Tag: HEART DISEASE

  • چڑچڑے پن کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    چڑچڑے پن کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    معاشرے میں ایسے افراد اکثر نظر آتے ہیں جو بھوک یا کسی بھی وجہ سے چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

    ایسے افراد کیلئے محققین کا کہنا ہے کہ بدمزاج اور ہر وقت فکر میں مبتلا رہنے والے افراد کے دل کی صحت خراب ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔

    برطانیہ میں کوئن میری یونیورسٹی کی زیر نگرانی تحقیقاتی ٹیم نے ذہنی صحت اور قلبی کارکردگی کے درمیان تعلق جاننے کے لیے 36 ہزار 309 افراد کے دل کے اسکین کا معائنہ کیا۔

    تحقیق کے نتائج سے یہ اخذ کیا گیا کہ بے چینی اور چڑچڑے پن جیسی علامات دل کی عمر بڑھنے کے ابتدائی اشاروں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی صحت کے مسائل کے خطرے سے دوچار افراد کو مستقبل میں دل کے مسائل کم کرنے کی کوشش سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

    نیوروٹیسزم نامی خصوصیات (جن میں غیر مستحکم مزاج، ضرورت سے زیادہ فکر، بے چینی، چڑچڑا پن اور اداسی شامل ہیں) کو شخصیت پر مبنی سوالنامے کا استعمال کرتے ہوئے پرکھا گیا۔

    تحقیق میں نیوروٹیسزم شخصی خصوصیات کے رجحان کا چھوٹے اور خراب کارکردگی والے وینٹریکلز، شدید مایوکارڈیل فائبروسس اور شدید آرٹریل اسٹفنیس (رگوں کا اکڑ جانا) سے تعلق دیکھا گیا۔

    یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہونےو الی تحقیق میں ٹیم کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ذہنی صحت اور قلبی صحت کے درمیان تعلق کو واضح کرتے ہیں اور عام لوگوں میں ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لائحہ عمل کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

     

     

  • کھانا کھانے کی تین بری عادتیں، چھٹکارا کیسے ملے؟

    کھانا کھانے کی تین بری عادتیں، چھٹکارا کیسے ملے؟

    اچھی صحت کیلئے غذائیت سے بھرپور اشیاء کا استعمال بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کھانا کس وقت اور کیا کھانا ہے؟

    ویسے کچھ لوگوں کے اندر کھانے سے متعلق بری عادات ہوتی ہیں کیونکہ وہ کھانے کے وقت اور اس کے انتخاب پر غور نہیں کرتے جو سامنے آیا کھالیا چاہے اس کا کوئی بھی نتیجہ ہو۔

    کھانے میں بےاحتیاطی کا اثر دل پر زیادہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے انسان امراض قلب کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ دل کی زیادہ تر بیماریاں اور ہائی بلڈ پریشر انسان کے کھانے کے بےترتیب طریقوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ’ہیلتھ ڈائجسٹ‘ کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرز اور ماہرین صحت نے کھانے کی تین ایسی عادات کے بارے میں بات کی ہے جو دل کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔

    ڈاکٹروں اور ماہرین صحت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کھانوں سے متعلق ان تین عادات سے لازمی بچیں بصورت دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    نیوٹریشنسٹ اور کولینا ہیلتھ کے شریک بانی تمر سیموئلز نے بتایا کہ سیر شدہ چکنائی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بڑھاتی ہے، یہ دل کی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک برا کولیسٹرول ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں ہیلتھ ڈائجسٹ کی رپورٹ میں درج کھانے کی تین ایسی عادات کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے دل کی صحت کے معاملے میں مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

    بے فکری سے کھانا

    ماہرین کھانا کھاتے وقت "ذہنی طور پر تیار رہنے ” کی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ عمل کھانے سے لطف اندوز ہونے اور پیٹ کی خرابی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور دل کی صحت کو بھی یقینی بناتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے آپ کو اپنے کھانے سے زیادہ لطف اندوز ہونے اور ضرورت سے زیادہ کھانے کو محدود کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں آپ کے دماغ کو یہ بات بتانے میں لگ بھگ 20منٹ لگتے ہیں کہ آپ کا پیٹ بھر گیا ہے؟

    کھانا چھوڑنا

    کھانا چھوڑ دینا دل کی صحت کے لیے اچھا خیال نہیں ہے، ہم بہت سی وجوہات کی بنا پر کھانا چھوڑ دیتے ہیں جن میں بہت مصروفیات یا کھانا لذیذ نہ ہونا ہوتا ہے۔

    اپنے پسندیدہ کھانے کو چھوڑنا اچھا خیال نہیں ہے کیونکہ یہ بھوک، شوگر اور زیادہ کیلوریز والے کھانوں کی خواہش کا باعث بنتا ہے۔ اپنی خواہشات کو متوازن کرنے کے لیے ہر تین سے چار گھنٹے میں متوازن کھانے کا ہدف طے کیجئے۔

    کھانا دیر سے کھانا

    اس کے علاوہ کھانا دیر سے کھانے کی عادت آپ کے دل کو بھی متاثر کر سکتی ہے، میٹھی اسنیکس اور زیادہ کیلوریز والی غذائیں کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح، دل کی بیماری، فالج، موٹاپا، ذیابیطس اور دانتوں کی خرابی ہوسکتی ہے۔

     

  • پاکستان میں دل کی بیماریوں سے جوانوں‌ میں‌ اچانک بڑھتی اموات کی وجہ کیا ہے؟

    پاکستان میں دل کی بیماریوں سے جوانوں‌ میں‌ اچانک بڑھتی اموات کی وجہ کیا ہے؟

    پاکستان میں دل کی بیماریوں سے جوانوں کی جانیں ضائع ہونے میں تشویش ناک اضافہ ہو گیا ہے، این آئی ایچ کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا جوان آدمی دل کے عارضے میں مبتلا ہے، اور ملک میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ دل کے مرض میں مبتلا ہے۔

    این آئی ایچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں 50 سے زائد افراد دل کی بیماریوں میں مر جاتے ہیں جب کہ پانچ سال قبل ہر گھنٹے میں مرنے والوں کی تعداد صرف 12 تھی۔

    این آئی وی سی ڈی کے ماہر امراض قلب پروفیسر خاور کاظمی کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں دل کی بیماریوں مبتلا 4 لاکھ افراد ہر سال اپنی جان گنوا دیتے ہیں، جو مختلف بیماریوں میں چل بسنے والوں کا 29 فی صد ہے۔

    پاکستان میں ایک زمانے تک دل کی بیماری امیروں کی بیماری سمجھی جا تی تھی، مگر اب اس سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے۔ پاکستان میں اب دل کی تکلیف یا بیماری امیر غریب، بوڑھے جوان سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 30 سے 40 سال کی عمر کے افراد میں دل کی بیماریوں کے سبب اموات بڑھتی جا رہی ہیں، جس کا سب سے بڑا سبب غیر صحت مندانہ طرز زندگی اور بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل میں فاسٹ فوڈ، لائف اسٹائل، ذیابیطس اور ذہنی دباؤ دل کی بیماری کے اسباب ہیں۔

    پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے نوجوان آبادی میں امراض قلب کی وجہ سے اموات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور آج کل روزانہ 30 سال سے کم عمر کئی افراد دل کے دورے کی وجہ سے اسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں، جب کہ 30 سے 40 سال کی عمر کے افراد میں دل کے دوروں اور امراض قلب کے سبب اموات میں تشویش ناک اضافہ ہو چکا ہے۔

    آغا خان اسپتال کے مطابق سالانہ 60 ہزار بچے دل کے امراض لیے پیدا ہوتے ہیں، جس میں 60 فی صد بچے غیر معیاری علاج کی وجہ سے اپنی پیدائش کے ابتدائی برسوں ہی میں ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

    ماہرین امراض قلب نوجوانوں میں دل کی بیماری میں اضافے کو جسمانی سرگرمیوں میں کمی، کھیلوں سے دوری، جسمانی محنت کی کمی اور ورزش نہ کرنا، موٹاپا، شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماریوں کا سبب بتاتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، تمباکو نوشی، ہائی کولیسٹرول، موٹاپا، غیر فعالیت، الکحل کا زیادہ استعمال، ذہنی دباؤ جیسے عوامل دل کی بیماریوں کے بڑے اسباب ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے، یہ اچھے کولیسٹرول کو کم کرتا ہے، خراب کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے اور شریانوں میں موجود خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے شریانوں میں خون جم جاتا ہے۔ نوجوان مریضوں میں دل کے دورے کی ایک اہم وجہ سگریٹ نوشی ہے۔

    ماہرین امرض قلب کے مطابق بہتر طرز زندگی اور مناسب خوراک دل کی بیماریوں سے دور رہنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ایک اور تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ماہرین امراضِ قلب کہتے ہیں کہ ملک کا موجودہ صحت کا نظام ملک کے ایک تہائی مریضوں کے علاج کی بھی سکت نہیں رکھتا، اس لیے پاکستان میں ہر گھنٹے میں 50 افراد دل کی بیماریوں کے سبب انتقال کر جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کا فوکس دل کی بیماریوں کا علاج نہیں بلکہ ان سے بچاؤ ہونا چاہیے۔

  • نوجوانوں میں امراض قلب اور اموات کی وجوہات کیا ہیں؟

    نوجوانوں میں امراض قلب اور اموات کی وجوہات کیا ہیں؟

    ہمارے معاشرے میں دل کے امراض کو بڑی عمر کے افراد سے منسوب سمجھا جاتا ہے لیکن اب معاملات بدلتے دکھائی دے رہے ہیں اور دل کے دورے کی شکایات نوجوانوں میں بھی پائی جارہی ہیں۔

    اس کی وجوہات اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے اے آر وائی نیوز باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر اینڈروکرونولوجی ڈاکٹر سید محمد حسن نے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے خاندانوں میں ذیابیطس، بلڈ پریشر اور امراض قلب موروثی ہوتے ہیں ایسے خاندانوں کو گھر کے تمام افراد کی اسکریننگ کروانی چاہیے۔

    ڈاکٹر سید محمد حسن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر نوجوان ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، موٹاپا اور تمباکو نوشی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے دل کے امراض میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    کون سے ٹیسٹ کرانے لازمی ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ 35 سے چالیس سال تک افراد کو کم از کم ایک بار بلڈ اور شوگر ٹیسٹ کروانا چاہیے، اس کے علاوہ کولیسٹرول چیک اور ای سی جی بھی کروائیں اور ساتھ ہی آنکھوں کا معائنہ بھی لازمی کروائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ حقیقت سے آنکھیں نہیں پھیرنی چاہیئں بہت سے ایسے خاموش امراض ہیں جن کا علم ٹیسٹ کرانے کے بعد ہی ہوتا ہے جس کے بعد اس پر قابو پانا آسان ہے۔

  • دل کے امراض نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    دل کے امراض نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    امراض قلب دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں، اور حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ 3 دہائیوں میں اس کی شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

    ورلڈ ہارٹ فیڈریشن نے دل کے امراض سے اموات کی شرح میں ہوشربا اضافہ رپورٹ کردیا، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ 30 برس میں دنیا بھر میں دل کے امراض سے اموات کی شرح 60 فیصد بڑھ گئی ہے۔

    ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1990 میں دل کی بیماریوں سے 1 کروڑ 21 لاکھ اموات ہوئی تھیں۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 2021 میں دنیا بھر میں امراض قلب سے 2 کروڑ 10 لاکھ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں

    رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی فی کس آمدنی والے ممالک میں دل کی بیماریوں سے اموات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

  • ای سگریٹ سے کون سی بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟ امریکا میں نئی تحقیق

    ای سگریٹ سے کون سی بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟ امریکا میں نئی تحقیق

    کینٹکی: امریکی یونیورسٹی لوئس ویل کے محققین نے کہا ہے کہ ای سگریٹ کے دھوئیں میں موجود ٹھوس ذرات (کیمکلز) سے دل کی دھڑکن بے ترتیبی کا شکار ہو سکتی ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع شدہ مقالے کے مطابق یہ تحقیق کرسٹینا لی براؤن انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ای سگریٹ کے کیمیکل والے دھوئیں سے جانوروں میں دل کی دھڑکن میں واضح بے قاعدگی پائی گئی۔

    اس تحقیقی مطالعے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ای سگریٹ میں موجود مائع ذرات کے اندر مخصوص کیمیکلز سے اگر واسطہ پڑے تو اس سے اریتھمیا (دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جانا) اور کارڈیک الیکٹریکل ڈسفنکشن (دل کی دھڑکنوں کو مربوط رکھنے والے برقی سگنلز کی خرابی) کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے مرکزی محقق، اور لوئس ویل یونیورسٹی میں فزیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر الیکس کارل نے بتایا کہ ہماری اس تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ ای سگریٹس میں جو ’ای لیکوئڈز‘ شامل ہیں، ان میں موجود کیمیائی مادوں کے ساتھ قلیل مدتی رابطہ بھی لوگوں کے دل کی دھڑکن کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ای سگریٹ، جس سے کچھ مخصوص فلیور یا سالوینٹ وہیکلز یعنی کیمیکلز کے ذرات کو منتقل کرنے والا دھواں خارج ہوتا ہے، یہ دل کے برقی ترسیل میں خلل ڈال سکتا ہے، اس ناقص سگنلگ کی وجہ سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔

    ای سگریٹ سے پیدا ہونے والے ان اثرات کی وجہ سے آرٹری (دل کی شریان) اور وینٹریکل (دل کا نچلا خانہ) متاثر ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے دو بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں؛ ایک، دل کی دھڑکن بہت تیز (ٹیکی کارڈیا) ہو جاتی ہے، اور دوم، دل کی دھڑکن بہت سست (بریڈی کارڈیا) یا بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے اچانک دل بند ہو سکتا ہے۔

  • یہ وٹامن آپ کو امراض قلب سے بچاتا ہے

    یہ وٹامن آپ کو امراض قلب سے بچاتا ہے

    ہر سال دنیا بھر سے 9.17 ملین افراد امراض قلب کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، مگر اس اہم وٹامن سے امراض قلب کا شکار ہونے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

    صحت مند زندگی کے لیے تمام وٹامن اور منرلز سے بھرپور غذا بے حد ضروری ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی امراض قلب کا باعث بن سکتی ہے۔

    وٹامن ڈی انسانی چربی میں حل پزیر ہونے والا وٹامن ہے جو غذا کے علاوہ دھوپ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام D3 اور D2 ہیں۔ وٹامن ڈی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما کے علاوہ مدافعتی نظام کو بہتر رکھتا ہے۔

    ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی شخص امراض قلب کا شکار ہے تو علاج سے قبل اس کا وٹامن ڈی لیول جان لینا چاہیے کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 32 فیصد اموات حیران کن طور پر وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں آسٹریلین سنٹر فار پریسجن ہیلتھ کی ڈائریکٹر پروفیسر ایلینا ہائپنن نے”میڈیکل نیوز ٹوڈے” کے پیش کردہ تجزیے کے نتائج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی بھی شخص میں وٹامن ڈی کی کمی بلڈ پریشر اور امراض قلب کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔

    تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 25 ہائیڈروکسی وٹامن ڈی سیرم عارضہ قلب کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ محققین نے یہ تجزیاتی اور تجرباتی طریقے 37 سال سے 73 سال کی عمر کے برطانوی شہریوں پر آزمائے۔

    اس تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی کے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا اور اسے سمجھنے کے لیے "میڈیکل نیوز ٹوڈے” نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا۔

    ماہرین کے مطابق دل کے امراض کے خطرات کا جائزہ لینے سے قبل جسم میں وٹامن ڈی کی درست مقدار کا معلوم ہونا ضروری ہے، لوگوں کو اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ وہ وٹامن ڈی کی کمی کے بارے میں جان سکیں۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • وہ عام عادتیں جو آپ کے دل کیلئے نقصان کا باعث ہیں

    وہ عام عادتیں جو آپ کے دل کیلئے نقصان کا باعث ہیں

    دل کی بیماریوں کی اہم وجوہات میں غیر صحت بخش خوراک، ورزش سے جی چرانا ،ذیا بطیس، ہائی بلڈ پریشر اور سگریٹ نوشی شامل ہیں اس کی علامات میں سینے میں شدید درد کی کیفیت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ درد پورے جسم تک پھیلنے لگتا ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران دل کی بیماریوں اور ہارٹ اٹیک سے ہونے والی اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جوانتہائی قابل تشویشناک بات ہے۔

    امراض قلب دنیا بھر میں اموات کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں جس کے دوران دل کے  پٹھوں، والو یا دھڑکن میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

    خون کی شریانوں میں مسائل جیسے ان کا اکڑنا، ناقص غذا، جسمانی سرگرمیوں سے دوری اور تمباکو نوشی کو امراض قلب کی عام وجوہات سمجھا جاتا ہے جبکہ ہائی بلڈ پریشر، انفیکشن وغیرہ بھی یہ خطرہ بڑھاتے ہیں۔ مگر ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو کہ چند بظاہر بے ضرر عادات بھی دل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔

      زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا

    کیا آپ ورزش کرتے ہیں؟ زبردست! مگر اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں تو یہ ضرور مسئلے کا باعث ہے۔ درحقیقت آپ کو پورا دن جسمانی طور پر متحرک رہ کر گزارنا چاہیے، چاہے کچھ وقت کی چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔

    اگر آپ ایسی ملازمت کرتے ہیں جس میں زیادہ وقت ڈیسک پر کام کرتے ہوئے گزرتا ہے تو ہر گھنٹے بعدمعمولی چہل قدمی خون کی گردش کو بڑھاتی ہے، چاہے آپ کمرے سے باہر نکل کر واپیس ہی کیوں نہ آئے یہ فائدہ ہوتا ہے۔

    اپنی عمر کو کم سمجھنا
    اپنے دل کو صحت مند رکھنے کے لیے درمیانی عمر کا انتظار مت کریں، ورزش، صحت بخش غذا، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کے نمبروں پر نظر رکھیں۔

    غذا کا خیال نہ رکھنا
    اگر سبزیاں کھانا مشکل لگتا ہے تو بہتر ہے کہ زیتون کے تیل، گریوں، پھل، اناج، مچھلی، انڈے وغیرہ کااستعمال دل کو صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ ان میں صحت کے لیے مفید چکنائی، فائبر اور غذائی اجزاء ہیں اور ان کا ذائقہ بھی بہترین ہوتا ہے۔

    اپنی صحت پر نظر نہ رکھنا
    کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ آپ کا کولیسٹرول لیول کیا ہے؟ بلڈ پریشر کیا ہے؟ کوئی اندازہ نہیں تو یہ خطرناک ہے۔یہ ایسے خاموش قاتل ہیں جو ہوسکتا ہے کہ جان لیوا حد تک زیادہ ہوں مگر آپ کو علم ہی نہ ہو، تو اپنا تحفظ کریں۔ 20سال کی عمر کے بعد سے ان دونوں کے ہر سال یا 2 سال بعد ٹیسٹ یقینی بنائیں۔

    کمر کی پیمائش نہ کرنا
    توند کی چربی دل کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے تو کمر کی پیمائش ہر چند ماہ کرنا عادت بنالیں۔ اگر خواتین کی کمر کا حجم 35 انچ جبکہ مردوں کا 40 انچ سے زیادہ ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔اس کے لیے چربی گھلانے کے لیے کام کریں، درحقیقت جسمانی وزن میں معمولی کمی بھی دل کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔

    مزاج پر توجہ نہ دینا
    جب آپ مایوسی محسوس کررہے ہوں تو ایسے کام کرنا مشکل ہوتا ہے جو آپ کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں جیسے  ورزش۔ اگر چند ہفتوں سے زیادہ یہ کیفیت طاری رہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں جن کے مشورے سے تھراپی، ورزش  اور ادویات (اگر ضرورت ہو تو) سے ذہنی صحت بہتر ہوسکتی ہے جس سے اپنا خیال رکھنے کے لیے توانائی بڑھتی ہے۔

    ارگرد لوگوں کے سگریٹ کا دھواں نظرانداز کرنا
    ویسے تو تمباکو نوشی بھی دل اور خون کی شریانوں کو نقصان پہنچاتی ہے، مگر ان کے ارگرد موجود افراد کو بھی اس کا دھواں نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    نیند کے دورانیے کا خیال نہ رکھنا
    ایک تحقیق کے دوران لوگوں کو 88 گھنٹے تک سونے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر اوپر گیا جو کہ کوئی زیادہ حیران کن امر نہیں تھا مگر جب ان افراد کو ہر رات صرف 4 گھنٹے تک سونے کی اجازت دی گئی تو دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ گئی جبکہ ایسے پروٹین کا ذخیرہ جسم میں ہونے لگا جو امراض قلب کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

  • کورونا سے صحتیاب مریضوں کا امراض قلب میں مبتلا ہونے انکشاف

    کورونا سے صحتیاب مریضوں کا امراض قلب میں مبتلا ہونے انکشاف

    نیو یارک : محققین نے دریافت کیا ہے کہ کوویڈ19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کو کئی ماہ بعد بھی دل کے مراض لاحق ہو سکتے ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

    کورونا وائرس سے جسمانی صحت پر طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے محققین کی جانب سے کئی ماہ سے خدشات سامنے آرہے ہیں، یہاں تک معتدل حد تک بیمار افراد کی جانب سے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک علامات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والا نقصان بیماری کے ابتدائی مراحل تک ہی محدود نہیں ہوتا۔

    محققین کے مطابق کورونا کو شکست دینے کے ایک سال بعد بھی ہارٹ فیلیئر اور جان لیوا بلڈ کلاٹس (خون جمنے یا لوتھڑے بننے) کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کوویڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد (ایسے مریض جن کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی) میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے۔

    امراض قلب اور فالج پہلے ہی دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات بننے والے امراض ہیں اور کوویڈ 19 کے مریضوں میں دل کی جان لیوا پیچیدگیوں کا خطرہ ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ کرسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ کوویڈ 19 کے مابعد اثرات واضح اور ٹھوس ہیں، حکومتوں اور طبی نظام کو لانگ کوویڈ کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاگنا ہوگا جس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کوویڈ کو شکست دینے کے بعد 12 ماہ کے دوران ہارٹ اٹیک، فالج یا دل کی شریانوں سے جڑے دیگر بڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں کووڈ سے متاثر ہونے والے ایک لاکھ 51 ہزار 195 سابق فوجیوں میں دل کی پیچیدگیوں کے ڈیٹا کا موازنہ 36 لاکھ ایسے افراد سے کیا گیا جو اس وبائی مرض کا شکار نہیں ہوئے تھے۔

    ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے بعد دریافت کیا گیا کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کوویڈ 19 کے ایسے مریض جو ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے ان میں بیماری کو شکست دینے کے ایک سال بعد ہارٹ فیلیئر کا خطرہ 39 فیصد اور جان لیوا بلڈ کلاٹ کا امکان دگنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کوویڈ کے ہر ایک ہزار مریضوں میں سے 5.8 کو ہارٹ فیلیئر اور 2.8 کو جان لیوا بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ وہ مریض ہیں جن میں بیماری کی شدت اتنی کم تھی کہ ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔

    اس کے مقابلے میں کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں میں کارڈک اریسٹ (اچانک حرکت قلب تھم جانے) کا خطرہ 5.8 گنا جبکہ دل کی پٹھوں کے ورم کا امکان لگ بھگ 14 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔

    کووڈ 19 کے ایسے مریض جو آئی سی یو میں زیرعلاج رہے ان میں سے لگ بھگ ہر 7 میں سے ایک کو بیماری کے بعد ایک سال کے اندر دل کی خطرناک پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    محققین ابھی تک کووڈ کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والے نقصان کی وجوہات مکمل طور پر جان نہیں سکے مگر ان کے خیال میں اس کی ممکنہ وجوہات میں وائرس کا براہ راست دل کے پٹھوں کے خلیات، خون کی شریانوں کے خلیات، بلڈ کلاٹس اور مسلسل ورم ہوسکتے ہیں۔

    محققین نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 کے بلا واسطہ اثرات بشمول سماجی طور پر الگ تھلگ ہونا، مالی مشکلات، غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں بھی دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے کا باعث ہیں۔

    انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق میں شامل افراد زیادہ تر مرد اور سفید فام تھے جس کے باعث نتائج کا اطلاق تمام گروپس پر فی الحال نہیں کیا جاسکتا، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔