Tag: Hearing

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ نعیم اللہ پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں تینوں شریک ملزمان سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔

    قومی ادارہ احتساب (نیب) نے اسحٰق ڈار کیس میں نیا پراسیکیوٹر تعینات کردیا، سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کی جگہ افضل قریشی ریفرنس میں پیش ہوں گے، افضل قریشی نیب لاہور میں فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی نیب کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

    سماعت میں استغاثہ کے گواہ نعیم اللہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے، گواہ نعیم اللہ کا تعلق نجی بینک سے ہے۔ گواہ نے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا۔

    مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    وکیل صفائی کی جانب سے گواہ نعیم اللہ پر جرح مکمل کرلی گئی۔ دوران جرح گواہ نے کہا کہ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ اکاؤنٹ فارم پر دستخط ایک جیسے نہیں تھے، اکاؤنٹ فارم پر ایڈریس بھی غلط لکھا ہوا تھا۔

    گزشتہ سماعت پر نیب پراسیکیوٹر نے اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق کی جائیداد نیلامی کے خلاف درخواست پر جواب جمع کروایا تھا، درخواست پر جرح آج ہونی تھی تاہم وقت کی کمی کے باعث نہ ہوسکی۔

    احتساب عدالت نے ریفرنس کی مزید سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔

    اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے ان رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی تاہم اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ الدار آڈٹ کے بعد حسین نواز پہلی مرتبہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے، الدار رپورٹ ناکافی دستاویزات ہیں۔ 30 مئی 2017 کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ کیس میں حسین نواز 5 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، جے آئی ٹی نے حسین نواز کو ہل میٹل کی ادائیگیوں کی تفصیلات لانے کو کہا۔ استغاثہ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ الدار رپورٹ کی باضابطہ تصدیق کرواتے۔

    وکیل نے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ تیار ہوئی وہ حاصل نہیں کیے گئے، الدار آڈٹ سے کسی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ استغاثہ سے پوچھیں ہل میٹل سے متعلق انہوں نے کیا تفتیش کی؟ ہل میٹل کتنے میں بنی، باقی تفصیلات اب بھی انہیں معلوم نہیں۔

    جج ارشد ملک نے دریافت کیا کہ نواز شریف نے کہیں اور یہ مؤقف اپنایا کہ العزیزیہ سے تعلق نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سی ایم اے 7244 میں نواز شریف نے یہ مؤقف اپنایا ہے، نواز شریف نے کہیں بھی یہ مؤقف نہیں لیا کہ ان کی جائیداد ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تحقیق نہیں کی کہ العزیزیہ کا منافع عباس شریف کو منتقل ہوا۔ تحقیق نہیں کی گئی العزیزیہ کی فروخت کے بعد حاصل رقم تقسیم ہوئی۔ جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔

    اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ حسین نواز، نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے۔ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی دار تھے۔ گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز فروخت کیے، گلف اسٹیل ملز کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز کردیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف نے کاروبار میں حصہ نہیں لیا، کاروبار میاں محمد شریف چلاتے تھے، نوازشریف کا تعلق نہیں تھا۔ نواز شریف گلف اسٹیل سے متعلق کسی ٹرانزکشن کا حصہ نہیں رہے۔ میاں محمد شریف، حسین، حسن اور دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے ریفرنس پر حتمی دلائل دیے۔ عدالت میں مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری، طلال چوہدری، چوہدری تنویر، طارق فاطمی اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھے۔

    اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا اخذ کیا گیا نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔ حسن اور حسین نواز کا بیان یا دستاویز نواز شریف کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا گیا، طارق شفیع بھی اس عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    جج نے استفسار کیا کہ آپ کا مؤقف ہے طارق شفیع نے بابا جی کی طرف سے سرمایہ کاری کی، اب آپ کہتے ہیں طارق شفیع کی کوئی چیز استعمال ہی نہیں ہو سکتی۔ طارق شفیع والے سارے معاملے کو نظر انداز کردیں؟

    جج نے پوچھا کہ آپ کے مؤقف میں بنیادی انحصار ہی طارق شفیع پر تھا، آپ واضح طور پر کوئی ایک مؤقف اپنائیں، العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے قانونی نکات پر دلائل دیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کا کیس ہے جتنے لوگوں کو پیسے آئے وہ نواز شریف سے جڑے تھے، الدار رپورٹ میں موجود انٹریز کافی نہیں، ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ کہا گیا کہ نواز شریف نے رقم مریم نواز کو تحفے کے طور پر دی۔ مریم نواز اس کیس کی کارروائی میں شریک نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ کا کیس ہے 88 فیصد منافع نواز شریف کو منتقل ہوا وہ اصل مالک ہیں، استغاثہ یہ بھی کہتا ہے کہ رقم کا بڑا حصہ نواز شریف نے مریم کو تحفے میں دیا، اس حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بینفشری مریم نواز ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نواز کو بے نامی دار ثابت کرنے سے پہلے استغاثہ کو اصل مالک ثابت کرنا تھا۔ حسین نواز مانتے ہیں انہوں نے والد کو تحفے میں رقم دی، نواز شریف کا بھی یہی مؤقف ہے انہیں بیٹے نے رقم تحفے میں دی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جب تحفہ دینے اور لینے والا تسلیم کر رہے ہوں تو کوئی اسے چیلنج نہیں کرسکتا، فنانس ایکسپرٹ کو پیش کر کے تاثر دینے کی کوشش کی گئی کچھ خاص ہوا۔ ایک طرف سے رقم آرہی ہے دوسری طرف موصول، اس میں کیسی ایکسپرٹی؟

    نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی مزید سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن، ذمہ دارکون؟ سپریم کورٹ میں‌آج سماعت ہوگی

    سانحہ ماڈل ٹاؤن، ذمہ دارکون؟ سپریم کورٹ میں‌آج سماعت ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان کا  پانچ رکنی لارجر  بینچ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کرےگا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت آج بروز بدھ سپریم کورٹ میں ہوگی،  بینچ چیف جسٹس ثاقب نثار،  جسٹس آصف سعیدکھوسہ، جسٹس عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل ہے۔ْ

     اس ضمن میں گذشتہ روز نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، رانا ثنا، چوہدری نثار اور خواجہ آصف سمیت 146 افراد کو نوٹس جاری کیے گئے۔

     اس کے علاوہ عابد شیرعلی اور  رانا ثناءاللہ، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے۔


    مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن میں چیف جسٹس کےفیصلے سے مطمئن ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری


    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ نومبر میں عوامی تحریک کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینک تشکیل دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست مقتول خاتون کی بیٹی بسمہ نے دائر کی تھی۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے نئے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنانے کی عوامی تحریک کی درخواست پر پنجاب حکومت پراسیکیوشن اور ملزمان کو نوٹس کر دئیے تھے۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا۔

    بیان قلمبند کرواتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے مطابق ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے، ہل میٹل کا پورا نام ہل انڈسٹری فار میٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ 10 دسمبر 2000 میں بیوی بچوں اور خاندان کے ساتھ جلا وطن رہا۔

    جج نے دریافت کیا کہ جب آپ پاکستان سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی، اکاؤنٹس منجمد تھے۔

    نواز شریف نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پہلے 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا۔ جب ہمیں جلا وطن کیا گیا تھا تو ہماری اتفاق فاؤنڈری کو نیشنلائزڈ کر دیا گیا تھا۔ ’کسی نے پوچھا تک نہیں ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ 1972 میں تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا، اتفاق فاؤنڈری کے بدلے کوئی سہولت بھی نہیں دی گئی۔ 1999 کے مارشل لا کی الگ کہانی ہے، موقع ملا تو بتائیں گے۔

    نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مارشل لا کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ غیر قانونی تحویل میں لیا گیا، ریکارڈ اٹھائے جانے کے خلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کروائی گئی۔ متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دنوں میں نیب نے خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لیا۔ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات قبضے میں لیے۔ رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کی اجازت دی گئی، چوہدری شوگر ملز سے 110 ملین اور رمضان شوگر ملز 5 ملین روپے نکلوا لیے گئے۔

    نواز شریف نے کہا کہ شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔ جلا وطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا، حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے انتظام کیا اور خاندان کے افراد کی ضروریات پوری کی۔

    اپنے بیان میں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں۔ میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ کسی دستاویز کا گواہ نہیں۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کیے گئے، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا۔ متحدہ عرب امارات سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔

    سابق وزیر اعظم نے 151 سوالوں میں سے 90 سوالات کے جوابات قلبند کروا دیے۔ ان کے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔

    احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    گزشتہ روز نواز شریف نے عدالت کی جانب سے دیے گئے 50 میں 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروایا تھا، بقیہ سوالات کے جوابات آج قلمبند کروائے گئے۔

    عدالت نے کل 101 سوالات پر مبنی ایک اور سوالنامہ نواز شریف کے وکیل کو فراہم کیا تھا۔

    نواز شریف نے کل اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ طلب کیا تھا۔

    نواز شریف نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، ’میں نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی‘۔

    نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں۔ میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

    انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران شریک ملزم سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت کے دوران شریک ملزم سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ طارق جاوید میرے مؤکل سے متعلقہ نہیں۔

    عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید 2 گواہ طلب کر لیے۔ ریفرنس کی مزید سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ سماعت پر گواہ طارق جاوید نے عدالت کو بتایا تھا کہ نیب نے براہ راست مجھے کوئی خط نہیں لکھا جس پر وکیل قاضی مصباح نے سوال کیا کہ کیا 23 اگست 2017 کو آپ 6 بار نیب آفس گئے تھے؟

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں اس دن ایک بار نیب آفس گیا تھا۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ان کا ازخود بیان نکال دیتے ہیں، کنفیوژن پیدا کررہا ہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا تھا کہ از خود بیان ہونا ہی نہیں چاہیئے اس کی جگہ ری ایگزامن ہونا چاہیئے۔ قاضی مصباح نے کہا تھا کہ جرح میں گواہ نے صرف وہی بتانا ہوتا ہے جو اس سے پوچھا جائے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق اسحٰق ڈار کے اثاثوں پر تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا چکے ہیں۔

    نیب کے مطابق اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور موجود رقم کی تفصیلات پنجاب حکومت کو فراہم کردی گئی تھی۔ نیب کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم موجود ہے۔

    عدالت میں اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے 3 پلاٹوں کی قرقی کی تعمیلی رپورٹ بھی جمع کروائی جا چکی ہے۔ تفتیشی افسر نادر عباس نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی، اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ اسحٰق ڈار اور اہلیہ کے شیئرز کی قرقی سے متعلق ایس ای سی پی رپورٹ کا انتظار ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی جاچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

  • کوہستان ویڈیو اسیکنڈل: عدالت کا 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

    کوہستان ویڈیو اسیکنڈل: عدالت کا 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

    اسلام آباد: کوہستان ویڈیو اسیکنڈل کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ خیبر پختونخواہ نے دشوار گزار راستوں کا عذر پیش کرتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے 2 ماہ کی مہلت طلب کی تاہم عدالت نے انہیں 4 ہفتے کا وقت دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر 4 لڑکیوں کے قتل کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ خیبر پختونخواہ نے عدالت کو بتایا کہ فوٹیج میں نظر آنے والی لڑکیوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔

    انہوں نے کہا کہ جدید آلات کے فقدان کے باعث لڑکیوں کو شناخت نہ کر سکے، بنائی گئی ویڈیو کی کوالٹی ناقص ہے۔ چہرے کے خدوخال بھی واضح نہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب فرانزک لیب کو ویڈیو بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ پنجاب فرانزک لیب کے پاس جدید آلات ہیں جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پنجاب نہیں پشاور فرانزک لیب نے معائنہ کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بورڈ میں 2 افراد نے کہا ویڈیو میں نظر آنے والی وہی لڑکیاں ہیں جنہیں قتل کیا گیا جبکہ ایک رکن نے مخالفت کی۔ پشاور فرانزک لیب کوئی نتیجہ اخذ نہ کر سکی۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایف آئی آر اور تحقیقات کا حکم دیا تھا اس کا کیا بنا؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 4 میں سے 2 لڑکیوں کے شناختی کارڈ بنے ہوئے تھے۔ ان کے فنگر پرنٹس نادرا کو بھیجے، تاہم نادرا کے ڈیٹا کے ساتھ فنگر پرنٹس کی مطابقت نہیں تھی۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ تحقیقات میں دشواریاں ہیں، متعلقہ علاقے تک پہنچنے کے لیے 6 گھنٹے کی مسافت ہے۔ مقامی افراد سے معلومات اکھٹی کیں تاہم ابھی سراغ نہیں ملا۔

    انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تحقیقات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 2 ماہ کا وقت دے دیں۔

    عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کریں۔ کیس کی مزید سماعت 4 ہفتوں تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سنہ 2012 میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک شادی کی تقریب میں کچھ لڑکیوں کو رقص کرتے اور تالیاں بجاتے دیکھا جاسکتا تھا۔ ان لڑکیوں کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان کا تعلق کوہستان سے ہے اور انہیں قتل کردیا گیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لے لیا تھا۔

    از خود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی پی او کوہستان کو لڑکیوں کے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے فی الفور مقدمہ کی تفتیش شروع کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمہ کی حقیقت جاننے کے لیے 3 جے آئی ٹیز بنائیں گئیں، تاہم ہر مرتبہ دھوکہ دیا گیا۔ جے آئی ٹیز کے سامنے دھوکہ دہی کی گئی اور دوسری رشتہ دار لڑکیاں پیش کی گئیں۔

    کیس کی پیروی خواجہ اظہر ایڈووکیٹ کر رہے ہیں جبکہ سماجی کارکن فرزانہ باری اور کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی مقدمہ میں مدعی ہیں۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔

    جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔

    اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران ملزم سعید احمد کے وکیل نے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    ریفرنس کے تینوں شریک ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے جن میں سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی شامل ہیں۔

    ملزم سعید احمد کے وکیل نے استغاثہ کے گواہ طارق سلیم پر جرح کی۔

    گواہ نے بتایا کہ اپریل 1999 میں مضاربہ کی سہولت کے تحت قرض دیا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ ایک ماہ کے اندر قرض واپس کردیا گیا۔

    گواہ کے مطابق پیش کیے گئے سرٹیفکیٹ پر بینفشری اکاؤنٹ کا نمبر نہیں لکھا، اکاؤنٹ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ گواہ محسن امجد نے پیش کردیا تھا۔

    ملزم سعید احمد کے وکیل نے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے سماعت 5 نومبر تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے اسحٰق ڈار کے اثاثوں پر تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی۔

    نیب کے مطابق اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور موجود رقم کی تفصیلات پنجاب حکومت کو فراہم کردی گئی۔ نیب کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم موجود ہے۔

    عدالت میں اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے 3 پلاٹوں کی قرقی کی تعمیلی رپورٹ بھی جمع کروائی گئی۔ تفتیشی افسر نادر عباس نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی، اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار اور اہلیہ کے شیئرز کی قرقی سے متعلق ایس ای سی پی رپورٹ کا انتظار ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی جاچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی۔

  • آئین شکنی کیس: مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ

    آئین شکنی کیس: مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت میں عدالت نے سابق صدر کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    عدالت نے کہا کہ کیا پرویز مشرف کے 342 کے بیان کے بغیر عدالت فیصلہ کرسکتی ہے؟ جسٹس یاور علی نے پوچھا کہ استغاثہ بتائیں کیا پرویز مشرف وڈیو لنک پر آسکتے ہیں؟

    وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف وڈیو لنک پر آنے کو تیار نہیں، جسٹس یاور علی نے کہا کہ پرویزمشرف بیرون ملک ہیں، وکیل کے مطابق وہ بیمار ہیں۔ قانون کے مطابق 342 کا بیان ریکارڈ ہونا ہے۔

    وکیل استغاثہ نے کہا کہ پرویز مشرف کو عدالت نے بیان ریکارڈ کروانے کا موقع دیا، ملزم نے عدالت کے اس موقعے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

    جسٹس یاور علی نے کہا کہ دبئی کے امریکی اسپتال کا 14 اگست کاسرٹیفیکیٹ پیش کیا گیا، بظاہر یہ سرٹیفکیٹ پرانا ہے۔

    مشرف کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کے ساتھ دل کے عارضے کا معاملہ مسلسل ہے، موکل کا اکتوبر میں ڈاکٹر طبی جائزہ لے گا۔ ہمیں آئندہ طبی معائنے تک عدالت وقت دے۔

    وکیل نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ نیا طبی سرٹیفکیٹ پیش کیا جائے تو وقت دیا جائے۔

    بعد ازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

    عدالت نے کہا کہ کمیشن کے قیام پر اعتراض ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل مذکورہ کیس میں سیکریٹری داخلہ نے بتایا تھا کہ ہم نے مشرف کو لانے کے لیے انٹر پول کو خط لکھا تھا لیکن انٹر پول نے معذرت کرلی کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

    یاد رہے 20 اگست کو آئین شکنی کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود سابق صدر کی عدم گرفتاری پر سیکریٹری داخلہ کو طلب کیا تھا۔

    گزشتہ روز پرویز مشرف کی تازہ میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو ’امیلوئی ڈوسس‘ نامی خطرناک بیماری لاحق ہے۔

    پرویز مشرف کا علاج برطانیہ کے 2 معروف اسپتالوں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر علاج نہ ہونے سے مشرف کو جان کا خطرہ ہے، پرویز مشرف دل اور بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔