Tag: Hearing

  • کوئی گاڑی نہیں روکے گا تو گولیاں چلا دو گے؟ عدالت کا پولیس سے سوال

    کوئی گاڑی نہیں روکے گا تو گولیاں چلا دو گے؟ عدالت کا پولیس سے سوال

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں پولیس کی فائرنگ سے قتل 21 سالہ نوجوان اسامہ کے کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اصل تصویر نہیں بنائی اس کا مطلب ہے تم لوگ بھی ملزمان سے ملے ہوئے ہو۔ عدالت میں ملزم نے کہا کہ اسامہ نے 3 سگنل کراس کیے۔

    تفصیلات کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے قتل 21 سالہ نوجوان اسامہ کے کیس میں گرفتار 5 پولیس اہلکاروں کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل کرلیا گیا جس کے بعد پانچوں ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

    ملزمان میں مدثر، شکیل، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد شامل ہیں۔

    عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال کیا کہ بچے کو گولیاں پیچھے سے لگی ہیں؟ پولیس حکام نے کہا کہ جی ہاں گولیاں پیچھے سے لگی ہیں، عدالت نے پوچھا اسامہ کو کتنی گولیاں لگیں، پولیس نے بتایا کہ اسامہ کو 5 گولیاں پیچھے سے لگیں۔

    عدالت نے وقوعے کی تصاویر مانگ کر دیکھیں جس ہر پولیس حکام کی جانب سے کہا گیا کہ گولیاں لگنے کی تصاویر نہیں ہیں، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب تصویر لی ہی نہیں گئی ہے، اس کا مطلب ملے ہوئے ہو سب، گاڑی کے پیچھے کی تصویر لے کر آئے ہو لیکن وہ تصویر ہی نہیں جس میں سامنے سے گولی لگی۔

    عدالت نے کہا کہ یہ سب چیزیں ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں۔

    بعد ازاں عدالت نے ملزمان کو روسٹرم پر بلوایا، عدالت نے پوچھا کہ کیا بچے نے فائرنگ کی تھی جو آپ نے بدلے میں فائرنگ کی؟ ملزم نے کہا کہ اسامہ نے 3 سگنل کراس کیے۔

    جج نے برہمی سے پوچھا کہ میں 50 سال کا ہوں گاڑی نہیں روکوں گا تو گولی مار دو گے؟ یہ کون سا طریقہ کار ہے؟ عدالت نے ملزمان سے دریافت کیا کہ پوری تفصیل بتاؤ واقعہ کیسے پیش آیا۔

    ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ اے ایس آئی سلیم نے کال چلائی کہ ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے، کہا گیا کہ کشمیر ہائی وے پر آجائیں، ایک سفید رنگ کی گاڑی ہے، کہا گیا کہ گاڑی میں 4 افراد سوار ہیں ہر صورت گاڑی کو روکنا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ تمہاری گاڑی بڑی تھی اسامہ کی گاڑی چھوٹی تھی، تمہیں نہیں پتہ گاڑی کیسے روکنی ہے؟ گاڑی پر گولیاں برسا دو گے؟

    سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزمان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی، تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ملزمان سے اسلحہ قبضے میں لے لیا گیا ہے، اسامہ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بھی بنائی گئی۔

    عدالت نے تفتیشی افسر سے واقعے کے بارے میں پوچھا جس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کو بتایا جائے کہ یہ انسداد دہشت گردی عدالت ہے، اگر تفتیشی افسر غلط بیانی کرے گا تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

    تفتیشی افسر نے اسامہ کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی، عدالت نے افسر پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر نے اسامہ کے قتل کے وقوعہ کی تصویر نہیں لی، اصل تصویر نہیں بنائی اس کا مطلب ہے تم لوگ بھی ملزمان سے ملے ہوئے ہو۔

    خیال رہے کہ ہفتہ 2 جنوری کو دارالحکومت اسلام آباد میں 21 سالہ کار سوار اسامہ اے ٹی ایس اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ رات کو کال آئی کہ گاڑی سوار ڈاکو شمس کالونی میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، اے ٹی ایس پولیس کے اہلکاروں نے، جو گشت پر تھے، مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا، پولیس نے کالے شیشوں والی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، روکنے کی کوشش پر ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی۔

    ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس نے متعدد بار جی 10 تک گاڑی کا تعاقب کیا اور نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے گئے، 2 گولیاں گاڑی کے ڈرائیور کو لگیں جس سے ڈرائیور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

  • میرے مستعفی ہونے سے کیا کراچی کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ میئر کراچی

    میرے مستعفی ہونے سے کیا کراچی کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ میئر کراچی

    کراچی: میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ کراچی کے حالات تب تک نہیں سدھر سکتے جب تک آرٹیکل 140 اے پر عملدر آمد نہیں ہوگا، میرے استعفیٰ دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن ہوں گے، کراچی کا 70 فیصد اتھارٹی لینڈ کنٹرول وفاق کے پاس ہے، 20 فیصد سندھ حکومت اور 10 فیصد کے ایم سی کے پاس ہے۔

    وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے خود میری اس بات کو تسلیم کیا ہے، اتھارٹی کا بہانہ بنا کر کراچی کو ستیاناس کر دیا ہے، جو پیسہ ملتا ہے وہ کہاں جاتا ہے۔ کراچی کے عوام ٹیکس دیتے ہیں اور کام نہیں ہوتا۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے پورا پاکستان آگیا ہے، آج تجاوزات کے حوالے سے مجھے عدالت میں بلایا گیا تھا، جو جو کام ہوئے ان کی رپورٹس جمع کروائی گئی ہیں۔

    وسیم اختر کا کہنا تھا کہ عوام نے تو ووٹ ڈال کر منتخب کر دیا مگر اختیارات نہیں، جب تک آرٹیکل 140 اے کی پٹیشن پر فیصلہ نہیں ہوگا کراچی کا بھلا نہیں ہوگا، کراچی کے حالات نہیں سدھر سکتے جب تک آرٹیکل 140 اے پر عملدر آمد نہیں ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی میں ٹریفک اور پانی کے اختیارات بھی میرے پاس نہیں۔ کوئی بھی میئر آجائے، وسائل اور اختیارات کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس کی ناراضگی کو مانتا ہوں۔

    میئر کراچی کا مزید کہنا تھا کہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے، اگر میں استعفیٰ دے دوں تو کیا مسائل حل ہوجائیں گے، میں مسائل کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ جس طرح کراچی کے مسائل حل ہونے چاہیئے تھے اس طرح نہیں ہوئے، اس طرح عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

  • امل عمر کیس: نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری کا حکم

    امل عمر کیس: نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری کا حکم

    اسلام آباد: کراچی میں پولیس فائرنگ سے جاں بحق بچی امل عمر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سندھ حکومت، کراچی پولیس اور ہیلتھ کیئر کمیشن پر سخت برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری اور امل عمر ایکٹ پر فوری عملدر آمد کا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں پولیس فائرنگ سے جاں بحق بچی امل عمر از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سندھ حکومت اور کراچی پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کراچی میں اسپتالوں کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات ہوئے؟ ایمرجنسی میں مریض کے لواحقین کو دوائی لینے بھجوا دیا جاتا ہے۔ دوائی کی لائن میں لگے لواحقین کے مریض اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کا کام ہے خود ادویات مریض کو فراہم کریں۔ کراچی پولیس کی فائرنگ سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے۔ کراچی پولیس نے فائر کہیں اور مارنا ہوتا ہے بندوق کہیں اور ہوتی ہے۔ اسلحہ صرف پولیس افسران کے پاس ہونا چاہیئے نہ کہ اہلکاروں کے پاس۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹریفک سگنل پر رکے لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں، پولیس کی ناک کے نیچے منشیات کا دھندا ہوتا ہے۔ امل کو قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں کا کیا بنا؟

    امل کے والدین کے وکیل نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر کی رجسٹریشن ہی امل ہلاکت کے بعد ہوئی۔

    جسٹس گلزار نے سربراہ ہیلتھ کیئر کمیشن سے سوال کیا آپ نے سندھ کے اسپتال خود دیکھے؟ کیوں نہ غفلت پر ہیلتھ کیئر کمیشن کے خلاف مقدمہ درج کروائی۔ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2013 میں بنا لیکن عمل 4 سال بعد شروع ہوا۔ 4 سال ایکٹ الماری میں پڑا رہا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سندھ میں نجی اسپتالوں کی رجسٹریشن جاری ہے، رجسٹریشن کے بعد لائسنس جاری کرنے کا مرحلہ آئے گا۔ سندھ میں اس وقت کوئی اسپتال لائسنس یافتہ نہیں۔ اسپتالوں کے حوالے سے امل عمر ایکٹ منظور کر لیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت نجی اسپتال علاج کرنے کے پابند ہوں گے۔

    جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کا سالانہ بجٹ کتنا ہے؟ جس پر سربراہ کمیشن نے بتایا کہ کمیشن کا سالانہ بجٹ 3 کروڑ روپے ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ اتنی رقم تو تنخواہوں اور دفاتر کے کرائے میں لگ جاتی ہوگی۔ محکمہ صحت کو وسائل فراہم کرنا ہوں گے۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ سندھ میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر پیسہ لگانا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے پوچھا کہ کیا امل کے والدین کو امدادی پیکج فراہم کیا گیا؟ جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ امل کے والدین نے کبھی امداد نہیں مانگی۔ امل کے والدین کو امداد کی سفارش انکوائری کمیٹی نے کی تھی۔

    عدالت نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ امل عمر کے واقعے سے متعلق اسپتال کے خلاف انکوائری کی جائے۔ انکوائری مکمل کر کے ایک ماہ میں رپورٹ جمع کروائی جائے۔

    سندھ حکومت سے امل کے والدین کو امدادی رقم نہ دینے پر بھی جواب طلب کرلیا گیا۔ عدالت نے سندھ حکومت کو امل عمر ایکٹ پر فوری عملدر آمد کا بھی حکم دیا۔ کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلہ ہوا تھا، مذکورہ مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پرموجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔

  • دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کے ملزم کو بری کر دیا گیا

    دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کے ملزم کو بری کر دیا گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پشاور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پشاور سے کیسز کی سماعت ہوئی۔ دہشتگردی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

    سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کے ملزم کو بری کر دیا۔ عدالت نے ملزم افضل ملک کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا۔

    ملزم افضل ملک کو سنہ 2013 میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، ملزم کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں بارودی مواد برآمد کیا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    سپریم کورٹ میں دوران سماعت وکلا نے ویڈیو لنک کے ذریعے پشاور رجسٹری سے دلائل دیے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے چھاپہ مار کر ملزم کی رہائش گاہ سے ساری چیزیں برآمد کیں، بارودی مواد کا تعلق ملزم کے ساتھ ثابت نہیں ہوسکا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس دیکھ رہی ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا دہشت گرد پکڑا لیکن ان کی نااہلی کی وجہ سے بری ہو رہا ہے۔ گولہ بارود برآمد ہونے کے باوجود سرکار کی نا اہلی سے وہ ملزم ثابت نہ ہو سکا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بارودی مواد برآمد کرنے کے بعد اسے فوری طور پر سیل نہیں کیا گیا، ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ برآمد بارودی مواد 19 دن بعد متعلقہ تھانے کے محرر کے حوالے کیا گیا۔

  • پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت 23 ستمبر تک ملتوی

    پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت 23 ستمبر تک ملتوی

    لاہور: پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں خواجہ برادران کے وکلا نے عدالتی دائرہ اختیار پر جزوی دلائل مکمل کرلیے، کیس کی مزید سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔ قومی ادارہ احتساب (نیب) نے سخت سیکیورٹی میں خواجہ برادران کو عدالت میں پیش کیا۔

    دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے تیاری کے لیے مہلت کی استدعا کی جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی سخت ہدایت کی۔ پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی مزید سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار ہیں، نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

    نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوائد حاصل کرتے رہے، خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

    نیب کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق خواجہ سلمان اور ندیم ضیا کے بیٹوں کے نام پر 2 ارب 96 کروڑ کی رقم جاری ہوئی، سعد رفیق کے اکاؤنٹس میں 8 سال کے دوران 46 کروڑ 60 لاکھ منتقل ہوئے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 500 سے زائد ٹرانزیکشنز 2010 سے 2018 کے درمیان ہوئیں، سعد رفیق کے ڈی ایچ اے بینک اکاؤنٹس میں 13 کروڑ 30 لاکھ منتقل ہوئے جبکہ دوسرے اکاؤنٹ میں 7 کروڑ 50 لاکھ منتقل ہوئے۔

    تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعد رفیق کے مزید 3 اکاؤنٹس میں 6 کروڑ 70 لاکھ روپے منتقل ہوئے، سعدان ایسوسی ایٹ کے بینک اکاؤنٹس میں 15 کروڑ منتقل ہوئے۔ ایسوسی ایٹ کے 2 اکاؤنٹس میں 2012 سے 2018 تک رقم منتقل ہوئی۔

  • رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت

    رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت

    لاہور: سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت جاری ہے، رانا ثنا اللہ 14 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر تھے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا، پراسیکیوٹر صلاح الدین مینگل طبیعت خرابی کے باعث پیش نہ ہوئے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ بتایا جائے کون سے پراسیکیوٹر درخواست ضمانت میں سرکار کی جانب سے پیش ہوں گے۔ عدالت نے اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے پراسیکیوٹر کو بحث کے لیے طلب کرلیا۔

    رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ پہلے بھی واٹس ایپ پر جج کو تبدیل کر دیا گیا، ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی واٹس ایپ آجائے۔ اگر مرضی کے جج لگائے جائیں گے تو پھر کیس میں انصاف کیسے ہوگا۔

    انسداد منشیات کے پراسیکیوٹر رانا کاشف نے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔ رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ جو فائنل رزلٹ ہیں کیس کے وہ بتائے جائیں۔

    رانا کاشف نے کہا کہ متعلقہ پراسیکیوٹر بیمار ہیں جس کی بنیاد پر وہ نہیں آسکے، انہوں نے تیاری کی ہوئی ہے۔ بحث وہی کریں گے 4 دن کی مہلت دے دیں۔

    عدالت نے انسداد منشیات کے پراسیکیوٹر کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو انسداد منشیات فورس نے اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے سے حراست میں لیا تھا، رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔

    اے این ایف ذرائع نے بتایا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی کے ذریعہ منشیات اسمگلنگ کی انٹیلی جنس اطلاع پر کارروائی کی گئی، گرفتاری کے وقت رانا ثنا کے ساتھ گاڑی میں ان کی اہلیہ اور قریبی عزیز بھی تھا۔

    اے این ایف ذرائع کے مطابق ایک گرفتار اسمگلر نے دوران تفتیش رانا ثنا اللہ کی جانب سے منشیات اسمگلنگ میں معاونت کا انکشاف کیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ رانا ثنا کے منشیات فروشوں سے تعلقات اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم کالعدم تنظیموں کو فراہم کرنے کے ثبوت ہیں، رانا ثنا اللہ کے منشیات فروشوں سے رابطوں سے متعلق 8 ماہ سے تفتیش کی جارہی تھی۔

    گرفتار افراد نے انکشاف کیا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے، فیصل آباد ایئرپورٹ بھی منشیات اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

  • ریحان قتل کیس: ملزمان مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    ریحان قتل کیس: ملزمان مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے بہادر آباد میں کم عمر لڑکے ریحان کو چوری کا الزام لگا کر، برہنہ کر کے قتل کرنے والے ملزمان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے مزید ریمانڈ پر ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے علاقے بہادر آباد میں مبینہ طور پر چوری کا الزام لگا کر قتل کیے جانے والے کم عمر ریحان کے قتل کیس کی سماعت سٹی کورٹ میں ہوئی۔

    سماعت کے لیے گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، مدعی مقدمہ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ گرفتار ملزمان نے معصوم بچے کو ظالمانہ طور پر قتل کیا، بچے کو گھر کے عقوبت خانے میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

    وکیل کے مطابق ریحان جمعے کو کام سے پیسے لے کر گھر جارہا تھا، بچے کو چوری کے جعلی الزام کے تحت پنجرےمیں بند کر کے قتل کیا گیا۔ وکیل نے استدعا کی کہ مقدمے میں دہشت گردی اور 30 اے سمیت دیگر دفعات شامل کی جائیں۔

    ملزمان کے وکیل صفائی نے کہا کہ بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا، ایف آئی آر میں گھر میں موجود افراد شاہ رخ اور یاسین کا نام ہی نہیں لیکن پولیس کو جو ہاتھ آرہا ہے اسے گرفتار کر رہی ہے۔

    ملزم دانیال نے عدالت میں بیان دیا کہ مقتول ریحان گھر میں گھسا تھا اور اس کے ساتھ 2 مزید افراد بھی تھے، ’ریحان سمیت 3 افراد میرے گھر میں چوری کی نیت گھسے تھے۔ اہل علاقہ اور ہم نے ریحان کو پکڑ لیا، 2 فرار ہوگئے‘۔

    ملزم کے بیان پر جج برہم ہوگئے اور دریافت کیا کہ آپ کو کس نےحق دیا قانون اپنے ہاتھ میں لیں؟ جس پر دانیال نے کہا کہ ہم نے ریحان کو تھوڑا سا مارا تھا۔ جج نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جان سے مار دیا اور کہتے ہیں تھوڑا سا مارا ہے۔ دوسرے ملزم زبیر نے کہا کہ ہم نے چور پکڑا اور تھوڑا مارنے کے بعد رینجرز کو اطلاع دی۔

    پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ واقعہ سائبر کرائم اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، مقدمے میں ملزمان کی نشاندہی پر آلہ قتل برآمد اور دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرنا ہے، پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

    عدالت نے ایک ملزم ایاز کی ضمانت منظور کرلی جبکہ مزید 5 ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، ملزمان میں دانیال یوسف، زبیر، انس، شارق اور مسعود شامل ہیں۔

    سماعت کے بعد ریحان کے لواحقین نے کمرہ عدالت کا گھیراؤ کرلیا، اہلخانہ نے فریاد کی کہ انصاف چاہیئے ملزموں کو ابھی پھانسی دو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر نکالو اور رینجرز کے حوالے کرو۔

    لواحقین کا کہنا تھا کہ پولیس سے انصاف کی توقع نہیں۔

    مقتول کے اہلخانہ کے حملے کے خوف سے ملزمان کو ججز کے زیر استعمال راستے سے باہر نکالا گیا، پولیس ملزموں کو دوڑاتے ہوئے گاڑی تک لے گئی جس کے بعد انہیں جیل لے جایا گیا۔

    خیال رہے کہ 17 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک دلدوز ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک 15 سالہ لڑکے کے ہاتھ باندھ کر اور برہنہ کر کے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

    پولیس کی کارروائی پر بہادر آباد میں ہونے والے واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ملزمان کا مؤقف تھا کہ ریحان اپنے ساتھیوں کے ساتھ چوری کی نیت سے ان کے گھر میں داخل ہوا تاہم موقع پر پکڑا گیا۔

    ملزمان کے بیان کے مطابق موقع پر موجود افراد نے مل کر لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا، تشدد کے باعث لڑکے کی حالت غیر ہوئی تو رینجرز کو طلب کیا گیا۔ رینجرز اہلکاروں نے لڑکے کو چھڑایا لیکن اسپتال منتقل کرنے سے قبل ہی ریحان نے دم توڑ دیا۔

    دوسری جانب لڑکے کے اہلخانہ کا مؤقف تھا کہ ریحان قصائی کا کام کرتا تھا۔ اس نے عید پر مذکورہ افراد کا جانور ذبح کیا تھا اور ان کے گھر اپنے پیسے لینے گیا تھا جب مذکورہ واقعہ پیش آیا۔

    لڑکے کی موت پر اہل خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیٹے پر بد ترین تشدد کیا گیا، اگر اس نے چوری کی بھی تھی تو پولیس کے حوالے کیا جاتا۔

    ورثا نے مطالبہ کیا تھا کہ ریحان کو سفاکی سے قتل کرنے کے بعد ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر ڈالی گئی، واقعے کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس نے بیان قلمبند کروا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت کے دوران شریک ملزمان نعیم محمود، منصور رضا رضوی اور سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس نے اپنا بیان قلمبند کروا دیا۔

    عدالت نے مزید سماعت 17 جولائی تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر نادر عباس پر وکیل صفائی جرح کریں گے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • کیا آپ مسلمان ہیں؟ بے زبانوں پر ظلم کر رہے ہیں: عدالت چڑیا گھر کی انتظامیہ پر برہم

    کیا آپ مسلمان ہیں؟ بے زبانوں پر ظلم کر رہے ہیں: عدالت چڑیا گھر کی انتظامیہ پر برہم

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر کی حالت زار سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے زبان جانوروں پر ظلم کیا جارہا ہے، زبان والوں سے زیادہ حق بے زبانوں کا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد چڑیا گھر میں جانوروں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری موسمیات سے رپورٹ طلب کرلی۔

    ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے دریافت کہ آوارہ کتوں کی روک تھام کے لیے کیا ذمہ داری ہے؟ میٹرو پولیشن کارپوریشن اسلام آباد کے افسر نے بتایا کہ ہم صرف شکایت پر آوارہ کتوں کو شوٹ کر کے مارتے ہیں، جن کتوں کے گلے میں چین ہو اس کو نہیں مارتے۔

    محکمہ وائلڈ لائف کے چیئرمین نے عدالت میں کہا کہ مگر مچھ کو اسلام آباد چڑیا گھر میں جان کا خطرہ ہے، مگر مچھ کو سکھر یا کسی اور چڑیا گھرمنتقل کرنا چاہتے ہیں۔

    اس حوالے سے عدالت نے چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سرزنش کی تو ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ مگر مچھ کو جان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جج نے کہا کہ حلفیہ بیان دیں مگر مچھ کو کچھ ہوا تو آپ ذمے دار ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟ بے زبان جانوروں پر ظلم کرتے ہیں۔

    ڈائریکٹر نے کہا کہ چڑیا گھر کو چلانے کے لیے فنڈ نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز نہیں ہیں تو جانوروں کو کسی اور چڑیا گھر میں منتقل کردیں۔ ’زبان والوں سے زیادہ حق بے زبانوں کا ہے‘۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ چڑیا گھر حکام یہ بتائیں جانوروں کی شرح اموات کیا ہے، میونسپل کارپوریشن کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ اسلام آباد چڑیا گھر میں جانوروں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔

    عدالت نے کہا کہ کسی ایک جانور کو نقصان ہوا تو ذمے داروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ وکیل نے کہا کہ پاکستان کے چڑیا گھر عالمی معیار کے مطابق نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھ بھال نہیں کر سکتے تو انہیں جانوروں کی پناہ گاہ منتقل کردیں۔ عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔

  • آئین شکنی کیس: مشرف کی مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور

    آئین شکنی کیس: مشرف کی مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور

    اسلام آباد: خصوصی عدالت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کے دوران مشرف کی مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست عدالت نے منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں آئین شکنی کیس کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ مشرف نے گزشتہ صبح پاکستان آنا تھا لیکن علالت کے باعث نہیں آسکے۔

    انہوں نے کہا کہ مشرف پاکستان نہ آسکے جس پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں، مشرف کی علالت کے باعث کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔

    سلمان صفدر نے کہا کہ مشرف کے خلاف مقدمہ 2007 کا ہے، وہ کیسز کے باوجود سنہ 2013 میں وطن واپس آئے۔ مارچ 2014 میں مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی۔

    عدالت کی جانب سے کیس خارج کیے جانے کی درخواست پر استغاثہ کو نوٹس جاری کردیا گیا۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ عدم حاضری پر دفاع کا حق ختم کیا جائے۔

    جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کو ہم نے پڑھ لیا ہے، بتائیں جو نئی درخواست آئی کیا ہم اس کو سن سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم خود مختار عدالت کے طور پر کام کر رہے ہیں یا نہیں، آپ کیا اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں؟

    وکیل استغاثہ نے کہا کہ استدعا کروں گا پرویز مشرف کی درخواست مسترد کی جائے، پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کیا جائے۔ سیکشن 9 کے مطابق بیماری کے باعث سماعت ملتوی نہیں کی جاسکتی۔

    عدالت نے کہا کہ کیا آپ اس درخواست میں بیان کی گئی بیماریوں کو چیلنج کرتے ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ ساتھ ہیں تو میں کیسے چیلنج کر سکتا ہوں۔

    پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ عدالت اس صورت میں کارروائی کرتی جب نئی درخواست نہ آتی، درخواست سے ظاہر ہے مشرف عدالت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں، بیماری کے باعث نہیں آسکے انہیں موقع فراہم کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ دانستہ غیر حاضری پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہو سکتا تھا، موجودہ درخواست کی روشنی میں سماعت ملتوی کی جائے۔

    خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت 12 جون تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل یکم اپریل کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے ٹرائل سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ 2 مئی کو مشرف نہ آئے تو دفاع کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔

    سرپیم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ٹرائل کورٹ ان کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل کر کے حتمی فیصلہ جاری کردے۔

    پرویز مشرف کے وکیل نے کہا تھا سابق صدر کی ہفتے میں 2 مرتبہ کیمو تھراپی ہوتی ہے، کیمو تھراپی کا عمل مکمل ہوا تو وہ عدالت میں ضرور حاضر ہوں گے۔