Tag: Health

  • سینے میں انفیکشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟

    سینے میں انفیکشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟

    سینے میں درد کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں،۔ بعض صورتوں میں، درد کچلنے یا جلنے والا معلوم ہوتا ہے تاہم علاج کے ساتھ ساتھ کچھ ضروری ہدایات پر عمل کرکے اس تکلیف سے نجات پانا کافی حد تک ممکن ہے۔

    نزلے یا زکام کے بعد سینے کا انفیکشن نہایت عام ہوتا ہے، اگرچہ یہ زیادہ تر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات تشویشناک یہاں تک کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    سینے میں درد کی دیگر صورتوں میں یہ گردن اور جبڑے تک جاسکتا ہے اور پیٹھ یا ایک یا دونوں مسائل سے نکل سکتا ہے اسکے علاوہ بہت سے مختلف مسائل سینے میں درد کا سبب بن سکتے ہیں۔

    سینے میں انفیکشن کی علامات کسی بھی موسم میں لاحق ہو سکتی ہیں، تاہم موسمِ سرما میں اس انفیکشن کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ سینے میں انفیکشن سانس کی نالی کے انفیکشن کی ایک قسم ہے جو سانس کی نالی کے نچلے حصے کو متاثر کرتا ہے۔

    سینے میں انفیکشن کی علامات زیادہ خطرناک نہیں ہوتیں، اس لیے ان علامات سے نجات حاصل کرنے کے لیے ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، تاہم اگر یہ علامات شدت اختیار کر جائیں تو پھر معالج کے مشورے سے ادویات استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    چیسٹ انفیکشن کی وجہ سے کئی علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ علامات مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں۔

    ان علامات میں مستقل کھانسی، سر میں درد، سانس لینے میں مشکلات، کھانسی کے ساتھ خون آنا، تھکاوٹ، بھوک نہ لگنا، سینے میں درد، دل کی دھڑکن تیز ہو جانا، جوڑوں یا جسم کے مختلف حصوں میں درد یا بخار کی کیفیت شامل ہیں۔

    سینے میں انفیکشن کے علاج کیلئے مندرجہ ذیل طریقے مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

    شہد

    صحت کو بہتر بنانے اور مختلف طبی مسائل کو ختم کرنے کے لیے شہد کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں اینٹی بیکٹیریل، اینٹی آکسیڈنٹ، اور اینٹی سیپٹک خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

    شہد کو گرم پانی میں لیموں کے ساتھ مکس کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہد کھانسی کی ادویات کی نسبت زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرتا ہے۔ شہد کا استعمال نہ صرف کھانسی جیسی علامات کو کم کرتا ہے بلکہ نیند میں بہتری لانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔

    گرم دودھ پینا

    مریض کیلیے گرم دودھ کا استعمال بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سردی کی وجہ سے لاحق ہونے والے چیسٹ انفیکشن کی علامات کو ختم کرنے کے لیے ایک گلاس گرم دودھ میں شہد، ہلدی، اور کالی مرچ شامل کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    بھاپ لینا

    انفیکشن کی وجہ سے کئی دفعہ سینے کی جکڑن کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھاپ لی جاتی ہے۔ بھاپ لینے کے لیے کسی برتن میں گرم پانی ڈال لیں اور سر کو تولیے یا کسی کپڑے سے ڈھانپ کر سانس لیں۔

    ہربل چائے

    سینے میں ہونے والی انفیکشن کے خلاف ہربل چائے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ کیمو مائل، پودینے، روز میری، اور ادرک جیسے مفید ہربز کے استعمال سے سینے کی انفیکشن اور جکڑن کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اس کے علاوہ ادرک کو کچا چبا لیں جب کہ آپ اسے سلاد میں بھی شامل کرکے استعمال کر سکتے ہیں۔

    پانی زیادہ سے زیادہ پئیں

    جسم میں پانی کی متوازن مقدار ہونے سے بلغم کو خارج کرنے میں مدد ملتی ہے اور سینے میں انفیکشن سے نجات حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس لیے یہ انفیکشن لاحق ہونے کی صورت میں نیم گرم پانی کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنا چاہیئے۔

    چیسٹ انفیکشن کے خلاف بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے گرم مشروبات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

    سگریٹ نوشی ترک کریں

    سگریٹ نوشی نہ صرف پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے مجموعی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ سینے میں انفیکشن لاحق ہونے کی صورت میں ایسی چیزوں کے استعمال کو ترک کرنا کا مشورہ دیا جاتا ہے جو ان علامات کے بگڑنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    پیاز کا رس

    ممکن ہے کہ پیاز کا رس کو آپ کو پسند نہ ہو کیوں کہ اس ذائقہ اچھا نہیں ہوتا، تاہم سینے کی انفیکشن اور جکڑن کو ختم کرنے کے لیے پیاز کا رس مفید ثابت کو سکتا ہے۔ پیاز میں اینٹی مائیکروبیل خصوصیات پائی جاتی ہیں جو جسم کو انفیکشن سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

    پیاز کے رس کے ذائقے کو بہتر بنانے کے لیے آپ اس میں لیموں اور شہد شامل کر سکتے ہیں۔ اس مکسچر کو نیم گرم کر کے دن میں تین سے چار مرتبہ استعمال کریں۔

    تکیے کا استعمال

    رات کو سونے سے قبل سر کے نیچے تکیے کو لازمی رکھیں، کیوں کہ بالکل سیدھا سونے سے بلغم آپ کے سینے میں جمع ہو سکتی ہے، جس سے انفیکشن کی علامات شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ اس لیے نیند کے دوران سر کو اونچا رکھنے کے تکیے کو سر کے نیچے رکھیں۔

    اینٹی بائیوٹک ادویات سے گریز

    کچھ افراد سینے میں انفیکشن لاحق ہونے کی وجہ سے خود ساختہ طور پر اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں جو مفید ثابت ہونے کے بجائے صحت کو متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے معالج سے مشورہ کیے بغیر سینے کے انفیکشن سے نجات حاصل کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے سے گریز کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • جم میں ورزش کرتے ہوئے کون سی احتیاط لازمی ہے؟ باڈی بلڈنگ کوچ نے بتادیا

    جم میں ورزش کرتے ہوئے کون سی احتیاط لازمی ہے؟ باڈی بلڈنگ کوچ نے بتادیا

    انسانی صحت کیلئے ورزش کرنا بہت ضروری ہے، ورزش کرنے سے نہ صرف پٹھوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ دماغی صحت کے لئے بھی بہت اہم ہے۔

    ورزش کی افادیت اور اہمیت سے انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر ورزش کرتے ہوئے کچھ خاص باتوں کا دھیان نہ رکھا جائے تو یہی ورزش بہت بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں باڈی بلڈنگ کے انٹرنیشنل کوچ طارق ظفر نے جِم جاکر ورزش کرنے سے متعلق اہم مشورے دیئے۔

    انہوں نے بتایا کہ ویٹ لفٹنگ اور باڈی بلڈنگ سمیت متعدد ایکسر سائز ہیں جنہیں ہر انسان کو اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع کرنا چاہیے۔

    غلط ورزش سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپنی ضرورت اور طاقت سے زیادہ ویٹ اٹھانا یا غلط زاویے سے اٹھانا غلط طریقہ کار ہے ہمیشہ اپنے ٹرینر کے مشورے پر چلیں اور اس کی ہدایات پر لازمی عمل کریں۔

    طارق ظفر نے کہا کہ باڈی بلڈنگ کرتے ہوئے کبھی بھی شاٹ کٹ استعمال نہ کریں کیونکہ اگر بار کوئی انجری ہوگئی تو اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال بھارت میں ایک 23 سالہ نوجوان جم میں ورزش کرنے کے 3 گھنٹے بعد اچانک انتقال کرگیا۔

    ماجد حسین شعیب جم میں ورزش کرنے کے بعد 8 بجے گھر واپس پہنچا تو رات 11 بجے اس کے سینے میں درد شروع ہوا جس کے بعد دل کو دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

  • کن چیزوں کو ’کچا کھانا‘ انتہائی نقصان دہ ہے؟

    کن چیزوں کو ’کچا کھانا‘ انتہائی نقصان دہ ہے؟

    عام طور پر ہم کچھ سبزیوں کا دیگر غذائی اجناس کو کچا کھا لیتے ہیں جو ہماری صحت کیلئے مناسب نہیں یہ غذائیں ہمیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں روزمرہ میں بیشتر افراد کچی یا خام حالت میں یعنی بغیر پکائے کھالیتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند پسندیدہ غذائیں ایسی ہیں جنھیں خام حالت یا کچا کھانا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے یا ان کو پکا کر کھانا صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے؟

    آج ہم آپ کو ان غذاؤں کے بارے میں آگاہی فراہم کریں گے جن کو کچا کھانے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ سر درد، تھکاوٹ، دل متلانے اور فوڈ پوائزننگ کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اس کے علاوہ کچھ غذائیں ایسی بھی ہیں جنہیں کچا کھانا نقصان دہ تو نہیں مگر جسم کے لیے ان کا فائدہ ضرور کم ہوجاتا ہے۔

    کچا دودھ پینا :

    کچے دودھ میں بیکٹریاز موجود ہوتے ہیں جو پیٹ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں، لہٰذا دودھ کو اچھی طرح ابال کر پینا بہت ضروری ہے تاکہ اس میں موجود ایکولی اور دیگر بیکٹریا کا خاتمہ ہوسکے۔

    انڈے :

    انڈوں کو صبح کے ناشتے کا اہم جز سمجھا جاتا ہے لیکن یاد رکھیں انڈے بھی فوڈ پوائزننگ کا باعث بن سکتے ہیں جس کی وجہ ان میں پائے جانے والے ’سامونیلا‘ بیکٹریا ہیں، لہٰذا انڈوں کو ٹھیک طرح سے پکانا ہی بیماری سے بچنے کی کنجی ہے، ایسی چیزیں کھانے سے بچیں جن میں کچے انڈوں کا استعمال ہوا ہو یا ان کا بہت کم استعمال کریں۔

    گاجر : 

    گاجر کو کچا کھانا نقصان دہ تو نہیں مگر پکی ہوئی گاجر صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوتی ہے، گاجر میں بیٹا کیروٹین نامی جز پایا جاتا ہے، جو جسم میں جاکر وٹامن اے کی شکل اختیار کرتا ہے۔

    کچی گاجر کے مقابلے میں اسے پکانے کے بعد یہ جز جسم کے لیے زیادہ غذائیت سے بھرپور اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، اس سے بینائی بہتر، ہڈیاں مضبوط اور جسمانی دفاعی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔

    بینگن :

    کچھ لوگ کچے یا ادھ پکے بینگن بھی کھا جاتے ہیں، کچے یا ادھ پکے بینگن جسم میں جاکر کیلشیم کے جذب ہونے کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں جس کی وجہ ان میں موجود ایک کمپاؤنڈ سولانائن ہے، یہ کمپاؤنڈ قے، پیٹ میں درد اور غشی جیسے مسائل کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے۔

    زیتون :

    کچا زیتون کھانا بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ اس میں ایسے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو جان لیوا فوڈ پوائزننگ کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    مشروم :

    ویسے تو پاکستان میں لوگ مشروم اتنے شوق سے نہیں کھاتے مگر جب بھی کھائیں تو انہیں پکا ، ابال کر یا بھون کر ہی کھائیں کیونکہ اس طرح یہ زیادہ پوٹاشیم جسم کا حصہ بنا کر صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

  • میک اپ کا برش کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟ اسے کیسے دھویا جائے؟

    میک اپ کا برش کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟ اسے کیسے دھویا جائے؟

    خواتین کے میک اپ کیلئے خصوصی برش کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ معیاری اور جراثیم سے پاک ہو اور اس کی صفائی بھی ہفتہ وار بنیاد پر کی جائے۔

    دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کچھ بیوٹیشنز میک اپ میں استعمال ہونے والے ٹولز خاص کر برش کی صفائی پر توجہ نہیں دیتیں جو مختلف بیماریوں کا سبب اور جلد کیلئے
    نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    میک اپ کے خصوصی برش خشک اور گیلی دونوں اقسام کی مصنوعات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے برش میں خطرناک بیکٹیریاز پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔

    میک اپ برش

    یہ جراثیم جلد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جلد پر ایکنی اور دوسرے انفیکشنز کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان برشز کو سات سے دس دن کے اندر لازمی دھویا جائے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں کیسے صاف کیا جائے؟ یہاں پر برش کو دھوںے کے چند آسان سے طریقے پیش کیے جارہے ہیں۔

    نیم گرم پانی سے دھونا

    برش دھونے کا یہ سب سے پہلا مرحلہ ہے جس میں بہتے ہوئے گرم پانی سے برش کی ٹپس کو دھویا جاتا ہے۔ اس طرح برش پر جما میک اپ کو دھونے میں مدد ملتی ہے ۔ خیال رکھیں کہ برش کے ریشے گیلے ہوں کیوںکہ گرم پانی اس گلو کو تحلیل کر سکتا ہے جو ہینڈل اور برش کے ایک ساتھ جوڑے رکھتاہے۔

    شیمپو کا استعمال

    اس کے لیے کوئی بھی شیمپو استعمال کیا جاتا ہے، ایک پیالے میں نیم گرم پانی لے کر اس میں ایک چمچ شیمپو ڈالیں، اب برش کے ریشے کو اس سے اچھی دھوئیں، برش پر صابن کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس سے اس کے ریشے خشک ہو سکتے ہیں۔ اب اسے پانی سے دھولیں، اس عمل ایک اور بار دہرائیں یہاں تک برش کے ریشے اچھی طرح صاف ہوجائیں۔

    Makeup

    برش کو خشک کریں

    اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ آپ کا برش بلکل صاف ہوچکا ہے، کاغذی تولیے کی مدد سے ریشوں سے اضافی پانی نچوڑ لیں۔ نچوڑنے سے برش تھوڑا سا خشک ہوجائے گا پھر اسے خشک تولیے پر سیدا لیٹا کر رکھ دیں اور خشک ہونے دیں۔

    میک اپ برش کو خشک ہونے میں عام طور پر، ایک دن یا اس سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔ آپ انہیں رات بھر سوکھنے کے لیے بھی چھوڑ سکتے ہیں۔

    اگر دھونے کی بعد میک اپ برش کے ریشے سخت محسوس ہوں تو پریشان ہونے کے بجائے برش کے ریشوں پر کچھ کنڈیشنر لگائیں اور پانی سے دھولیں۔ پھر، انہیں خشک کرنے کے لئے چھوڑ دیں. اس سے ریشے دوبارہ نرم ہوجائیں گے۔

    یاد رکھیں کنسیلر اور فاؤنڈیشن میں استعمال ہونے والے برش کو ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور صاف کریں جبکہ ایسے برش جن کا استعمال آپ اپنی آنکھوں کے گرد کرتے ہیں، انہیں ہر دو ہفتے بعد صاف کرنا چاہیے۔

    brushes

    اس کے علاوہ خشک میک اپ جیسے آئی شیڈو اور آئی لائنر لگانے کے لیے استعمال ہونے والے برش بھی ہر دو ہفتے میں صاف کیے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ اس سے آنکھوں میں انفیکشن ہونے کا امکان کم کیا جاسکتا ہے۔

    پاؤڈر لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے برش اور اسفنج کو مہینے میں ایک بار لازمی دھوئیں۔

  • چاکلیٹ کے علاوہ کون سی غذا دانتوں کو جلدی خراب کرتی ہے؟

    چاکلیٹ کے علاوہ کون سی غذا دانتوں کو جلدی خراب کرتی ہے؟

    مسکراہٹ کو خوبصورت بنانے میں ہمارے دانتوں کا کردار بہت اہم ہے اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہنستے ہوئے اچھے لگیں تو دانتوں کی صحت کا خیال رکھیں۔

    دندان سازوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت دانتوں کو درکار توجہ دینے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے دانتوں کی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

    ماہرین نے دانتوں کی صفائی کے لئے چند اہم تجاویز دی ہیں جن پر عمل کرکے دانتوں کی صحت کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ہماری صحت کا دارومدار ہماری غذا اور منہ سے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی تمام غذاؤں سے پرہیز کیا جائے جو منہ کی صحت کو خراب کرکے دانتوں کو نقصان پہچاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کچھ غذائیں جن کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ وہ دانتوں کے لیے بری نہیں ہے تاہم وہ حیران کن حد تک منہ کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں ان ہی میں کاربوہائیڈریٹ سے تیار کھانے شامل ہیں۔

    اس حوالے سے دانتوں کی صحت کی ماہر وٹنی ڈی فوگیو کا کہنا ہے کہ خمیری کاربوہائیڈریٹس جو چپچپے اور روٹی کی طرح ہوتے ہیں جیسے سفید روٹی، پاستا، چپس، سیریل اور کریکرز آپ کے موتی کی طرح سفید دانتوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔

    خمیری کاربوہائیڈریٹ جب آپ کھاتے ہیں تو چبانے کے دوران یہ ٹوٹ کر شکر میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہی ان کے نقصان دہ ہونے کی اصل وجہ ہے۔

    اس طرح یہ مخصوص کاربوہائیڈریٹ منہ کو زیادہ تیزابی بناتے ہیں جبکہ منہ میں موجود لعاب آپ کے دانتوں سے اس چپچپے کھانے کو ہٹانے کے لیے بہت زیادہ کام کرتا ہے جس سے دانتوں کے سڑنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    فوگیو نے مزید یہ بھی کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کینڈی چینی ہے، ٹھیک ہے، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ روٹی میں بھی چینی ہے۔ جبکہ دوسری طرف، ڈارک چاکلیٹ حیرت انگیز طور پر آپ کے دانتوں کے لیے اچھی ہے کیونکہ اسے آسانی سے دانتوں پر سے صاف کیا جاسکتا ہے اسی طرح ایسی تمام غذائیں جنہیں زیادہ چبانے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے گاجر، سیلری جیسی کچی سبزیاں،سالم اناج عام طور پر آپ کی دانتوں کی صحت کے لیے بہتر ہیں۔

    اگر آپ تھوڑی سی مٹھائی اور کچھ نمکین جیسے چپس کھانے کے شوقین ہیں تو انہیں ایک ہی وقت میں کھا لیں تاکہ دانتوں کو صفائی یعنی آپ کا لعاب اور آپ کے منہ میں موجود تیزابی پی ایچ کو شوگر کو بے اثر کرنے کا وقت مل سکے، اگر آپ دن بھر یہ غذائیں کھاتے رہیں گے تو یہ دانتوں کے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

    فوگیو نے یہ بھی کہا کہ جس ترتیب میں آپ اپنی پسندیدہ غذائیں کھاتے ہیں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دانتوں پر جن کا کوئی اثر نہ ہو جیسے پھل، سبزیاں اور ڈیری آئٹمز خاص کر دہی ہمیشہ آخر میں استعمال کرنے چاہیے۔

    مثال کے طور پر، اگر آپ پنیر کھا رہے ہیں، تو کوشش کریں کہ اسے آخر میں کھائیں تاکہ آپ کے منہ میں موجود تیزابی پی ایچ کو کیویٹی پیدا کرنے والے مادوں کو بے اثر کرنے میں مدد مل سکے۔

    لیکن اگر آپ کے پیلیٹ میں اس قسم کی کوئی بے اثر کرنے والی غذا نہیں ہے تو آپ پانی پی لیں تاکہ دانتوں میں غذا کے ذرات اور اس کے اثر کو دور کیا جاسکے۔ کھانا صحت بخش غذاؤں پر مشتمل ہی کیوں نہ ہو اگر یہ دانتوں پر زیادہ دیر تک رہے تو کیویٹی اور مسوڑھوں کی بیماری کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔

    فوگیو نے خبردار کیا کہ اگر کھانے کے بعد چپچپا مادہ دن بھر دانتوں پر جمع رہے، تو یہ مستقل ٹارٹر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسے سخت ہونے اور کیویٹی بننے میں 24 سے 72 گھنٹے لگتے ہیں۔ لہٰذا، فلاسنگ کا ایک دن بھی ناغہ نقصان دہ پلاک کی تعمیر کو تیز کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ مسوڑھوں کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ اور لوگوں میں دانتوں کے گرنے کی سب سے بڑی وجہ مسوڑھوں کی بیماری ہے، کیویٹی نہیں۔

    مسوڑھوں کی بیماری سے دیگر صحت کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جیسے امراض قلب اور گردے کی بیماری، ذیابیطس، الزائمر۔ مسوڑھوں میں موجود خون کی نالیاں جسم کے تمام اعضاء سے جڑی ہوئی ہیں، اور یہ خراب ٹارٹر بیکٹیریا آپ کے دل کو متاثر کر کے امراض قلب کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

    لہٰذا دن میں ایک بار دانتوں کی اچھی طرح صفائی نہ صرف دانتوں کی بیماری سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ امراض قلب سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔

  • ٹانگوں میں چیونٹیاں سی کیوں رینگتی ہیں؟ احتیاط اور علاج

    ٹانگوں میں چیونٹیاں سی کیوں رینگتی ہیں؟ احتیاط اور علاج

    کیا آپ کو کبھی رات کے وقت اپنے ہاتھ، پیر یا کسی اور حصے کے سُن ہونے کا احساس ہوا ہے؟ جو تھوڑا ہلانے جلانے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اچانک کئی سوئیاں ایک ساتھ چبھوئی جارہی ہوں یا پھر چیونٹیوں کا ایک قافلہ اس مخصوص حصے پر رینگ رہا ہو۔

    طب اور سائنس کی دنیا میں اس کیفیت کو پیریستھیزیا کا نام دیا گیا ہے جسم کا وہ عضو جو سُن ہوگیا ہو ہلانے جلانے پر اچانک تیز سوئی چبھنے جیسا احساس پیدا کرتا ہے جو کبھی کبھار بہت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔

    اس کیفیت میں ٹانگوں میں بے چینی سی ہونے لگتی ہے اور ساتھ ہی ان میں خارش بھی ہونے لگتی ہے، ٹانگوں میں درد اور ٹانگوں کے پٹھوں میں کھچاوٹ، ٹانگوں کو حرکت دینے سے یہ علامات وقتی طور پر دور ہوجاتی ہیں لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ لوٹ آتی ہیں۔

    اس بیماری کو بے چین ٹانگوں کی بیماری یا ’پیریستھیزیا‘ کہا جاتا ہے اور کسی بھی عمر کے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ علامات رات کو سونے کے علاوہ اکثر پرسکون حالت میں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگرایسی علامات مستقل ظاہر ہوں تو یہ ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ یہ گردوں کے فیل ہونے، ذیابیطس اور اعصابی کمزوری کی جانب اشارہ ہے۔

    علاوہ ازیں سخت مشقت، پیدل لمبا سفر کرنا، مردانہ و زنانہ پوشیدہ امراض وغیرہ، کمی خون جسمانی کمزوری شدید گردوں کی خرابی، ذیابیطس اور اعصابی کمزوری، خون کی شریانوں کا سکڑاؤ، خون کی روانی متاثر ہونے اور کمی خون سے ایسی بیماری کا شکار لوگ دل کے امراض کا جلد شکار ہو سکتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’ریسٹ لیس لیگ سینڈروم یعنی بے آرام ٹانگوں کے مرض میں مبتلا خواتین میں دل کے دورے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں جبکہ مردوں میں پھیپھڑوں اور مدافعتی نظام کی کمزوری واقع ہوسکتی ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بیماری کی ایک وجہ آئرن کی کمی بھی ہے جبکہ دیگر وٹامن منرلز جیسے پوٹاشیم اور میگنیشیم کم ہونے سے بھی اس طرح کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ان کے مطابق جو لوگ تیزابیت کم کرنے والی ادویات کااستعمال کرتے ہیں ان کے جسم میں آئرن جذب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے آئرن کی کمی ہونے لگتی ہے۔

    ادویات استعمال کرنے کے بجائے اپنے جسم میں تیزابیت کم کرنے کے لئے چائے، کافی اور سگریٹ چھوڑ دیں۔ اس بیماری کی ایک وجہ دوران خون کی خرابی بھی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی ہلکی پھلکی ورزشیں یا حرکات کی جائیں جن سے شریانوں میں خون کی روانی چلتی رہے۔

    اگر آپ بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو کام کے دوران تھوڑی دیر کھڑے ہوجائیں اور چلنے پھرنے کی عادت ڈالیں، اسی طرح ہلکی پھلکی ورزش اور سیر کی عادت اپنائیں۔

    روزمرہ کی مصروف زندگی میں ہمارا جسم بہت تھک جاتا ہے اور باوجود آرام کے بھی اک بے چینی سی رہتی ہے ٹانگوں میں کھچاؤ سا بن جاتا ہے اور نیند بھی سکون سے نہیں آتی۔

    کمر اور ٹانگوں کے درد سے نجات کیلئے پچاس گرام ہلدی اور پانچ گرام کچور ملا یں اور صبح و شام چھوٹا چمچ چائے والا دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔

    اس بیماری میں انسان بے چینی اور بے سکونی کے باعث اپنی ٹانگیں بار بار ہلانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بسا اوقات اتنی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ روز مرہ کے معمولات میں بھی دشواری آنے لگتی ہے۔ اس کی صحیح وجہ تو شاید ابھی بھی صیغہ راز میں ہے مگر جینیاتی عناصر، آئرن کی کمی، اعصابی کمزوری اور حمل کو اس کی وجہ اختراع میں لکھا جاتا ہے۔ تاہم یہ بیماری کسی مہلک اثرات کا باعث تو نہیں بنتی مگر بذات خود کسی وبال جان سے کم نہیں۔

    علامات :

    اس بیماری میں انسان اپنی ٹانگوں پر مختلف اقسام کی حساسیت محسوس کرنے لگتا ہے جیسا کہ درد کا احساس، کسی چیز کے چلنے یا خارش کا احساس اور جلنے کی کیفیات قابل ذکر ہیں۔ یہ احساسات انسان کو اپنی ٹانگ ہلانے پر مجبور کر دیتے ہیں جس سے ان میں کمی آ جاتی ہے۔ یہ علامات آتی جاتی رہتی ہیں۔ عموما رات کے وقت یا آرام کر وقت انسان ان احساسات کا شکار ہو جاتا ہے جو حرکات کرنے سے کم محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ بیماری عموما بچوں کو متاثر کرتی ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ مزید سنگین ہوتی جاتی ہے۔

    علاج :

    ریسٹ لیس لیگ سنڈروم کی شدت ہر انسان میں مختلف ہو سکتی ہے۔ شدید طرز میں انسان ڈپریشن اور نیند کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی بے اختیار حرکات کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ بروقت علاج ان خطرناک مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔ دیگر وجوہات کو دیکھنے کے بعد اگر کسی میں اس بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کے لئے علاج موجود ہیں۔ لہٰذا اپنے معالج سے رابطہ کریں اور فوراً علاج کرالیں تاکہ آگے مسائل پیدا نہ ہوں۔

  • ملبوسات ہماری شخصیت اور صحت پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟

    ملبوسات ہماری شخصیت اور صحت پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟

    مشہور محاورہ ہے کہ ’کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا‘ وہ اس لیے کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتا لیکن جو لباس پہنتے ہیں وہ ہم سے زیادہ دوسرے لوگ دیکھتے ہیں اور ہماری پسند ناپسند یا مزاج کا تعین کرتے ہیں۔

    فوربس میگرین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بہترین لباس پہننے اور دیکھنے والوں دونوں پر اثر رکھتا ہے۔ تحقیق کے مطابق لوگ کسی ایسے انسان کو پیسے (خیرات، عطیات، ٹپس) یا معلومات دینے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں جو شخص اچھا لباس پہنا ہوں۔

    وقت اور دور کے لحاظ سے لباس کا انداز اور تراش خراش اپنانا ایک اچھا عمل ہے جو آپ کی شخصیت کے حوالے سے دوسرے لوگوں پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    تو کیا آپ اپنے لباس سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ روزانہ جو بھی کپڑے پہنتے ہیں وہ آپ کی ذہنی صحت پر منفی یا مثبت طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں، اس حوالے سے سائنسدان لباس اور ذہنی صحت کے تعلق کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ زیر نظر مضمون میں آپ کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔

    لباس

    مواد اور فیبرک : کپڑا کس مواد یعنی فیبرک سے بنا ہے، یہ آپ کی جلد کی صحت کیلئے کافی اہمیت رکھتا ہے۔ کپاس، ریشم اور اون جیسے قدرتی کپڑے اور ہوادار ہوتے ہیں اور پولیسٹر یا نائلون جیسے مصنوعی مواد کے مقابلے میں جِلد میں جلن کم پیدا کرتے ہیں۔ مصنوعی فیبرک سے بنے کپڑے گرمی اور نمی کو اپنے اندر قید کرسکتے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر جلد کے مسائل جیسے دانے یا تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔

    ملبوسات

    الرجی اور حساسیت : کچھ افراد کے لباس میں استعمال ہونے والے بعض مواد یا رنگوں سے الرجی یا حساسیت پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں جلد پر خارش کے ساتھ ساتھ سرخی بھی پیدا کرسکتی ہے۔

    تنگ لباس : تنگ لباس خون کے بہاؤ اور نقل و حرکت پر اثرانداز ہوسکتا ہے جس سے تکلیف اور یہاں تک کہ صحت کے مسائل جیسے پٹھوں میں درد، اعصابی سکڑاؤ یا ہاضمہ جیسے مسائل تک پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ دنوں تک گندے کپڑے پہننا بالخصوص ان علاقوں میں جہاں نمی زیادہ ہے وہاں بیکٹیریاز کی افزائش کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے۔

    نفسیات پر اثر : لباس آپ کے مزاج اور اعتماد کو متاثر کرسکتا ہے، پُرسکون اور مناسب لباس پہننے سے خود اعتمادی اور ذہنی تندرستی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

  • دل کا دورہ پڑنے سے قبل ظاہر ہونے والی 5 علامات کیا ہیں؟

    دل کا دورہ پڑنے سے قبل ظاہر ہونے والی 5 علامات کیا ہیں؟

    دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک) دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، تاہم اس دورے کا سبب 5 اہم  وجوہات ہیں جو آپ کو موت کے منہ تک لے جاسکتی ہیں۔

    اکثر لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے کہ انہیں دل کا دورہ پڑ رہا ہے یا پڑنے والا ہے اگر ان علامات کے بارے میں آگاہی موجود ہو تو پھر بروقت اقدامات کرکے کئی مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

    اس حوالے سے پی ایم ڈی سی کے سند یافتہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر احمد گل زیب خان نے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انسان کا جسم دل کے دورے سے ایک ماہ قبل بلکہ اس سے بھی پہلے خبردار کرنا شروع کردیتا ہے۔

    بس انسان کو ان علامات یا نشانیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے پریشان بھی نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پانچ نشانیاں یہ ہیں۔

    بڑھا ہوا بلڈ پریشر 1 :

    آپ کا بلڈ پریشر دن بھر مختلف رہتا ہے لیکن اگر آپ کا بلڈ پریشر معمول سے زیادہ ہوتا ہے تو آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہوسکتا ہے۔ بلڈ پریشر کم کرنے والی ادویات دل کے امراض کا علاج نہیں ہیں وہ صرف وقتی طور پر دل کو سکون فراہم کرتی ہیں اور اصل میں آپ کا دل مزید کمزور ہوتا جاتا ہے۔

    ہائی بلڈ پریشر آپ کے دل کی زیادہ محنت کا سبب بنتا ہے، یہ آپ کے دیگر صحت کے مسائل سمیت دل کا دورہ اور فالج کے خطرے کو بھی بڑھاسکتا ہے۔

    کھانسی 2 :

    ہارٹ اٹیک کے مریضوں کو چوںکہ سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ اکثر کھانسی کا شکار بھی رہتے ہیں۔

    اگر آپ کو اس علامت کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ممکنہ طور پر آنے والے ہارٹ اٹیک کی نشانی ہو سکتی ہے، اس لیے ان علامات کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا آپ کو فوری طور پر اپنے معالج کی مدد درکار ہوگی۔

    ڈیمنشیا یعنی کمزور یاد داشت 3 :

    موجودہ دور کا بڑا چیلنج دماغی بیماری ڈمنشیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2000 کے بعد سے ڈمنشیا سے اموات کی تعداد دوگنی ہوچکی ہے اور دنیا بھر میں یہ موت کی پانچویں بڑی وجہ ہے۔ ڈمینشیا کا مرض بھی انسان کو دل کے دورے کی جانب لے جا سکتا ہے۔

    پیشاب کم آنا 4 :

    پیشاب کا کم آنا میڈیکل ٹرم کے مطابق اولیگوریا نامی ایک بیماری ہے، ایک نارمل انسان دن بھر میں کم از کم 400 ملی لیٹر تک پیشاب کرتا ہے۔ اگر کوئی اس سے کم پیشاب کرے تو وہ اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے

    اگر ایسا پانی کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہو تو پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیے، لیکن اگر آپ محسوس کر رہے ہیں کہ پیشاب کی کمی کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن تیز ہورہی ہے، چکر آنا یا غنودگی طاری ہونے کی علامات ہوں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے ورنہ یہ دل کے دورے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    لیٹے ہوئے سانس لینے میں دشواری 5 :

    اگر مریض کو سوتے وقت یا لیٹے ہوئے سانس لینے میں کوئی رکاوٹ یا گھٹن کا احساس ہو اور وہ اٹھ کر بیٹھ جائے اور اسے سکون مل جائے تو یہ بھی دل کے دورے کی ایک بڑی علامت ہے۔

    اس کے علاوہ کوئی جسمانی کام کرتے یا سیڑھیاں چڑھتے وقت سانس لینے میں دقت آتی ہے تو یہ بھی ہارٹ اٹیک کی علامت ہوسکتی ہے۔ ہارٹ اٹیک سے پہلے چونکہ خون کی روانی متاثر ہوتی ہے جس سے سانس لینے کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔

  • کولیسٹرول بغیر ٹیسٹ کے کیسے معلوم کیا جائے؟

    کولیسٹرول بغیر ٹیسٹ کے کیسے معلوم کیا جائے؟

    ماضی کی نسبت لوگوں کے طرز زندگی اور کھانے پینے کی عادات میں کافی تبدیلی آگئی ہے جس کی وجہ سے عام شخص صحت مسلسل متاثر ہورہی ہے۔

    ہماری صحت کا تناسب کھانے کے حساب سے طے ہوتا ہے لیکن ہم تیل والی غذاؤں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جو کہ غیر صحت بخش اور چکنائی کی وجہ سے خون میں خراب کولیسٹرول کی مقدار کو بڑھاتی ہے۔

    ہائی کولیسٹرول کی وجہ سے موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سمیت بہت سی بیماریاں جسم کے مختلف حصوں میں درد جیسی علامات کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ویسے تو کولیسٹرول کی مقدار کو جانچنے کیلئے اس کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جبکہ آج ہم آپ کو وہ علامات بتائیں گے کہ جسے محسوس کرکے آپ اپنے کوئی ٹیسٹ کرائے بغیر بھی کولیسٹرل کی مقدار کو جان سکتے ہیں۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر افضل نے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ از خود کولیسٹرل کی مقدار کو کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟

    انہوں نے کہا کہ ہائی کولیسٹرول کا پتا ایک خاص طرح کے بلڈ ٹیسٹ سے لگایا جاتا ہے جسے Lipid Profile Test کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کولیسٹرول میں اضافے کے دوران ہمارے ہاتھوں میں کچھ اابتدائی علامات نظر آتے ہیں۔

    ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونا

    انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کیلئے ہمیں صرف تین علامات کا جائزہ لینا ہے کہ بازوؤں اور ٹانگوں میں (نم نیس) یعنی محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی جسے سُن ہونا بھی کہتے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجائیں گے اور اگر کوئی زخم لگ جائے تو وہ ٹھیک ہونے میں بہت وقت لیں گے یا بالکل نہیں ہوںگے۔

    ناخنوں کا رنگ تبدیل

    عام طور پر ہمارے ناخنوں کا قدرتی رنگ گلابی ہوتا ہے کیونکہ وہاں صحیح مقدار میں خون موجود ہوتا ہے۔ جب کولیسٹرول کی وجہ سے رکاوٹ خون کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور خون کا بہاؤ ناخن تک نہیں پہنچ پاتا تو ہمارے ناخنوں کا رنگ پیلا ہونے لگتا ہے ان کے نیچے کی طرف لکیریں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔

    سینے میں درد ہونا

    اس کی ایک اور علامت میں سینے میں شدید درد یا انجائنا کا درد ہونا ہے۔ یہ حالت پلاک کی وجہ سے ہوتی ہے جو دل میں خون کے بہاؤ کو کم کرتی ہے۔ عام طور پر یہ حالت لوگوں کو دل کی شریان کی بیماری میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    انجائنا یا سینے میں درد متاثرہ شخص کو سینے میں تنگی، بہت زیادہ درد اور دباؤ محسوس کراتا ہے۔ بعض اوقات انسان دیگر علامات بھی محسوس کر سکتے ہیں یا ان کے سینے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نچوڑ دیئے گئے ہوں، اس قسم کی علامت کی صورت میں آپ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا مشورے معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے ٹیسٹ یا دوا کو ایک مستند  معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • گاجر کا جوس کینسر کے مریض کیلئے کیا اثر رکھتا ہے؟

    گاجر کا جوس کینسر کے مریض کیلئے کیا اثر رکھتا ہے؟

    موسم سرما میں گاجریں بازار میں عام دستیاب ہیں اور اگر اس موسم میں گاجر کھانے فوائد آپ جان لیں تو آپ یومیہ بنیادوں پر اسے خرید کر لے آئیں گے۔

    گاجر نہ صرف حلوہ، گجریلا بلکہ سلاد اور سالن کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے، اس کے استعمال کا ایک اور طریقہ اس کا جوس پینا بھی ہے۔

    قدرت نے بینائی دور کرنے والی اس انمول سبزی میں بے شمار فائدے رکھے ہیں، گاجر وٹامنز، غذائی فائبر اور اینٹی آکسیڈینٹ کی خوبیوں کی حامل سبزی ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ گاجر کا جوس دیگر پھلوں کے رس کے ساتھ مل کر ان کا ذائقہ اور افادیت بڑھا دیتا ہے۔ گاجر کے جوس کے فوائد سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس میں کون سے اہم غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق ایک کپ گاجر کے جوس میں 94 کلو کیلوریز غذائیت ہوتی ہے، جس میں سے 2.24 گرام پروٹین، 0.35 گرام چکنائی، 21.90 گرام کاربوہائیڈریٹس، 1.90 گرام فائبر، 689 ملی گرام پوٹاشیم، 20 ملی گرام وٹامن سی، 0.217 ملی گرام تھایامین، 0.512 ملی گرام وٹامن بی 6، 2,256 مائیکروگرام وٹامن اے، 36.6 مائیکروگرام وٹامن کے علاوہ دیگر اجزا پائے جاتے ہیں۔

    گاجر کا جوس غذائیت سے بھرپور تو ہوتا ہی ہے لیکن یہ کئی خوفناک امراض کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل سطور میں بیان کی جارہی ہے۔

    معدے کا کینسر

    گاجر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جن کی سرطان روکنے کی صلاحیت سے سب واقف ہیں، ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گاجر کا جوس معدے کے کینسر کو دور رکھنے میں مددگار ہوتا ہے اگر مسلسل گاجریں کھائی جائیں تو معدے کے سرطان کے امکانات 26 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔

    لیوکیمیا کا تدارک

    ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ گاجر کا رس لیوکیما کے خلیات (سیلز) کو ختم کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ بسا اوقات گاجر کا جوس لیوکیما کے خلیات کو ازخود تباہ کردیتا ہے اور ان کے پھیلاؤ کو روکتا ہے البتہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    لیوکیمیا خون اور ہڈی کے گودے میں ہونے والا ایک کینسر ہے، یہ بچوں اور نوعمروں میں پایا جانے والا سب سے عام کینسر ہے، لیوکیمیا ہڈی کے گودے کے صحیح طور پر کام نہ کرنے سے ہوتا ہے۔

    چھاتی کے سرطان سے بچائے

    گاجروں میں کیروٹینوئیڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو چھاتی کے کینسر کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکتی ہے، اس کے علاوہ سائنسدان پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، بریسٹ کینسر کے لوٹنے کا خطرہ اتنا ہی کم ہوجاتا ہے۔

    اس کےلیے ایک چھوٹا سا مطالعہ کیا گیا کہ خواتین کو تین ہفتوں تک روزانہ 8 اونس گاجر کا جوس پلایا گیا۔ اس کے بعد جب ان خواتین کے خون کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار زیادہ تھی جب کہ آکسیڈیٹیو اسٹریس کی علامات کم تھیں جو کینسر کی وجہ بن سکتی ہیں۔

    سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مفید

    گاجر کا جوس وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے اور یہ سانس کے ایک مرض کرونک اوبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) کی شدت کم کرتا ہے۔ اس ضمن میں کوریا میں 40 سال سے زائد عمر کے افراد کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں سی او پی ڈی کا مرض تھا وہ کیروٹین سمیت پوٹاشیم، وٹامن اے اور وٹامن سی کا استعمال کم کررہے تھے اور ان میں سے سگریٹ پینے والے وہ افراد جو وٹامن سی کی مناسب مقدار کھارہے تھے ان میں سی او پی ڈی کا مرض بہت کم تھا۔

    دیگر فوائد

    گاجروں میں موجود وٹامن اے آنکھوں کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس میں موجود ریشے (فائبر) خون میں کولیسٹرول کم کرتے ہیں اور وزن کو بھی قابو میں رکھتے ہیں۔