Tag: Health

  • سائنسدانوں نے خون کا ایک اور نیا گروپ دریافت کرلیا

    سائنسدانوں نے خون کا ایک اور نیا گروپ دریافت کرلیا

    مگر کیا آپ نے کبھی ’ای آر بلڈ گروپ‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اگر نہیں تو جان لیں کہ سائنسدانوں نے خون کا ایک اور نیا گروپ دریافت کرلیا ہے۔ یہ دریافت خون کے اس گروپ کے حامل افراد کے علاج میں اہم ثابت ہوسکے گی۔

    بلڈ گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے وہ اینٹی جنز ہے یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہوکر اینٹی باڈیز بنانے کا عمل تیز کرتے ہیں۔

    خون کے اس نئے گروپ کو ای آر یا ایرینٹی جینز کا نام دیا گیا ہے اور جینیاتی طور پر اس کی 5 اقسام ہیں۔

    برطانوی محققین نے خون کے اس نئے گروپ کو دریافت کیا جس کے لیے انہوں نے جدید ترین ڈی این اے سیکونسنگ اور جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کیا۔ انہوں نے خون کے اس گروپ میں پیزو ون پروٹین کو دریافت کیا۔

    اس تحقیق کے نتائج جرنل بلڈ میں شائع ہوئے اور محققین کے مطابق اس دریافت سے نئے بلڈ گروپس کی شناخت کے لیے نئے ٹیسٹ تیار کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • ملک بھر میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ

    ملک بھر میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ

    کراچی: ملک میں سیلاب متاثرین کو صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی ہدایت پر متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں سیلاب متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ کیمپس نیشنل ایمرجنسی آپریشن سیل، صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹرز (ای او سی)، اور نجی یونیورسٹی کے اشتراک سے لگائے جائیں گے۔

    عبدالقادر پٹیل نے سیلاب متاثرین کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کے حوالے سے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں تقریباً 1200 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے۔

    عبدالقادر پٹیل کے مطابق ہیلتھ کیمپس میں بنیادی صحت کی خدمات فراہم کی جائیں گی، کیمپس میںبچوں کی ویکسینیشن، جلد کے امراض، آنکھوں کے انفیکشن، اور ڈائریا کے لیے ادویات فراہم کی جائیں گی۔

    انھوں نے کہا بلوچستان کے 6 اضلاع میں 3 سو کیمپ لگائے جائیں گے، کراچی میں مجموعی طور پر 95 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے، خیبر پختون خوا کے 8 اضلاع میں 4 سو ہیلتھ کیمپس، پنجاب کے 2 اضلاع ڈی جی خان، اور راجن پور میں 100 کیمپ، جب کہ اندرون سندھ کے 6 اضلاع میں 3 سو ہیلتھ کیمپس لگائے جائیں گے۔

  • مرغی کا گوشت کھانے سے قبل یہ جان لیں

    مرغی کا گوشت کھانے سے قبل یہ جان لیں

    دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مرغی کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے، اسی لیے اس کی کم وقت میں زیادہ پروڈکشن کے نت نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں جو مرغی کے معیار اور اس کی غذائیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

    جو مرغی آج دنیا بھر میں بطور غذا استعمال کی جارہی ہے اس کے سائز میں پچھلے 50 برسوں میں 364 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہتبدیلی دوسری جنگ عظیم کے بعد آئی۔

    اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنگ کے دوران مرغی کے گوشت کی طلب میں اضافہ ہوا تو کئی کمپنیوں نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے مرغیوں کی افزائش کرنے کا فیصلہ اس طرح کیا کہ وہ سائز میں بڑی ہوں تاکہ کسٹم میں کم مہنگی پڑے۔

    مرغیوں کے سائز میں اضافہ کے لیے انہیں مصنوعی ہارمونز اور کیمیکل سے بھرپور غذا دی گئی، عام طور مرغیاں اناج اور گھاس پھوس کھاتی ہیں تاہم فارم کی مرغیوں کو بنیادی طور پر مکئی اور سویا کھلایا جاتا ہے تاکہ یہ کم وقت میں موٹی اور بڑی ہوجائے۔

    پاکستان میں ان مرغیوں کو کم وقت میں بڑا کرنے کے لیے مختلف انجیکشن لگائے جاتے ہیں جبکہ انہیں جو دانہ کھلایا جاتا ہے وہ بھی گندی اشیا سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ یہی کیمیکل مرغی سے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

    دیکھا جائے تو آج کل مرغی کے نام پر ایک بڑا غیر صحت بخش پرندہ کھایا جارہا ہے، نوے کی دہائی کے اوائل میں مرغیاں تقریباً 4 ماہ میں تیار ہوتی تھی جبکہ آج کل یہی برائلرمرغی صرف 47 دن میں تیار ہو جاتی ہے تاکہ طلب کو پورا کیا جا سکے۔

    آج کے دور میں مرغی کی بنیادی خوراک کاربوہائیڈریٹ ہے، جسے ہم ہائی انرجی ڈائیٹ کہتے ہیں جو یقیناً موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ انہیں جب وزن کم کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے کاربوہائیڈریٹ کو کم کیا جاتا ہے۔

    مرغیاں جو کچھ بھی کھائیں گی وہ اسی طرح ان کے گوشت کی صورت میں انسانوں میں منتقل ہوگا، مثال کے طور پر فارمی چکن میں اومیگا 6 سے اومیگا 3 کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جبکہ چراگاہوں کے قدرتی ماحول پالی جانے والی مرغیوں میں یہ تناسب نہایت کم ہوتا ہے۔

    متوازن میں غذا میں گوشت اور سبزیوں کا تناسب بہتر ہونا چاہیئے، چکن تمام ضروری غذائی اجزا کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چکن پروٹین، کیلشیم، امینو ایسڈ، وٹامن B-3، وٹامن B-6، میگنیشیم اور دیگر اہم غذائی اجزا کا بھرپور ذریعہ ہے۔

    تاہم ہر قسم کا چکن صحت کے لیے مفید نہیں ہے، دیسی مرغی کے مقابلے میں برائلر مرغی کی افادیت کافی کم ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ برائلر چکن کو ریگولر کھانے سے آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کا کثرت سے استعمال جسم میں بہت سی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔

    برائلرز کے بجائے دیسی چکن کھائی جائے تو اچھا ہے، جبکہ اس کے ساتھ سبزیاں اور دیگر اناج کا استعمال بھی کیا جائے تاکہ جسم کو تمام تر غذائی اجزا مناسب مقدار میں میسر آسکے۔

  • تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ تیز قدموں سے چہل قدمی کرنا خواتین میں ہارٹ فیلیئر کے خطرات کو ایک تہائی حصے تک کم کر دیتا ہے۔

    برطانیہ میں ہر سال 60 ہزار ہارٹ فیلیئر کے کیسز ہوتے ہیں اور طویل المدت صورتحال روزمرہ کی سرگرمیاں شدید متاثر کر دیتی ہے کیوں کہ یہ تھکان اور سانس میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

    اب ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایام کے بعد وہ خواتین جو زیادہ تیز چلتی ہیں ان میں ایسی صورتحال سے دوچار ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے 50 سے 79 برس کی عمر کے درمیان 25 ہزار سے زائد ان خواتین کا جائزہ لیا، جن کے متعلق تقریباً 17 برس تک تحقیق کی گئی تھی۔

    اس دورانیے میں 14 سو 55 خواتین کو ہارٹ فیلیئر کا سامنا ہوا جس کا مطلب ہے کہ دل جسم میں باقاعدگی سے خون نہیں پھینک سکتا تھا۔

    ان خواتین نے ایک سوالنامہ پر کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ عمومی طور پر اوسطاً 2 میل فی گھنٹہ سے کم کی رفتار سے چلتی ہیں، یا دو سے تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں یا اس سے تیز 3 سے زیادہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

    وہ خواتین جو عمومی رفتار سے زیادہ تیز چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر کے امکانات 34 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ وہ خواتین جو مخصوص ایام کے بعد سست رفتار کے بجائے متوسط رفتار سے چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر ہونے کے امکانات 27 فیصد کم تھے۔

  • قومی صحت کارڈ سے کن بیماریوں کا مفت علاج ممکن ہے؟

    قومی صحت کارڈ سے کن بیماریوں کا مفت علاج ممکن ہے؟

    اسلام آباد: ملک بھر میں قومی صحت کارڈ کا اجرا کردیا گیا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی صحت کارڈ کس طرح کام کرتا ہے۔

    قومی صحت کارڈ کے تحت ملک بھر کے شہری مخصوص اسپتالوں میں اپنا مفت علاج کروا سکتے ہیں۔

    اس کارڈ کے تحت پہلے فی خاندان کو سالانہ 7 لاکھ روپے کی طبی سہولیات حاصل تھیں تاہم اب یہ حد بڑھا کر 10 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔

    قومی صحت کارڈ مندرجہ ذیل بیماریوں کی صورت میں مفت علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

    امراض قلب
    ذیابیطس سے متعلق پیچیدگیاں جن میں اسپتال میں داخل ہونا پڑے
    حادثاتی چوٹیں
    سڑک کا حادثہ
    ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ
    جلنے کا علاج
    اعصابی نظام کا علاج
    گردوں کا علاج اور پیوند کاری
    سرطان
    تھیلیسیمیا
    یرقان
    حمل یا زچگی

    حکومتی ویب سائٹ پر ان تمام سرکاری و نجی اسپتالوں کی فہرست جاری کی گئی ہے جو قومی صحت کارڈ پر علاج کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

    اس حوالے سے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ کارڈ صوبہ سندھ کے علاوہ ملک بھر کے لیے جاری کیا جاچکا ہے، تاہم مختلف ڈویژنز میں اس کی رجسٹریشن فی الحال فعال نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ 31 مارچ تک ملک بھر میں اس کی رجسٹریشن فعال ہوجائے گی جس کے بعد ملک کے تمام شہری مفت علاج کی سہولیات حاصل کرسکیں گے۔

  • ذہنی صحت اور تندرستی سے متعلق اہم مشورے

    ذہنی صحت اور تندرستی سے متعلق اہم مشورے

    ذہنی صحت  کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے  گھر میں رہتے ہوئے ذہنی صحت اور تندرستی  بحال رکھنے سے متعلق اہم تجاویز پیش کی ہیں۔

    اس وقت دنیا کی بڑی آبادی کووڈ کے آئے روز آتے نئے ویرینٹ، کورونا کے باعث بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی،بدلتے معمولات زندگی سمیت دیگر بے شمار مسائل کے باعث ڈپریشن کی کیفیت میں ہے اور ذہنی تناؤ نے لوگوں کی زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔

    ذہنی صحت سے متعلق کام کرنے والی ایک  تنظیم  نے اس حوالے سے اہم تجاویز پیش کی ہیں جس پر عمل کرکے لوگ اپنی زندگی کو پریشان کن ماحول میں بھی پرسکون بناسکتے ہیں۔

    فاؤنڈیشن نے 6نکات پر مبنی تجاویز میں کہا ہے کہ اپنے دن کی منصوبہ بندی کریں، ہر روز متحرک رہیں، تفریح کے مواقع ڈھونڈیں، دوسروں سے رابطے میں رہیں، غوروفکر  کرنے پر وقت صرف کریں اور اپنی نیند کو بہتر بنائیں۔

    فاؤنڈیشن نے ان نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری شناخت، خوداعتمادی اور مقصد کے لیے روزمرہ کے معمولات ضروری ہوتے ہیں، ہر روز چہل قدمی کرنے، تفریح، سماجی میل جول اور غوروفکر کے لیے ایک وقت مقرر کریں۔

    متحرک رہنا ذہنی تناؤ کم کرتا ہے، اپنے روزانہ کے معمولات میں جسمانی نقل وحرکت اور مصروفیات کو شامل کرنے مختلف طریقے اپنائیں اور ایسے مشاغل دریافت کریں جو آپ کے لیے بہترین ثابت ہوں۔

    آرام کرنا اور موجودہ حالات پر توجہ دینا آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے اور منفی احساسات کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، مراقبہ کرنے اور سانس لینے کی مشقیں آزمائیں، جب آپ پر تناؤ کا غلبہ ہو تو پٹھوں کو بتدریج ڈھیلا کرنے کا عمل آپ کو یہ جاننا سکھاتا ہے کہ پرسکون کس طرح سے ہونا ہے۔

    تنہا رہنے سے گریز کریں اگر اپ گھر میں اکیلے رہتے ہیں تو اپنے ساتھی کارکنوں، دوستوں رشتے داروں سے رابطے میں رہنے کی کوشش کریں چاہے یہ ڈاک کے ذریعہ ہو یا فون، سوشل میڈیا چیٹ اور ویڈیو کے ذریعے گفتگو سے ہو۔

    کیا کچھ اچھا جارہا ہے اس پر غور کریں تشکر کا ایک روزنامچہ رکھنے کی کوشش کریں جس میں اؔٓپ ہر رات سونے سے قبل کچھ چیزیں لکھ سکتے ہوں۔

    بے یقینی کی کیفیت اور روزمرہ زندگی میں تبدیلیوں کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو نیند میں دشواری کا سامنا ہے، اپنی نیند کو بہتر بنانے کے لیے روز مقررہ وقت پر بستر پر جانے اور بیدار ہونے کو یومیہ معمولات میں شامل کریں، بستر پر جانے سے ایک گھنٹہ قبل اپنے فون، ٹیبلیٹ، کمپیوٹر اور ٹی وی کا استعمال بند کردیں۔

    سورج کی قدرتی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ آپ کی جسمانی گھڑی کو منظم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جس سے بہتر نیند کے حصول میں آسانی ہوتی ہے۔

  • نئے سال کے اہداف: وبا کے دور میں صحت کو پہلی ترجیح بنائیں

    نئے سال کے اہداف: وبا کے دور میں صحت کو پہلی ترجیح بنائیں

    سال نو کا پہلا دن خود سے بہت سے وعدے کرنے اور نئے اہداف طے کرنے کا نام ہوتا ہے، چونکہ گزشتہ 2 سال سے دنیا صحت کے حوالے سے ایک شدید دھچکے سے گزر رہی ہے تو اب وقت ہے کہ اپنی صحت کو اپنی پہلی ترجیح بنائی جائے۔

    اپنی صحت کے لیے اہداف طے کرنا صرف نئے سال میں وزن کم کرنے کے ہدف کا نام نہیں، بلکہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ وبا کے اس دور میں آپ خود کو محفوظ رکھ سکیں، اور یہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    تو آئیں پھر آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس سال آپ نے خود کو کیسے صحت مند رکھنا ہے، آخر صحت مند رہنا ہی آج کے دور میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

    صحت مند غذائیں سب سے ضروری

    سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ جو بھی کھائیں وہ صحت مند اور غذائیت بخش ہو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو اور آپ بیماریوں کا آسان شکار نہ بنیں۔

    صحت مند رہنے کے لیے کھانے کی مقدار کم یا زیادہ کرنے کے بجائے ڈائٹ میں تبدیلی کریں، پھلوں اور خصوصاً سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔

    روزمرہ کی غذا میں سبزیاں، پھل، دودھ، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل کریں، اس سے آپ کے جسم کو درکار توانائی اور غذائی اجزا کی ضرورت پوری ہوگی۔

    کچن میں کیا رکھنا ہے؟

    اس سال اپنے کچن میں نئے برتن لانے کے بجائے اسے دالوں، گندم، سبزیوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور صحت بخش تیلوں سے بھر لیں۔ یقیناً اگلے سال میں آپ کی غذائی عادات بھی بہتر ہوجائیں گی۔

    گھر کے کھانے کو ترجیح دیں

    کیا آپ جانتے ہیں مستقل بنیادوں پر باہر کا کھانا کھانا نہ صرف آپ کو کینسر سمیت بے شمار بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے بلکہ یہ ہماری قوت مدافعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    باہر کے بنے کھانوں میں مرچ مصالحوں اور مضر صحت تیل کی بہتات ہوتی ہے۔ اس کے برعکس گھر کا بنا ہوا صاف ستھرا کھانا آپ کو امراض قلب، بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے تحفظ فراہم کرے گا اور آپ کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوگا۔

    چنانچہ اگلے سال کے اہداف میں باہر کے کھانے سے پرہیز اور گھر کے کھانے کی ترجیح بھی شامل کرلیں۔

    ایک دن گوشت کے بغیر

    ہفتے کا ایک دن گوشت کے بغیر ضرور گزاریں، گو کہ گوشت جسم کو وٹامنز، پروٹین اور آئرن تو فراہم کرتا ہے تاہم اس کا استعمال اعتدال میں کرنا چاہیئے اور ایک دن گوشت سے پرہیز اس کا نہایت بہترین طریقہ ہے۔

    گوشت کی جگہ سبزیوں کی مزیدار ڈش، انڈے، دال اور پھل دن کا بہترین کھانا ثابت ہوگا۔

    پانی کو مت بھولیں

    ہر موسم میں پانی کا زیادہ استعمال نہ چھوڑیں۔ پانی نظام ہاضمہ کو فعال رکھتا ہے اور کھانا جلد ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے، یہ وزن میں زیادتی یا کمی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    پھل اور سبزیاں بہترین دوست

    کیا آپ جانتے ہیں پھل اور سبزیاں ہمیں بے شمار فوائد پہنچاتی ہیں؟ یہ نہ صرف خون کے بہاؤ کو معمول پر رکھ کر امراض قلب اور بلڈ پریشر سے بچاتی ہیں بلکہ موڈ اور نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    پھل اور سبزیاں کھانا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے بھی بچاتا ہے جبکہ جسم میں خوشی پیدا کرنے والے ہارمونز میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    حرکت میں آئیں

    اس سال بھاری بھرکم ورزش کے منصوبے بنانے کے بجائے صرف اتنا کریں کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرلیں یا صرف سیڑھیاں چڑھ لیں۔ گو کہ جسم کو زیادہ سے زیادہ فعال رکھنا جسمانی و ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے، لیکن اگر آپ یہ نہیں بھی کرسکتے تب بھی معمولی حرکت ضرور کریں۔

    کوشش کر کے بیٹھنے اور لیٹنے کا وقت مختصر کرتے جائیں اور خود کو حرکت میں لائیں، آہستہ آہستہ آپ خود میں واضح فرق محسوس کریں گے۔

    یاد رکھیں، جان ہے تو جہاں ہے، اگر آپ صحت مند اور تندرست ہوں گے تو ہی زندگی کی دیگر رنگینیوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔

  • علاج کی سہولتوں میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں: ڈاکٹر فیصل سلطان

    علاج کی سہولتوں میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں: ڈاکٹر فیصل سلطان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ پہلی بار حکومت عوام کو ہیلتھ انشورنس فراہم کر رہی ہے، علاج کی سہولتوں میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ پہلی بار حکومت عوام کو ہیلتھ انشورنس فراہم کر رہی ہے، علاج کی وجہ سے غریب کا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ کے ذریعے شہریوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں، پرائمری ہیلتھ کیئر کے لیے سرکاری اور نجی اسپتالوں کو مل کر سہولت دینا ہوگی۔ علاج کی سہولتوں میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں سے فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے رابطے میں ہیں، یونیورسل ہیلتھ کوریج کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ صحت انصاف کارڈ کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلادیا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ، فاٹا، تھرپارکر اور آزاد جموں و کشمیر میں یونیورسل ہیلتھ کوریج کے تحت مفت علاج کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ مارچ تک پورے پنجاب میں یونیورسل ہیلتھ کوریج کے تحت مفت علاج کی سہولیات میسر ہوں گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے پائیدار ترقیاتی اہداف ایس ڈی جی پر دستخط کر رکھے ہیں، سنہ 2030 تک صحت سب کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج کے لیے پرعزم ہیں۔

  • عمان حکومت کا کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ

    عمان حکومت کا کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ

    مسقط : عمان حکومت نے عالمی وبا کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ روکنے کیلئے اہم اقدامات کیے ہیں جس کے تحت نوجوانوں کو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔

    خلیجی سلطنت عمان میں نئے کورونا وائرس اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 18 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے کورونا کی بوسٹر خوراک لگانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

    سعودی عرب کے ذرائع کے مطابق عمان کی سرکاری نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق عمان کی وزارت صحت اہداف کے حصول اور اس سے متعلق ایکشن پلان کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

    وزارت صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ عمان میں صحت کی صورت حال کے بارے میں وبائی امراض سے متعلق رپورٹس اور تجزیے سے مثبت کیسز میں معمولی اضافے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

    اس کے باوجود اسپتالوں کی کورونا وارڈز اور انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کی شرح کم ہے۔ وزارت صحت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سلطنت عمان کی کم سے کم 93 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین کی ایک خوراک لگ چکی ہے۔

    سلطنت عمان میں کورونا انفیکشن کی موجودہ تعداد کے حوالے سے گذشتہ ماہ کے دوران یومیہ 35 سے بھی کم مثبت کیسز ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

    وزارت صحت نے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ ماہ کے دوران کورونا وائرس میں مبتلا کسی مریض کی موت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

  • طویل اوقات تک کام کرنے والے موت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

    طویل اوقات تک کام کرنے والے موت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کام کے طویل اوقات سے سالانہ بنیادوں پر ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ ایک اہم جریدے انوائرمینٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کام کے طویل اوقات سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

    اس رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہےکہ طویل اوقات کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ ان سے متاثرہ انسان اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے۔

    عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اقتصادی عدم اطمینان کی وجہ سے کئی لوگوں کو طویل اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال عالمی وبا کورونا کے ایام میں خاص طور پر زیادہ دیکھی گئی ہے۔

    ریسرچ رپورٹ کے مطابق کام زیادہ کرنے کے اوقات کی وجہ سے انسانوں کو مختلف عوارض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں عارضہٴ قلب خاص طور پر اہم ہے۔ سال 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔

    ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور ہیٹ اسٹروک ہے۔ یہ اضافہ سال 2000 کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے۔ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ دنیا میں کام کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنے والی آبادی نو فیصد ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شعبہ انوائرنمنٹ اور کلائمیٹ چینج و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نائرا کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں پچپن گھنٹے کام کرنے سے صحت کے شدید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لیے عام لوگوں تک بنیادی معلومات پہچانا اور ورکرز کی صحت کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔

    عالمی ادارہٴ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آڈہانوم گیبرائسس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لوگوں کے کام کی ہیت میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور کئی اداروں میں کمپیوٹر یا ٹیلی ورکنگ نے معمول کی صورت اختیار کرلی ہے۔

    گبرائسس کے مطابق اس نئی صورت حال نے کام کے مقام اور گھر میں فرق مٹا دیا ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کو اپنے ورکرز کی صحت کو مقدم سمجھنا چاہیے جب کہ ورکرز کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی کے سامنے روزگار کی کوئی اہمیت نہیں اور بہتر ہے کہ کام اس طرح کیا جائے کہ ہارٹ اٹیک یا اسٹروک سے محفوظ رہا جائے۔