Tag: heavy school bags

  • بچوں کو بھاری بستوں سے چھٹکارا مل گیا

    بچوں کو بھاری بستوں سے چھٹکارا مل گیا

    پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکول جانے والے بچے انتہائی وزنی بستے کمر پر اٹھائے نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر یقیناً سب کو ہی دکھ ہوتا ہے۔

    اسکولوں کے یہ بچے اپنی بساط سے کہیں زیادہ وزنی بستے نازک سی کمر پر اٹھا کر چلتے ہیں جو ان کی صحت اور نشونما کیلئے انتہائی تشویشناک اور نقصان دہ ہے۔

    خبر یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ’ون نوٹ بک پالیسی‘ متعارف کرائی گئی ہے، محکمہ تعلیم نے فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ و طالبات اپنے بستے میں ہوم ورک کے لیے ہر مضمون کی علیحدہ علیحدہ کاپیاں رکھنے کے بجائے صرف ایک عدد رجسٹر رکھیں گے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کشمیر کے وزیر تعلیم دیوان علی چغتائی نے بتایا کہ ایک رجسٹر کے استعمال سے جہاں بچوں کو اضافی بوجھ سے چھٹکارا ملے گا، وہیں والدین کو تعلیمی اخراجات میں بھی کافی آسانی میسر آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ سال سے کتابوں کی موٹائی کو کم کرکے اسمارٹ سلیبس متعارف کرایا جائے گا۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ون نوٹ بک پالیسی کو پہلے مرحلے میں پرائمری سطح پر لایا گیا ہے بعد ازاں اسے سکینڈری کلاسز میں بھی لاگو کریں گے۔

    علاوہ ازیں ماہرین صحت اس بات سے متفق ہیں کہ ضرورت سے زیادہ وزن اٹھانے سے بچوں کی جسمانی نشونما متاثر ہوتی ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے اور ذمہ داران اس حوالے سے مؤثر قانون سازی کریں اور بچوں کی جسمانی صحت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

  • بچوں کے نازک کاندھوں پر بھاری بستے کا حل نکل آیا

    بچوں کے نازک کاندھوں پر بھاری بستے کا حل نکل آیا

    آج کے جدید دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور سمٹ کر ایک موبائل فون میں سما گئی لیکن پھر بھی اسکول کے بچوں کے بیگز بے تحاشا بھاری ہوتے جارہے ہیں۔

    بعض اوقات تو یہ بیگز اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ اسے  اٹھا کر بچوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے، ان بھاری بیگز سے بچوں کے گھٹنے اور ریڑھ کی ہڈی  پر زور پڑتا ہے جن سے ان کی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کے اسکول بیگ میں وہی چیزیں ڈالیں جن کی اسکول کے اوقات کار کے دوران ان کو ضرورت پڑتی ہے۔

    اسکول کا بستہ کتنا بھاری ہونا چاہیے؟ - ایکسپریس اردو

    سیدتی کی رپورٹ کے مطابق یاد رکھیں کہ یہ بیگ تھوڑی دیر بعد کافی دیر کے لیے آپ کے بچے کی پیٹھ پر ہو گا اور آپ کی غلط منصوبہ بندی کا بوجھ اس کو اٹھانا پڑے گا۔

    بھولنا یہ بھی نہیں کہ بات صرف اضافی بوجھ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بچے کی سیکھنے کی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ رپورٹ میں تعلیمی گائیڈ شیما الشیخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کون سی چیزیں بیگ میں نہ ڈالیں۔ آپ کو بچے کی چیزوں کا احتیاط سے انتخاب کرنا چاہیے۔

    دھاتی اشیاء

    بازار میں کئی ایسی اشیا ملتی ہیں جو پلاسٹک یا لکڑی کی بھی ہوتی ہیں اور دھات کی بھی، جیسے پیمانہ وغیرہ، اس کے تیکھے کونوں سے بچے خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے خریداری کرتے وقت خیال رکھیں کہ ان کے لیے پلاسٹک یا لکڑی کی اشیا خریدیں۔

    پنکھوں والی اور دوسری آرائشی اشیاء

    ظاہری خوبصورتی رکھنے کے باوجود یہ چیزیں بچوں کے لیے مفید نہیں ہیں، خصوصاً چھوٹی کلاسز کے بچوں کے لیے، ممکن ہے کہ جب بچہ لکھنے کے لیے پن نکالے تو اس کے پنکھوں کی جانب متوجہ ہو جائے اور

    طالب علموں کے ناتواں کندھے اور بھاری بستوں کا بوجھ - ایکسپریس اردو

    لکھنے کا وقت ان سے کھیلنے یا پھر اکھاڑنے میں صرف کر دے۔ اس سے ایک تو بچے کا وقت ضائع ہو گا اور دوسرا اردگرد گندگی کا باعث بھی بنے گا اور بچے کی توجہ بھی بٹائے رکھے گا۔

    اسی طرح بچے کے لکھنے کی چیزیں ہلکی بھی ہونی چاہییں کیونکہ وزنی چیزوں سے بچے کے چھوٹے پٹھوں پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کو تھکن کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔

    کارٹون کرداروں کی شکل والی سٹیشنری

    ضروری بات یہ بھی ہے کہ آپ کو بچوں کے لیے کارٹون کرداروں کی شکل والی اسٹیشنری نہیں خریدنی چاہییں چاہے وہ کتنی ہی پرکشش نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلاس کو پلے کلاس میں بدل دے گی اور اس سے بچے کی توجہ بٹی رہے گی۔

    جس پر بچے کو استاد کی سرزنش کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بچے کو عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ دادا کے ساتھ کھیلنے اور پڑھائی کو الگ الگ دیکھے۔ آپ کو اس کے بیگ اچھے رنگوں والی اشیا ہی رکھی چاہییں۔

  • بچے کیسا بستہ اسکول لے کر جائیں گے؟ حکومت نے بتا دیا

    بچے کیسا بستہ اسکول لے کر جائیں گے؟ حکومت نے بتا دیا

    پشاور : خیبر پختونخوا اسمبلی نے بچوں کے اسکول بیگز کے وزن کی حد مقرر کردی، خلاف ورزی کرنے والے اسکول پرنسپلز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

    کے پی اسمبلی نے اسکول بیگز لیمی ٹیشن آف ویٹ بل2020 کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت بچوں کے اسکول بیگز کا وزن ان کی جماعت کے مطابق ہوگا۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکٹ کے تحت ہر کلاس کے لئے الگ الگ بیگ کے وزن کا تعین کیا گیا ہے، پہلی جماعت کے بچوں کے لئے بیگ کا وزن 2.4 کلوگرام ہوگا، اور جماعت دوئم کیلئے2.6 کلوگرام وزن مقرر کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ منثور شدہ بل کے مطابق تیسری جماعت کیلئے3 کلو گرام وزن مقرر جبکہ ہائی سیکنڈری کے طلبہ کے لئے بیگ کا وزن 7کلو گرام تک ہوگا۔

    بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول بیگ میں زائد وزن پر صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کے پرنسپلز کیخلاف سخت تادیبی کارروائی ہوگی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر2لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں منظور ہونے والے ٓمذکورہ بل کی مخالفت جے یو آئی (ف) کے رکن محمود بھٹنی کی جانب سے کی گئی تھی۔

  • بچوں کے بھاری اسکول بیگ سے متعلق قانون سازی کی جائے، پشاور ہائی کورٹ کا حکم

    بچوں کے بھاری اسکول بیگ سے متعلق قانون سازی کی جائے، پشاور ہائی کورٹ کا حکم

    پشاور : عدالت نے کے پی حکومت کو بچوں کے بھاری بستوں سے متعلق قانون سازی کیلئے چار ماہ کی مہلت دے دی، عدالت کا کہنا تھا کہ بھاری بستوں سے بچوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں جسٹس قیصر رشید کی سربراہی میں بھاری اسکول بیگز کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، دوران سماعت جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ بھاری بیگ اٹھانے سے بچوں کی صحت خراب ہورہی ہے، چھوٹے بچے بڑے بڑے بستے اٹھائے اسکول جاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ شعبہ تعلیم کےپی کی کارگردگی سے مطمئن نہیں ہیں لہٰذا کے پی حکومت بچوں کے بھاری بستوں کے حوالے سے جلد از جلد قانون سازی کرے، جس کیلئے چار ماہ کی مہلت دے رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس حوالے سے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کلینکل عباسی شہید اسپتال کا کہنا ہے کہ بھاری بیگ اٹھانے والے بچے مختلف تکالیف کاشکار ہوتے ہیں، انہیں گردن،ریڑھ کی ہڈی اور کندھے میں درد کی شکایات ہوسکتی ہیں۔

    انہوں نے گزشتہ سال  تمام اسکول پرنسپلز کو خط بھی لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ بھاری بھر کم بیگ بچوں کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھاری بھر کم بیگ بچوں کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے

    علاوہ ازیں عالمی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ بچوں کی صحت اولین ترجیح ہونی چایئے ،بھاری بیگ سے نہ صرف بچوں کا بدن متاثر ہوتا ہے بلکہ ان کا ذہن بھی بھاری ہوتا ہے اور نشوونما بھی رک جاتی ہے، جس کے باعث تعلیم پر بھی فرق پڑتا ہے۔

    صحت کے ماہرین کی جانب سے والدین کو مشورہ دیا گیا کہ بچے کے حساب سے بیگ بہت بڑا نہ ہو اور جب بھی بچے اسکول بیگ لٹکائیں تو اس بات کو یقینی بنائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو کیونکہ یہ سارے عوامل اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔

  • بھاری بھر کم بیگ بچوں  کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے

    بھاری بھر کم بیگ بچوں کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے

    کراچی : ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کلینکل عباسی شہید اسپتال کا کہنا ہے کہ بھاری بیگ اٹھانے والے بچے مختلف تکالیف کاشکار ہوتے ہیں، انھیں گردن ، ریڑھ کی ہڈی اور کندھے میں درد کی شکایات ہوسکتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کلینکل عباسی شہید اسپتال نے تمام اسکول پرنسپلز کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھاری بھر کم بیگ بچوں کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ بھاری بیگ اٹھانے والے بچے مختلف تکالیف کاشکار ہوتے ہیں، انھیں گردن،ریڑھ کی ہڈی اورکندھےمیں درد کی شکایات ہوسکتی ہیں۔

    ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ روزانہ کئی بچوں کو انہیں تکالیف کے باعث اسپتال لایا جاتا ہے، ایسی تکالیف کا شکار ہونے والے بچوں کو مستقبل میں پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    خط کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسکولز میں بچوں کے بیگ کا وزن بہت زیادہ ہے، درخواست ہے اسکول صرف ضروری کتب بیگ میں رکھوائیں، مخصوص کتابیں اور کاپیاں بیگ میں رکھنے سے وزن نارمل رہے گا۔

    دوسری جانب سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اقبال درانی کوبھی تحریری طور پرآگاہ کردیاگیا، جس میں محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ بچوں کے زیادہ وزنی بیگ کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے، شیڈول کے مطابق کلاسز کی ہی کتابیں منگوائی جائیں۔

    خط کے مطابق مختلف نظام تعلیم ہونے سے سب کا طریقہ تدریس الگ ہے، بھاری بھرکم بیگ کی ذمہ داری متعلقہ اسکولوں پر عائد ہوتی ہے۔

    محکمہ تعلیم نےبچوں کواعصابی دباوٴ سےبچانےکیلئےرائے طلب کرلی ہے۔

    عالمی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ بچوں کی صحت اولین ترجیح ہونی چایئے ،بھاری بیگ سے نہ صرف بچوں کا بدن متاثر ہوتا ہے بلکہ انکا ذہن بھی بھاری ہوتا ہے اور نشوونما بھی رک جاتی ہے، جس کے باعث تعلیم پر بھی فرق پڑتا ہے۔

    صحت کے ماہرین کی جانب سے والدین کو مشورہ دیا گیا کہ بچے کے حساب سے بیگ بہت بڑا نہ ہو اور جب بھی بچے اسکول بیگ لٹکائیں تو اس بات کو یقینی بنائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو کیونکہ یہ سارے عوامل اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔