Tag: Heart

  • ایک اور مریضہ میں جانور کے گردے کی کامیاب پیوند کاری

    ایک اور مریضہ میں جانور کے گردے کی کامیاب پیوند کاری

    نیوجرسی : امریکا میں ایک بار پھر ایک مریضہ کے جسم میں جانور کے گردے کی کامیاب پیونکاری کردی گئی، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کی حالت بتدریج بہترہو رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست نیوجرسی کی 54 سالہ خاتون لیزا پسانو میں خنزیر کا گردہ ٹرانسپلانٹ کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایک 62 سالہ مریض رچرڈ ’رک‘ سلیمون کی بھی گردوں کی پیوند کاری کی گئی تھی جو دو ماہ زندہ رہا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نیویارک یونیورسٹی ہسپتال میں ماہرین نے مریضہ کے گردے کا ٹرانسپلانٹ اس کی تشویشناک طبی صورتحال کے بعد اس وقت کیا جب ڈائلاسز کرنا بھی مفید نہ رہا۔

      kidney transplant

    رپورٹ کے مطابق مریضہ گردے اور دل کی بیماریوں کا شکار تھی،اس کے گردے بھی ناکارہ ہوچکے تھے اور اس کے دل نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا جس کے بعد ماہرین نے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے گردے کی کامیاب پیوند کاری کی۔

    آپریشن کے دوران ماہرین نے مریضہ کو مصنوعی دل کے سہارے زندہ رکھ کر گردہ ٹرانسپلانٹ کیا اور اسے مصنوعی دل کے سہارے رکھا گیا۔

    یاد رہے کہ مریضہ میں خنزیر کے گردے کے ٹرانسپلانٹ کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ گزشتہ دنوں میں امریکا میں خنزیر کا گردہ ٹرانسپلانٹ کروانے والے ایک شخص کی دو ماہ بعد ہی موت ہوگئی تھی۔

  • دل کو صحت مند رکھنا ہے تو کافی پئیں

    دل کو صحت مند رکھنا ہے تو کافی پئیں

    روزانہ کافی پینے کی عادت بے شمار فائدوں کا سبب ہے، اب حال ہی میں دل کی صحت پر بھی اس کے اثرات کا علم ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی اور موناش یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق سے پتہ چلا کہ روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے سے امراض قلب،
    ہارٹ فیلیئر یا دل کے دیگر مسائل سمیت کسی بھی وجہ سے قبل از وقت موت کا خطرہ 15 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    3 تحقیقی رپورٹس کے نتائج پر مشتمل اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے بائیو بینک کے ڈیٹا کو استعمال کیا، اس ڈیٹا میں 5 لاکھ سے زائد افراد کی صحت کا جائزہ کم از کم 10 سال تک لیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق ان افراد نے جب تحقیق میں شمولیت اختیار کی تھی تو ان کے کافی پینے کی مقدار کو بھی جانا گیا تھا۔

    اس نئی تحقیق میں ماہرین کی جانب سے کافی پینے کی عادت اور دل کے مختلف امراض کے خطرے میں اضافے یا کمی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    پہلی تحقیق میں 3 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد کو جانچا گیا جو امراض قلب کا شکار نہیں تھے اور ان کی اوسط عمر 57 سال تھی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں ان کے مستقبل میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے، البتہ جو افراد دن بھر میں صرف ایک کپ کافی بھی پی لیتے ہیں ان میں بھی فالج یا دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے دوسری تحقیق میں مختلف اقسام کی کافی سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا، اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی قسم کی کافی کے روزانہ 2 سے 3 کپ پینے سے امراض قلب کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آخری اور تیسری تحقیق میں ایسے افراد کا جائزہ لیا گیا جو پہلے ہی دھڑکن کی بے ترتیبی یا کسی اور دل کی بیماری کا شکار تھے۔

    اس تحقیق کے نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کافی کے استعمال سے دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایسے مریضوں کا روزانہ ایک کپ کافی پینے سے قبل از وقت موت کا خطرہ کم ہوگیا۔

    ان تینوں تحقیقی نتائج سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کافی پینے کی عادت دل کی صحت کو مجموعی طور پر بہتر بنانے کے لیے بے حد مفید ہے۔

    خیال رہے کہ ان تینوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج اپریل کے آغاز میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے 71 ویں سائنٹفک سیشن کے دوران پیش کیے جائیں گے۔

  • تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ تیز قدموں سے چہل قدمی کرنا خواتین میں ہارٹ فیلیئر کے خطرات کو ایک تہائی حصے تک کم کر دیتا ہے۔

    برطانیہ میں ہر سال 60 ہزار ہارٹ فیلیئر کے کیسز ہوتے ہیں اور طویل المدت صورتحال روزمرہ کی سرگرمیاں شدید متاثر کر دیتی ہے کیوں کہ یہ تھکان اور سانس میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

    اب ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایام کے بعد وہ خواتین جو زیادہ تیز چلتی ہیں ان میں ایسی صورتحال سے دوچار ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے 50 سے 79 برس کی عمر کے درمیان 25 ہزار سے زائد ان خواتین کا جائزہ لیا، جن کے متعلق تقریباً 17 برس تک تحقیق کی گئی تھی۔

    اس دورانیے میں 14 سو 55 خواتین کو ہارٹ فیلیئر کا سامنا ہوا جس کا مطلب ہے کہ دل جسم میں باقاعدگی سے خون نہیں پھینک سکتا تھا۔

    ان خواتین نے ایک سوالنامہ پر کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ عمومی طور پر اوسطاً 2 میل فی گھنٹہ سے کم کی رفتار سے چلتی ہیں، یا دو سے تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں یا اس سے تیز 3 سے زیادہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

    وہ خواتین جو عمومی رفتار سے زیادہ تیز چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر کے امکانات 34 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ وہ خواتین جو مخصوص ایام کے بعد سست رفتار کے بجائے متوسط رفتار سے چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر ہونے کے امکانات 27 فیصد کم تھے۔

  • ‘پاکستان میں دل کے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے’

    ‘پاکستان میں دل کے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے’

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سید نصرت شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کے پٹھوں کی کمزوری (ہارٹ فیلیئر) کا مرض وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، ان مریضوں کا پہلے مرحلے میں علاج کر کے انھیں موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے تحت ‘فرسٹ کارڈیک الیکٹروفزیالوجی سمپوزیم آن ڈرگس، ڈیوائس بیسڈ تھراپی فار ہارٹ فیلیئر’ کا انعقاد کیا گیا، جس سے پروفیسر خاور عباس کاظمی، پروفیسر زاہد جمال، ڈاکٹر اعظم شفقت، ڈاکٹر عامر حمید خان، ڈاکٹر طاہر بن نذیر، ڈاکٹر غزالہ عرفان، ڈاکٹر فوزیہ پروین، ڈاکٹر طارق فرمان، ڈاکٹر فیصل خانزادہ نے خطاب کیا۔

    پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ دل کے پٹھوں کی کمزوری (ہارٹ فیلیئر) کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا حجم کینسر (سرطان ) سے بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے، ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، چوں کہ پٹھوں کی کمزوری کا عمل بتدریج ہوتا ہے، اس لیے دل کے پٹھوں کی کمزوری کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص سے ہارٹ فیلیئر سے اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا علاج کی جدید ترین سہولتیں عوام کو فراہم کی جانی ضروری ہیں، ڈاؤ یونیورسٹی دل کے علاج کی تمام جدید ترین سہولتیں عوام کو مناسب ترین قیمت میں فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صحت مند طرز زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹرز کو بھی اپنے طرز عمل سے کوئی غلط پیغام عوام کو نہیں دینا چاہیئے، دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض ڈاکٹرز خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں، مریضوں کو بھی اس کا علم ہوتا ہے، ڈاکٹر کو قطعی طور پر سگریٹ نوشی یا کوئی بھی ایسا طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگ غلط پیغام لیں۔

    سمپوزیم سے خطاب میں ماہرین نے بتایا کہ سمپوزیم کے انعقاد کا مقصد ہارٹ فیلیئر کے جدید طریقہِ علاج کے بارے میں ڈاکٹرز اور طلبہ کو آگاہی فراہم کرنا ہے، ہارٹ فیلیئر میں دل کے پٹھے پہلے کمزور اور بعد میں ناکارہ ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں دل خون کو پمپ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

    پروفیسر اعظم شفقت نے کہا کہ جدید طریقہ علاج میں تاروں (پٹھوں) کو درست کیا جاتا ہے اس علاج کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مہنگا ہے، متعین درست منصوبہ بندی کر کے اس کی لاگت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

    ڈاؤ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کےڈائریکٹر ڈاکٹر طارق فرمان نے کہا کہ انجیوپلاسٹی کی سہولت اور ارزاں قیمتوں پر فراہمی کے بعد اب ہمیں ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کے لیے طبی میدان میں موجود تمام آلات کار اور صلاحیتیں استعمال کر کے ایک کامیاب حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کا جدید ترین اور ارزاں علاج ہو سکے۔

    انھوں نے کہا عام طور پر اچانک حرکت قلب بند (سڈن کارڈیک ڈیتھ) ہونے سے موت کو ہارٹ فیلیئر سمجھا جاتا ہے جب کہ طبی اصطلاح میں ہارٹ فیلیئر اچانک دل بند ہونے کو نہیں بلکہ مرحلہ وار دل کے اعضا کمزور ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل خان زادہ نے کہا کہ دل کے پٹھے کمزور ہونے کا عمل چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، بلڈ پریشر یا شوگر کے مرض کی باقاعدہ دوا استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں اس کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، اور سانس پھولنے کا عمل اس کے تشویش ناک مرحلے میں داخل ہونے کی نشانی ہے، یہ تیسرا مرحلہ تصور کیا جاتا ہے اس مرحلے کو دواؤں سے آگے بڑھ کر جدید علاج یعنی الیکٹروفزیالوجی کے مختلف طریقوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ آخری مرحلے میں پہنچنے سے بچا جا سکے۔

    انھوں نے کہا آخری مرحلے میں دل کے پٹھے کمزور ہو کر خون پمپ کرنے کے قابل نہیں رہتے اور بالکل ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

  • وہ معمولی عادت جو دل کے دورے سے بچا سکتی ہے

    وہ معمولی عادت جو دل کے دورے سے بچا سکتی ہے

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نمک کا استعمال کم اور روزانہ کم از کم ایک کیلا کھانے کی عادت سے جان لیوا امراض قلب کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا میں نمک کا کم استعمال اور پوٹاشیم کی زیادہ مقدار امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں لوگوں میں یہ الجھن پیدا ہوئی تھی کہ کیا واقعی غذا میں نمک کا کم استعمال مفید ہے یا اس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ نمک کا کم استعمال دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق کے لیے 6 بڑی تحقیقی رپورٹس کے معیاری ڈیٹا کو استعمال کیا گیا تھا جن میں نمک کی مقدار کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے حوالے سے نمک یا سوڈیم کے کردار کو واضح کرنے میں مدد ملے گی، نمک کا کم استعمال امراض قلب سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    سوڈیم وہ جز ہے جو کھانے میں استعمال ہونے والے نمک اور کچھ غذاؤں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے، مگر اس کی زیادہ مقدار اکثر پراسیس فوڈز کا حصہ ہوتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں پوٹاشیم قدرتی طور پر پھلوں (جیسے کیلوں)، سبز پتوں والی سبزیوں، بیجوں، گریاں، دودھ یا اس سے بنی مصنوعات اور نشاستہ دار سبزیوں میں موجود ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ پوٹاشیم سوڈیم سے متضاد اثرات مرتب کرتا ہے یعنی خون کی شریانوں کو پرسکون رکھنے میں مدد اور سوڈیم کے جسم سے اخراج کو بڑھاتا ہے جبکہ بلڈ پریشر کو بھی کم کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں 6 بڑی تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں سوڈیم اور پوٹاشیم کے اخراج، امراض قلب کی شرح، اور دیگر پر توجہ مرکوز کی گئی۔

    یہ ڈیٹا رضا کاروں کے متعدد بار حاصل کیے گئے پیشاب کے نمونوں سے اکٹھا کیا گیا تھا جس کو محققین نے سوڈیم کے جزوبدن بنانے کا سب سے قابل اعتبار طریقہ کار قرار دیا۔

    یہ نمونے 10 ہزار سے زیادہ صحت مند بالغ افراد سے حاصل کیے گئے تھے اور بعد ازاں لگ بھگ 9 سال تک ان میں امراض قلب کی شرح کی مانیٹرنگ کی گئی، ان رضاکاروں میں سے 571 کو فالج، ہارٹ اٹیک اور دیگر امراض قلب کا سامنا ہوا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ نمک کا زیادہ استعمال امراض قلب کا خطرہ بڑھانے سے نمایاں حد تک منسلک ہے۔

    طبی ماہرین دن بھر میں 2300 ملی گرام نمک کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں یہ مقدار ایک چائے کے چمچ نمک کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔ مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم سے روزانہ ہر ایک ہزار ملی گرام سوڈیم کا اخراج امراض قلب کا خطرہ 18 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر ہر ایک ہزار پوٹاشیم کے کا اخراج امراض قلب کا خطرہ 18 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

  • ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ افراد جو ڈیری مصنوعات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل پی ایل او ایس میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین نے دودھ کے استعمال اور دل کی صحت سے متعلق 18 مطالعات کا جائزہ لیا جو پچھلے 16 سال کے دوران سوئیڈن، امریکا، برطانیہ اور ڈنمارک میں کیے گئے تھے۔

    ان تمام مطالعات میں مجموعی طور پر 47 ہزار سے زائد رضا کار شریک ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر کی ابتدائی عمر 60 سال کے لگ بھگ تھی۔

    اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ دودھ اور دودھ سے بنی غذائیں مثلاً دہی، مکھن اور پنیر وغیرہ زیادہ استعمال کرنے والوں میں امراض قلب کی شرح خاصی کم تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اپنے روزمرہ معمولات میں سب سے زیادہ دودھ اور ڈیری مصنوعات استعمال کرنے والوں کےلیے دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی سب سے کم دیکھا گیا۔

    ان کے مقابلے میں وہ افراد جن میں ڈیری پروڈکٹس استعمال کرنے رجحان کم تھا، ان کی بڑی تعداد اپنی بعد کی عمر میں دل اور شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئی۔

    واضح رہے کہ طبّی ماہرین پچھلے کئی سال سے دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کم مقدار استعمال کرنے پر زور دیتے آرہے ہیں کیونکہ ان میں چکنائی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، البتہ دوسری کئی تحقیقات سے اس کے برخلاف نتائج بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

    آسٹریلیا، امریکا، سوئیڈن اور چین کے ماہرین پر مشتمل اس مشترکہ پینل کی تحقیق نے بھی صحت کے حوالے سے دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی افادیت ثابت کی ہے۔

    ریسرچ پیپر کی مرکزی مصنفہ اور جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ آسٹریلیا کی پروفیسر کیتھی ٹریو کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے دودھ پر مبنی غذاؤں کا استعمال مکمل طور پر ترک کردینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی سنگینی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • مرچ مصالحے والی غذائیں فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    مرچ مصالحے والی غذائیں فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    مرچ مصالحے سے بھرپور غذاؤں کو صحت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا تھا تاہم اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک تحقیق میں حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا کی پین اسٹیٹ یونیورسٹی اور کلیمسن یونیورسٹی کی جانب سے الگ الگ 2 تحقیقی رپورٹس میں غذا میں مرچ مسالے کے استعمال سے دل کی شریانوں پر مرتب مثبت اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔

    ایک تحیق میں دریافت کیا گیا کہ غذا میں مرچ مصالحہ شامل کرنا امراض قلب کے خطرے سے دو چار افراد میں بلڈ پریشر میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری تحقیق میں ان کا استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں میں کولیسٹرول میں کمی لانے میں مدد گار قرار دیا گیا۔

    پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں غذا میں مرچ مصالحے کے اضافے سے کارڈیو میٹابولک اثرات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ اضافہ بلڈ پریشر میں کمی لانے کے لیے مفید ہوتا ہے جو امراض قلب کا باعث بننے والے ایک اہم ترین عنصر ہے۔

    اس تحقیق میں 71 افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان پر تجربات کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ زیادہ مرچوں والی غذا کھانے والے افراد میں اگلے 24 گھنٹے کے دوران بلڈ پریشر کی سطح میں کمی آئی تاہم بلڈ شوگر یا کولیسٹرول کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    دوسری تحقیق میں مصالحے کے سپلیمنٹس اور ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی کو دریافت کیا گیا۔ اس تحقیق میں 28 افراد کو کنٹرول ٹرائل کا حصہ بنایا گیا تھا جو ذیابیطس ٹائپ 2 کے شکار تھے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مرچ مصالحے کے طبی اثرات کو واضح طور پر جانا جاسکے، تاہم شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ان کا استعمال فائدہ ہی پہنچاتا ہے۔

  • دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    بدلتے ہوئے غیر صحت مندانہ طرز زندگی نے امراض قلب میں تشویشناک حد تک اضافہ کردیا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ زندگی کی اس مصروفیت کو برقرار رکھتے ہوئے دل کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    ماہرین صحت کے مطابق امراض قلب دنیا بھر میں انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ کے قریب افراد دل کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر فیصل ضیا نے شرکت کی اور اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ امراض قلب کی شرح میں اضافے کی وجوہات غیر صحت مندانہ طرز زندگی، بہت زیادہ کام کا بوجھ، نیند کا خیال نہ رکھنا، جنک فوڈ کا استعمال، ورزش نہ کرنا اور ذہنی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہونا ہے۔

    انہوں نے کہا کم عمری میں سگریٹ کی لت لگ جانا بھی اس کی اہم وجہ ہے، اکثر 20 سے 25 سال کی عمر کے افراد کا بلڈ پریشر بھی اسی وجہ سے ہائی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی کے خاندان میں امراض قلب کی تاریخ موجود ہے تو ایسے شخص کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اگر 24 گھنٹے کی مصروفیت میں صرف 1 گھنٹہ اپنے لیے مختص کیا جائے اور ہلکی پھلکی ورزش کرلی جائے تو دوران خون بہتر ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں روزمرہ کی خوراک کو بھی زیادہ سے زیادہ صحت مند اور متوازن بنایا جائے۔

    ڈاکٹر فیصل کے مطابق ہارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ میں فرق یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک میں خون کا بہاؤ دل کی طرف رک جاتا ہے (عموماً خون کے لوتھڑے بننے کے سبب) جبکہ کارڈیک اریسٹ میں دل میں اچانک کوئی خرابی واقع ہوتی ہے اور وہ دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔

    انبہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت کو صحت یابی کے بعد دل کی تکلیف کا سامنا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس سے دل کو خون پمپ کرنے اور آکسیجن کھینچنے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ ایک دفعہ ہارٹ اٹیک ہوجانے کے بعد کسی بھی عمر کے شخص کو نہایت محتاط ہوجانا چاہیئے کیونکہ دوسرا دورہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس دل پر خطرناک حملہ کر سکتا ہے

    کرونا وائرس دل پر خطرناک حملہ کر سکتا ہے

    اب تک کرونا وائرس کے دل پر نقصانات کو دیکھا جاتا رہا تھا اور ماہرین اس حوالے سے تشویش کا شکار تھے، اب حال ہی میں ایک تحقیق میں ایک اور پریشان کن انکشاف ہوا۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے دل کو نقصان براہ راست وائرس کے دل پر حملہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے جو دل کے پٹھوں کے خلیات میں اپنی نقول بنانے لگتا ہے، جس سے خلیات مرنے لگتے ہیں۔

    یاد رہے کہ کرونا وائرس کے آغاز سے ہی یہ دیکھا جاتا رہا تھا کہ کووڈ 19 دل کے مسائل پیدا کرتا ہے جیسے خون کے پمپ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی ہونا۔

    حالیہ تحقیق کے لیے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں ماہرین نے اسٹیم سیلز کو استعمال کر کے دل کے خلیات کو تیار کیا جس پر وائرس کے تجربات کیے گئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ وبا کے آغاز میں ہمارے پاس شواہد موجود تھے کہ کورونا وائرس صحت مندد افراد میں ہارٹ فیلیئر یا دل کی انجری کا باعث بن سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کالج ایتھلیٹس کووڈ 19 کو شکست دے کر مقابلوں میں واپس آئے تو ان کے دل پر خراشوں کو دیکھا گیا، مگر اس حوالے سے یہ بحث کی جارہی تھی کہ یہ براہ راست دل پر وائرس کے حملے کا نتیجہ ہے یا مدافعتی ردعمل کا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں ثابت کیا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں یہ وائرس دل بالخصوص اس کے پٹھوں کو ہدف بناکر ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    تحقیق میں ہارٹ ٹشوز ماڈلز پر تجربات کے دوران دیکھا گیا کہ یہ بیماری نہ صرف دل کے پٹھوں کے خلیات کو مارتی ہے بلکہ مسلز کے فائبر یونٹس کو بھی تباہ کرتی ہے۔

    نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلیات کے مرنے اور دل کے مسلز کے فائبر میں کمی کا مسئلہ جسمانی ورم کے بغیر بھی ہوتا ہے، ورم اس نقصان کو مزید بڑھا دیتا ہے مگر صرف ورم ہی دل کی انجری کی ابتدائی وجہ نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ دیگر وائرل انفیکشنز کی بھی دل کو نقصان پہنچانے کی تاریخ ہے مگر کورونا وائرس اس حوالے سے منفرد ہے، بالخصوص بیماری کے خلاف مدافعتی خلیات کے ردعمل کی وجہ سے۔

    ماہرین کے مطابق مختلف مدافعتی خلیات ردعمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر کووڈ کے دوران دل پر ہونے والے مدافعتی ردعمل دیگر وائرسز کے مقابلے میں مختلف ہوتے ہیں، اور ہم اب تک جان نہیں سکے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عام طور پر دیگر وائرسز کے خلاف مدافعتی ردعمل کے اثرات مختصر بیماری کے بعد دور ہوجاتے ہیں، مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں یہ اثرات طویل المعیاد نتائج کا باعث بنتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر نوجوان افراد کو بھی بعد میں امراض قلب کا سامنا ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہیں جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔

  • کیا کافی کا زیادہ استعمال دل کے لیے نقصان دہ ہے؟ جواب مل گیا

    کیا کافی کا زیادہ استعمال دل کے لیے نقصان دہ ہے؟ جواب مل گیا

    کینبرا: طبی محققین نے کافی کے زیادہ استعمال اور دل کو لاحق ہونے والے صحت کے مسائل میں تعلق کا انکشاف کیا ہے۔

    محققین نے اس سوال کا جواب کہ کافی کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ ایک نئی تحقیق میں یہ دیا ہے کہ کافی کا بہت زیادہ استعمال آپ کے دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور دل کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

    یہ نتیجہ جینیات کی تحقیق کرنے والی یونی ورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے سینٹر فار پریشن ہیلتھ کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں اخذ کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے تک ہیوی کافی کے استعمال سے (ایک دن میں چھ یا اس سے زیادہ کپ) خون میں چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں امراض قلب کے خطرات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔

    محققین کے مطابق کافی اور اس کی مقدار کا آپس میں تعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ زیادہ کافی سے زیادہ خطرات بڑھتے ہیں۔

    محقق پروفیسر ایلینا ہائی پونن نے کہا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دل کی صحت کے لیے کافی کے استعمال میں توازن رکھنا چاہیے، اور وہ لوگ جنھیں ہائی کولیسٹرول کی شکایت ہے وہ تو کافی کے انتخاب میں بھی محتاط رہیں۔

    پروفیسر کے مطابق کافی اور کولیسٹرول میں کافی کی مقدار کا ایک کردار ہے، زیادہ غیر فلٹر شدہ کافی کے استعمال سے خون میں چکنائی بڑھ جاتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ہمشیہ فلٹر شدہ کافی کا استعمال کیا جائے۔