Tag: Higher Risk

  • برین اسٹروک کب، کیوں اور کسے ہوتا ہے؟

    برین اسٹروک کب، کیوں اور کسے ہوتا ہے؟

    برین اسٹروک کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے لیکن اکثر ادھیڑ عمر اور بوڑھے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یہ ایک سنگین طبی حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب دماغ کو خون کی فراہمی منقطع ہوجاتی ہے۔

    برین اسٹروک کی وجہ سے دماغ کے ٹشوز کو آکسیجن اور غذائی اجزاء نہیں مل پاتے اور اس کی وجہ سے دماغی خلیات مر جاتے ہیں۔

    اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ حالت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے یا مستقل معذوری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ برین اسٹروک کا خطرہ مردوں اور عورتوں میں مختلف ہوتا ہے؟

    ایک رپورٹ کے مطابق بدلتے ہوئے طرز زندگی، تناؤ اور ناقص خوراک کی وجہ سے فالج کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ مردوں کے مقابلے خواتین کو برین اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جی ہاں !! بہت سے مطالعات اور طبی رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کو نہ صرف فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے بلکہ ان میں دیگر پیچیدگیوں کا بھی زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    قدیم زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور ہائی بلڈ پریشر جیسی عادات کی وجہ سے مردوں کو فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کے ساتھ خواتین کو بھی ان عوامل کی وجہ سے مساوی خطرہ لاحق ہے، تاہم ان وجوہات کی وجہ سے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خواتین میں فالج کا خطرہ عمر کے ساتھ تیزی سے بڑھتا ہے خاص طور پر ماہواری کے بعد حمل کے دوران ہارمونل تبدیلیاں، مانع حمل گولیاں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر حالات فالج کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    اس کے علاوہ خواتین میں ڈپریشن، درد شقیقہ اور تناؤ جیسی ذہنی کیفیات کا زیادہ امکان ہوتا ہے جو کہ فالج کے خطرے والے عوامل میں شامل ہیں۔

    برین اسٹروک کی علامات میں ذہنی الجھن، کچھ بھی بولنے اور سمجھنے میں دشواری، سر میں شدید درد،
    چہرے، بازو، ٹانگ کے کچھ حصوں میں بے حسی خاص طور پر جسم کا ایک حصہ سُن ہوجانا اور چکر آنا شامل ہے۔

    احتیاط اور علاج :

    اگر بروقت علاج کیا جائے تو برین اسٹروک سے بچا جا سکتا ہے تاہم علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر منٹ کی تاخیر دماغ کے لاکھوں خلیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    فالج سے بچنے کے لیے ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا ضروری ہے، صحت مند غذا برقرار رکھنا، روزانہ ورزش کرنا، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔ خواتین کو خاص طور پر حمل اور ماہواری کے دوران اپنی ہارمونل تبدیلیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے معمر افراد کو اس بیماری سے شدید خطرہ رہا ہے، اب ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ دریافت کرلیا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ان خلیاتی اور مالیکیولر سرگرمیوں کی وضاحت کی گئی جن کے باعث معمر افراد میں کووڈ 19 لاحق ہونے اور اس سے سنگین طور پر بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایک پروٹین کی سطح میں عمر بڑھنے اور دائمی امراض میں مبتلا ہونے پر اضافہ ہوتا ہے، اس پروٹین کی سطح جتنی زیادہ ہوتی ہے ان میں کووڈ سے متاثر ہونے اور سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے نہ صرف کرونا وائرس کے پیچیدہ میکنزمز کے جواب ملے ہیں بلکہ اس سے وائرل انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے علاج کی تشکیل میں مدد بھی مل سکے گی۔

    تحقیقی ٹیم کی جانب سے انزائمے اور انزائم جیسے مالیکیولز اور اس جیسے پروٹینز پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ٹیم کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کافی عرصے سے اس جین فیملی پر تحقیق کر رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ متعدد حیاتیاتی اثرات مرتب کرتا ہے، یہ صحت اور امراض کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس پروٹین کی سطح انفیکشن کے دوران بڑھ جاتی ہے بالخصوص ایسے امراض کے دوران جو ورم اور ٹشوز میں تبدیلیاں لاتے ہیں، یہ سب کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھی قدرتی طور پر اس پروٹین کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث ان میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ پروٹین ایس 2 ریسیپٹر کو بھی متحرک کرتا ہے جس کو کرونا وائرس خلیوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    اس دریافت کے بعد ماہرین نے ایک مونوکلونل اینٹی باڈی ایف آر جی کو تیار کیا جو مخصوص حصے میں اس پروٹین کو ہدف بناتی۔ ماہرین کے مطابق یہ اینٹی باڈی اور ایک مالیکیول ایس 2 ریسیپٹر کو بلاک کرنے میں مؤثر ثابت ہوئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس طرح وائرس میزبان کے نظام میں داخل نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں بیماری کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ اب یہ تحقیقی ٹیم یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اینٹی باڈیز اور مالیکیولز کرونا وائرس کی مختلف اقسام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔