Tag: HEALTH TIPS

  • شیمپو کے باوجود بالوں سے بدبو کیوں نہیں جاتی؟

    شیمپو کے باوجود بالوں سے بدبو کیوں نہیں جاتی؟

    بال شخصیت کے نکھار میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مرد ہوں یا خواتین اپنے بالوں کا خیال لازمی رکھتے ہیں لیکن بعض لوگوں کے بالوں سے عجیب سی بو آتی ہے جو ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہے۔

    بالوں کو اچھے طریقے سے نہ دھونا، ان پر پسینے، دھول اور مٹی کا جمع ہونا، یہ تمام باتیں بالوں میں بدبو کا سبب بن سکتی ہیں لیکن اس سے چھٹکارا پانے کے بھی کچھ گھریلو طریقے موجود ہیں مندرجہ ذیل سطور میں ان طریقون کو بیان کیا گیا ہے۔

    کون سا شیمپو بہتر ہے؟

    عام طور پر بازاروں میں دستیاب شیمپو میں مضر صحت کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں، جو بالوں کے ساتھ ساتھ سر کی جلد کو بھی نقصان دہ ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ گھر کے تیار کردہ شیمپو کا استعمال کیا جائے جو قدرتی طریقے سے تیار ہونے کے باعث بالوں کی نشونما میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں شکاکائی شیمپو کا استعمال کیا جائے۔

    شکا کائی شیمپو بنانے کے لیے شکا کائی، ریٹھے، املہ ، کڑھی پتے کو ایک پیالہ پانی میں رات بھر کے لیے بھگو کر رکھ دیں۔ اگلے دن ان تمام چیزوں کو پانی میں ابال لیں اور پھر ان چیزوں کو پس لیں۔ اسے شیمپو کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سر کا مساج کریں۔ اور پھر انہیں سادہ پانی سے اچھی طرح کنگھال لیں۔

    سیب کا سرکہ

    دو کپ پانی میں دو سے تین کھانے کے چمچ ایپل سیڈر سرکہ کو ڈال کر ایک محلول تیار کر لیں۔ اب اس محلول سے بالوں کو شیمپو کرنے کے بعد دھو لیں اس سے نہ صرف جلد صاف ہوجاتی ہے، بلکہ بالوں میں موجود بیکٹریا کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔

    لیموں کا استعمال

    لیموں کھانے میں ذائقے اور دیگر گھریلو آئٹمز کو چمکانے کے ساتھ ساتھ بالوں کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک کپ گرم پانی میں دو کھانے کے چمچ لیموں کا رس ملا لیں اور اس پانی کو بالوں میں شیمپو کرنے کے بعد دھولیں۔ لیموں کی مہک بالوں سے ناگوار بو کو دور کرنے میں مددگار ہوگی۔

  • آئس کریم کھانا مضر صحت ہے یا مفید؟ ماہرین کا اہم انکشاف

    آئس کریم کھانا مضر صحت ہے یا مفید؟ ماہرین کا اہم انکشاف

    عام طور پر والدین بچوں کو آئس کریم کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں بچوں کے گلے خراب یا نزلہ زکام کھانسی نہ ہوجائے، لیکن اب فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اب آپ بے فکر ہوکر آئس کریم کھا سکتے ہیں، کیونکہ یہ اتنی نقصان دہ نہیں جتنی کہ توقع کی جاتی ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ آئس کریم ہماری صحت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ اس کے مختلف فائدے اور نقصانات ہیں جن پر ہم یہاں تفصیل سے بات کریں گے۔

    غذائی ماہرین کے مطابق آئس کریم کے چند پوشیدہ فوائد بھی ہیں جن سے بیشتر افراد لاعلم ہیں، آئس کریم، کیلشیم، میگنیشیم، بی 12 وٹامنز اور پروٹین جو کہ خون میں شکر کے استحکام کے لیے ضروری ہے، کو بڑھاتی ہے۔

    ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے

    چونکہ آئس کریم دودھ سے بنتی ہے اس لیے اس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو آپ کی ہڈیوں کو صحت مند اور مضبوط بناتی ہے۔ اگر آپ کے بچے دودھ پینا پسند نہیں کرتے تو آپ انہیں آئس کریم دے سکتے ہیں تاکہ ان کی کیلشیم کی ضروریات پوری ہوں۔ تاہم آئس کریم کا استعمال اعتدال میں کرنا چاہیے۔

    وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہے

    آپ آئس کریم کھاتے ہیں تو آپ کے جسم کو وٹامن ڈی، وٹامن اے، کیلشیم، فاسفورس اور رائبو فلاوین حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ذائقے اس میں اضافی غذائیت کا اضافہ کرتے ہیں۔

    مثال کے طور پر، ڈارک چاکلیٹ آئس کریم اینٹی آکسیڈنٹس اور فلیوونائڈز سے بھری ہوئی ہے، جو آپ کے خراب کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے اور آپ کے دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔

    کینسر کا خطرہ کم کرتی ہے

    آئس کریم دودھ سے بنائی جاتی ہے اور دودھ توانائی کا ایک اہم اور بھرپور ذریعہ ہے جو کینسر سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ آئس کریم میں موجود کیلشیم کی مقدار بڑی آنت کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں بھی فائدہ مند ہے۔

    قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے

    نہیں، یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ آئس کریم درحقیقت آپ کی صحت کے لیے ایسا کر سکتی ہے۔ آئس کریم ایک قسم کا خمیر شدہ کھانا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خمیر شدہ کھانا ہماری سانس اور معدے کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ اگر آپ کا نظام تنفس بہتر ہے اور آنتوں کی صحت بہتر ہے تو یہ بالآخر آپ کی قوت مدافعت کو بہتر بنائے گا۔

    موڈ بہتر کرتی ہے

    آئس کریم کھانا حقیقت میں آپ کو خوش کرسکتا ہے، اس کی ایک سائنسی وضاحت ہے، جب آپ آئس کریم کھاتے ہیں تو آپ کا جسم ایک ہارمون پیدا کرتا ہے جسے سیروٹونن کہتے ہیں۔ سیروٹونن آپ کو خوشی محسوس کرواتا ہے۔

    آئس کریم کے نقصانات

    موٹاپے کا سبب بن سکتی ہے

    تمام ڈیری مصنوعات کی طرح، آئس کریم میں فیٹ زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اسے باقاعدگی سے کھایا جائے تو یہ موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔

    ہضم کرنا مشکل ہے

    جسم آئس کریم کو آہستہ آہستہ ہضم کرتا ہے کیونکہ اس میں فیٹ زیادہ ہے یہ پیٹ کے مسائل جیسے گیس اور بدہضمی کا سبب بھی سکتی ہے کیونکہ اس میں لییکٹوز کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے

    آئس کریم باقاعدگی سے کھانے سے آپ کا وزن زیادہ ہو سکتا ہے اور اس سے ٹائپ 2 ذیابیطس جیسے حالات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    دانتوں کے لیے نقصان دہ ہے

    آئس کریم چینی سے بھرپور ہوتی ہے جو دانتوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور کیڑا لگنے، دانتوں کی خرابی اور مسوڑھوں سے متعلق مسائل کا باعث بنتی ہے۔

  • ذیابیطس کے مریض چاول اس طریقے سے کھائیں

    ذیابیطس کے مریض چاول اس طریقے سے کھائیں

    ہمارے گھروں میں اکثر رات کو بنائے گئے چاول بچ جاتے ہیں جنہیں فریج میں محفوظ کرلیا جاتا ہے تاکہ اگلے دن انہیں کھایا جاسکے، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ باسی چاول ہماری صحت پر کیسا اثر ڈالتے ہیں؟

    بہت سے لوگ یہ چاول کھانا پسند نہیں کرتے لیکن اگر ہم آپ کو یہ بتائیں کہ ان باسی چاولوں کو ضائع کرکے آپ خود کو بہت سے فوائد سے محروم کر رہے ہیں تو آپ کیا کہیں گے؟

    جی ہاں! رات کو بچ جانے والے باسی چاول آپ کی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، یہ چاول کے شوقین شوگر کے مریضوں کے لیے بھی ایک معجزہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    رات کے بچے ہوئے چاولوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے چاولوں کو مٹی کے برتن میں بھگو دیں۔ رات بھر پانی میں رہنے کی وجہ سے چاول کا ابال پیدا ہوتا ہے اور اس میں سے کاربوہائیڈریٹ کی مقدار تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ یہ چاول شوگر کے مریضوں کے لیے بہت اچھا ہے کیونکہ یہ شوگر کو کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔

    موسم گرما میں باسی چاول آپ کے جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہیں کیونکہ اس کی تاثیر سرد ہوتی ہے، اس کی مدد سے آپ کو اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے کھانے سے تیزابیت بھی نہیں ہوتی۔

    باسی چاول آپ کی آنتوں کے لیے بہت مفید ہیں اس کے علاوہ یہ آپ کو دن بھر تروتازہ رکھتا ہے اور دن بھر آپ کو توانائی دیتا ہے۔

    دوسری جانب اگر آپ کو چائے یا کافی پینے کی عادت ہے اور آپ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں تو صبح ناشتے میں باسی چاول ضرور لیں، اس سے آپ چند دنوں میں اپنی چائے کافی کی لت سے نجات حاصل کر لیں گے۔

    اگر آپ کو قبض کا مسئلہ ہے تو آپ باسی چاول کا استعمال کریں۔ اس سے آپ کو وافر مقدار میں فائبر ملے گا، جو ہاضمے کو فائدہ دیتا ہے۔

    السر کے مریضوں کے لیے باسی چاول کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر وہ ہفتے میں 3 سے 4 دن باسی چاول کھائیں تو اسے اس پریشانی سے نجات مل جاتی ہے۔

    جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا کہ باسی چاولوں کو رات بھر بھگونے سے کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار، چینی کی مقدار کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی یہ فائدہ مند ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    گزشتہ 20 سال میں دنیا بھر میں لوگوں میں موٹاپے کے شکار ہونے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ لیکن آج ہم اپنے کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ باشعور بھی ہوگئے ہیں۔

    پچھلے کچھ سالوں میں ہم سفید بریڈ کی جگہ براؤن بریڈ، آٹے کی بریڈ اور موٹے اناج سے بنی بریڈ استعمال کرنے لگے ہیں۔ ہم فل کریم دودھ کی جگہ سکمڈ دودھ لینے لگے ہیں۔ صحت کے حوالے ہمارے شعور کا مرکز پروٹین ہے لیکن کس طریقے سے پروٹین لینی چاہیے، کتنی کم یا کتنی زیادہ پروٹین ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحت کے حوالے باشعور افراد یہ بات مانتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پروٹین استعمال کرنی چاہیے لیکن اب تمام ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ زیادہ پروٹین والی یہ پروڈکٹس ہمارے لیے غیرضروری اور جیب پر بوجھ ہیں۔

    پروٹین ہمارے جسم کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ زیادہ پروٹین والی چیزیں جسے دودھ، گوشت، انڈے، مچھلی اور دالیں ہمارا جسم بنانے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

    جب ہم ایسی چیزیں کھاتے ہیں، تو ہمارا معدہ انھیں توڑ کر امینو ایسڈز میں تبدیل کرتا ہے جسے ہماری چھوٹی آنت جذب کرتی ہے۔ یہاں سے یہ امینو ایسڈز ہمارے جگر تک پہنچتے ہیں۔ جگر یہ طے کرتا ہے کہ ہمارے جسم کے لیے ضروری امینو ایسڈز کون سے ہیں۔ انہیں الگ کر کے باقی ایسڈ پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کر دیتا ہے۔

    کتنی پروٹین لینی چاہیے؟

    جو بالغ افراد زیادہ بھاگ دور یا محنت کا کام نہیں کرتے، انھیں اپنے جسم کے مطابق فی کلو وزن کے حساب سے 0.75 گرام پروٹین چاہیے ہوتی ہے۔ اوسطاً یہ اعداد مردوں کے لیے 55 گرام اور خواتین کے لیے 45 گرام روزانہ ٹھیک ہے۔ یعنی دو مٹھی گوشت، مچھلی، خشک میوہ جات یا دالیں کھانے سے روزانہ پروٹین کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

    پوری مقدار میں ضروری پروٹین نہ لینے سے بال جھڑنا، جلد پھٹنا، وزن گھٹنا اور پٹھے کھچنے کی شکایتیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن کم پروٹین کھانے سے ہونے والی یہ پریشانیاں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عام طور پر یہ انہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کے کھانے پینے میں بڑی گڑبڑ ہو اور کھانے میں باقاعدگی نہ ہو۔

    اس کے باوجود ہم اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ باڈی بلڈنگ اور پٹھوں کی نشو و نما کے لیے پروٹین بے حد ضروری ہے۔ یہ کافی حد تک صحیح بھی ہے۔

    طاقت بڑھانے والی ورزش کرنے سے پٹھوں میں موجود پروٹین ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایسے میں پٹھوں کو طاقتور بنانے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پٹھوں کی مرمت ہو سکے۔ اس میں پروٹین میں پایا جانے والا لیوسن نامی امینو ایسڈ بہت مددگار ہوتا ہے۔

    کچھ محقق تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت مشکل ورزشیں کرنے کے بعد اگر ہم پروٹین سے بھرپور خوراک نہیں لیتے ہیں تو اس سے ہمارے پٹھے اور بھی زیادہ ٹوٹتے ہیں۔ یعنی ورزش سے تب فائدہ نہیں ہوتا، جب آپ پروٹین وغیرہ نہ لیں۔

    برطانیہ کی سٹرلنگ یونیورسٹی میں کھیلوں کے پروفیسر کیون کپٹن کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر لوگوں کو ان کی ضرورت بھر سے زیادہ ہی پروٹین ان کے کھانے سے مل جاتی ہے۔ کسی کو سپلیمینٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ آسانی سے اپنی روزمرہ کے کھانے پینے کی چیزوں کے کے ذریعے مناسب مقدار میں پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

  • چہرے سے جُھریوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ 5 طریقے

    چہرے سے جُھریوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ 5 طریقے

    ہماری جِلد ہمیں صرف موسمی اثرات سے ہی محفوظ نہیں رکھتی بلکہ ان گنت جراثیم کو بھی پاس نہیں آنے دیتی، جس کی حفاظت کرنا بے حد ضروری ہے۔

    یہ جسم کے اندرونی اعضاء، ہڈیوں اور عضلات کے لیے گویا ایک حفاظتی دیوار کی مانند ہے، لہٰذا جلد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ چہرے کا خاص خیال رکھنا بھی لازمی امر ہے۔

    چہرے پر وقت سے پہلے جھریاں پڑجانا باعث تشویش ہے لیکن کچھ اقدامات ایسے ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے بڑھاپے کی اس علامت کو کافی حد تک دور رکھا جاسکتا ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت نے چند ہدایات دی ہیں جس میں نیند کا پورا کرنا سب سے اہم عنصر ہے،

    کیا آپ جانتے ہیں کہ کو نیند کی کمی چہرے پر جھریوں کا باعث بن سکتی ہے؟ جی ہاں طبی ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں صرف یہ ہی نہیں بلکہ سونے کا انداز بھی چہرے کی جلد پر لکیروں کا باعث بن سکتا ہے۔

    چہرے پر جھریاں کولاجن (بے رنگ پروٹین) اور لچک ختم ہونے کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہیں اور نیند کے دوران چہرے پر پڑنے والا دباﺅ اس کی جہ ہوسکتا ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں ان طریقوں کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جو جھریوں کے تدارک کیلئے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

    بالکل سیدھا لیٹنا

    بہت سے لوگ پیٹ کے بل یا دونوں پہلوﺅں پر لیٹتے ہیں جس کا مسلسل دباؤ چہرے پر پڑرہا ہوتا ہے جو بعد ازاں چھریوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کیفیت کا علاج کمر کے بل یا چت لیٹنا ہے ایسا کرنے سے چہرے پر کسی قسم کا دباﺅ نہیں پڑتا۔

    اگر ایسے سونے میں بے چینی ہوتی ہے اور خود کو کروٹ لینے سے روک نہیں پاتے تو کوئی بات نہیں اس کی مشق کرتے رہیں وقت کے ساتھ آپ اس کے عادی ہوجائیں گے۔

    تکیے تبدیل کرنا

    سونے کیلیے کاٹن کی جگہ ریشم یا ساٹن کے تکیوں کا استعمال کریں۔ ریشمی غلاف میں آپ کی جلد تکیے پر پھسلے گی یا یوں کہہ لیں کہ چہرے پر دباﺅ بہت کم پڑے گا۔

    وٹامن اے

    وٹامن اے عمر کے اثرات کی روک تھام کے لیے طاقتور جز ہے۔ اس وٹامن اے کی کمی چہرے پر جھریوں کا باعث بن جاتی ہے اور ماہرین کی جانب سے اس سے تیار کردہ کریم کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے جبکہ سپلیمنٹ میں بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ناریل کا تیل

    جھریوں کی روک تھام کا قدرتی ذریعہ ناریل کا تیل ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بازاروں میں ملنے والے لوشنز کا بہترین متبادل ہے، ہر رات کو سونے سے قبل چہرہ دھو کر کچھ مقدار میں اسے جلد پر ملنے سے آپ کو جلد بہترین نتائج ملیں گے۔

    نیند پوری کرنا

    جھریوں کی روک تھام کے لیے کچھ بھی کرلیں مگر نیند پوری نہ کی تو کوئی فائدہ نہیں، مناسب وقت میں نیند اس کے لیے سب سے ضروری ہے یعنی سات سے 8 گھنٹے سونا جس سے جلد کی تازگی دوبارہ بحال ہوجاتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • گرمیوں میں بالوں کی خوبصورتی کو کیسے برقرار رکھیں؟

    گرمیوں میں بالوں کی خوبصورتی کو کیسے برقرار رکھیں؟

    گرمیوں میں خواتین کے بالوں کی صحت اور نشونما متاثر ہوتی ہے کیونکہ پسینے اور ہوا نہ لگنے کے سبب بال روکھے اور بے جان سے ہوجاتے ہیں اور اکثر خواتین دو مونہے بالوں کی شکایت بھی کرتی ہیں۔

    دو منہ کے بالوں کا مسئلہ آج کل ہر دوسری خاتون کو درپیش ہے، عام طور پر آپ کے بالوں کے نچلے حصے میں ایک بال میں سے دوسرا بال نکل آتا ہے جسے ’دو مونہے‘ کہا جاتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں اداکارہ نتاشا علی نے موسم گرما میں بالوں کی بہترین نشونما کیلئے نسخہ بنانے کا آزمودہ طریقہ بتایا جو محض قدرتی اجزا سے بنایا جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک پیاز کا عرق نکال لیں اور اس میں اسی کے ہم وزن زیتون کا تیل اور کھوپرے کا تیل مکس کرلیں۔ اس مکسچر کو اچھی طرح بالوں میں لگائیں اور خاص طور پر بالوں کے سِروں پر بھی لازمی لگائیں۔

    تیل کی مالش کے 15 سے 20منٹ بعد کسی بھی شیمپو سے دھو لیں، یہ عمل ایک ہفتے میں دو سے تین مرتبہ کریں ایسا کرنے سے آپ کے بال تین چار مہینے تک دو مونہے نہیں ہوں گے یہ آزمودہ نسخہ ہے۔

    اس موقع پر اداکارہ سعدیہ امام نے بتایا کہ بالوں کو خوبصورت لمبا اور گھنا کرنے کیلئے ایک بہترین نسخہ بیان کررہی ہوں جس میں انڈہ، دہی، کنڈیشنر، پسے ہوئے چاول، ایلو ویرا جیل، ویسلین اور شہد شامل ہیں۔

    ان تمام اجزاء کو ایک ایک چمچ لے کر مکس کرکے بالوں میں لگائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ویسلین بالوں کیلئے انتہائی زبردست چیز ہے لیکن اس کو بالوں کی جڑوں میں نہ لگائیں بلکہ صرف لمبائی میں لگائیں۔

  • رات دیر تک جاگنے کے کیا سنگین نقصانات ہیں؟

    رات دیر تک جاگنے کے کیا سنگین نقصانات ہیں؟

    یہ بات شک و شبے سے بالا تر ہے کہ مناسب دورانیے کی نیند ہم میں سے ہر ایک کے لیے انتہائی اہم ہے اور رات کو دیر تک جاگنا جہاں جسمانی صحت کیلئے تباہ کن ہے وہیں ذہنی صحت بھی بہت متاثر ہوتی ہے۔

    انسانی جسم پورے دن کی مصروفیت اور دباؤ کے سبب جس تھکن کا شکار ہوتا ہے نیند نا صرف اس تھکن کو دور کر دیتی ہے بلکہ اس دوران ہمارا جسم نئے دن کے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کرتا ہے۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ رات دیر تک جاگنے کی عادت ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس نئی تحقیق میں جامع شواہد پیش کیے گئے ہیں جن کے مطابق رات کو جلد سونا اور جاگنا ڈپریشن سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تحقیق میں رات گئے یا علیٰ الصبح سونے یا جاگنے اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی گئی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جلد سونا یا رات گئے سونا موروثی عادات ہیں جو مادر رحم سے لوگوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

    اگر آپ رات دیر سے سو کر دن چڑھنے کے بعد جاگتے ہیں تو جان لیں کہ آپ کی صحت کو ٹائپ 2 ذیابیطس اور عارضہ قلب کا شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رات دیر گئے تک جاگنے والے افراد کا فٹنس لیول کم رہا اور آرام کرتے ہوئے یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے وہ جلد سونے والے افراد کے مقابلے کم چکنائی جلاتے ہیں۔

    فزیولوجیکل سوسائٹی نامی جنرل میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ رات دیر سے سونے والوں کے جسم میں انسولین کے خلاف زیادہ مزاحمت کا امکان ہوتا ہے، یعنی ان کے پٹھوں کو زیادہ انسولین کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرسکیں۔

    رات کو دیر تک جاگنے سے ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے جس سے بھوک لگتی ہے اور کیلوریز سے بھرپور کھانے کھانے کا دل کرتا ہے۔ رات کو دیر سے ہائی کیلوریز والے فاسٹ فوڈ وغیرہ کھانے سے وزن بڑھتا ہے اور اس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

  • موسم گرما میں یہ 8 سبزیاں نہ کھائیں تو بہتر ہے

    موسم گرما میں یہ 8 سبزیاں نہ کھائیں تو بہتر ہے

    گرمی کا موسم اپنی آب و تاب سے ساتھ جاری ہے ان ایام میں کھانے پینے میں احتیاط کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ کچھ سبزیاں ایسی ہیں جو ہماری صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین صحت اس موسم میں کھانوں کے انتخاب میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ بعض غذائی اجزا سستی اور کاہلی کے احساس کا باعث بن سکتے ہیں یا موسم میں گرمی کے احساس کو بڑھا سکتے ہیں۔

    اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سبزیاں صحت بخش ہوتی ہیں اور کسی بھی متوازن غذا میں اولین ترجیح ہوتی ہیں لیکن ایک مؤقر جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق اور اعداد و شمار کے مطابق 8 اقسام کی سبزیوں سے گرمی کے دنوں میں پرہیز کرنا چاہیے جن کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جارہا ہے۔

    پالک اور بند گوبھی 

    پالک اور بند گوبھی وٹامنز اور معدنیات کے بہترین ذرائع ہیں، لیکن ان میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے انہیں لیٹش یا ارگولا سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

    پھول گوبھی 

    بروکولی یا پھول گوبھی کھانے سےانسانی جسم کے اندر گرمی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین گرمی سے لطف اندوز ہونے اور وٹامنز اور منرلز کی اعلیٰ مقدار سے فائدہ اٹھانے کے لیے سردیوں کے موسم میں انہیں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    جڑ والی سبزیاں

    جڑ والی سبزیاں ایک قیمتی غذائیت ہیں وہ نشاستہ دار ہوتی ہیں زیادہ گھنے ہو سکتی ہیں۔ ان کے ہضم کرنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے گرمیوں میں اسے کھانا مناسب نہیں۔

    پیٹھا کدو

    جڑ والی سبزیوں کی طرح موسم سرما کے اسکواش کی کچھ اقسام زیادہ گھنے ہوتی ہیں اور ہضم ہونے میں زیادہ توانائی لیتی ہیں جس کے نتیجے میں گرمی زیادہ ہوتی ہے۔

    مٹر

    مٹر پروٹین اور فائبر کا ایک اچھا ذریعہ ہیں لیکن یہ کچھ لوگوں میں پیٹ پھولنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

     مکئی

    مکئی تکنیکی طور پر ایک اناج ہے لیکن اسے اکثر سبزی کی طرح کھایا جاتا ہے۔ مٹر کی طرح مکئی میں نشاستہ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس سے پیٹ پھولنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔

  • ادرک کا صرف ایک ٹکڑا روزانہ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! حیرت انگیز فائدہ

    ادرک کا صرف ایک ٹکڑا روزانہ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! حیرت انگیز فائدہ

    ادرک کا استعمال ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور صدیوں سے کھانوں کے ذائقوں اور ادویات میں اس کو شامل کرنا بےحد مفید ہے۔

    ادرک کی دو بنیادی اقسام خشک ادرک اور تازہ ادرک ہیں، تازہ ادرک بے مثال ذائقے کے لیے چائے، جوس یا لیمونیڈ کے ذائقے کو بڑھانے میں بھی مدد کرتا ہے جبکہ ادرک کو خشک حالت میں ’’ سونٹھ‘‘ کہا جاتا ہے اسے پیس کر پاؤڈر کی شکل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس کے استعمال، غذائیت اور صحت کے فوائد پر نظر ڈالی جائے تو دونوں اقسام کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ مذکورہ مضمون میں ان خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    ادرک

    تازہ ادرک متلی، اپھارہ اور بدہضمی کو کم کرتے ہوئے ہاضمے کے عمل میں مدد کرتا ہے، تازہ ادرک گٹھیا کی علامات کو دور کرتا ہے، پٹھوں کے درد کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے چونکہ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی سے بھرپور ہے اس لیے یہ مدافعتی نظام کو طاقت دیتا ہے۔

    اگرچہ خشک کرنے کا عمل کچھ غذائی اجزا کی معمولی کمی کا سبب بن سکتا ہے تاہم خشک ادرک بھی بہت سے فائدہ مند خصوصیات کو برقرار رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ اوسٹیو آرتھرائٹس جیسی سوزش کی مختلف حالتوں سے چھٹکارا دلانے میں معاون ہے۔

    ادرک 2

    ماہرین کے مطابق ادرک میں جنجرول ہوتا ہے، یہ ایک بائیو ایکٹو مادہ ہے جو متلی اور الٹی جیسی علامات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مادہ سوجن جوڑوں کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ادرک میں شوگول بھی ہوتا ہے، جو کہ ینالجیسک اثر والا مادہ ہے جو کینسر اور دل کی بیماری کے خلاف بھی مدد کرتا ہے۔

    اگر آپ ایک ماہ تک روزانہ ادرک کا ایک ٹکڑا کھائیں گے تواس کے صحت کے لیے بہت سے فوائد ہیں۔ ایک بڑا ٹکڑا تقریباً 1.5 سینٹی میٹر ہو اسے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اور اسے اپنی اسموتھی، چائے یا کسی بھی ایشیائی ڈش کے ساتھ ملائیں۔

    ادرک 3

    اس نسخے سے جسم میں ہونے والی سوزش میں تیزی سے کمی، متلی کا خاتمہ، پٹھوں کے درد اور کولیسٹرول میں کمی، آنتوں کی حرکت میں آسانی، قبض کی شکایت دور ہونے کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوگا۔

    اس کے علاوہ خشک ادرک میں موجود مرتکز مرکبات انفیکشن سے لڑنے اور جسم میں نقصان دہ بیکٹیریاز کی افزائش کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

  • افطار میں میٹھی غذاؤں کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کریں

    افطار میں میٹھی غذاؤں کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کریں

    ماہ رمضان میں خصوصاً افطار کے دسترخوان پر تلی ہوئی اشیاء کے ساتھ میٹھے شربت اور چینی سے بنے دیگر پکوان بھی رکھے جاتے ہیں۔

    اکثر لوگ رمضان میں کی جانے والی بہت ساری احتیاطوں کو یکسر فراموش کرکے بے دریغ کھانا پینا شروع کر دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زیادہ مٹھاس کا استعمال ان کو صحت کے بہت سارے مسائل میں بھی مبتلا کر سکتا ہے۔

    افطار کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھیں کہ انسانی صحت کے لیے مٹھاس کا زیادہ استعمال متعدد بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    نئی تحقیق کے مطابق قدرتی مٹھاس یعنی(فرکٹوز) زیادہ تر میٹھے مشروبات ،میٹھے کھانوں اور پروسیسڈ غذاؤں میں پایا جاتا ہے۔

    ان غذاؤں کے استعمال سے انسانی جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف اور اس سے بچنے والا نظام قوت مدافعت کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان متعدد بیماریوں میں جکڑا جاتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی مٹھاس میں پایا جانے والا ’’فرکٹوز‘‘انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اس کے زیادہ استعمال سے انسان موٹاپے، ذیابیطس، ٹائپ ٹو،جگر کے متاثر اور بڑھ جانے کے خدشات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے زیادہ استعمال سے جسم میں سوجن بڑھ جاتی ہے جس کو صحت سے متعلق خطرناک علامات میں شامل کیا جاتا ہے۔

    سوجن کے باعث انسانی خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔