Tag: heritage

  • کراچی کی مشہور ’پیتل گلی‘ کی رونقیں ماند کیوں پڑگئیں؟

    کراچی کی مشہور ’پیتل گلی‘ کی رونقیں ماند کیوں پڑگئیں؟

    کراچی کے علاقے گولیمار کی پیتل گلی ہنرمندی میں اپنی مثال آپ ہے، لیکن اب اس کی رونقیں آہستہ آہستہ ماند پڑتی جارہی ہیں۔

    ناظم آباد اور گرو مندر کے درمیان واقع یہ گلی پاکستان میں پیتل کے بہترین کام، برتن اور سجاوٹ کے ٹکڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    براس اسٹریٹ جسے مقامی طور پر پیتل گلی کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایک قدیم گلی ہے جو گولیمار کراچی میں واقع ہے، اس پیتل گلی میں گاہک کم ہوئے تو کاریگر بھی کام چھوڑتے چلے گئے۔

    پیتل گلی کے ماہر کاریگر صدیوں سے ثقافت، ورثہ اور فن کو کسی نہ کسی صورت میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    کہتے ہیں کہ شہر کی گلیاں اُس کے ماضی کی کتاب ہوتی ہیں، کراچی کی پیتل گلی بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے، یہاں موجود ایک کاریگر محمد عقیل پیتل پر اپنے ہنر اور محنت کے جوہر دکھاتے ہیں۔

    محمد عقیل جو گزشتہ20 سال سے اس روایت اور ہنر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مہنگائی نے اس کاروبار کی رونقیں ختم کردی ہیں, پہلے یہاں 25 کے قریب دکانیں تھیں اب چار پانچ رہ گئی ہیں۔

    مزید پڑھیں : مٹی کے برتن بنانے کا فن قصّہ پارینہ بنتا جارہا ہے

    مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد پیتل کا ایک برتن یا ڈیکوریشن پیس تیار ہوتا ہے، یہ ثقافتی گلیاں شہر کا ایک ورثہ ہیں جو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔

  • جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو۔۔ کلاں کوٹ میں بکھری تاریخ توجہ کی منتظر

    جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو۔۔ کلاں کوٹ میں بکھری تاریخ توجہ کی منتظر

    صوبہ سندھ کا شہر ٹھٹھہ ایک طویل وقت تک بادشاہوں کا شہر رہا اور اب بھی ان بادشاہوں کی آخری آرام گاہ ہے، یہاں ان بادشاہوں کی عظمت کے نشان کھنڈرات کی صورت میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔

    مکلی، جسے دنیا کی سب سے بڑی آرام گاہوں میں سے ایک کی حیثیت حاصل ہے، اپنے جنوب میں ایک اور تاریخی مقام رکھتا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آج ثقافتی ورثے کے عالمی دن کے موقع پر ہم آپ کو اسی مقام کی سیر کروا رہے ہیں۔

    ثقافتی ورثے کا عالمی دن ہر سال 18 اپریل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد قدیم تہذیبوں کی ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا اوراس کے بارے میں آگاہی و شعور اجاگر کرنا ہے۔

    کلاں کوٹ کا تاریخی قلعہ

    مکلی سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر حوادث زمانہ کا شکار کھنڈرات بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی ایک عظیم الشان قلعہ ہوا کرتا تھا جسے تاریخ میں کلاں کوٹ، کلیان کوٹ، تغلق آباد اور طغرل آباد کہا جاتا رہا۔ یہ کھنڈرات 30 سے 32 ایکڑ پر محیط ہیں۔

    اس قلعے کی تعمیر کب ہوئی، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، تاہم مؤرخین کی مقبول رائے کے مطابق اس کی تعمیر رائے خاندان کے دور میں ہوئی، یہ خاندان 489 عیسوی سے 632 عیسوی کے دوران سندھ میں حکمران رہا اور یہ گھرانہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔

    قلعے کے اندر موجود مسجد

    یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر سولہویں صدی میں ہوئی۔

    صوبہ سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت سے وابستہ آرکیالوجیکل انجینیئر سرفراز نواز بتاتے ہیں کہ جب یہ قلعہ آباد تھا تب اسے کشمیر سے تشبیہہ دی جاتی تھی، اس کے آس پاس کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا، قلعے کے ساتھ ایک سحر انگیز جھیل، ان کے کنارے درختوں کی لمبی قطاریں اور دور دور تک خوبصورت باغات، لیکن اب یہ سب قصہ ماضی بن چکا ہے۔

    اس وقت اس قلعے کی دیواریں ڈھے چکی ہیں، اگر آثار باقی ہیں تو صرف قلعے کے اندر موجود مسجد کے، تالابوں کے، اور قلعے سے باہر خوبصورت جھیل کے جو سرفراز نواز کے مطابق ایک منافع بخش ٹورسٹ اسپاٹ بن سکتی ہے۔ مغربی حصے میں ایک مسمار شدہ مندر کے آثار بھی موجود ہیں۔

    قلعے کے باہر جھیل

    قلعے کے اندر سرخ اینٹوں سے بنے 4 تالاب موجود ہیں جو مؤرخین کے مطابق دشمن کے حملے کو پیش نظر رکھ کر بنائے گئے تھے کہ قلعہ بند ہونا پڑے تو یہ تالاب اندر موجود افراد اور جانوروں کی پانی کی ضروریات پوری کرسکیں۔ ان تالابوں کے خالی گڑھے اب خودرو پودوں کا مسکن ہیں۔

    سرفراز نواز بتاتے ہیں کہ چونکہ پورا قلعہ تو تقریباً ڈھے چکا تھا البتہ مسجد کی دیواریں موجود لیکن خستہ حال تھیں چنانچہ محکمے کی زیر نگرانی اس پر کام کروایا گیا، دیواروں کے اندر پانی رس رہا تھا لہٰذا ان پر کوٹنگ کی گئی اور بنیادوں پر کام کیا گیا۔

    مسجد کے اندر منبر کے آثار بھی موجود ہیں جس پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔

    منبر

    سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ ٹھٹھہ میں نوٹیفائی کی گئی تمام تاریخی سائٹس جن میں قبرستان، قلعے اور مساجد وغیرہ شامل ہیں، انہیں کم از کم مرمتی ‘فرسٹ ایڈ’ دی جاچکی ہے جن میں کلاں کوٹ بھی شامل ہے۔

    محکمے کی جانب سے کلاں کوٹ میں نوٹس بورڈز اور ہسٹری بورڈز لگوائے گئے ہیں جبکہ اس سائٹ کو جیو ٹیگ بھی کیا گیا ہے، علاوہ ازیں کلاں کوٹ کی طرف جانے والا راستہ جو نہایت خستہ حال تھا، اسے بھی خاصی حد تک بنوایا گیا ہے۔

    قلعے کے باہر مغربی حصے میں ایک مندر کے بھی کھنڈرات موجود ہیں، سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ غالباً کسی زلزلے کی وجہ سے ایک ٹوٹی پھوٹی دیوار کے علاوہ پورا مندر ڈھے چکا ہے، اب بھی ہندو عقیدت مند یہاں حاضری دیتے ہیں جس کا ثبوت پتھروں پر جابجا لگا سرخ سندور ہے۔

    مندر کی واحد مخدوش دیوار

    سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ لوک داستانوں کے مطابق کلاں کوٹ میں ایک سانپ کا بسیرا ہے جو کسی خزانے کی حفاظت پر معمور ہے، ’لیکن اصل خزانہ تو یہ تمام کھنڈرات خود ہیں جنہیں کسی قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال کر رکھا جانا چاہیئے اور اگلی نسلوں تک اس کی عظمت و اہمیت پہنچانی چاہیئے‘۔

  • کیا آپ نے پاکستان کے ان خوبصورت تاریخی مقامات کی سیر کی ہے؟

    کیا آپ نے پاکستان کے ان خوبصورت تاریخی مقامات کی سیر کی ہے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد قدیم تہذیبوں کی ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا اوراس کے بارے میں آگاہی و شعور اجاگر کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی جانب سے مرتب کی جانے والی عالمی ورثے کی فہرست میں پاکستان کے 6 مقامات بھی شامل ہیں۔ یہ مقامات تاریخی و سیاحتی لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

    آئیں آج ان مقامات کی سیر کرتے ہیں۔

    موہن جو دڑو

    پاکستان کے صوبے سندھ میں موجود ساڑھے 6 ہزار سال قدیم آثار قدیمہ موہن جو دڑو کو اقوام متحدہ نے عالمی ورثے میں شامل کیا ہے۔ ان آثار کو سنہ 1921 میں دریافت کیا گیا۔

    ٹیکسلا

    صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا گندھارا دور میں بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

    تخت بائی کے کھنڈرات

    تخت بھائی (تخت بائی یا تخت بہائی) پشاور سے تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر بدھ تہذیب کی کھنڈرات پر مشتمل مقام ہے اور یہ اندازاً ایک صدی قبل مسیح سے موجود ہے۔

    شاہی قلعہ ۔ شالامار باغ لاہور

    صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقعہ شاہی قلعہ، جسے قلعہ لاہور بھی کہا جاتا ہے مغل بادشاہ اکبر کے دور کا تعمیر کردہ ہے۔

    شالامار باغ ایک اور مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر کروایا۔ شاہجہاں نے اپنے دور میں بے شمار خوبصورت عمارات تعمیر کروائی تھیں جن میں سے ایک تاج محل بھی ہے جو اس کی محبوب بیوی ممتاز محل کا مقبرہ ہے۔

    مکلی قبرستان

    صوبہ سندھ کے قریب ٹھٹھہ کے قریب واقع ایک چھوٹا سا علاقہ مکلی اپنے تاریخی قبرستان کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    اس قبرستان میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ان قبروں پر نہایت خوبصورت کندہ کاری اور نقش نگاری کی گئی ہے۔

    قلعہ روہتاس

    صوبہ پنجاب میں جہلم کے قریب پوٹھو ہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ جنگی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

  • سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    ریاض : سعودی عرب کے تاریخی گاؤں الدرع میں قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال قبل مسیح کے کھنڈرات موجود ہیں جس کے باعث اسے عالمی ورثے میں شامل کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی سعودی عرب کے علاقے الجوف میں دوم الجند کا ایک تاریخی گاﺅں الدرع اپنے تاریخی آثار قدیمہ اور قدرتی حسن کی بدولت عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باغوں اور چشموں سے بھرپور الدرع گاﺅں کو اقوام متحدہ کی سائنسی وثقافتی تنظیم یونیسکو میں شامل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ الدرع میں موجود آثار قدیمہ میں اسلام کے قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سول قبل مسیح کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔

    لہلہاتے کھیتوں اور میٹھے پانی کے چشموں کی وجہ سے مشہور الدرع گاﺅں میں پتھر کے دور کی بنی عمارتیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالونی کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا جا رہا ہے۔

    اہل نظر کے لیے الدرع کا علاقہ کسی تاریخی فن پارے سے کم نہیں۔ اس میں ایک ہی وقت پرانے اسلامی اور عرب ادوار کے فن تعمیر کے نمونے اور قبل مسیح کی تہذیبی یادگاریں موجودہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس گاﺅں کے تاریخی آثار کی تلاش کے لیے سعودی عرب اور اٹلی کی ایک مشترکہ ٹیم نے 2009ءسے 2016ءتک یہاں پر کھدائیاں کیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق الدرع میں موجود مسجد عمر بن خطاب 17ھ میں تعمیر کی گئی، تاریخی قلعہ مارد اس علاقے کا لینڈ مارک ہے، پتھروں سے تیار کردہ پرانے دور کے مکانات سیاحوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔

  • ابوظبی میں باز کے علاج کےلئے دنیا کا سب سے بڑا اسپتال قائم

    ابوظبی میں باز کے علاج کےلئے دنیا کا سب سے بڑا اسپتال قائم

    ابو ظبی : عرب شیوخ کے محبوب اور مہنگے ترین شکاری پرندوں (باز) کے علاج کے لیے ابو ظبی  میں دنیا کا سب سے بڑا ہسپتال قائم کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں جانوروں کے لیے بھی خصوصی اسپتال قائم کیے گئے ہیں، دارالحکومت ابوظبی میں عرب شیوخ نے اپنے محبوب ترین پرندے باز کی دیکھ بھال و بہتر نگداشت کےلیے دنیا کا سب سے بڑا اسپتال قائم کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ گذشتہ 25 سال سے ان شکاری پرندوں بازوں کا علاج کرنے والے جرمن معالج اور ہسپتال کے ڈائریکٹر مارگیٹ ملر نے بتایا کہ شکاری پرندے (باز) ان کے بچے ہیں اور وہ ان کے لیے کچھ بہترین چاہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ان شکاری پرندوں کو رات میں حادثہ پیش آجاتا ہے تو ان کے عرب مالکان کئی گھنٹوں تک ان کے پاس بیٹھ کر گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔

    خیال رہے کہ یہ شکاری پرندے عربوں کے لیے پالتوں جانوروں سے زیادہ اور انہیں پالنے کا مشغلہ ایک کھیل سے بھی زیادہ ہے۔

    واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب قابل ذکر ہیں، میں بازوں کا پالنا ان کے صحرائی ورثے کا حصہ ہے، جس پر کئی ہزار سالوں سے عمل ہورہا ہے۔

    اسپتال کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ بدّو (صحرا میں رہنے والے عربوں کو اس نام سے پکارا جاتا ہے) ان شکاری پرندوں سے گوشت کے حصول کے لیے شکار کرواتے ہیں اور یہ ان بدّووں کے خاندانوں کی بقا کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پرندے خاندان کے بچوں کی طرح تصور کیے جاتے ہیں اور ایسا آج بھی ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ پرندے، اپنی تیز ترین پرواز 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد کی وجہ سے اکثر کسی مقام سے ٹکرانے یا زمین پر اترنے کے باعث حادثات کا شکار ہوکر زخمی ہوجاتے ہیں جبکہ ان کی بیماری کی ایک اور وجہ متاثرہ گوشت کا استعمال بھی ہے۔

    دبئی : چارکروڑ درہم کی لاگت سے دنیا کا پہلا اونٹوں کا اسپتال قائم

    یاد رہے کہ اس سے قبل  اماراتی حکام کی جانب سے متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں چار کروڑ درہم کی لاگت سے اونٹوں کا اسپتال قائم کیا گیا تھا، جو پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اسپتال ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسپتال میں 20 اونٹوں کا بیک وقت علاج کیا جاسکتا ہے جبکہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ استپال میں 35 اونٹوں کا بیک وقت علاج کیا جاسکے جس کےلیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔