Tag: Hearing

  • سانحہ ساہیوال کیس کی اہم سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی

    سانحہ ساہیوال کیس کی اہم سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی

    لاہور : سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی، جے آئی ٹی کے سربراہعدالت میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کی اہمسماعت آج لاہور ہائیکورٹ میں ہوگی، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم خان کی سربراہی میں دورکنی بنچ سانحہ ساہیوال کیس کی سماعت کرے گا۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت میں اپنی تفصیلیرپورٹ پیش کریں گے، عدالت نے گزشتہ سماعت میں جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ کو رپورٹ سمیت پیشہونے کا حکم دیا تھا۔

    گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے مقتولین کے ورثاء کو سیشن جج سے معاملے کی جوڈیشلانکوائری کروانے کی بھی پیشکش کی تھی جس پرجواب کے لیے وکلاء نے مہلت کی استدعا کی تھی۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    مقتول خلیلکے بھائی جلیل اور ذیشان کے بھائی احتشام نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینےکے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

  • سپریم کورٹ : میمو گیٹ، معذور افراد کوٹہ اور بنی گالہ تجاوزات کیسز کی سماعت کل ہوگی

    سپریم کورٹ : میمو گیٹ، معذور افراد کوٹہ اور بنی گالہ تجاوزات کیسز کی سماعت کل ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں کل میمو گیٹ اسکینڈل، معذور افراد کوٹہ اور بنی گالہ تجاوزات کے مقدمات کی سماعت ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کل میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت ہوگی، کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کرے گا۔

    اس کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز ریفرنسز کو جلدی نمٹانے کے کیس کی بھی سماعت ہوگی، جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا۔

    ذرائع کے مطابق جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کیس اور معذور افراد کوٹہ کیس کی سماعت ہوگی، جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ ان کیسز کی سماعت کرے گا۔

    اس کے علاوہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کرے گا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں میمو گیٹ کیس کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔

    تین رکنی بینچ میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردئیے گئے تھے۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران شریک ملزم سعید احمد کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    شریک ملزم سعید احمد کے وکیل حشمت حبیب نے اپنے دلائل پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذاتی پسند کی بنیاد پر سعید احمد کو صدر نیشنل بینک بنانے کی بات غلط ہے، سعید احمد کی تعیناتی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ سعید احمد کو ریفرنس کی بنا پر عہدے سے ہٹایا گیا، سعید احمد کو جس طرح سے ہٹایا گیا وہ تضحیک آمیز تھا۔

    وکیل حشمت حبیب کا کہنا تھا کہ کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا بنایا گیا، جو ٹرانزکشن آج سے 20 سال پہلے ہوئیں وہ کون سا اثاثہ ہیں۔ سعید احمد اسحٰق ڈار کے بے نامی دار یا زیر کفالت نہ ہیں نہ رہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف انکوائری 2007 میں بند ہوگئی تھی، سعید احمد کے اکاؤنٹس اس سے پہلے کے ہیں۔ ’نجانے ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی‘۔

    قومی ادارہ احتساب (نیب) کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے گواہ ابھی مکمل نہیں ہوئے، بریت کی درخواست کیسے سنی جا سکتی ہے؟ پہلے گواہوں کے بیانات مکمل ہونے دیں پھر بریت کی درخواست سن لیں۔

    احتساب عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر شریک ملزم سعید احمد کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔

    اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

  • میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل: ایف آئی اے ملزمان کو ضمانت دینے کی مخالف

    میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل: ایف آئی اے ملزمان کو ضمانت دینے کی مخالف

    کراچی: میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے انور مجید اور عبدالغنی مجید کو ضمانت دینے کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی بیکنگ کورٹ میں میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران کیس کے ملزم انور مجید اور عبدالغنی مجید کی درخواست ضمانت زیر غور آئی۔

    وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر نے ملزمان کو ضمانت دینے کی مخالفت کردی۔ ایف آئی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیس اسلام آباد منتقل ہونے پر غور ہو رہا ہے، ضمانت نہ دی جائے۔

    وکیل کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیس نیب میں چلایا جانا ہے، کیس ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل ہو رہا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی کی بنیاد پر ہی یہ کیس ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالت کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں۔

    جج نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے ضمانت کیوں نہیں سنی جا سکتی جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے، نیب ضابطے کی کارروائی مکمل کر رہا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بینکنگ کورٹ سے متعلق حکم جاری نہیں کیا، سپریم کورٹ کے فیصلے میں ذکر نہ کرنے پر عدالت کیا کر سکتی ہے؟

    وکلائے صفائی نے کہا کہ کیس کا سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ عدالت نے کہا کہ ضمانت سننے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیتے ہیں۔

    سماعت کے دوران نیب کے تفتیشی افسر نے عبدالغنی مجید کی حراست سے متعلق درخواست دے دی۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ مجید سے تفتیش مطلوب ہے، حراست کی اجازت دی جائے۔ منی لانڈرنگ اسکینڈل کے سلسلے میں تفتیش چاہتے ہیں۔

    عدالت نے عبدالغنی مجید سے تفتیش سے متعلق درخواست پر ملزم کے وکلا کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے ملزمان کے وکلا کو کل دلائل دینے کا حکم دیا تاہم ملزمان کے وکلا نے عبدالغنی مجید سے تفتیش کی سخت مخالفت کی۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ عبدالغنی مجید سے نہر خیام اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر تفتیش مطلوب ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ان کے وارنٹ موجود ہیں جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ جی بالکل، نیب نے عبدالغنی مجید کے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ ماضی میں کوئی مثال موجود ہے ملزم کی اس طرح کسٹڈی دی گئی ہو؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ مشرف ایمرجنسی میں سپریم کورٹ نے ملزم کو پہلے نوٹس جاری کیا۔

    ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کسٹڈی نیب کو دینے پر دلائل دینا چاہے تاہم عدالت نے روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں، نیب پراسیکیوٹر خود دلائل دے سکتے ہیں۔

    انور مجید اور عبدالغنی مجید کی درخواست ضمانت پر مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

  • میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع

    میگا منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی بینکنگ کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے میگا منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزمان پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی بینکنگ کورٹ میں میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کیس کی سماعت شروع ہوئی جس کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔

    جیل حکام کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید کو آج پیش نہیں کیا جائے گا، جیل حکام کی جانب سے ملزم انور مجید کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کروادی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق انور مجید نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) میں زیر علاج ہیں لہٰذا انہیں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کیس میں نامزد ملزمان ذوالقرنین اور نمر مجید سمیت دیگر ملزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران انور مجید کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ فیلڈ میں ہے، عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاملہ عمل درآمد بینچ کے سامنے رکھنے کا کہا۔

    وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم امتناع واپس نہیں لیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی کے پاس سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے؟

    ایف آئی اے کے وکیل بختیار چنہ نے کہا کہ سرکاری طور پر فیصلے کی نقل نہیں ملی، جب فیصلہ نہیں ملا تو سرکاری وکیل دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔

    انور مجید کے وکیل نے کہا کہ انور مجید اور عبد الغنی مجید کو ضمانت دی جائے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا، حکم امتناع فعال نہیں۔ ایف آئی اے سے حتمی چالان طلب کیا جائے۔ حتمی چالان نہیں آتا تو پھر عبوری کو حتمی چالان تصور کیا جائے۔

    جج نے کہا کہ بغیر تفتیش دیکھے ضمانت کیسے چلا سکتے ہیں، تفتیشی افسر موجود ہے نہ ایف آئی اے ریکارڈ، کیس کیسے چلائیں۔

    ایف آئی کے وکیل نے کہا کہ معاملہ نیب جا رہا ہے، ضمانت پر کارروائی فی الحال نہ کی جائے۔ حتمی تفتیش تک ضمانتوں پر کارروائی روک دی جائے۔

    جج نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب تک نہیں روکا درخواستوں پر فیصلہ کر رہے تھے، کچھ دن کے لیے شہر سے باہر جارہا ہوں واپسی پر مزید کارروائی ہوگی۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ عبد الغنی مجید کوسرجری کی ضرورت ہے مگر علاج نہیں کیا جارہا جس پر عدالت نے عبد الغنی مجید کو مکمل طبی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔ انور مجید اور عبد الغنی مجید کی ضمانت کی درخواست کی سماعت 6 فروری کو ہوگی۔

    عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 14 فروری تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    بینکنگ کورٹ اس سے قبل آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں متعدد بار توسیع کرچکی ہے، گزشتہ سماعت پر بھی دونوں کی ضمانت میں 23 جنوری تک توسیع کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی نامزد ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے۔

    نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی اور طحہٰ رضا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ فریال تالپور سمیت کیس کے 4 ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت لے رکھی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کیس میں آصف زرداری سمیت 20 ملزمان کو مفرور قرار دیا ہے۔

    24 دسمبر کو سپریم کورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق زرداری گروپ نے 53.4 بلین کے قرضے حاصل کیے، زرداری گروپ نے 24 بلین قرضہ سندھ بینک سے لیا۔ اومنی نے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے قرضے لیے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں 1.22 ارب روپے کی رقم جمع ہوئی۔ رقم سے بلاول ہاؤس کراچی، لاہور، ٹنڈو آدم کے لیے زمین خریدی گئی۔ سندھ بینک نے اومنی گروپ کو 24 ارب قرض دیے۔

    رپورٹ کے مطابق 1997 میں اومنی گروپ تشکیل دیا گیا جس نے مزید 6 کمپنیاں بنائیں، اب اومنی گروپ کی 83 کمپنیاں ہیں۔ کے ڈی اے نے اومنی کے نام مندر، لائبریری اور عجائب گھر کے پلاٹ منتقل کیے۔ پلاٹس پہلے رہائشی پھر کمرشل کر کے فروخت کردیے گئے۔

    سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو تا حکم ثانی منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    28 دسمبر کو وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر آصف زرداری، فریال تالپور، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے تھے۔

    تاہم بعد ازاں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ای سی ایل میں نام ڈالنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وزیر داخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کیا تھا۔

    انہوں نے حکم دیا تھا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نظر ثانی کریں اور معاملہ کابینہ میں لے جائیں۔

    2 جنوری کو وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام ناموں کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب 5 جنوری کو منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی نے فریال تالپور، آصف زرداری اور اومنی گروپ کی ملک اور بیرون ملک تمام جائیدادیں منجمد کرنے کی سفارش کی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں زرداری گروپ، اومنی گروپ کے اثاثوں اور قرضوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ دونوں گروپس نے حکومتی فنڈز میں بے ضابطگیاں کیں، کمیشن لیا اور غیر قانونی پیسہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زرداری اور اومنی گروپس کے مختلف کمپنیوں کے تحت رکھے گئے اثاثے احتساب عدالت کے فیصلے تک منجمد کیے جائیں، غالب گمان ہے کہ کہیں یہ اثاثے اس سے قبل ہی بیرون ملک منتقل نہ ہوجائیں۔

    18 جنوری کو وزارت داخلہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکال دیا تھا۔

  • ریلوے خسارہ کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی

    ریلوے خسارہ کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی

    اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریمانڈ پر موجود سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو عدالت میں لایا گیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کیوں آجاتے ہیں ہم نے تو طلب کیا ہی نہیں۔ ہم نے آڈیٹر جنرل سے جواب مانگا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کہاں ہے جس پر خواجہ سعد رفیق کے وکیل نے کہا کہ رپورٹ لاہور میں جمع ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ ابھی تک ہم تک نہیں پہنچی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے ہفتے جواب آجائے تو کیس سنیں گے۔ کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ سماعت پر خواجہ سعد رفیق نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریلوے میں گراں قدر کام کیا ہے، افسوس ہے شیخ رشید نے لوکو موٹیو کے بارے میں عدالت میں غلط بیانی کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ لوکو موٹیو نہ 22 کروڑ میں آتا ہے نہ ہی ہم نے 45 کروڑ میں خریدا، قیمت خرید اور جس قیمت پرہم نے لیا دونوں غلط بتا رہے ہیں۔

    خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی فرانزک آڈٹ رپورٹ پر بھی جواب داخل کروا دیا تھا۔

  • نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج پھر ہوگی

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج پھر ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز سے متعلق سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کریں گے۔

    نوازشریف آج احتساب عدالت میں پیش ہوں گے، العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہوچکے ہیں۔

    احتساب عدالت میں آج سماعت کے دوران جواب الجواب دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جانے کا امکان ہے۔

    العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان

    خیال رہے کہ نواز شریف کے خلاف انہی ریفرنسز سے متعلق سماعت گذشتہ روز بھی ہوئی تھی، اس دوران کمرہ عدالت میں نواز شریف بھی موجود تھے۔

    واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ العزیزیہ میں فریقین جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں وکیل صفائی کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔

    گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا تھا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہوئی جس میں فریقین کے وکلا کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    دوران سماعت فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔ جج نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو اسی نام سے پکار رہے ہوتے ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پیشی کے وقت نواز شریف سے کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت کا نہیں پوچھا گیا، نواز شریف نے متفرق درخواستوں میں یو اے ای کا ویزہ ظاہر کر رکھا تھا۔ میں صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کچھ چھپا نہیں رکھا۔

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا تھا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئی تھیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، وکیل صفائی نے احتساب عدالت کے اس سوال پر کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟‘ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا۔ عدالت نے ریفرنسز کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل گزشتہ روز کی سماعت میں جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟

    العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب جمع کروایا تھا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں خواجہ حارث سے دستاویزات پر استفسار کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات ابھی موصول نہیں ہوئیں، کچھ تاخیر ہو رہی ہے۔

    اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔

    وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔

    جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔

    العزیزیہ ریفرنس میں خواجہ حارث ںے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر کل جواب الجواب دلائل دیں گے۔

    جج نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب نے ایسی کیا نئی بات کی جس پر آپ جواب دینا چاہتے ہیں؟ جس پر سردار مظفر نے کہا کہ صرف کچھ نقاط پر بات کرنا چاہتے ہیں، صرف ایک دن دے دیں یا پھر آدھا دن۔

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔