کرگیا، اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امیدوار کی ہلاکت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پاکستان کی مایہ ناز ایتھلیٹ نسیم حمید نے دوڑنے کے فوائد اور اس کے طریقہ کار سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ بھاگنا آسان کام نہیں اس کیلئے مکمل تیاری کی ضرورت ہوتی ہے، اس کیلئے روز کی جاگنگ ،جم جا کر ورزش کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ اچھی خوراک بھی اہمیت کی حامل ہے۔

    نسیم حمید کا کہنا تھا کہ کسی بھی مقابلے سے پہلے کھانا پینا بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے کم از تین سے چار گھنٹے قبل کھانا کھا کر پھر ڈوڑنے کا عمل کیا جائے۔

  • بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    یوں تو انسانی جسم کا ہر عضو قدرت کا انمول عطیہ ہے مگر دماغ کی حیثیت ان سب سے زیادہ اہم ہے۔ دماغ کی وجہ سے انسان خلا کو تسخیر کرنے کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی تیار کرتا چلا جارہا ہے۔

    ایمنشیا ایک ایسا دماغی مرض ہے جس میں انسان اکثر باتیں بھول جاتا ہے، بازار جاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ خریدنا کیا تھا۔ امتحانات میں تیاری کرنے کے باوجود آدھا جواب بھول جاتے ہیں۔

    کسی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو اس کا نام یاد نہ آیا۔ کسی کام کے لئے دوسرے کمرے میں گئے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد سوچنے لگے کہ کس کام کے لئے آئے تھے۔

    لیکن اگر آپ کو بھولنے کی بیماری ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آپ ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں، جسمانی مشقت کم ہے یا جینیاتی مسئلہ ہے۔

    وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دماغی صحت میں خوراک کا کردار نہایت اہم ہے اور اگر آپ بھولنے کی شکایت کر رہے ہیں تو یقیناً اپنے دماغ کو درست غذا فراہم نہیں کرپا رہے۔

    دماغ کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال ہمارے جسم میں خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے اور خون زیادہ روانی سے ہمارے دماغ تک پہنچ پاتا ہے۔ جس کے باعث بھولنے کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔ اب بھولنا بھول جائیں اور یہ سب شوق سے کھائیں۔

    آپ کو گوشت پسند ہے تو شوق سے کھائیں، لیکن سبزیوں سے بھی لازمی ناطہ جوڑے رکھیں۔ کیونکہ یہ دماغی صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔ خاص طور پر پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک، بند گوبھی اور سلاد پتہ وغیرہ۔

    اس کے علاوہ پھل دل، دماغ اورجسم سب ہی کے لیے فائدہ مند ہیں لیکن چیری اور ایسے تمام پھل جن کے بیج گودے کے اندر ہوں، انسانی دماغ کے عمدہ غذا مانے جاتے ہیں۔ مثلاً کیلا، ٹماٹر اور اسٹرابری وغیرہ۔

    دماغ کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور بالوں کے لیے مفید اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وافر مقدار سی فوڈز میں موجود ہوتی ہے اس لیے ہفتہ میں دو یا تین بار اپنے کھانے میں گوشت کی جگہ مچھلی، جھینگا یا کوئی اور سی فوڈ شامل کریں اور اسے فرانی کرنے کے بجائے گرل، بوائل یا بیک کرلیں۔

    اگر آپ یہ سب کھانا پسند نہیں کرتے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اس کے متبادل فوڈ سپلیمنٹ کا انتخاب کریں کیوں کہ یہ یادداشت بڑھانے کے لیے اکسیر ہے۔ مچھلی کا تیل بھی آپ کو یہی فائدہ دے سکتا ہے۔

  • پتے کی پتھری کی وجوہات اور ان کا علاج

    پتے کی پتھری کی وجوہات اور ان کا علاج

     پتے میں پتھری اکثر لوگوں کو ہو جاتی ہے لیکن ہر شخص کو اس کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی جس سے اس کی موجودگی کا شبہ یا اندازہ ہو سکے کیونکہ یہ علامات کے بغیر کافی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔

    پتہ کا کام صفرا کا جمع کرنا ہوتا ہے جو چکنائی وغیرہ کے ہضم ہونے میں مدد کرتا ہے۔ صفرا جگر سے پتے میں جا کر جمع ہوتا ہے۔ صفرا میں 97 فیصد پانی 1 سے 2 فیصد نمکیات اور 1 فیصد پگمنٹ اور باقی چربی ہوتی ہے۔

    طب جدید میں اس حصہ کی کسی بھی بیماری کا شافی علاج موجود نہیں شدید سوزش کے دوران قے بدہضمی اور معدے کی سوزش بخار اور درد کی علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سرجری ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا کہ پتے کی پتھری ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سب سے پہلے ہماری غذا ہے کہ اس میں چکنائی کی کتنی مقدار ہے۔ کولیسٹرول کتنا ہے اور غذا کو ہضم کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں۔

    پتھری اور سوزش کے لیے درد دور کرنے والی ادویہ کے علاوہ اور کوئی حل نہیں پتہ کی ہر بیماری کا علاج آپریشن ہے جن لوگوں کا پتہ نکالا جا چکا ہے وہ عمر بھر بدہضمی کا شکار رہتے ہیں وہ چکنائی ہضم نہیں کرسکتے۔

    بعض اوقات خوراک میں کیلشیم وغیرہ والی چیزوں کی زیادتی، گردے کی بیماری اور پانی کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ چیزیں گردے، یوریٹر یا مثانے میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور مجتمع ہو کر چھوٹے چھوٹے پتھر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

  • کس قسم کا سرکہ صحت کیلئے فائدہ مند ہے ؟

    کس قسم کا سرکہ صحت کیلئے فائدہ مند ہے ؟

    سرکہ عموما ہر گھر میں پایا جاتا ہے اور اسے چکنائی کو صاف کرنے، پھپھوندی کو ہٹانے، قالین کو صاف کرنے اور گہرے داغوں کو دھونے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے یہی فوائد نہیں ہیں بلکہ سرکہ کو سلاد پر ڈالنے اور اچار میں بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس کا ذائقہ بہتر بنایا جا سکے۔

    بولڈ سکائی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہر کوئی سفید سرکہ سے واقف ہے۔ اب سیب سائڈر سرکہ سے بھی لوگ واقف ہوچکے ہیں جو وزن میں کمی، بالوں اور جلد کے لیے نہایت مفید ہے۔

    بہت سے قارئین یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ مارکیٹ میں سفید سرکہ، بالسمیک سرکہ، ایپل سائڈر سرکہ، اور دیگر مشہور برانڈز کے علاوہ درجنوں اقسام کے سرکے دستیاب ہیں۔ جس میں ناریل ، کھجور اور شہد سے تیار کردہ سرکہ، اس کے علاوہ سیب اور گنے کا سرکہ بھی صحت کیلئے مفید ہے، تاہم مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے کے بعد سرکہ کا استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔

    سرکہ کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ مشہور سفید سرکہ اور سیب کا سرکہ ہے۔ سرکہ ایسٹیک ایسڈ بیکٹریا کے ذریعے ایتھنول پیدا کرنے کے لیے شوگر مائع کو خمیر بنا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ناریل، چاول، کھجور، شہد وغیرہ سمیت بہت سے خمیر شدہ اجزاء سرکہ بنانے میں استعمال ہوسکتے ہیں۔

    سیب کا سرکہ متعدد فوائد کا حامل ہوتا ہے، یہ خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے اور نظام انہضام کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    چاول کا سرکہ سب سے قدیم مانا جاتا ہے البتہ صحت کےمعاملے میں اسے زیادہ مقبولیت نہیں مل سکی۔ چاول کا سرکہ سفید سرخ اورسیاہ رنگوں میں دستیاب ہے اور اس میں ایسٹک ایسڈ اور معتدل مقدار میں امینو ایسڈ ہوتا ہے۔

  • صبح کا ناشتہ کرنا کیوں ضروری ہے؟

    صبح کا ناشتہ کرنا کیوں ضروری ہے؟

    ناشتے کو عام طور پر دن کا سب سے اہم کھانا کہا جاتا ہے اور یہ کہنے کی وجہ معقول ہے۔ صبح کے ناشتے کے بہت سے فوائد ہیں، اس عادت کو اپنانے سے توانائی کے ساتھ ساتھ وزن مناسب رہتا ہے، ذیابیطس ٹائپ 2 اور دل کے امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ناشتے کی افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈائٹ کسنسلٹنٹ ڈاکٹر اریج ہارون نے بتایا کہ جو لوگ باقاعدگی سے ناشتہ کرتے ہیں ان کا وزن کم ہوتا ہے اور نہ کرنے والے لوگ مٹاپے کی طرف جاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ناشتے کو انگریزی میں بریک فاسٹ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ رات بھر خالی پیٹ رہنے (فاسٹ) کے بعد کھانے کا ایک وقفہ (بریک) ہے۔ اس سے گلوکوز میسر آتا ہے جس سے جسم میں توانائی بڑھ جاتی ہے اور انسان چاق و چوبند ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی صحت کے لیے ضروری غذائی اجزا میسر آتے ہیں۔

    ڈاکٹر اریج ہارون کا کہنا تھا کہ رات کو سونے سے تین گھنٹے قبل کھانا چھوڑ دینا چاہیے، اس سے معدے کو بھی آرام رہتا ہے اور اورصبح تک وہ کھانا آپ کے جسم میں استعمال ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اچھی غذائیت بھی بہت اہم ہے یعنی جو کھایا جا رہا ہے وہ غذائیت سے بھرپور ہونا چاہیے اور اس میں تمام ضروری غذائی اجزا ہونے چاہئیں۔

    اگر کسی وجہ سے ناشتہ چھوٹ گیا ہے تو کوشش کریں کہ دوپہر یا شام کے وقت ایسا کھانا کھائیں جس سے ناشتے کی کمی پوری ہو جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ کھائیں بلکہ ان غذائی اجزا کو شامل کریں جو رہ گئے تھے۔