Tag: Hearing

  • ایف آئی اے کو خدمت خلق فاؤنڈیشن کے مراکز کی تلاشی کی اجازت

    ایف آئی اے کو خدمت خلق فاؤنڈیشن کے مراکز کی تلاشی کی اجازت

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کے نام پر منی لانڈرنگ کیس کی سماعت میں ایف آئی اے نے بتایا کہ کیس کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جا چکی ہے، عدالت نے ایف آئی اے کو کے کے ایف کے مراکز کی تلاشی کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کے نام پر منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست منظور کرلی جس میں کے کے ایف کے مراکز کی سرچنگ کی اجازت کی استدعا کی گئی تھی۔

    سابق سینیٹر ملزم احمد علی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کی ضمانت قبل از گرفتاری پر فیصلہ نہ ہوسکا، ان کے وکیل نے کہا کہ احمد علی کی طبیعت ناساز ہے، پیش نہیں ہوسکتے۔ عدالت سے استدعا ہے ضمانت پر فیصلہ مؤخر کیا جائے۔

    عدالت نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ ملزم کی موجودگی میں سنایا جائے گا، ملزم احمد علی کی ضمانت سے متعلق درخواست پر فیصلہ 29 اپریل تک مؤخر کردیا گیا۔

    سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے عدالت کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جا چکی ہے، سابق سینیٹر احمد علی تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے جس پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے نے جب بھی بلایا ہم پیش ہوئے۔

    ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں، معاملہ کروڑوں کی منی لانڈرنگ سے زیادہ کا معلوم ہوتا ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ سماعت میں عدالت میں سیکریٹری جوائنٹ انویسٹی گیشن کی جانب سے متحدہ بانی و دیگر کے خلاف پیشرفت رپورٹ جمع کروائی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحدہ بانی و دیگر کے خلاف مقدمے میں ٹھوس شواہد حاصل کر لیے گئے۔ دستاویزی شواہد کی تصدیق برطانیہ سے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے دستاویزات کی تصدیق کروائی جا رہی ہے، متحدہ بانی کے گھر سے اسلحے کی فہرست کا فرانزک کروانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے نام پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف کچھ عرصہ قبل ہوا تھا۔

    ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے 50 سے زائد رہنما غیر قانونی ٹرانزیکشنز میں ملوث تھے۔ ادارے کے نام پر اربوں روپے کی رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بھجوائی گئیں۔

    بعد ازاں ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے 726 افراد کی فہرست جاری کی تھی جن سے مجموعی طور پر ایک ارب روپے جمع کرنے ہیں۔

    جاری کی جانے والی فہرست میں میئر کراچی وسیم اختر کا نام بھی شامل تھا۔ وسیم اختر کے علاوہ دیگر افراد میں قمر منصور، اشفاق منگی اور تنویر الحق تھانوی سمیت اہم نام شامل تھے۔

    کے کے ایف پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ ضابطہ فوجداری کے تحت درج ہے۔

    3 جنوری کو ایف آئی اے نے فاؤنڈیشن کی ساڑھے 3 ارب روپے مالیت کی جائیدادیں بھی ضبط کرلیں تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق فاؤنڈیشن کی جائیدادیں بھتے کی رقوم سے بنائی گئیں۔

    کیس میں ایم کیو ایم بانی، طارق میر، ندیم نصرت، سہیل منصور، ریحان منصور اور بابر غوری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاچکے ہیں تاہم تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

  • میشاء شفیع عدالتی کارروائی میں مزید تاخیر کرنا چاہتی ہیں، گلوکارعلی ظفر

    میشاء شفیع عدالتی کارروائی میں مزید تاخیر کرنا چاہتی ہیں، گلوکارعلی ظفر

    کراچی : عدالت نے میشاء شفیع کے خلاف کیس کی سماعت27اپریل تک ملتوی کر دی، معروف پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر کے وکیل نے کہا ہے کہ میشاء شفیع کے وکلاء کیس کو جان بوجھ کر التواء کا شکار کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے سیشن کورٹ میں معروف پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر کی جانب سے گلوکارہ میشاء شفیع کے خلاف ہتک عزت کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر میشاء شفیع کے وکلاء کی جانب سے گواہان پر جرح کے لیے مہلت کی استدعا کی گئی، عدالت نے میشاء شفیع کے وکلاء کی استدعا پر سماعت27 اپریل تک ملتوی کر دی۔

    اس موقع پر علی ظفر کے وکیل رانا انتظار کا کہنا تھا کہ میشاء شفیع کے وکلاء کیس کو جان بوجھ کر التواء کا شکار کر رہے ہیں، میشاء شفیع عدالتی کارروائی میں مزید تاخیر کرنا چاہتی ہیں۔

    واضح رہے کہ فلم اسٹار علی ظفر نے میشاء شفیع کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے، علی ظفر کا کہنا ہے کہ میشا شفیع نے مجھ کو ہراساں کرنے اور جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات عائد کیے تھے۔

    مزید پڑھیں: علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا

    میشا شفیع کے جھوٹے الزامات سے پوری دنیا میں میری شہرت بری طرح متاثر ہوئی، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت میشا شفیع کو سو کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 24 اپریل تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 24 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹنٹ گواہ کرامت علی پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں تینوں نامزد شریک ملزمان سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ دوران سماعت ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹنٹ گواہ کرامت علی پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    گواہ کرامت علی پر جرح مکمل ہونے کے بعد ریفرنس پر مزید سماعت 24 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ آئندہ سماعت پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا بیان قلمبند کروائیں گے۔

    اس سے قبل سماعت میں استغاثہ کے 2 گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان مکمل کرلیا گیا تھا جبکہ سعید احمد کے وکیل نے گواہ سدرہ منصور پر جرح مکمل کی۔

    استغاثہ کے گواہوں نے سابق وزیر خزانہ کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیز کا ریکارڈ پیش کیا تھا۔

    سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے گواہ سدرہ منصور پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ گواہ نے سعید احمد کو اسحٰق ڈار کی سی این جی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ظاہر کیا حالانکہ گواہ نے پیش کیے گئے نام کی تصدیق ہی نہیں کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعید احمد اور سعید احمد شفیع 2 مختلف افراد ہیں۔ گواہ کا پیش کیا گیا نام غلط ہے جو کہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ سلمان سعید نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایس ای سی پی میں بھیجے گئے ریکارڈز کی اس وقت چھان بین ہی نہیں کی جاتی تھی ، یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈنگ درست ہے کہ نہیں۔

    وکیل صفائی حشمت حبیب نے کہا تھا کہ حیرت ہے ایس ای سی پی میں کمپنیز کا ریکارڈ بغیر کسی تصدیق کے رکھا جاتا رہا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹنٹ گواہ کرامت علی کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں تینوں نامزد شریک ملزمان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ دوران سماعت ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹنٹ گواہ کرامت علی کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ سماعت پر گواہ عدیل اختر کا بیان مکمل ہوا تھا۔

    گواہ کرامت علی کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد ریفرنس پر مزید سماعت 10 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل سماعت میں استغاثہ کے 2 گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان مکمل کرلیا گیا تھا جبکہ سعید احمد کے وکیل نے گواہ سدرہ منصور پر جرح مکمل کی۔

    استغاثہ کے گواہوں نے سابق وزیر خزانہ کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیز کا ریکارڈ پیش کیا تھا۔

    سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے گواہ سدرہ منصور پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ گواہ نے سعید احمد کو اسحٰق ڈار کی سی این جی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ظاہر کیا حالانکہ گواہ نے پیش کیے گئے نام کی تصدیق ہی نہیں کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعید احمد اور سعید احمد شفیع 2 مختلف افراد ہیں۔ گواہ کا پیش کیا گیا نام غلط ہے جو کہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ سلمان سعید نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایس ای سی پی میں بھیجے گئے ریکارڈز کی اس وقت چھان بین ہی نہیں کی جاتی تھی ، یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈنگ درست ہے کہ نہیں۔

    وکیل صفائی حشمت حبیب نے کہا تھا کہ حیرت ہے ایس ای سی پی میں کمپنیز کا ریکارڈ بغیر کسی تصدیق کے رکھا جاتا رہا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرق کی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ عدیل کا بیان مکمل ہوگیا تاہم گواہ پر جرح نہ ہوسکی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں استغاثہ کے گواہ عدیل کا بیان مکمل ہوگیا تاہم گواہ پر جرح نہ ہوسکی۔ آئندہ سماعت پر مزید 2 گواہان کو بیانات قلمبند کروانے کے لیے طلب کرلیا گیا۔ کیس کی سماعت 3 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل سماعت میں استغاثہ کے 2 گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان مکمل کرلیا گیا تھا جبکہ سعید احمد کے وکیل نے گواہ سدرہ منصور پر جرح مکمل کی۔

    استغاثہ کے گواہوں نے سابق وزیر خزانہ کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیز کا ریکارڈ پیش کیا تھا۔

    سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے گواہ سدرہ منصور پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ گواہ نے سعید احمد کو اسحٰق ڈار کی سی این جی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ظاہر کیا حالانکہ گواہ نے پیش کیے گئے نام کی تصدیق ہی نہیں کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعید احمد اور سعید احمد شفیع 2 مختلف افراد ہیں۔ گواہ کا پیش کیا گیا نام غلط ہے جو کہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ سلمان سعید نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایس ای سی پی میں بھیجے گئے ریکارڈز کی اس وقت چھان بین ہی نہیں کی جاتی تھی ، یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈنگ درست ہے کہ نہیں۔

    وکیل صفائی حشمت حبیب نے کہا تھا کہ حیرت ہے ایس ای سی پی میں کمپنیز کا ریکارڈ بغیر کسی تصدیق کے رکھا جاتا رہا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ محمد آفتاب پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں شریک ملزمان نعیم محمود اور منصور رضا عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل صفائی حشمت حبیب نے استغاثہ کے گواہ محمد آفتاب پر جرح مکمل کرلی۔

    عدالت میں آج شریک ملزم سعید احمد کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔ احتساب عدالت میں ریفرنس کی مزید سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ سماعت میں استغاثہ کے 2 گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان مکمل کرلیا گیا تھا جبکہ سعید احمد کے وکیل نے گواہ سدرہ منصور پر جرح مکمل کی۔

    استغاثہ کے گواہوں نے سابق وزیر خزانہ کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیز کا ریکارڈ پیش کیا تھا۔

    سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے گواہ سدرہ منصور پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ گواہ نے سعید احمد کو اسحٰق ڈار کی سی این جی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ظاہر کیا حالانکہ گواہ نے پیش کیے گئے نام کی تصدیق ہی نہیں کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعید احمد اور سعید احمد شفیع 2 مختلف افراد ہیں۔ گواہ کا پیش کیا گیا نام غلط ہے جو کہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ سلمان سعید نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایس ای سی پی میں بھیجے گئے ریکارڈز کی اس وقت چھان بین ہی نہیں کی جاتی تھی ، یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈنگ درست ہے کہ نہیں۔

    وکیل صفائی حشمت حبیب نے کہا تھا کہ حیرت ہے ایس ای سی پی میں کمپنیز کا ریکارڈ بغیر کسی تصدیق کے رکھا جاتا رہا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان اور ان پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    کیس میں نامزد تینوں شریک ملزمان سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ استغاثہ کے 2 گواہوں سلمان سعید اور سدرہ منصور کا بیان مکمل کرلیا گیا جبکہ سعید احمد کے وکیل نے گواہ سدرہ منصور پر جرح مکمل کرلی۔

    استغاثہ کے گواہوں نے سابق وزیر خزانہ کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیز کا ریکارڈ پیش کیا۔

    سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے گواہ سدرہ منصور پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ گواہ نے سعید احمد کو اسحٰق ڈار کی سی این جی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ظاہر کیا حالانکہ گواہ نے پیش کیے گئے نام کی تصدیق ہی نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ سعید احمد اور سعید احمد شفیع 2 مختلف افراد ہیں۔ گواہ کا پیش کیا گیا نام غلط ہے جو کہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ سلمان سعید نے عدالت کو بتایا کہ ایس ای سی پی میں بھیجے گئے ریکارڈز کی اس وقت چھان بین ہی نہیں کی جاتی تھی ، یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈائریکٹرز اور شئیر ہولڈنگ درست ہے کہ نہیں۔

    وکیل صفائی حشمت حبیب نے کہا کہ حیرت ہے ایس ای سی پی میں کمپنیز کا ریکارڈ بغیر کسی تصدیق کے رکھا جاتا رہا۔

    استغاثہ کے 2 گواہوں کے بیان اور ان پر جرح مکمل ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت 13 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

    عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید 3 گواہوں کو طلب کر لیا جن میں قومی ادارہ احتساب (نیب) کے زاور منظور اور عدیل اختر اور نجی بینک کے محمد آفتاب شامل ہیں۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں شریک ملزمان سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی پیش ہوئے۔

    دوران سماعت وکیل صفائی اور استغاثہ کے وکیل میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہ کو ایک ایک چیز یاد تو نہیں رہتی۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ جو جو چیزیں لکھی ہیں وہ میں پوچھ سکتا ہوں، جس نے ریکارڈ بنایا اس سے نہیں پڑھا جاتا۔

    آج کی سماعت میں گواہ ظفر اقبال کا بیان قلمبند کر لیا گیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر سلمان سعید اور سدرہ منصور کو طلب کرتے ہوئے سماعت 27 فروری تک ملتوی کر دی۔

    گزشتہ سماعت پر شریک ملزم سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے اپنے دلائل پیش کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذاتی پسند کی بنیاد پر سعید احمد کو صدر نیشنل بینک بنانے کی بات غلط ہے، سعید احمد کی تعیناتی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوئی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعید احمد کو ریفرنس کی بنا پر عہدے سے ہٹایا گیا، سعید احمد کو جس طرح سے ہٹایا گیا وہ تضحیک آمیز تھا۔

    وکیل حشمت حبیب کا کہنا تھا کہ کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا بنایا گیا، جو ٹرانزکشن آج سے 20 سال پہلے ہوئیں وہ کون سا اثاثہ ہیں۔ سعید احمد اسحٰق ڈار کے بے نامی دار یا زیر کفالت نہ ہیں نہ رہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف انکوائری 2007 میں بند ہوگئی تھی، سعید احمد کے اکاؤنٹس اس سے پہلے کے ہیں۔ ’نجانے ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی‘۔

    احتساب عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر شریک ملزم سعید احمد کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔

    اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • کلبھوشن کیس: پاکستانی وکلا کے مضبوط دلائل، رہائی کی بھارتی درخواست مسترد کرنے کی استدعا

    کلبھوشن کیس: پاکستانی وکلا کے مضبوط دلائل، رہائی کی بھارتی درخواست مسترد کرنے کی استدعا

    دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت کے دوران پاکستانی وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی وکلا نے عدالت کو بتایا کہ بھارت نے تا حال کلبھوشن کی شہریت سے متعلق شواہد نہیں دیے، انھوں نے دلیل دی کہ ویانا کنونشن کے مطابق کسی جاسوس کو قونصلر رسائی کا حق نہیں۔

    پاکستانی وکیل خاور قریشی نے قونصلر رسائی پر دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ویانا کنونشن کے مطابق سیکورٹی خطرے والے غیر ملکی کو قونصلر رسائی نہیں دی جا سکتی، وکیل نے عدالت میں عالمی قانونی ماہرین کے ویانا کنونشن سے متعلق اقتباسات بھی پیش کیے اور دنیا بھر میں جاسوسی کے ملزمان کو قونصلر رسائی نہ دینے کی متعدد مثالیں دیں۔

    خاور قریشی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان میں جاسوس بھیج کر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی، بھارت کی طرح بے بنیاد باتیں نہیں مصدقہ اور مستند اداروں کے حوالے دیے ہیں، اس سلسلے میں امریکا، روس، چین کے حوالے موجود ہیں، بھارت قونصلر رسائی سے متعلق دو طرفہ معاہدے سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”پاکستانی وکیل نے بھارت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہی جاسوس کا کیس عالمی عدالت میں لایا، کوئی بھی ملک بے عزتی کے ڈر سے پچاس برسوں میں ایسا نہیں کر سکا، بھارت اجرتی قاتل کے لیے انصاف چاہتا ہے اور اس کے لیے رہائی کے مطالبے کی عالمی عدالت میں مثال نہیں ملتی۔” style=”style-8″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    خاور قریشی نے کہا کمانڈر کلبھوشن کا اعترافی بیان اور 2 ناموں سے پاسپورٹ اس کے جاسوس ہونے کا واضح ثبوت ہے، بھارت پاسپورٹ کے سلسلے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکا، پاسپورٹ سے متعلق برطانوی ماہر کی رپورٹ کو جھٹلانا بھارت کا مضحکہ خیز اقدام ہے، برطانوی ماہر کی ایک ساکھ ہے۔

    ماہر پاکستانی وکیل نے دلائل کے دوران کلبھوشن کی بریت، رہائی اور واپسی کا مطالبہ مضحکہ خیز قرار دیا، اور کہا بھارت کی طرف سے اپیل کا حق نہ دینے کا الزام بے بنیاد ہے، پاکستان میں کلبھوشن کے پاس اپیل اور نظرِ ثانی کا حق موجود ہے، پاکستانی فوجی عدالتوں میں عالمی قوانین کے مطابق مقدمات چلائے جاتے ہیں، اس کی مثال فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر پشاور ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے، ہائی کورٹ نے فوجی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 70 افراد کو رہا کیا۔

    خاور قریشی نے مضبوط دلائل کی رو سے عالمی عدالت سے استدعا کی کہ بھارتی درخواست نا قابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کی جائے، عالمی عدالت کلبھوشن کی رہائی جیسے مطالبات ماضی میں بھی مسترد کر چکی ہے، بریت اور رہائی عالمی عدالت کے سابقہ فیصلوں کی نفی ہوگا۔

    [bs-quote quote=”پاکستانی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمانڈر کلبھوشن کا اعترافی بیان سیدھا سادہ سچ ہے، اس کا ٹرائل 4 مراحل میں ہوا، کلبھوشن کی درخواست پر ٹرائل 3 ہفتے کے لیے ملتوی بھی ہوا، بھارت پاکستان کے سنجیدہ سوالات کے جواب دینے میں ناکام رہا۔” style=”style-8″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    قبل ازیں عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے عدالت نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

    اٹارنی جنرل انور منصور خان ایڈہاک جج تبدیل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ریاست کو ایڈ ہاک جج تعینات کرنے کا اختیار ہے، بتایا گیا ہے کہ تصدق جیلانی بیمار ہیں۔ ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔ پاکستان اپنا کیس پیش کرنے کے لیے مکمل پر عزم اور تیار ہے۔

    عالمی عدالت کے صدر یوسف القبی نے سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی جس کے بعد پاکستانی وکلا نے کیس پر اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

    اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ اس مسئلے کو گمراہ کیا گیا، پاکستان پرامن ملک ہے۔ ہمسائے بھارت نے امن سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ بھارت اپنے ہمسائے ممالک کا امن تباہ کرنے کے لیے جاسوس بھیجتا ہے۔ را پاکستان میں بلوچستان میں امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے داخل ہوئی۔ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں امن کو تباہ کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بھارت دہشت گردی میں ملوث ہے، ثبوت ہیں بھارت دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے، اے پی ایس میں معصوم بچوں کی شہادت بھارت نواز گروپوں کا شاخسانہ تھی۔

    انور منصور کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ پڑوسیوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی، بھارت نے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروائی اور جاسوس بھیجے۔ پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کے باوجود جنگ لڑ رہا ہے، بھارت کی مداخلت اور دہشت گردی سے ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے۔

    [bs-quote quote=”انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کر رہا تھا، کلبھوشن بلوچستان، گوادر اور کراچی میں دہشت گردی کروانے کے لیے بھیجا گیا۔ کلبھوشن نے پاکستان میں دہشت گردی کا مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کیا، پاکستان کے خلاف بھارت کی منصوبہ بندی ڈھکی چھپی نہیں۔” style=”style-8″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کے متعدد حملے کیے گئے، خود کش حملہ آوروں نے پاکستان میں سینکڑوں افراد کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کو اب تک 130 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان نے کلبھوشن سے گھر والوں کی ملاقات بھی کروائی، بھارت کوئی بھی ایک مثال بتائے اس نے کبھی کسی کے لیے ایسا کچھ کیا ہو۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کے لیے آپریشنز کر رہا ہے، کلبھوشن کے اعترافی بیان کے بعد سپلیمنٹری ایف آئی آر درج کی گئی۔ کلبھوشن کی کارروائیاں انفرادی نہیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی ہے۔ مودی نے کہا وہ پانی کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا۔

    پاکستانی وکیل خاور قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا، بھارت نے ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بھارت مستقل ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کلبھوشن دہشت گردی کے لیے ایران کے راستے داخل ہوتے پکڑا گیا، کلبھوشن اور خاندان کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا۔

    خاور قریشی کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت نے ہمیشہ پروپیگنڈا کیا، بھارت یہ بتانے میں ناکام رہا کلبھوشن پاسپورٹ پر کیسے سفر کرتا رہا۔ ویانا کنونشن کا اطلاق کسی بھی جاسوس کے معاملے پر نہیں ہوتا۔ افسوس ہے گزشتہ روز بھارت نے آئی سی جے کا وقت ضائع کیا۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بھارت بنیادی سوالات کے جواب بھی نہ دے سکا، بھارتی مؤقف نے سوائے عدالت کے وقت ضائع کے اور کچھ نہیں کیا۔ 2014 میں پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا گیا، بھارت ہمٹی ڈمٹی کی طرح اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ بھارت کو سمجھنا چاہیئے عالمی قوانین اس کی خواہش پر نہیں چل سکتے۔

    خاور قریشی نے کہا کہ بھارت بتائے کمانڈر کلبھوشن کب ریٹائر ہوا، کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ بھارت بتائے کمانڈر کلبھوشن کا جھوٹے نام کا پاسپورٹ کیوں بنایا گیا؟ بھارت بتائے کلبھوشن ایران سے کیا کسی گاڑی کی ڈگی میں اغوا ہوا؟ کمانڈر کلبھوشن کے ایران سے اغوا پر بھارت نے کبھی ایران سے رابطہ کیا؟ کمانڈر کلبھوشن کے سفری دستاویزات بھارت دنیا سے کیوں چھپا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کلبھوشن نے حسین مبارک کے نام پر کئی ممالک کا سفر کیا، بھارت عالمی عدالت میں جواب دے کس نیت سے مسلمان نام پر پاسپورٹ جاری کیا۔ بھارت آج تک کلبھوشن کی گرفتاری سے متعلق دھول جھونکتا رہا ہے۔ بھارت کو کمانڈر کلبھوشن سے متعلق تمام مواقع فراہم کیے گئے۔

    پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کا طبی معائنہ کرنے والے جرمن ڈاکٹر کی رپورٹ بھی پیش کردی گئی۔ خاور قریشی کا کہنا تھا کہ جرمن ماہر ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق کلبھوشن یادیو کی صحت ٹھیک ہے۔ والدہ اور اہلیہ کلبھوشن کو صحت مند بتاتی ہیں۔ ’3 دن بعد بھارت کلبھوشن کو پریشان اور کمزور دکھنے کا کہتا ہے، کلبھوشن کی صحت پر ماں اور اہلیہ کا اعتبار کریں یا بھارت کا‘؟

    دریں اثنا بھارتی جاسوس کی صحت سے متعلق پاکستانی وکیل نے دستاویزات، خطوط، میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کیے، سماعت کے دوران پاکستان کے ماہر وکیل خاور قریشی کو دو مرتبہ جج یوسف القبی نے آہستہ بولنے کی ہدایت کی، جس پر انھوں نے کہا کہ میں مترجم سے معذرت خواہ ہوں، بعد میں انھیں چاکلیٹس کا تحفہ پیش کروں گا۔

    [bs-quote quote=”قبل ازیں عالمی عدالت کے جج نے اب تک دیے گئے دلائل کے جواب میں دلائل دینے کی ہدایت کی تھی۔ عالمی عدالت میں بھارت کل دوسرے راؤنڈ میں جواب دے گا، پاکستان عالمی عدالت میں پرسوں شام 8 بجے دوبارہ جواب دے گا۔” style=”style-8″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    خیال رہے کہ بھارتی نیوی کا کمانڈر کلبھوشن پاکستان میں تباہی پھیلانے کے مذموم ارادے کے ساتھ ایرانی سرحد سے داخل ہوا لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 3 مارچ 2016 کو کلبھوشن کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔

    کچھ روز بعد جاری کیے گئے ویڈیو بیان میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ وہ انڈین بحریہ کا حاضر سروس افسر اور جاسوس ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہے۔

    24 مارچ کو پاک فوج نے بتایا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا افسر اور بھارتی انٹیلی جنس ادارے را کا ایجنٹ ہے، جو ایران کے راستے دہشت گردی کے لیے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔

    اپریل 2017 میں فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

    اس دوران بھارت پہلے کلبھوشن کے بھارتی شہری ہونے سے صاف انکار کرتا رہا، بعد میں کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کیا اور کہا کہ بلوچستان سے پکڑا جانے والا جاسوس کلبھوشن یادیو بھارتی نیوی کا افسر تھا اور اس نے بحریہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

    8 مئی کو بھارت معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ دس مئی 2017 کو بھارت نے سزا پر عملدر آمد رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کی جس میں قونصلر رسائی نہ دینے پر پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور کہا کہ کنونشن کے مطابق جاسوسی کےالزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

    پاکستان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر خاور قریشی نے کہا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار محدود ہے اور کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔

    بھارتی وکیل نے عدالت میں کہا کہ كلبھوشن کو پاکستان نے ایران میں اغوا کر لیا تھا، جہاں وہ بھارتی بحریہ سے ریٹائر ہونے کے بعد تجارت کر رہا تھا۔

    عالمی عدالت نے مختصر سماعت کے بعد 18 مئی 2017 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا جس میں جج رونی ابرہام نے کہا کہ فیصلہ آنے تک پاکستان کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دے، بھارت عدالت کو کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں کر پایا۔

    بعد ازاں پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے کیس میں اپنا جواب 13 دسمبر 2017 کو جمع کروایا تھا، 17 جولائی 2018 کو عالمی عدالت میں دوسرا جواب جمع کروایا گیا۔ پاکستانی جواب میں بھارت کے تمام اعتراضات کے جوابات دیے گئے تھے، پاکستان کا جواب 400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

    اس دوران پاکستانی حکام نے انسانی ہمدردی کے تحت دسمبر 2017 میں کلبھوشن یادیو کی اہلخانہ سے ملاقات بھی کروائی تھی جس کے لیے ان کی والدہ اور اہلیہ پاکستان آئے تھے۔

  • عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی سماعت شروع

    عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی سماعت شروع

    دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا، پہلے دن بھارتی وکلا دلائل پیش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت شروع ہوگئی، عالمی عدالت انصاف کا 15 رکنی بینچ سماعت کرے گا، بینچ میں ایک بھارتی جج دلویر بھی ہے۔

    پہلے دن بھارتی اپنے وکلا دلائل پیش کریں گے جبکہ منگل 19 فروری کو پاکستان جوابی دلائل دے گا۔ 20 اور 21 فروری کو عدالت کیس سے متعلق غور و خوض کرے گی، سماعت 4 دن جاری رہے گی۔

    پاکستان کے 6 سوالات پر بھارت ابھی تک جواب نہیں دے سکا اور اپنا دعویٰ ابھی تک عالمی عدالت انصاف میں ثابت نہیں کر سکا۔

    پاکستان کی جانب سے پوچھا گیا کہ دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن کب نیوی سے سبکدوش ہوا، کلبھوشن کو بھارتی اصلی پاسپورٹ مسلمان کے نام سے کیوں بنا کر دیا گیا، دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن پاسپورٹ پر 17 مرتبہ بھارت گیا۔

    پاکستان کی جانب سے کیے گئے سوالات کے مطابق بھارت نے عدالت میں درخواست کمانڈر کلبھوشن کے خلاف مقدمہ ہونے کے 14 ماہ بعد کیوں کی؟ تمام سوالات کی وضاحت بھارت اپنے ہی سینئر صحافیوں کو بھی نہیں دے سکا۔

    کلبھوشن کا پاسپورٹ اصلی قرار

    دوسری جانب برطانوی ادارے نے کلبھوشن کا پاسپورٹ اصلی قرار دے دیا ہے اور کہا کہ کلبھوشن کی جعلی شناخت کے لیے بھارت نے اصل پاسپورٹ جاری کیا، بھارت نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ جاری کیا۔

    برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کلبھوشن نے جعلی شناخت اپنا کر حسین مبارک کے نام سے سفر کیا، حسین مبارک پٹیل کا پاسپورٹ اصلی اور شناخت جعلی ہے۔

    سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے برطانوی ادارے کی رپورٹ عالمی عدالت میں پیش کردی ہے۔

    خیال رہے کہ بھارتی نیوی کا کمانڈر کلبھوشن پاکستان میں تباہی پھیلانے کے مذموم ارادے کے ساتھ ایرانی سرحد سے داخل ہوا لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 3 مارچ 2016 کو کلبھوشن کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔

    کچھ روز بعد جاری کیے گئے ویڈیو بیان میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ وہ انڈین بحریہ کا حاضر سروس افسر اور جاسوس ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہے۔

    24 مارچ کو پاک فوج نے بتایا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا افسر اور بھارتی انٹیلی جنس ادارے را کا ایجنٹ ہے، جو ایران کے راستے دہشت گردی کے لیے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔

    اپریل 2017 میں فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

    اس دوران بھارت پہلے کلبھوشن کے بھارتی شہری ہونے سے صاف انکار کرتا رہا، بعد میں کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کیا اور کہا کہ بلوچستان سے پکڑا جانے والا جاسوس کلبھوشن یادیو بھارتی نیوی کا افسر تھا اور اس نے بحریہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

    8 مئی کو بھارت معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ دس مئی 2017 کو بھارت نے سزا پر عملدر آمد رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کی جس میں قونصلر رسائی نہ دینے پر پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور کہا کہ کنونشن کے مطابق جاسوسی کےالزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

    پاکستان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر خاور قریشی نے کہا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار محدود ہے اور کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔

    بھارتی وکیل نے عدالت میں کہا کہ كلبھوشن کو پاکستان نے ایران میں اغوا کر لیا تھا، جہاں وہ بھارتی بحریہ سے ریٹائر ہونے کے بعد تجارت کر رہا تھا۔

    عالمی عدالت نے مختصر سماعت کے بعد 18 مئی 2017 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا جس میں جج رونی ابرہام نے کہا کہ فیصلہ آنے تک پاکستان کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دے، بھارت عدالت کو کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں کر پایا۔

    بعد ازاں پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے کیس میں اپنا جواب 13 دسمبر 2017 کو جمع کروایا تھا، 17 جولائی 2018 کو عالمی عدالت میں دوسرا جواب جمع کروایا گیا۔ پاکستانی جواب میں بھارت کے تمام اعتراضات کے جوابات دیے گئے تھے، پاکستان کا جواب 400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

    اس دوران پاکستانی حکام نے انسانی ہمدردی کے تحت دسمبر 2017 میں کلبھوشن یادیو کی اہلخانہ سے ملاقات بھی کروائی تھی جس کے لیے ان کی والدہ اور اہلیہ پاکستان آئے تھے۔