Tag: Health

  • سرکہ کو ہلکی آنچ پر گرم کریں پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!! دانت مضبوط اور چمک دار

    سرکہ کو ہلکی آنچ پر گرم کریں پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!! دانت مضبوط اور چمک دار

    سرکہ عموما ہر گھر میں پایا جاتا ہے یہ نہ صرف کھانوں کیلیے ضروری ہے بلکہ اسے دانت صاف اور مضبوط کرنے، پھپھوندی ہٹانے، قالین صاف کرنے اور داغوں کو دھونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس کے یہی فوائد نہیں ہیں بلکہ سرکہ کو سلاد پر ڈالنے اور اچار میں بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس کا ذائقہ بہتر بنایا جا سکے۔

    بولڈ اسکائی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہر کوئی سفید سرکہ سے واقف ہے، اب سیب سائڈر سرکہ سے بھی لوگ واقف ہوچکے ہیں جو وزن میں کمی، بالوں اور جلد کے لیے نہایت مفید ہے۔

    سرکہ سو بیماریوں کی جڑ قبض کی شکایت بھی دور کرتا ہے۔ سرکے کو گرم کرکے اس سے کُلّی کرنے کے نتیجے میں دانتوں کا درد ختم اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔

    سرکے کا استعمال مجموعی صحت کے لیے بھی مفید ہے، اس کے باقاعدگی کے استعمال سے پیٹ کی چربی ختم ہوتی ہے، روزانہ رات سونے سے قبل اگر نیم گرم پانی میں سرکہ ڈال کر پی لیا جائے تو اس کے نتیجے میں پیٹ کی چربی بغیر ورزش کے ہی گھلنے لگتی ہے۔

    بہت سے قارئین یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ مارکیٹ میں سفید سرکہ، بالسمیک سرکہ، ایپل سائڈر سرکہ، اور دیگر مشہور برانڈز کے علاوہ درجنوں اقسام کے سرکے دستیاب ہیں۔ جس میں ناریل ، کھجور اور شہد سے تیار کردہ سرکہ، اس کے علاوہ سیب اور گنے کا سرکہ بھی صحت کیلئے مفید ہے، تاہم مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے کے بعد سرکہ کا استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔

    سرکہ کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ مشہور سفید سرکہ اور سیب کا سرکہ ہے۔ سرکہ ایسٹیک ایسڈ بیکٹریا کے ذریعے ایتھنول پیدا کرنے کے لیے شوگر مائع کو خمیر بنا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ناریل، چاول، کھجور، شہد وغیرہ سمیت بہت سے خمیر شدہ اجزاء سرکہ بنانے میں استعمال ہوسکتے ہیں۔

    سیب کا سرکہ متعدد فوائد کا حامل ہوتا ہے، یہ خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے اور نظام انہضام کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    چاول کا سرکہ سب سے قدیم مانا جاتا ہے البتہ صحت کےمعاملے میں اسے زیادہ مقبولیت نہیں مل سکی۔ چاول کا سرکہ سفید سرخ اورسیاہ رنگوں میں دستیاب ہے اور اس میں ایسٹک ایسڈ اور معتدل مقدار میں امینو ایسڈ ہوتا ہے۔

  • ذیابیطس کے مریض روزہ کیسے رکھیں؟

    ذیابیطس کے مریض روزہ کیسے رکھیں؟

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے روزہ رکھنا کسی حد تک خطرناک ہوسکتا ہے، شوگر کے مریضوں کی سحر و افطار کی غذا کیسی ہونی چاہیے اور کتنا پانی پینا ضروری ہے؟

    کچھ امراض ایسے ہوتے ہیں جو آخری سانس تک لاحق رہتے ہیں، ذیابیطس بھی ایسا ہی مرض ہے، مگر اچھی منصوبہ بندی اور بہتر حکمتِ عملی اپنا کر ذیابیطس یا شوگر کے مرض کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جاسکتی ہے اور معالج کی ہدایات کی روشنی میں روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔

    اس حوالے سے زیر نظر مضمون میں طبی ماہرین نے واضح انداز میں روزہ رکھنے کے خواہش مند شوگر کے مریضوں کو مفید مشورے دیے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق رمضان کے روزے ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے خون میں شکر کی سطح کے محتاط انتظام کی ضرورت ہوتی ہے۔

    روزہ رکھنے والے ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی مقدار پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر گلوکوز کی مقدار 70ایم جی /100 ایم ون سے کم ہو اور خون میں گلوکوز کی مقدار 300 ملی گرام سے بڑھ جائے تو بہتر ہے کہ معالج کے مشورے سے روزہ توڑ دینا چاہیے بصورت دیگر صورتحال سنگین ہوسکتی ہے۔

    ہمارے جسم کا نظام کچھ اس طرح ہے کہ سحری کے 8 گھنٹے بعد گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھنے کے لیے ذخیرہ شدہ توانائی کا استعمال شروع ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں گلوکوز کی کمی یا زیادتی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پانی کی شدید کمی بھی ہو سکتی ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ کس طرح رکھیں:

    ڈاکٹر کلدیپ سنگھ کے مطابق، شوگر سے متاثرہ روزہ داروں کو بلڈ شوگر کی نگرانی کرتے رہنا چاہیے۔

    1- بلڈ شوگر کو باقاعدگی سے چیک کرتے رہنا چاہیے، خاص طور پر سحری سے پہلے، افطار سے پہلے اور سونے سے پہلے۔ اس سے آپ کو بلڈ شوگر لیول کو ٹریک کرنے اور ضرورت کے مطابق اپنے پلان کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    2- شوگر کے مریضوں کو جسم کو ہائیڈریڈ رکھنے کے لیے سحر میں اور افطار کے بعد پانی وافر مقدار میں پینا چاہیے۔

    3- جسمانی سرگرمی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے، مثلاً سخت ورزش کو کم کریں، خاص طور پر دن کے وقت۔ ضرورت سے زیادہ ورزش بلڈ شوگر کو کم کر سکتی ہے۔

    4- ادویات کا وقت مقرر کر لیں اور دوائی یاد سے لیا کریں۔ اپنی دوائیں ویسے ہی لیں جیسا کہ آپ کے ڈاکٹر نے تجویز کیا ہے۔ آپ کو اپنی انسولین کی خوراک یا دیگر ادویات کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

    ماہِ مبارک میں مناسب آرام بھی ضروری ہے، رات کی نیند کم ہونے سے خون میں گلوکوز کی مقدار غیرمتوازن ہو سکتی ہے۔

    ٹائپ 2 ذیابیطس کے بہت سے مریض انسولین استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے انسولین کی مقدار اور اوقات کا دوبارہ تعین کرنا چاہیے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • پُرسکون نیند کیلیے کون سا وقت اور لباس ضروری ہے؟

    پُرسکون نیند کیلیے کون سا وقت اور لباس ضروری ہے؟

    ویسے تو بے خوابی ایک باقاعدہ مرض ہے لیکن پُرسکون نیند کے لیے پہلے سے کچھ تیاری نہ کی جائے تو وہ بھی بے خوابی کا بڑا سبب ہے۔

    یاد رکھیں سونے سے قبل خاص لباس کے ساتھ کچھ اہم چیزوں کی موجودگی پُر سکون نیند کا ذریعہ بنتی ہے، لہٰذا سونے کیلئے لیٹنے سے قبل ان باتوں کا لازمی خیال رکھیں۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رات کو بہترین نیند کیلئے کس وقت اور کس طرح کے لباس میں سونا چاہیے؟ زیر نظر مضمون میں ماہرین صحت نے اس حوالے سے مفید مشورے دیے ہیں۔

    ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے ایک مخصوص وقت بھی بتا دیا ہے کہ اس وقت سونے سے نیند اچھی آتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات ساڑھے 10بجے سونے کا بہترین وقت ہے۔ اس وقت بیڈ میں چلے جانے والے لوگ اکثر پرسکون نیند کے مزے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہرین نے کچھ چیزوں کی فہرست بھی بتائی ہے جو پرسکون نیند کے لیے ضروری ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سردیوں میں خود کو گرم رکھنے سے پُرسکون نیند حاصل کی جاسکتی ہے۔

    برطانوی ماہرین نے اس حوالے سے ایک سروے کیا تاکہ جان سکیں کہ سردیوں میں لوگ پُرسکون نیند کے لیے کیا کیا اقدامات کرتے ہیں۔ اس سروے سے جو نتائج سامنے آئے ان سے ماہرین نے اخذ کیا ہے کہ سردیوں میں کمبل یا رضائی میں مناسب حد تک اون وغیرہ ہونی چاہیے تاکہ وہ سردی روک سکے۔

    اس کے علاوہ سوتے وقت پہننے والی جرابیں، 2آرام دہ تکیے اور کاٹن کے پائجاموں کا ایک جوڑا پُرسکون نیند کے لیے بہت ضروری ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رات کو گرم پانی کی ایک بوتل بھی پاس رکھنی چاہیے تاکہ پیاس لگنے پر ٹھنڈا پانی نہ پینا پڑے کیونکہ اس سے سردی کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے۔گرم پانی پینے سے جسم گرم رہتا ہے اور پُرسکون نیند آتی ہے۔

    مزید پڑھیں : نیند کی کمی کس خطرناک بیماری کا پیش خیمہ ہے، تحقیق

    ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ نیند میں کمی لوگوں میں مثبت احساس میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کا تعلق بے چینی اور ڈپریشن کے ساتھ بھی ہے۔

    نیند کی کمی کے نتیجے میں امراض قلب، ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی، ہائی بلڈ پریشر، فالج اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • نیند کی کمی کس خطرناک بیماری کا پیش خیمہ ہے، تحقیق

    نیند کی کمی کس خطرناک بیماری کا پیش خیمہ ہے، تحقیق

    نیند کی کمی کے نتیجے میں امراض قلب، ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی، ہائی بلڈ پریشر، فالج اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ نیند میں کمی لوگوں میں مثبت احساس میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کا تعلق بے چینی اور ڈپریشن کے ساتھ بھی ہے۔

    یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں کی جانے والی تحقیق میں محققین نے50 برس سے زائد عرصے میں کئے جانے والے154؍ مطالعات کا جائزہ لیا۔

    اس تحقیق کے نتائج جرنل سائیکولوجیکل بلٹ ان میں شائع ہوئے۔ نیند میں کمی پر کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ نیند میں کمی (ایسی کیفیت جس میں لوگ معمول سے کم نیند لے پاتے ہیں) کا تعلق لوگوں میں مثبت احساسات میں واضح کمی سے دیکھا گیا۔

    ساتھ ہی نیند میں کمی کا تعلق بے چینی اور ڈپریشن کے بلند خطرات کے ساتھ بھی دیکھا گیا، اگرچہ یہ اثر بظاہر معمولی تھا۔

    جامعہ سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جو بوور کے مطابق جب لوگ دوستوں سے ملنے یا پسندیدہ ٹی وی شو دیکھنے جیسی پُر لطف سرگرمیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو ان کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد لوگوں میں گھل مل نہیں پاتے لہٰذا ان کے اکیلے پڑ جانے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر جو بوور نے بتایا کہ ہمارے اس نیند کی کمی کے شکار معاشرے میں لوگ اکثر رات دیر تک جاگتے ہیں لیکن یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ کم نیند ان کے مزاج پر اثر ڈال سکتی ہے۔

  • آدھا چمچ ہلدی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سردیوں کی بیماریاں ختم

    آدھا چمچ ہلدی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سردیوں کی بیماریاں ختم

    ہرسال موسم سرما کے آغاز پر مختلف بیماریوں کا زور پکڑنا عام سی بات ہے، سردی کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ نزلہ، زکام، کھانسی اور ہلکے بخار جیسی موسمی بیماریاں بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔

    اس لیے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس قسم کی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے موسمی پھل اور دیگر گھریلو علاج ایک نہایت آسان طریقہ ہے۔

    اس کے لئے آپ کو ایسی غذاؤں کا استعمال کرنا ہوگا جو آپ کو ان نزلہ زکام، بخار اور کھانسی جیسے مسائل سے دور رکھ سکیں۔

    ان بیماریوں کے علاج کے لئے گھر میں موجود بہترین غذاؤں میں سے ایک چیز ہلدی ہے، ہلدی اپنی شفا بخش خصوصیات کی وجہ سے روایتی گھریلو علاج اور ادویات کا اہم حصہ ہے، یہ ایک قدرتی اینٹی آکسیڈنٹ ہے اور اس میں اینٹی سوزش خصوصیات بھی موجود ہیں۔

    ہلدی میں موجود قدرتی اجزاء نزلہ زکام، سردی میں ہڈیوں کا درد، درد ناک جوڑوں کا مسئلہ اور بدہضمی کو ٹھیک کرنے میں مدد دیتے ہیں، یہ گلے کی خراش اور بیکٹیریل انفیکشن سے بھی راحت فراہم کرتے ہیں جو سردیوں میں عام ہوتے ہیں۔

    ہلدی جسم کے مدافعتی نظام کو بہت سی بیماریوں کے خلاف لڑنے میں مدد کرتی ہے۔ ہلدی کے فوائد حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اسے اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کریں۔

    یہ ہی نہیں موسم سرما میں ہلدی سے بھرپور مشروبات کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے تو پھر ذیل میں بتائی گئی ہلدی والی ڈرنکس بنائیں اور اپنی قوت مدافعت کو بڑھائیں۔

    ہلدی اجوائن کا شربت :

    ہلدی اجوائن کا پانی اس مشروب کو بنانے کے لئے آپ اجوائن کو رات بھر پانی میں بھگو دیں، اگلے دن اس پانی کو کچی ہلدی کے ساتھ اُبالیں اور پھر چھان کر گرما گرم پی لیں، یہ مشروب آپ کی صحت کے لئے بےحد مفید ثابت ہوگا اور آپ کو سردی کی مختلف بیماریوں سے بچائے گا۔

    کینو اور ہلدی کا شربت :

    کینو اور ہلدی والا ڈرنک ایک عدد کینو چھیل کر اس کا رس نکال لیں، اب ایک عدد گاجر کا بھی رس نکال کر اس میں ملا لیں، اب ان دونوں کو مکس کریں اور اس میں آدھا چائے کا چمچ ہلدی شامل کریں پھر لیموں کا رس اور اوپر سے ادرک کا رس ڈال کر مکس کریں اور ٹھنڈا کر کے پی لیں، یہ ایک ایسا جادوئی ڈرنک ہے جو نہ صرف ذائقے میں مزیدار بلکہ آپ کی قوتِ مدافعت کو بڑھانے کے لئے بہترین ثابت ہوگا۔

    دودھ اور ہلدی کا شربت :

    ہلدی اور دودھ کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں لیکن اگر سردی میں اس ہلدی دودھ میں جلد غذائیت سے بھرپور اجزاء اور شامل کر لیے جائیں تو کیا ہی بات ہے، دودھ میں ہلدی شامل کرکے اسے پکائیں، اب اس میں ایک چٹکی دارچینی پاؤڈر مٹھاس کے لئے شہد اور گُڑ شامل کریں اور رات کے وقت گرما گرم یہ ہلدی مصالحہ دودھ پی کر سو جائیں، نہ ہی سردی لگے گی اور نہ ہی کوئی سردی کا انفیکشن آپ کا کچھ بگاڑ سکے گا۔

    ہلدی وینیلا دہی اسموتھی :

    ہلدی کو دہی میں شامل کرکے دہی کی بہترین اسموتھی بھی بنا سکتے ہیں اس کے لئے بس ایک کپ دہی لیں، اس میں آدھا چائے کا چمچ ہلدی شامل کریں، 2 عدد کیلے شامل کریں ایک چٹکی دارچینی ملائیں اور مٹھاس کے لئے ایک سے 2 کھانے کے چمچ شہد ملا لیں اسے بلینڈ کریں اور پی لیں۔

  • ناف کیوں ہٹتی ہے ؟ اس کی علامات اورعلاج کیا ہے ؟

    ناف کیوں ہٹتی ہے ؟ اس کی علامات اورعلاج کیا ہے ؟

    آپ نے بہت سے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہوگا کہ میری ناف اتر گئی ہے یا اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے یا حقیقت کچھ اور ہے؟

    زیر نظر مضمون میں ناف کی اس کیفیت سے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، ویسے تو در حقیقت ایلوپیتھی یا دیگر طریقہ علاج میں ناف کے ہٹنے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔

    البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی انسان کو یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے اور عام طور پر اس کی وجوہات میں بھاری وزن اٹھانا، معمول سے ہٹ کر سخت محنت اور وقت پر کھانا نہ کھانا شامل ہے۔

    ناف ہٹنے علامات میں عام طور پر پیٹ میں درد ہونا ، قبض کی شکایت، معدے کے مسائل، کھانے پینے کی خواہش ختم ہوجانا وغیرہ ہوسکتی ہیں۔

    ناف اُترنے کی کیا پہچان ہے؟

    اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی ناف اتر چکی ہے تو صبح ناشتے سے پہلے انگوٹھے کو ناف پر رکھیں، اگر وہاں وائبریشن یا دھڑکن کا احساس ہو تو ناف اپنی جگہ پر موجود ہے، دوسری صورت میں وہ اپنی جگہ سے ہٹ چکی ہے۔

    اسی طرح ایک اور طریقہ چت لیٹنا ہے، چت لیٹ کر اپنے دونوں ہاتھ جسم کے پہلوﺅں میں رکھیں جبکہ پیروں کو سیدھا پھیلا کر انگوٹھوں کو دیکھیں، اگر وہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی یا لیول پر نہ ہو تو یہ بھی ناف اترنے کی نشانی ہوسکتی ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    ناف کے ہٹنے کا ایک بہترین علاج خشک چائے کی پتی ہے، اسے اچھی طرح پیس لیں اور پھر ایک چائے کا چمچ اس سفوف کو ایک گلاس پانی میں ملاکر پی لیں، جس سے پیٹ میں درد فوری ختم ہوجائے گا، تاہم کچھ افراد کو ریلیف میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

    اسی طرح بیٹھ کر ٹانگیں سامنے پھیلا لیں، پھر اپنی دائیں ٹانگ کو موڑ لیں اور اپنے ہاتھوں کو آگے پھیلا کر بائیں ٹانگ کے انگوٹھے کو چھونے کی کوشش کریں اور 7 بار اسے دہرائیں۔

    اس کے بعد دونوں ٹانگوں کو سیدھا پھیلا لیں اور اس بار بائیں ٹانگ کو موڑ کر ہاتھوں سے دائیں ٹانگ کے انگوٹھے کو چھوئیں، یہ عمل بھی 7 بار دہرائیں، اس ورزش سے ناف اپنی جگہ واپس لوٹ آئے گی۔

  • سُرمائی مچھلی : موسم سرما کی غذائیت سے بھرپور سوغات

    سُرمائی مچھلی : موسم سرما کی غذائیت سے بھرپور سوغات

    غذائیت کے اعتبار سے مچھلی انسانی جسم کیلئے بےحد مفید ہے موسم سرما میں اسے ہفتے میں ایک بار لازمی اپنی خوراک کا حصہ بنایا جائے تاکہ آپ ہر قسم کے موسمی اثرت اور خصوصاً چہرے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرسکیں۔

    مچھلی میں سب سے زیادہ پروٹین پایا جاتا ہے جو ہڈیوں اور دل کو صحت مند بنانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ان ہی مچھلیوں میں ایک نام سُرمائی مچھلی ہے جسے انگریزی میں کنگ فِش کہا جاتا ہے  یہ مچھلی غذائیت اور ہلکے ذائقے کی وجہ سے پسند کی جاتی ہے اور اپنی مثال آپ ہے۔

    سُرمائی مچھلی سے صحت کے لیے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں، ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور یہ مچھلی متوازن خوراک میں ایک قیمتی اور اضافہ ہے۔

    سُرمائی مچھلی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز (خاص طور پر ای پی اے اور ڈی ایچ اے) کا شاندار ذریعہ ہے، جو دل کی صحت، دماغی افعال، اور سوزش کم کرنے کے لیے نہایت اہم ہیں، اس کے علاوہ آپ ہر قسم کے موسمی اثرت سے محفوظ اور خصوصاً چہرے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔

    Kingfish

    یہ طریقہ کار فیٹی ایسڈز ٹرائی گلیسرائیڈز کو کم کرنے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ سُرمائی مچھلی دماغ کی نشوونما اور کارکردگی کے لیے اہم ہے، جس سے یادداشت، ذہنی صلاحیت، اور موڈ بہتر ہوتا ہے۔

    ایک کم چکنائی والے پروٹین کے ذریعے سُرمائی مچھلی عضلات کی افزائش میں معاون ہوتی ہے۔ یہ وٹامن بی 12 سے بھرپور ہے، جو اعصابی نظام کی کارکردگی اور سرخ خون کے خلیات بنانے کے لیے ضروری ہے۔

    سُرمائی مچھلی میں سیلینیم، جو ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے، خلیات کو فری ریڈیکلز سے ہونے والے نقصان سے محفوظ رکھتا ہے اور قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔

    اس کے علاوہ پوٹاشیم، جو سُرمائی مچھلی میں موجود ایک اور اہم غذائیت ہے، بلڈ پریشر اور دل کے افعال کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

    ان بنیادی فوائد کے علاوہ، کنگ فش سوزش کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، جو گٹھیا اور سوزشی آنتوں کی بیماری مبتلا افراد کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔

    اس کے علاوہ یہ فیٹی ایسڈز جلد کی صحت کو بہتر بنانے اور عمر سے متعلقہ میکیولر ڈی جینریشن کے خطرے کو کم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔

    تاہم سُرمائی مچھلی کھاتے وقت مرکری مواد کا خیال رکھنا ضروری ہے، بڑی مچھلیاں، جیسا کہ سُرمائی مچھلی وقت کے ساتھ مرکری کو جمع کر سکتی ہیں۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے چھوٹی سُرمائی مچھلی کا انتخاب کریں اور اس کا استعمال محدود رکھیں۔ خاص طور پر حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی مائیں اور چھوٹے بچوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔

    سُرمائی مچھلی کو متوازن خوراک میں شامل کرکے آپ اس کے بے شمار صحت بخش فوائد سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور بیماری سے منسلک موسمی خطرات کو بھی کم کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : اصلی سرمائی مچھلی کی پہچان اور مکمل معلومات

    سرمائی کے نام پر مچھلی فروش کئی سستی نسل کی مچھلیاں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں جن میں گھوڑ، ٹونا، سارم اور اسپینش میکرل شامل ہیں۔ مچھلی فروش اکثر دھوکا دینے کے لیے دوسری مچھلیوں جیسا کہ سارم کو ’سارم سرمائی‘ اور ٹونا کو ’ٹونا سرمائی‘ یا کسی اور مچھلی کے نام کے ساتھ سرمائی لگا کر بیچتے ہیں۔

  • بچوں کو موبائل فون کی عادت سے کیسے بچایا جائے؟ آسان طریقہ

    بچوں کو موبائل فون کی عادت سے کیسے بچایا جائے؟ آسان طریقہ

    ٹی وی، آئی پیڈ اور موبائل فون کا استعمال آج کل ہر انسان کی ضرورت کی حد تک مجبوری بن گیا ہے لیکن والدین کی جانب سے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون پکڑانا ان کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

    روزمرہ کے کام کاج کے علاوہ سماجی زندگی میں بھی موبائل فون کا استعمال دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، ہر گھر میں چھوٹے بچوں کا کئی کئی گھنٹوں تک موبائل اسکرین سے چپکے رہنا معمول بن چکا ہے، جس کو ماہرین نے ڈیجیٹل نشہ قرار دے رہے ہیں۔

    نئے دور میں بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات دینا ضرورت بن گیا ہے،اس تمام صورت حال میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے ‘اسکرین ٹائم’ کی کتنی اہمیت ہے؟

    موبائل یا ٹیبلٹ کی اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کی عادت نوجوان نسل کے رویوں، خوراک اور یہاں تک کہ ذہنی صحت پر بھی نمایاں طور پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہ اکثر گھرانوں میں ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو موبائل اسکرینز سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں متبادل سرگرمیوں میں بھی مشغول کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

    جب بھی ممکن ہو اپنے بچے کے ساتھ اپنا اسکرین ٹائم شیئر کرلیں، وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے آپ کا آگاہ ہونا بہت مفید ہوسکتا ہے۔ ایک ساتھ آن لائن مواد دیکھنے سے والدین اور بچوں کے درمیان بات چیت کے لیے نت نئے موضوعات بھی مل جاتے ہیں۔

    بچے اپنے والدین کے رویوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں، آپ نے اپنے بچوں کے لیے جو اسکرین ٹائم کی حدیں مقرر کی ہیں ان پر خود بھی عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں۔ لہٰذا اپنے اسکرین ٹائم کا بھی خاص خیال رکھیں، جب موبائل ڈیوائسز استعمال میں نہ ہوں تو ان کو بند کر دیں اور فیملی ٹائم کو اسکرین ٹائم پر ترجیح دیں۔

    اگر آپ کے بچے موبائل اسکرین کے سامنے کافی زیادہ وقت گزارتے ہیں تو حقیقت پسندانہ اہداف طے کرنا ضروری ہے۔ مثلاً اگر آپکا بچہ دن کے 12 گھنٹے موبائل استعمال کرتے گزرا دیتا ہے تو اسے ایک دم ایک گھنٹے پر لانا دیرپا ثابت نہیں ہوسکے گا، لہٰذا آغاز اُسے 12 گھنٹوں سے 6 گھنٹے پر لانے سے کریں۔

    جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہنا، گھر سے باہر نکل کر چہل قدمی کرنا یا کھیل کود میں مصروف رہنا اینڈورفنز کے قدرتی اخراج کا سبب بنتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ انسان کے مزاج اور جسمانی صحت کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    لہٰذا بچوں کو موبائل اسکرینز سے ہٹاکر باہر کھیل کود میں وقت گزارنے کی ترغیب دینا انہیں موبائل کی لت میں مبتلا ہونے سے بچا سکتا ہے۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے مطابق درحقیقت بہت زیادہ موبائل فون اسکرین استعمال کرنے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں کمزور تعلیمی کارکردگی، موٹاپا، بچوں میں منفی رویے جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی لیے بچوں کو کم از کم 60 منٹ آؤٹ ڈور گیمز یا گھر سے باہر میدان میں کھیلنا چاہیے، جس سے بچوں میں توازن میں بہتری، سماجی مہارت، زبان اور دیگر خوبیاں جنم لیتی ہیں۔

  • ناریل کا تیل صرف فائدہ مند نہیں نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے

    ناریل کا تیل صرف فائدہ مند نہیں نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے

    ناریل کے تیل میں بے شمار فوائد اور خصوصیات پوشیدہ ہیں اس کا استعمال انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید ہے لیکن اس کے نقصانات سے بھی آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔

    زیر نظر مضمون میں ماہرین صحت کی آرا اور مشورے کی روشنی میں ناریل کے تیل کے فوائد اور نقصانات پر تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

    ناریل کھایا جائے یا اس کا تیل استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں یہ جسم کے لیے فائدہ مند ہے۔ لوگ خود کو صحت مند رکھنے کے لیے ناریل پانی سے لے کر ناریل تیل تک ہر چیز کا بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔

    امراض جلد کے ماہر بھارتی ڈاکٹر امیت کمار کے مطابق ناریل کا تیل موئسچرائزنگ خصوصیات سے بھرپور ہے، اس کے علاوہ اس میں سیچوریٹڈ فیٹس اور بہت سے امینو ایسڈز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

    ناریل کے تیل کی اس خوبی کی وجہ سے جلد کیلئے ناریل کا تیل بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ناریل کے تیل میں ایسی کئی خصوصیات ہیں جو آپ کی جلد کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے ناریل تیل استعمال کرنے سے پہلے آپ کو اس کے نقصانات کے بارے میں جان لینا ضروری ہے۔

    جلد پر برے اثرات

    ماہرین صحت کے مطابق ناریل کا تیل کافی بھاری ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی بار بیوٹی پراڈکٹس میں اس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے چہرے پر جھریاں اور لکیریں نمودار ہوجاتی ہیں۔

    اس لیے جسم بالخصوص چہرے پر ناریل کے تیل کے زیادہ استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ناریل کے تیل کا استعمال ہماری جلد پر الرجی کا باعث بنتا ہے۔

    ماہر صحت کا کہنا ہے کہ چہرے پر ناریل کا تیل لگانے کے بعد الرجی کا خدشہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ناریل تیل میں موجود ٹرانس فیٹ چہرے پر موجود تہہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے نمی ہماری جلد کے اندر جانے سے تقریباً رک جاتی ہے اور ہماری جلد اندر سے خشک ہونے لگتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی جلد کی قسم کی شناخت کے بعد ناریل تیل کے استعمال کو محدود کریں۔

    اس کے علاوہ آپ کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ اگر آپ کی جلد پہلے سے تیل والی ہے تو آپ کو رات بھر اپنے چہرے پر ناریل تیل نہیں لگانا چاہیے۔

    ماہرین صحت ناریل تیل کے استعمال کو چہرے پر مہاسوں کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی قرار دیتے ہیں۔ حساس اور تیل والی (آئلی) جلد والے لوگوں کے لیے ناریل تیل کا استعمال فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی جلد میں تیل کی پیداوار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے چہرے پر بہت سے دانے نکل آتے ہیں۔

    فوائد 

    ناریل خون پیدا کرتاہے، جسمانی کمزوری اور فالج میں بہت مفید ہے۔ مثانہ کی سردی و کمر کے درد کو بھی نافع ہے۔ کچے پھل کا پانی پتھری میں فائدہ پہنچاتا ہے، ناریل کا تیل مقوی دماغ اور درد دل کے لیے مفید ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • خوراک میں چینی کا استعمال کب خطرناک ہوتا ہے؟

    خوراک میں چینی کا استعمال کب خطرناک ہوتا ہے؟

    چینی کا استعمال ہماری خوراک اور مشروبات کے ذائقے کو مزید بہتر بنانے کیلئے اہم ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ چینی کا باقاعدہ اور طویل عرصے تک استعمال صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

    ماہرین صحت کا چینی کو سفید زہر قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ موٹاپے سے لے کر ذیابیطس تک، زیادہ شوگر کا استعمال ہمارے جسم اور صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    اگر آپ شعوری طور پر اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش کریں تو یہ یقیناً آپ کی دیرپا صحت کا ضامن ہے۔

    چینی

    شوگر کیوں کم کی جائے؟

    جسمانی وزن میں اضافہ : زیادہ شوگر کا استعمال وزن میں اضافے کا باعث ہے۔ جب آپ اپنے جسم کی مقررہ ضرورت سے زیادہ شوگر لیتے ہیں تو یہ چربی کی صورت میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ مثلاً، ایک کین سوڈا میں تقریباً 20 گرام شوگر ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ وزن کو بڑھاتی ہے۔

    ذیابیطس سے بچاؤ : زیادہ شوگر انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے، جو ذیابیطس ٹائپ ٹو کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ شوگر کو کم کرنے سے خون میں شکر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

    دل کی صحت : زیادہ شوگر کا استعمال امراض قلب کے خطرے میں اضافے سے منسلک ہے۔ شوگر کی مقدار کم کرنے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

    صحتمند جلد : شوگر کی زیادتی جلد کی عمر رسیدگی اور کیل مہاسوں کا باعث بن سکتی ہے۔ شوگر کم کرنے سے آپ کی جلد کی خوبصورتی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    توانائی میں اضافہ : وہسے تو شوگر عارضی طور پر توانائی فراہم کرتی ہے لیکن بعد میں یہی شوگر توانائی کے ختم ہونے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کم شوگر والی غذا سے آپ دن بھر مستحکم توانائی برقرار رکھ سکتے ہیں۔

    شوگر کم کرنے کے لیے تجاویز:

    خوراک کے اجزاء لازمی پڑھیں : پراسیسڈ غذاؤں میں چھپی ہوئی شوگر کا دھیان رکھیں۔ بازار میں دستیاب اشیاء کے اجزاء میں "ہائی فریکٹوز کارن سیرپ”، "سوکروز”، اور "مالٹوز” جیسے ناموں پر نظر رکھیں۔ مثلاً، ایک صحت مند نظر آنے والا گرینولا بار بھی بڑی مقدار میں اضافی شوگر ہوسکتا ہے۔

    قدرتی مٹھاس کی اشیاء کا انتخاب : جب آپ کو مٹھاس کی ضرورت ہو تو شہد، میپل سیرپ، یا اسٹیویا جیسے قدرتی طور پر متبادل میٹھی اشیاء کا استعمال کریں لیکن انہیں بھی اعتدال میں رکھیں۔ پھل اور سبزیاں غذائیت سے بھرپور اور قدرتی مٹھاس کے بہترین ذرائع ہیں۔ مثلاً، بیریز کا ایک پیالہ ایک مٹھاس بھری ڈش کی بجائے بہتر ہے۔

    گھر میں بنے کھانوں کو ترجیح دیں: گھر میں کھانے کی تیاری کرنے سے آپ کو اجزاء اور شوگر کی مقدار پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے، جس سے آپ بہتر انتخاب کر سکتے ہیں اور اضافی شوگر سے بچ سکتے ہیں۔

    مشروبات کا استعمال کم کریں : سوڈا، جوس اور میٹھے چائے زیادہ شوگر کی مقدار کے بڑے ذرائع ہیں۔ بغیر چینی کی چائے یا ذائقہ دار سادہ پانی کا انتخاب کریں۔

    خوراک میں تبدیلی بتدریج لائیں : یکدم شوگر چھوڑنے کی کوشش نہ کریں، آہستہ آہستہ اپنی غذا میں تبدیلی کریں تاکہ احساس محرومی نہ ہو۔

    صحت مند متبادل : مٹھاس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائیں۔ جس میں پھل، ڈارک چاکلیٹ، یا بیریز کے ساتھ یونانی دہی کو آزمائیں۔

    یاد رکھیں : شعوری فیصلے اور مندرجہ بالا تجاویز کو معمولات زندگی میں شامل کرکے آپ اپنی شوگر کی مقدار کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں اور بہتر صحت کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، چھوٹے قدم بڑے تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔