Tag: Health

  • فاف ڈیو پلیسی پراسرار بیماری کا شکار، سوشل میڈیا پر مداحوں کو بتا دیا

    فاف ڈیو پلیسی پراسرار بیماری کا شکار، سوشل میڈیا پر مداحوں کو بتا دیا

    ابوظبی : پی ایس ایل 6 کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بیٹسمین اور سابق جنوبی افریقی کپتان فاف ڈیوپلیسی نے صحت یابی کے بعد اپنے مداحوں اپنی خیریت سے آگاہ کیا ہے لیکن ساتھ انہوں نے ایک خدشے کا بھی اظہار کیا۔

     پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) سکس میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بلے باز فاف ڈیو پلیسی پشاور زلمی کے خلاف میچ میں دوران فیلڈنگ انجری کا شکار ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے کچھ یاد داشت کھونے کی شکایت کی ہے۔

    ہفتے کو ابوظبی میں پشاور زلمی کے خلاف میچ کے دوران باؤنڈری بچانے کی کوشش میں سابق ڈیو پلیسی کا محمد حسنین سے تصادم ہو گیا تھا۔

    36سالہ بلے باز زمین پر گراؤنڈ پر ہی ڈھیر ہو گئے تھے اور گلیڈی ایٹرز کے فزیو تھراپسٹ کی جانب سے ابتدائی معائنے کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم سابق جنوبی افریقی کپتان نے اب تصدیق کی ہے کہ وہ بہتر محسوس کررہے ہیں اور اگلے میچ کے لیے فٹ ہیں۔

    انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں مداحوں کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں ہوٹل میں آ کر روبصحت ہوں، بے ہوشی کے بعد مجھے یادداشت کھونے کی کچھ شکایت ہوئی لیکن اب بہتر محسوس کررہا ہوں، امید ہے جلد میدان میں واپسی ہوگی۔

    واضح رہے کہ فاف ڈیو پلیسی کے زخمی ہونے کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم میں ان کی جگہ صائم ایوب کو بطور متبادل کھلاڑی شامل کیا گیا تھا۔ اس سے قبل آندرے رسل بھی اسلام آباد کے خلاف میچ کے دوران ممحمد موسیٰ کی گیند سر پر لگنے کے سبب نیم بے ہوشی کا شکار ہو گئے تھے۔

    رسل کا فزیو نے معائنہ کیا تھا اور انہیں مزید طبی معائنے کے لیے اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جبکہ ان کی جگہ میدان میں نسیم شاہ آئے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا اگلا میچ آج لاہور قلندرز سے ہوگا۔

  • دماغی اور جسمانی صحت کے لیے سفر کے 5 فوائد

    دماغی اور جسمانی صحت کے لیے سفر کے 5 فوائد

    دماغی صحت کا خیال رکھنے کے لیے مختلف ورزشوں، اچھی نیند اور متوازن غذا کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہوں گے لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے لیے سفر کرنا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے؟

    ماہرین کہتے ہیں کہ سفر ہمیشہ نفسیاتی صحت پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کو سفر کی اہمیت کا احساس نہیں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس طرح سفر قوت مدافعت کو اور موڈ کو بہتر بناتا ہے، افسردگی کا مقابلہ کرتا ہے، اور دماغی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    جب آپ سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات شخصیت پر بھی پڑتے ہیں، اس حوالے سے بولڈ اسکائی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں سفر کے ایسے پانچ فوائد بتائے گئے ہیں جو دماغ اور جسمانی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔

    دماغی صحت: سفر دماغ کو مزید وسعت دینے میں مدد کرتا ہے، کیوں کہ نئے تجربات سے علم میں وسعت اور لچک آتی ہے اور دماغ کو عروج ملتا ہے، جب کہ معمول کے شب و روز کے مسائل اور پریشانیاں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں، جس سے دماغ کو مضبوط ہونے کا وقت مل جاتا ہے۔

    جسمانی قوت مدافعت: سفر جسمانی قوت مدافعت کے نظام کی نشوونما میں معاون ہوتا ہے جو کرونا وائرس سے بچنے میں مدد دیتا ہے، کیوں کہ سفر کے دوران مختلف قسم کی آب و ہوا سے واسطہ پڑتا ہے، جسمانی سرگرمی بڑھ جاتی ہے اور ذہن بھی استحکام حاصل کرتا ہے، جس سے قوت مدافعت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    فیصلہ سازی پر اثر: کیا آپ جانتے ہیں کہ سفر فیصلے کرنے میں سکون اور لچک کا بھی باعث بنتا ہے؟ جب آپ نئے ممالک اور خطوں کا سفر کرتے ہیں تو آپ کا ذہن آپ کو مختلف ماحول اور ثقافتوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف مہارتیں حاصل ہوتی ہیں، اور فیصلہ سازی اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تربیت ملتی ہے۔

    دل کی بیماری سے بچاؤ: سفر کرنے والے افراد کو بہت کم ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ تناؤ، اضطراب، مایوسی یا افسردگی وغیرہ۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ سفر کرتے ہیں وہ دل کی پریشانیوں اور دل کے دورے کی شاذ و نادر ہی شکار ہوتے ہیں۔

    مجموعی اچھی صحت: جیسا کہ سفر انسانی دماغ اور روحانی حالت پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اس کا اظہار جسمانی اثر سے جھلکتا ہے، انسان میں صبر پیدا ہوتا ہے۔ سفر شفا یابی اور اچھی صحت میں معاونت کرتا ہے، خاص طور پر سمندر کے ذریعے سفر کرنا بہت مفید ہوتا ہے۔

  • درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    لندن: برطانیہ میں کی جانے والی ایک لمبے عرصے پر مبنی نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر روزانہ 6 گھنٹے یا اس سے کم کی نیند لی جائے تو اس سے دماغی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں منگل کو شائع ہوئی ہے، اس تحقیق سے یہ بات پھر سامنے آئی ہے کہ نیند ہماری صحت کے لیے کتنی زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس کی کمی متعدد امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ درمیانی عمر میں روزانہ 6 گھنٹے سے کم کی نیند دماغی خلل (dementia) کی طرف لے جا سکتی ہے، جس میں دماغ اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے، اہم نکتہ یہ ہے کہ اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کی نیند بھی کم نیند کے زمرے میں آتی ہے، اور کم سے کم نیند 7 گھنٹے کی ہونی چاہیے۔

    اس طبی تحقیق کا دورانیہ 25 سال پر محیط رہا، اور اس دوران تقریباً 8 ہزار افراد کے معمولات کا جائزہ لیا گیا، نتائج نے دکھایا کہ 50 سے 60 سال کی عمر میں نیند کا دورانیہ 6 گھنٹے سے کم ہو تو ڈیمنشیا (دماغی تنزلی کا مرض) کا خطرہ ہر رات 7 گھنٹے سونے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیقی رپورٹ کے مطابق سماجی آبادیاتی، نفسی طرز عمل، امراض قلب، دماغی صحت اور ڈپریشن جیسے اہم عوامل سے ہٹ کر یہ معلوم کیا گیا کہ 50، 60 اور 70 سال کی عمر کے افراد میں نیند کی مسلسل کمی سے ڈیمنشیا کا خطرہ 30 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس طبی تحقیق کے حوالے سے برطانیہ میں ناٹنگھم یونی ورسٹی کے مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ٹام ڈیننگ نے بتایا کہ اگرچہ یہ طبی مطالعہ علت و معلول (یعنی سبب اور اس کے اثر) کا تعین نہیں کرتا، تاہم یہ ڈیمنشیا کی بالکل ابتدائی علامت ہو سکتی ہے، اور اس کا تو کافی امکان ہے کہ ناقص نیند دماغی صحت کے اچھی نہیں، اور یہ الزائمر جیسے امراض کی طرف لے جا سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے دوران محققین نے 1985 سے 2016 کے درمیان 7959 رضاکاروں کے معمولات کا جائزہ لیا، تحقیق کے اختتام پر 521 افراد میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہوئی جن کی اوسط عمر 77 سال تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں اور خواتین دونوں پر ان نتائج کا اطلاق مساوی طور پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں دماغ اپنے افعال درست طریقے سے جاری نہیں رکھ پاتا، جیسا کہ توجہ مرکوز کرنا، سوچنا اور یادداشت کا تجزیہ مشکل ہوتا ہے۔

  • صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ایسی دنیا تشکیل دینا ہے جس میں تمام افراد کو منصفانہ اور صحت مند ماحول حاصل ہو۔

    7 اپریل 1948 میں جب عالمی ادارہ صحت قائم کیا گیا، تو ادارے نے پہلی ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا۔ اس اسمبلی میں ہر سال 7 اپریل، یعنی عالمی ادارہ صحت کے قیام کے روز کو صحت کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔

    اس دن کو منانے کا مقصد ایک طرف تو اس ادارے کے قیام کے دن کو یاد رکھنا ہے، تو دوسری طرف اس بات کا شعور دلانا ہے کہ دنیا کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب دنیا میں بسنے والا ہر شخص صحت مند ہو اور بہترین طبی سہولیات تک رسائی رکھتا ہو۔

    رواں برس عالمی ادارہ صحت نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں منصفانہ طبی سہولیات کی اہمیت آج جس قدر محسوس ہورہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی۔ گزشتہ سال کی کرونا وائرس وبا نے اب تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس موقع پر بھی معاشرتی و طبقاتی تفریق کا بھیانک چہرہ سامنے آیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنہم مستقل ان خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کرونا وائرس ویکسین کی تقسیم نہایت غیر منصفانہ ہوسکتی ہے جس میں غریب ممالک محروم رہیں گے۔

    کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک دنیا کے 36 ممالک ایسے ہیں جہاں تاحال کرونا ویکسی نیشن شروع نہیں کی گئی، ان میں سے 16 ممالک کو کویکس (ویکسین کی تقسیم کی اسکیم) کے تحت ویکسین کی فراہمی کا پروگرام ہے۔ اس کے باوجود باقی 20 ممالک ویکسین سے محروم رہیں گے۔

    دوسری جانب امیر ممالک اپنے شہریوں کے لیے پہلے ہی ویکسین کی کروڑوں ڈوزز حاصل کرچکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت امیر ممالک سے اپیل بھی کرچکا ہے کہ وہ غریب اقوام و ممالک کو کرونا ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر ایک کروڑ خوراکیں عطیہ کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کی کویکس ویکسین شیئرنگ اسکیم بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا کے 92 غریب ممالک کی کرونا ویکسین تک رسائی ہو اور اس کی قیمت ڈونرز ادا کریں۔

  • ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    بیماریوں اور ان سے جڑے معاملات میں لوگوں میں مختلف قسم کے مفروضے پھیلے ہوتے ہیں، اور لوگ ان مفروضوں کو حقیقت سمجھ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر درست نہیں ہوتے۔

    ایسا ہی ایک مفروضہ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی عام ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔

    طبی ماہرین نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خون دینے سے بلڈ شوگر لیول متاثر ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول نارمل ہو، اور جو لوگ انسولین لگاتے ہیں وہ عطیہ نہیں دے سکتے، تاہم عام دوائیاں کھانے والے شوگر مریض خون عطیہ کر سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس میٹابولزم کا مرض ہے، اس سے مریض کا جسم متاثر ہوتا ہے، خون نہیں، یہ ذہن میں رہے کہ اگر مریض کو دل یا گردوں کی بیماری نہیں ہے تو وہ خون دے سکتا ہے۔

    ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص کو خون کا عطیہ دینا چاہیے اور شوگر کے مریضوں کو اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

    طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خون دیتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ آپ روزے سے نہ ہوں، آپ نے اچھی طرح کھانا کھایا ہو، اور عطیہ دینے سے قبل خون کا نمونہ دیں۔

    خون دیتے وقت کچھ لوگوں پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ خالی پیٹ نہ ہوں۔

  • خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    سافٹ ڈرنک پینا ہماری معمول کا حصہ بن چکا ہے، ہم میں سے ہر شخص اکثر سافٹ ڈرنک پیتا دکھائی دیتا ہے اور بعض افراد تو اس کے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ روزانہ پیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سافٹ ڈرنک کا ایک گلاس بھی ہمارے جسم کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    سافٹ ڈرنکس کے یوں تو بے حد نقصانات ہیں جن میں سب سے عام موٹاپا اور ذیابیطس ہے، اس کے علاوہ سافٹ ڈرنکس کے دیر سے ظاہر ہونے والے نقصانات اور بیماریوں کی بھی طویل فہرست ہے جس میں دانتوں اور ہڈیوں کو نقصان، جلدی امراض، امراض قلب، ڈپریشن، مرگی، متلی، دست، نظر کی کمزوری اور جلد پر خارش شامل ہیں۔

    تاہم ان خطرناک ڈرنکس کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں متعدد اقسام کے کینسر اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال کے درمیان مضبوط تعلق کو دیکھا گیا، تحقیق کے مطابق ہفتے میں صرف دو سافٹ ڈرنکس ہی انسولین کی سطح بڑھا دیتے ہیں جس سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح روزانہ ایک سافٹ ڈرنک کا استعمال مردوں میں مثانے کے کینسر کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ڈیڑھ سافٹ ڈرنک کا روزانہ استعمال خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکان میں اضافہ کردیتا ہے۔

    سافٹ ڈرنک میں شامل اجزا 6 اقسام کے کینسر پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کے باعث ہونے والے کینسر میں پیٹ اور مثانے کا کینسر سب سے عام ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس زہر کو اپنی غذا سے دور رکھنا چاہیئے اور اس کی جگہ پانی، تازہ پھلوں کا جوس اور شیکس استعمال کرنے چاہئیں۔

  • چقندر کے حیرت انگیز طبی فائدے

    چقندر کے حیرت انگیز طبی فائدے

    چقندرکا شمار ان سبزیوں میں ہوتا ہے جس کی جڑ کو بھی ہم غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس کو دو طرح سے استعمال میں لایا جاتا ہے ایک اس کا سلاد بنایا جاتا ہے دوسرا اسے ابال کر بھی کھایا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ اس کا جوس بھی پسند کیا جاتا ہے۔

    موسم سرما میں چقندر کا استعمال بہت عام ہے، سلاد سے لے کر اس کا جوس کافی پسند کیا جاتا ہے۔ فائبر، فولیٹ، میگنیز، پوٹاشیم، آئرن اور وٹامن سی بھرپور چقندر متعدد جسمانی امراض سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    گرمیوں میں عام طور پر لوگ اسے گاجر کے جوس کے ساتھ ملا کر استعمال میں لاتے ہیں اس طرح اس کی افادیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

    چقندر میں شکر کے علاوہ کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، آئرن، فائبر، سوڈیم، زنک، پوٹاشیم، میگنیشیم، وٹامن بی اور وٹامن کے بھی پایا جاتا ہے۔

    چقندر کو کھانے یا اس کا جوس بنانے سے پہلے اسے اچھی طرح صاف یا دھولیں اس کا جوس بننے والی جھاگ کو ہٹا کر پئیں اور ہمیشہ تازہ چقندر کا جوس استعمال کریں۔

    اسے فرج میں اسٹور نہ کریں فرج والا جوس نقصان دہ ہوتا ہے چقندر کا جوس گاجر، مالٹا، کنو، آڑو اور سیب وغیرہ کے ساتھ ملا کر ہی پیا جائے تو مفید رہتا ہے۔

    چقندر کے پانچ طبی فوائد :

    اس مضمون میں ہم چقندر کے فوائد کو شامل کریں گے جسے پڑھ کر آپ اس خوبصورت اور غذائیت سے بھرپور سبزی کو اپنی روزانہ کی خوراک میں شامل کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

    بلڈ پریشر کو مستحکم رکھتا ہے : 

    ہائی بلڈ پریشر دل کے بعض مسائل جیسے اسٹروک، دل کے دورے ، وغیرہ کا باعث بن سکتا ہے۔ کچھ مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چقندر کے روزانہ استعمال سے اس صورتحال سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔چقندر نائٹریٹ سے بھرپور سبزی ہے، جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔جو آپ کو دل کی بیماریوں سے دور رکھے گا۔

    ورزش یا ایتھلیٹک کارگردگی میں اضافہ کی وجہ : 

    بہت سارے مطالعات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ چقندر کے جوس کا استعمال کسی شخص میں ایتھلیٹک کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص کی جسمانی نشونما کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کی آکسیجن استعمال کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔

    چنانچہ اس سبزی کے استعمال سے خون میں آکسیجن بڑھتی ہے اور سارے جسم تک پہنچتی ہے جس سے جلدی تھکاؤٹ محسوس نہیں ہوتی اور انسان زیادہ دیر تک ورزش کو جاری رکھ سکتا ہے۔

    نظام انہضام کو بہتر بنانے کے لیے : 

    فائبر سے بھرپورہونے کے سبب یہ ہاضمے کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔فائبر ایک اہم غذائی جز ہے جو آنتوں کو صحت مند رکھنے کے لئے جانا جاتا ہے۔

    نظام انہضام کی بہتری سمیت صحت کے لیے متعدد فوائد کا باعث بنتا ہے۔چقندر ہاضمہ بہتر بناتی ہے اور ہاضمے سے جُڑی بیماریوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی اور قبض جیسے مسائل سے نجات دلاتا ہے اور ہاضمہ کی دیگر حالتوں سے بچاتا ہے۔

    کینسر کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے : 

    کچھ مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ چقندر کے استعمال سے کینسر کو پیدا ہونے سے روکنے میں انتہائی معاؤن کردار ادا کرتی ہیں۔اس میں موجود روغن جسم میں کینسر خلیوں کی افزائش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور : 

    اس سبزی میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، جو کہ جسم میں گردش کرنے والے فری ریڈیکلز کے نقصان سے بچانے میں مدد کرتا ہے اور آکسیڈیٹو تناؤ کو دور کرتا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ سوزش کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ آسٹیو ارتھرائٹس کے درد سے بھی نجات دلاتا ہے۔اس کے علاوہ آئرن اور فولک ایسڈ سے بھرپور ہونے کی وجہ سے چقندر خون کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ خون کے خلیوں کو بڑھاتا ہے جو ہمارے جسم کے مختلف حصوں تک آکسیجن لے جانے کا کام کرتے ہیں۔

     

  • گردے کے درد کا علاج کیسے ممکن ہے؟

    گردے کے درد کا علاج کیسے ممکن ہے؟

    گردے انسانی جسم کا اہم عضو ہیں، دنیا میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اس کی بڑی وجہ مرض سے لاعلمی ہے۔

    کمر کے درد کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ یہ گردوں کا درد بھی ہوسکتا ہے، گردے کی سوزش ایک انتہائی تکلیف دہ بیماری ہے،اس کے مختلف اسباب ہیں اگر اسے بغیر علاج کے چھوڑ دیا جائے تو بعض اوقات گردہ ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    گردے میں انفیکشن عام طور پر بیکٹیریا کے داخل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، جو اکثر پیشاب کی نالی اور مثانے سے اس میں منتقل ہوتا ہے۔ پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے گردوں کے انفیکشن کا جلدی علاج کرنا بہت ضروری ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبرسویرا میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر امراض گردہ ڈاکٹر نزہت فاروقی نے بتایا کہ گردے کے امراض سے بچنے کیلئے دن میں ایک سے سوا لیٹر تک پانی پینا ضروری ہے اس کے علاوہ کافی اور چائے کا زیادہ استعمال خطرے کا باعث ہے۔

    کمر اور گردے کے درد میں فرق بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمر کا درد ایک ہی جگہ پر ہوتا ہے جبکہ گردے کا درد کمر سے ہوتا ہوا سامنے کی طرف آکر نیچے کی جانب جائے گا اور ہلکا اور تیز ہوتا رہتا ہے۔

    : گردے کی سوزش کی علامات

    اگر آپ میں مندرجہ ذیل علامات پائی جارہی ہیں تو گردوں کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافہ ہونا : گردے کی سوزش کے ساتھ درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اس کی عمومی وجہ بیکٹریا کا گردے میں داخل ہوجانا ہوتی ہے۔

    کمر میں درد : گردوں میں سوزش کمر میں شدید درد کا سبب بنتی ہے، جسے گردوں کی کالک کہا جاتا ہے، عام طور پر درد کی شدت کو کم کرنے کے لیے پین کلر دوا لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

    جلن کا احساس : گردوں کی سوزش کے نتیجے میں پیشاب کے دوران شدید جلن ہوتی ہے۔

    بار بار پیشاب کرنا : انفیکشن کے نتیجے میں مریض جلنے کے احساس کے ساتھ معمول سے کئی گنا زیادہ پیشاب کرنے کی خواہش کو محسوس کرتا ہے۔

    بے سکونی محسوس ہونا : گردوں کی سوزش متلی اور الٹی کا سبب بنتی ہے۔
    سوزش کے بعد گردوں کی خرابی : اگر سوزش طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے تو گردے ناکام ہو سکتے ہیں اور مناسب طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    : علاج

    گردوں کے انفیکشن کا علاج اینٹی بائیوٹکس کے ذریعے پیشاب کے ٹیسٹ کے نتائج پر ہوتا ہے، جس کے ذریعے انفیکشن کا سبب اور بیکٹیریا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ مرض کی شدت کی صورت میں مریض کو اسپتال میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔

  • جسم توانا اور سرخ و سفید رنگت : "انجیر” کے حیرت انگیز طبی فائدے

    جسم توانا اور سرخ و سفید رنگت : "انجیر” کے حیرت انگیز طبی فائدے

    قدرت نے انسانوں کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے پھل، سبزیاں، میوہ جات وغیرہ شامل ہیں ان میوہ جات میں انجیر بھی شامل ہے جسے جنت کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔

    انجیر کمزور اور دبلے لوگوں کے لئے قدرت کی خوبصورت نعمت ہے، ا نجیر جسم کو پرکشش اور چہرے کو سفید و سرخ رنگت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ دلکش بھی بناتا ہے۔

    انجیر کا شمار عام اور مشہور پھلوں میں ہوتا ہے، انجیر کو بنگالی میں آنجیر، انگلش میں فِگ،عربی میں تین، یمنی میں بلس ، سنسکرت، ہندی، مرہٹی اور گجراتی میں انجیر اور پنجابی میں ہنجیر کہتے ہیں۔

    یہ نازک پھل کہلاتا ہے اور پکنے کے بعد خود بخود ہی گرجاتا ہے اور اسے دوسرے دن تک محفوظ رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس کے استعمال کی بہترین صورت اسے خشک کرنا ہے۔

    انجیر کے اندر پروٹین ، معدنی اجزاء شکر ، کیلشیم ، فاسفورس پائے جاتے ہیں، دونوں انجیر یعنی خشک اور تر میں وٹامن اے اور سی کثیر مقدار میں ہوتے ہیں جبکہ وٹامن بی اور ڈی قلیل مقدار میں ہوتے ہیں۔

    ان اجزاء کے پیش نظر انجیر ایک انتہائی مفید غذائی دوا کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، اس لئے عام کمزوری اور بخار میں بھی اس کا استعمال اچھے نتائج دیتا ہے۔

  • ذیابیطس (شوگر) کا جلد شکار کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت

    ذیابیطس (شوگر) کا جلد شکار کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت

    کراچی : پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سات ملین سے بھی تجاوز کر چکی ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو قریب دو عشرے بعد اس بیماری کے شکار پاکستانیوں کی تعداد چودہ ملین یا قریب ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی۔

    اس حوالے سے اس مرض کے علاج کے ماہر ڈاکٹر محمد حسن نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں بتایا کہ یہ بیماری پاکستان میں خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کے بڑے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک ہیں، ذیابیطس بالعموم فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوں اور پاؤں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

    ڈاکٹر محمد حسن کا کہنا تھا کہ آج ہم شوگر کے حوالے سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ گزشتہ دو سال قبل ہم آٹھویں نمبر پر تھے، پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    شوگر کی اہم وجہ ڈپریشن اور بلڈ پریشر ہے، یہ دونوں امراض انسان کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور کسی بھی بیماری کے حملے کا سبب بنتے ہیں، لوگوں میں شوگر سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اس سے بچنے کیلئے ہمیں اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی، اس کیلئیے ضروری ہے کہ ذہنی دباؤ کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں، خوش رہیں، صبح جلدی سو کر اٹھیں، ورزش لازمی کریں، چہل قدمی کو کسی صورت نہ چھوڑیں۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ پریشان نہ ہوں، کیونکہ ڈپریشن، تھکاوٹ اور نیند کی کمی سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ام الامراض ہے اگر اسے فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے تو بہت سی پریشانیوں اور تکالیف کا موجب بن جاتی ہے، شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں نقصان پہنچاتی ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 42 کروڑ 22 لاکھ سے زیادہ ہے، جو سال 2040 تک پچاس فیصد سے بھی زیادہ اضافے کے ساتھ 640 ملین ہو جائے گی۔

    پاکستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں سالانہ 90 ہزار سے زائد شہری اس بیماری یا اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرجاتے ہیں لیکن اگر اس مرض کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا تو پاکستان بائیس تیئس برس بعد اپنے ہاں شوگر کے مریضوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا بڑا ملک بن سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا سبب بننے والی دس بڑی بیماریوں میں ذیابیطس چھٹے نمبر پر ہے۔