Tag: Health

  • کولیسٹرول پر قابو پانے کیلئے پیاز کا جادوئی اثر

    کولیسٹرول پر قابو پانے کیلئے پیاز کا جادوئی اثر

    ہمارے ہر پکوان کی لازم و ملزوم چیز پیاز ہے جس کے بغیر سالن کی لذت بے ذائقہ رہتی ہے، پیاز ہمیں نہ صرف ذائقہ فراہم کرتی ہے بلکہ یہ طبی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق پیاز کھانے سے صحت پر متعدد مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سر فہرست کولیسٹرول کی سطح کا متوازن ہونا ہے۔

    ماہرین غذائیت کے مطابق فاسفورس سے بھر پور پیاز کے 100 گرام میں 40 کیلوریز ، 89 فیصد پانی، 1.1 گرام پروٹین ، 9.3 گرام کاربز ، 4.2 گرام شوگر ، 1.7 گرام فائبر اور 0.1 گرام فیٹ پایا جاتا ہے۔

    منرلز اور وٹامنز کے اعتبار سے پیاز میں وٹامن سی ، اینٹی آکسیڈنٹ جز پائے جاتے ہیں جو کہ جلد اور بالوں کے لیے نہایت مفید ہیں۔

    فولیٹ یعنی وٹامن بی9 کی موجودگی سے میٹابالزم تیز اور نئے خلیوں کو بننے میں مدد ملتی ہے، وٹامن بی9 کے سبب پیاز حاملہ خواتین کے لیے نہایت موزوں غذا ہے۔

    وٹامن بی6 کی موجودگی خون میں لال خلیوں کی افزائش بہتر بناتی ہے اور ان کی کارکردگی مزید بڑھاتی ہے۔

    انسانی جسم کے لیے بنیادی منرل پوٹاشیم کے سبب بلڈ پریشر متوازن ہوتا ہے اور دل کی صحت بہتر بناتا ہے اور کولیسٹرول کی سطح متوازن رکھتا ہے۔

    کرمیم کہلانے والی ایک قدرتی دھات بھی پیاز میں موجود ہوتی ہے جس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

    زخموں میں جلن کم کرنے اور ایڑیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پانے میں بھی پیاز کی افادیت صدیوں سے تسلیم شدہ ہے۔

    اگر پیاز کو پکائے بغیر خام حالت میں کھایا جائے تو یہ جسم کو نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول یعنی ’’ایل ڈی ایل‘‘ کو بننے سے روکتی ہے اور آپ کو بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے محفوظ کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

  • سرجری کرانے سے عمر کئی سال کم ہوجاتی ہے، بڑا انکشاف

    سرجری کرانے سے عمر کئی سال کم ہوجاتی ہے، بڑا انکشاف

    لائپو سکشن ایک ایسی کاسمیٹک سرجری ہے جس کے ذریعے انسانی جسم کے مختلف حصوں کی چربی ختم کی جاتی ہے، لوگ موٹاپے سے فوری چھٹکارے کیلئے اس طریقہ علاج کو اپناتے ہیں۔

    پاکستان میں تقریباً دس سال قبل لائپو سکشن سرجری متعارف کرائی گئی تھی جس میں آپریشن کے ذریعے جسم سے فالتو چربی نکال لی جاتی ہے۔

    طبی لحاظ سے یہ سرجری کروانا کتنا سود مند یا نقصان دہ ہے اس کی معلومات اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف کوسماٹو لوجسٹ ڈاکٹر خرم مشیر نے ناظرین کو اہم باتیں بتائیں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موٹاپے کے خاتمے کے لیے سرجریاں کرائی جاتی ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ آپریشن کے ذریعے اس کے علاج سے انسانی جسم میں دیگر سنگین امرض جنم لیتے ہیں۔

    ڈاکٹر خرم مشیر نے بتایا کہ موٹاپا کم کرنے کیلئے اس قسم کی سرجری نہیں کروانی چاہیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ سرجری کرانے کے بعد انسان کی طبعی عمر 15 سے 16 سال کم ہوجاتی ہے کی جس ٹھوس وجوہات ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، جگر کی بیماریوں میں مبتلا لوگ جن کا خون پتلا ہوتا ہے اس کے علاوہ شوگر، بلڈپریشر کے مریضوں کو اس سے احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ سرجری ہر قسم کی جلد کیلئے موزوں ہے۔ ہاں اگر آپ کو کسی قسم کی اسکن الرجی ہے تو پھر مسئلہ ہوسکتا ہے۔

  • بچپن کی غذائیں جوانی میں کس خطرے کا سبب بنتی ہیں؟

    بچپن کی غذائیں جوانی میں کس خطرے کا سبب بنتی ہیں؟

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بچپن میں کھائی جانے والی غذا ہماری آنے والی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کا اندازہ جوانی میں ہونے والی بیماریوں سے ہوجاتا ہے۔

    ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو افراد اپنی ابتدائی عمر میں چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور غذائیں کھاتے ہیں ان میں جوانی میں امراض قلب سمیت فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں 1990 کی دہائی کے ہزاروں بچوں کی غذائی عادات کا جائزہ لے کر جوانی میں ان میں ہونے والی بیماریوں کا جائزہ لیا گیا۔

    جوانی

    ماہرین نے ترتیب وار 7، 10 اور 13 سال کے بچوں کی جانب سے کھائی جانے والی غذاؤں کو دیکھا اور پھر ان ہی بچوں کے جوان ہونے پر ان میں ہونے والی بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا اور ان کے مختلف ٹیسٹس کیے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں نے کم عمری میں زیادہ میٹھی غذائیں، چکنائی اور کیلوریز سے بھرپور غذائیں کھائی تھیں، ان میں نوجوانی میں ہی شریانوں کے سکڑنے کے مسائل پیدا ہوگئے۔

    چکنائی

    ماہرین نے بتایا کہ ایسی غذائیں کھانے والے افراد کی 17 یا 24 سال کی عمر میں شریانیں اس قدر تنگ ہوچکی تھیں کہ جیسے وہ کئی سال زائد العمر ہوں۔

    ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کے جوان ہونے پر ان کی دل کو خون کی ترسیل کرنے والی شریانیں تنگ ہوئیں، جس سے ایسے افراد میں امراض قلب سمیت فالج کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ کم عمر بچوں کو پھل اور سبزیوں پر مبنی زیادہ سے زیادہ غذائیں دی جائیں تاکہ ان کی شریانوں کی نشونما ان کی عمر کے مطابق ہو۔

  • ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونا کن بیماریوں کی علامت ہے؟

    ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونا کن بیماریوں کی علامت ہے؟

    سرد موسم میں ہاتھوں اور پیروں کا ٹھنڈا ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر اس کے ساتھ یہ سُن بھی ہورہے ہوں تو یہ کسی خبرناک بیماری کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ دیگر علامات جیسے انگلیوں کی رنگت یا ساخت تبدیل ہو جائے تو یہ جسم میں دوران خون کی خراب صحت کی جانب اشارہ کررہا ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے بتایا کہ خون کی کمی ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ کے جسم میں صحت مند اور مناسب طریقے سے کام کرنے والے سرخ خون کے خلیات معمول سے کم ہوتے ہیں، یہ عام طور پر آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    ہاتھ پیر ٹھںڈے ہونے کی وجہ شریانوں کے متعدد امراض بھی ہوسکتے ہیں جس کے سبب شریانیں سکڑ جاتی ہیں اور ہاتھوں اور پیروں کو خون کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے۔ ذیابیطس سے امراض قلب کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جو خون کا بہاؤ کو متاثر کرتا ہے۔

    اس کے علاوہ بلڈ شوگر کی سطح بڑھنے سے ہاتھوں اور پیروں میں سوئیاں چبھنے کا احساس بھی ہوتا ہے جس سے بھی ہاتھوں اور پیروں کی حرارت متاثر ہوتی ہے، تھائی رائیڈ امراض کی ایک علامت ہر وقت ہاتھوں اور پیروں کا ٹھنڈے رہنا ہوتا ہے۔

    جب آپ میں آئرن کی کمی ہوتی ہے تو آپ کے خون کے سرخ خلیوں میں آپ کے پھیپھڑوں سے آپ کے باقی جسم تک آکسیجن پہنچانے کے لیے ہیموگلوبن (آئرن سے بھرپور پروٹین)کی مقدار کافی نہیں ہوتی۔ جس کے نتیجہ میں ہاتھ اور پیر سرد ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خون کا ٹیسٹ اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ آیا آپ کے خون میں آئرن کی سطح کم ہے، اس کیلیے وٹامن ڈی وٹامن بی، کیلشئیم یا نمکیات کی کمی کا ٹیسٹ لازمی کرائیں۔

    آئرن سے بھرپور غذائیں کھانے (جیسے پتوں والی سبزیاں) اور آئرن سپلیمنٹس لینے سے آپ کے ہاتھوں پیروں کو سردی سے نجات مل سکتی ہے۔

    انہوں نے مشورہ دیا کہ مناسب لباس پہننے کے باوجود یہ کیفیت جاری ہو اور شدت بڑھ جائے تو فوری طور ڈاکٹر سے رجوع کرکے معائنہ کروانا چاہئے تاکہ ممکنہ مرض کی تشخیص ہوسکے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • ڈاکٹروں کی جانب سے برطانوی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال

    ڈاکٹروں کی جانب سے برطانوی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال

    لندن: برطانیہ میں ڈاکٹرز کی جانب سے برطانوی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروسز مشکلات کا شکار ہو گئی ہیں، ڈاکٹروں نے طویل ترین ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں آپریشنز ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

    برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل ہیلتھ سروسز کو درپیش مشکلات کے سبب جونیئر ڈاکٹرز 13 سے 18 جولائی تک ہڑتال کریں گے، جب کہ میڈیکل کنسلٹنٹس نے بھی 20 اور 21 جولائی کو ہڑتال کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اور ریڈیوگرافرز کی اکثریت بھی ہڑتال میں شامل ہوگی۔

    ڈاکٹرز نے تنخواہوں میں 5 فی صد اضافہ مسترد کر دیا ہے، اور تنخواہیں 35 فی صد تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، ہڑتال کے باعث برطانیہ بھر میں ہزاروں آپریشنز ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

    سربراہ نیشنل ہیلتھ سروسز کا کہنا ہے کہ ہڑتالوں میں سب سے زیادہ نقصان مریضوں کا ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو علاج معالجے میں مشکلات کا سامنا ہے، امانڈہ پرچرڈ نے کہا کہ دوران ہڑتال ڈاکٹروں کا متبادل مہیا کرنا نا ممکن ہے۔

  • وہ فیشن ٹرینڈز جو ہماری صحت کو برباد کر سکتے ہیں

    وہ فیشن ٹرینڈز جو ہماری صحت کو برباد کر سکتے ہیں

    وقت اور دور کے حساب سے فیشن ٹرینڈز اپنانا ایک اچھا عمل ہے، تاہم کچھ فیشن ٹرینڈز ایسے بھی ہیں، جو ہماری صحت کو نہ صرف متاثر کرسکتے ہیں بلکہ طویل المدتی طبی پیچیدگیوں میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں۔

    فیشن مصنوعات کے متعلق عام طور پر ایسی ہدایات نظر آتی ہیں کہ یہ آپ کے اٹھنے، بیٹھنے اور آپ کی چال ڈھال پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ پیٹھ اور گردن میں درد کا سبب بن سکتے ہیں۔

    برٹش کائیرو پیکٹک ایسوسی ایشن (بی سی اے) کا کہنا ہے کہ انتہائی چست یعنی جلد سے چپکی ہوئی جینز، ہائی ہیلز اور بڑے ہینڈ بیگ خواتین کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    دوسری جانب چارٹرڈ سوسائٹی آف فزیو تھراپی اور دیگر ماہرین کی جانب سے اس قسم کے خدشات کی نفی کی جاتی رہی ہے۔ بی سی اے نے جن چیزوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی ہے، ان میں سے کچھ یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

    جلد سے چپکی جینز

    انتہائی چست جینز سے اٹھنے بیٹھنے میں دقت پیش آنا عام بات ہے، بی سی اے کا دعویٰ ہے کہ اسکنی جینز ہماری فعالیت کو کم کر دیتی ہے، ان کے مطابق ایسے لباس جسم کے جوڑوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس سے چھلانگ لگانے کی صلاحیت اور چہل قدمی کے دوران جھٹکے برداشت کرنے کی قدرتی طاقت کم ہو سکتی ہے۔

    بھاری بیگ

    تنظیم کے مطابق وزنی بیگ کو اٹھانے کے طریقے سے بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔

    بی سی اے نے کہا ہے کہ بھاری بیگ، خواتین میں پیٹھ کے درد کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں، ان کے مطابق، خواتین کو کہنی میں پھنسا کر بیگ لے کر چلنے سے بچنا چاہیئے کیونکہ اس کے بوجھ سے کندھے پر زیادہ زور پڑتا ہے اور دوسرے کندھے کے مقابلے میں ایک کندھا جھک جاتا ہے۔

    بڑے ہڈ والے کوٹ

    وزنی ہڈ والے لباس حرکات و سکنات کو متاثر کر سکتے ہیں، بی سی اے نے کہا ہے کہ سر پر بڑے سائز کے فر والے گرم کوٹ پہننے سے بچنا چاہیئے کیونکہ آس پاس دیکھنے کے دوران اس سے گردن پر زور پڑتا ہے۔

    ہائی ہیلز

    ہائی ہیلز پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے کہ یہ چال کو متاثر کرتی ہے، بی سی اے نے یہ بھی کہا ہے کہ ہائی ہیلز جسم کو ایک خاص صورتحال میں رہنے پر مجبور کرتی ہے جس سے ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

    بیک لیس جوتے

    ایسی چپلیں جس میں پیچھے والے فیتے نہ ہوں، وہ بھی مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    بی سی اے کا کہنا ہے کہ ایسی چپلیں جن کے پیچھے کا حصہ کھلا ہوتا ہے یعنی ہیل کی طرف سپورٹ نہیں ہوتی، ان سے پاؤں اور گردن کے نیچے تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

    ان کے علاوہ بی سی اے نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بڑے بازو، بھاری بھرکم زیورات اور ٹیڑھی میڑھی کناریوں والے لباس بھی پہننے والی خواتین کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

    بی سی اے نے لوگوں پر ایک سروے کیا جس کے مطابق 73 فیصد افراد کو پیٹھ کے درد کی شکایت ہے جبکہ 33 فیصد خواتین اس بات سے بے خبر تھیں کہ ان کا لباس گردن اور ان کی کمر پر انداز پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

    ایسوسی ایشن کے مطابق اس طرح کے لباس یا لوازمات آپ کی سرگرمی پر اثر ڈالنے کے علاوہ عجیب طرح سے کھڑے ہونے یا چلنے کے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

  • پورے چاند کی رات انسانی جسم میں کیا تبدیلیاں پیدا کرتی ہے؟

    پورے چاند کی رات انسانی جسم میں کیا تبدیلیاں پیدا کرتی ہے؟

    پورے چاند کی رات ہمیشہ سے ایک سحر طاری کردینے والا منظر رہا ہے، دنیا بھر میں چاندنی راتوں کی افسانویت کئی شاعروں، ادیبوں اور فلسفیوں کا موضوع رہی۔

    چودہویں کے چاند نے سائنس دانوں اور ماہرین طب کو بھی اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔ ایک طرف جہاں پورے چاند کی کشش نے کشش ثقل اور سمندر پر اپنے اثرات ڈالے، تو وہیں انسانوں اور جانوروں کی نفسیات اور مزاج میں بھی تبدیلی پیدا کی۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پورے چاند کی راتوں اور چند مخصوص دماغی اور نفسیاتی رویوں کا آپس میں تعلق ثابت شدہ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے چاند کی کشش سمندر کو اس کے کناروں سے اچھال کر منہ زور بنا دیتی ہے، ویسے ہی یہ کئی شدید اور غیر مممولی رویوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    اس کی ایک مثال انگریزی کا لفظ لونٹک ہے جس کا مطلب سرپھرا، یا پاگل ہے، یہ لفظ لاطینی لفظ لونا سے نکلا ہے جس کا مطلب چاند ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پورے چاند کی راتیں ہماری جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، وہ کس طرح سے؟ آئیں جانتے ہیں۔

    دل

    انڈین جرنل آف بیسک اینڈ اپلائیڈ میڈیکل ریسرچ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق چاندنی راتوں میں ہمارے دل کی پرفارمنس اپنے عروج پر ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ خون کے بہاؤ اور دھڑکن کی رفتار میں معمولی سی تیزی۔

    ماہرین ایسے وقت میں سخت ورزش یا شدید جسمانی حرکت کرنے سے پرہیز کی تجویز دیتے ہیں۔

    دماغ

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ پانی سے بنا ہے یہی وجہ ہے کہ پورا چاند سمندر کی طرح ہمارے دماغ پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    امریکا میں کی گئی بعض تحقیقات کے مطابق مرگی کے مریضوں میں چاندنی راتوں کے دوران مرگی کے دوروں میں کمی دیکھی جاتی ہے تاہم ماہرین اس کی حتمی اور ٹھوس سائنسی وجہ ڈھونڈنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    کئی دماغی کیفیات بھی ان راتوں میں کم یا شدید ہوسکتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ان راتوں میں اکثر افراد کو سر در کی شکایت بھی ہوتی ہے۔

    گردے

    ہمارے گردے بھی 60 فیصد پانی سے بنے ہیں لہٰذا یہ بھی چاند کی کشش سے متاثر ہوتے ہیں۔

    جرنل آف یورولوجی کے مطابق گردوں میں پتھری کے مریض پورے چاند کی راتوں میں اپنی تکلیف میں اضافہ محسوس کرتے ہیں، علاوہ ازیں گردوں کے دیگر مسائل میں بھی ان دنوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    نیند

    ہمارے جسم میں ایک ہارمون میلاٹونین نیند کے لیے ضروری ہے، یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جسم قدرتی طور پر سونے والے ماحول میں ہو یعنی اندھیرا، آرام دہ حالت اور اس بات کا احساس کہ اب سونے کا وقت ہوگیا ہے۔

    پورے چاند کی روشنی قدرتی طور پر ہمارے جسم میں میلاٹونین کی مقدار کو متاثر کرتی ہے چاہے ہم کھلے آسمان تلے چاند کی روشنی میں موجود ہوں یا نہ ہوں، اس وجہ سے ہماری نیند کا دورانیہ اور معیار کم ہوتا ہے۔

    حیض

    حیض کا ماہانہ سائیکل چاند ہی کی طرح 28 یا 29 دن کا ہوتا ہے اور یہ صرف ایک اتفاق نہیں۔

    چین میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 30 فیصد خواتین پورے چاند کی راتوں کے دوران اویولیشن یا زرخیزی کے مرحلے میں ہوتی ہیں جبکہ حیض کا آغاز چاند کے ابتدائی دنوں میں ہوتا ہے۔

    پورے چاند کی راتوں کو عموماً زرخیزی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

    حادثات کا امکان

    ماہرین کے مطابق پورے چاند کی راتوں (یا دنوں) کے دوران ہمارے مختلف حادثات کا شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    سنہ 2011 میں ورلڈ جرنل آف سرجری میں شائع ایک تحقیق کے مطابق 40 فیصد ماہرین طب ’پورے چاند کے پاگل پن‘ پر یقین رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں میں طبی مراکز کو موصول ہونے والی مختلف نوعیت کی ایمرجنسی کالز میں 3 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ چاند کے ابتدائی دنوں میں ان کالز میں 6 فیصد کمی آجاتی ہے۔

    ماہرین طب کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے چاند کے دنوں میں انہیں اپنے مریضوں سے سر درد، کوئی عضو سن ہوجانے، یا توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کی شکایات موصول ہوتی ہیں، یہ شکایات عارضی ہوتی ہیں اور ان کی شکایت کرنے والے عموماً جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوتے ہیں۔

  • الٹرا پروسیسڈ کھانے شوق سے کھانے والوں کو ایک بڑے خطرے کا سامنا

    الٹرا پروسیسڈ کھانے شوق سے کھانے والوں کو ایک بڑے خطرے کا سامنا

    طبی ماہرین نے الٹرا پروسیسڈ فوڈز شوق سے کھانے والوں کو کینسر کے بڑے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

    لندن کے امپیریل کالج کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر الٹرا پروسیسڈ کھانوں کا استعمال طویل عرصے تک کیا جائے تو جسم میں کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں پانی کی مقدار کم اور چینی کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے، ایسی اشیا کھانے سے پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈز کو خوراک میں شامل کرنا صحت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈز کیا ہیں؟

    الٹرا پروسیسڈ کھانوں کو کاسمیٹک فوڈز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ فوڈز کئی مراحل سے گزرتے ہیں، اور اس دوران ان میں سے تمام قسم کے اچھے عناصر ختم ہو جاتے ہیں، یہ دراصل فیکٹری میں بنا ہوا کھانا ہوتا ہے، اور اس میں صرف کیلوری رہ جاتی ہے، اس میں کثیر مقدار میں چینی اور فائبر ہوتے ہیں لیکن پروٹین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں کیا کیا شامل ہوتا ہے؟

    انسٹینٹ نوڈلز اور سوپ

    ریڈی ٹو ایٹ میلز

    پیکڈ اسنیکس

    کولڈ ڈرنکس

    کیک، بسکٹ، ڈبا بند مٹھائی

    پیزا، پاستا، برگر وغیرہ

    کینسر کا خطرہ

    لندن کے امپیریل کالج کے ایک مصنف ایزتر ویمس نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ نہ صرف کینسر کے خطرے کو بڑھاتا ہے بلکہ یہ صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ کھانا بھی ہے، زیادہ تر الٹرا پروسیسڈ فوڈ بچے اور بالغ کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے صحت پر بدترین اثرات مستقبل میں نظر آئیں گے۔

    ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا تعلق موٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور قلبی امراض سے بھی ہے، جن میں ہارٹ اسٹروک اور ہارٹ اٹیک جیسے مسائل شامل ہیں۔

    ای کلینیکل میڈیسن نامی جریدے میں شائع شدہ مقالے کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا استعمال رحم کے کینسر اور دماغ کے کینسر کے خطرے کو بڑھاتا ہے، انھوں نے نشان دہی کی کہ کینسر سے مرنے والوں میں سے زیادہ تر میں بیضہ دانی اور چھاتی کے کینسر سے متاثر تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر الٹرا پروسیسڈ فوڈ کی مقدار میں 10 فی صد اضافہ کیا جائے تو کینسر ہونے کا خطرہ تقریباً 2 فی صد تک بڑھ جاتا ہے، ان کھانوں سے رحم کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    ریسرچ اسٹڈی کے دوران دیکھا گیا کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کے استعمال میں ہر 10 فی صد اضافے کے بعد کینسر سے ہونے والی اموات میں 6 فی صد کا اضافہ ہوا۔

  • صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو یہ 2 عادات اپنا لیں

    صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو یہ 2 عادات اپنا لیں

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے کوئی خاص جتن کرنے کی ضرورت نہیں، اگر قدرتی انداز سے زندگی گزاری جائے تو آخری عمر تک صحت مند رہا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے ماضی میں کیے جانے والے بہت سے مطالعات کا جائزہ لینے بعد دو اہم ترین عادات کو اپنانے یا انہیں بہتر بنانے پر زوردیا ہے جو ہماری مجموعی صحت کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہیں، ان میں سے ایک دن بھر میں پانی کا مناسب استعمال جبکہ دوسری روزانہ ورزش کرنا ہے۔

    پانی کی موجودگی میں جسم اپنے افعال کو بہتر طریقے سے انجام دیتا ہے، جسم پانی پیدا نہیں کرتا اسی لیے صحت مند رہنے کے لیے پانی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔

    یہ بات درست ہے کہ بہتر صحت کے لیے صحت مند طرز زندگی اپنانا نہایت ضروری ہے جس میں متوازن غذا کا استعمال، ورزش کرنا، پرسکون نیند لینا اور یقیناً مناسب مقدار میں پانی پینا شامل ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ روزانہ دن بھر میں 8 سے 10 گلاس پانی لازمی پینا چاہیئے تاکہ جسم کے تمام افعال بہتر انداز میں کام کر سکیں۔

    ماہرین صحت صبح بیدار ہوتے ہی نہار منہ ایک گلاس پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں، یہ صحت پر حیرت انگیز اثرات جیسے نظام انہضام کو تیز اور وزن کم کرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔

    پانی جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے کے ساتھ جسم سے زہریلے مادے کو خارج کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اس طرح جسم کئی امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے ماہرین کے نزدیک پانی پینا ایک ایسی صحت مند عادت ہے جو آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے معاون ثابت ہوتی ہے۔

    دوسری جانب ورزش کی افادیت بھی سابقہ کئی تحقیقات میں سامنے آچکی ہے، یہ ایک ایساعمل ہے جو آپ کو ہر عمر میں صحت مند رکھتا ہے یہاں تک کہ عمر رسیدہ افراد میں بھی اس کی افادیت سامنے آئی ہے۔

    ورزش کرنے کے نتیجے میں جسم سے ایسے ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جو آپ کو نہ صرف مختلف امراض سے بچاتا ہے بلکہ بڑھتی عمر کے اثرات کی رفتار کو بھی کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ورزش آپ کی مجموعی صحت کے ساتھ جلد کو بھی جوان بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے، ورزش کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند منٹ کی ورزش جو سخت یا معتدل ہو صحت کو بہتر بنانے میں معاونت کرتی ہے۔

    ان عادات کے ساتھ متوازن غذا کا استعمال، ہر طرح کے نشے سے دور رہنا، پرسکون نیند اور تناؤ سے بچنا بھی ضروری ہے، ان عادات کو اپنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں عادات ان تمام غیر صحت مند طرز عمل سے نجات میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔

  • گیس کے چولھے پر کھانا پکانا کتنا نقصان دہ ہے؟ سائنس دانوں کی نئی تحقیق

    لندن: پوری دنیا میں کھانا پکانے کے لیے گیس چولھوں کا استعمال ہو رہا ہے، تاہم اب سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے نتائج میں انکشاف کیا ہے کہ گیس کے چولھے پر کھانا پکانا صحت کے لیے آلودہ شہر میں رہنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔

    نیو سائنٹسٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گیس چولھوں سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور نہایت نقصان دہ مائیکرو ذرات (پارٹیکیولیٹ میٹر) بنتے ہیں، یہ زہریلے مادے بالخصوص پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک زہریلے مادے ان گیسوں کا حصہ ہوتے ہیں جو گاڑیوں سے خارج ہوتی ہیں، یہ مادے پھیپھڑوں میں جا کر جلن پیدا کرتے ہیں اور یہاں تک کہ خون میں بھی داخل ہو جاتے ہیں، جس سے دل کی بیماری، کینسر اور حتیٰ کہ الزائمر کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان زہریلے مادوں سے بچوں میں دمہ کی بیماری مزید بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں، امریکا میں بچوں میں دمہ کے 8 میں سے ایک کیس کھانا پکانے سے خارج ہونے والی آلودگی کا نتیجہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بچوں اور بوڑھوں کو ان چولھوں سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، گیس کے چولھے گھر کی فضا مصروف شاہراہوں سے زیادہ آلودہ کر دیتے ہیں۔

    جب ریسرچ میں شامل بچوں کو بیگ میں لگے آلودگی کے مانیٹر کے ساتھ اسکول بھیجا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ باہر سے زیادہ گھر میں شام کے وقت بچوں کو آلودگی کا سامنا تھا، جس وقت ان کے والدین کھانا پکا رہے تھے۔

    امپیرئل کالج لندن کی پروفیسر فرینک کیلی کے مطابق گیس چولھے گھر کی فضا آلودہ کرنے کا بڑا سبب ہیں، یہ دمے اور صحت کے دیگر مسائل کا سبب ہو سکتے ہیں اور ان کو بد تر کر سکتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ اگر ہم نے چولھے سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو ہم بچوں میں دمہ کے 12.7 فی صد کیسز کو روک سکیں گے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گیس کے چولھے کے خطرات کے پیش نظر اگر ممکن ہو تو الیکٹرک ککر پر کھانا پکانا شروع کرنا چاہیے۔