Tag: HIV

  • دنیائے صحت کی بڑی خبر: پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئیں

    دنیائے صحت کی بڑی خبر: پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئیں

    شکاگو: اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد دنیا کی پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محققین کی جانب سے اسٹیم سیل کا نیا طریقہ استعمال کرنے کے بعد ایک خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہونے والی تیسری شخصیت بن گئی۔

    محققین نے منگل کو رپورٹ کیا کہ مخلوط نسل کی درمیانی عمر کی امریکی خاتون، جو لیوکیمیا (خون کے کینسر) میں مبتلا تھیں، کو ایک ڈونر سے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ملنے کے بعد، ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں، وہ دنیا کی پہلی خاتون اور اب تک کی تیسری شخصیت ہیں، جنھیں ایچ آئی وی سے نجات مل گئی ہے۔

    اسٹیم سیل عطیہ کرنے والے ڈونر کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے اندر قدرتی طور پر ایڈز کا سبب بننے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت موجود تھی۔

    خاتون میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص 2013 میں ہوئی تھی، اس سے قبل ٹموتھی رے براؤن اور ایڈم کاسٹیلیجو نامی دو مرد بھی بون میرو یا بالغ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    خاتون کو خون کے سرطان کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی، اور انھیں کینسر کے علاج میں مدد کے لیے آنول نال کا خون بھی دیا گیا تھا۔ آنول نال کا خون ایک ایسے ڈونر کا تھا جس کا خون جزوی طور پر ہی میچ ہو رہا تھا، اس خاتون کو ایک رشتہ دار کا بھی خون چڑھایا گیا تھا، تاکہ ان کے جسم کو ٹرانسپلانٹ کے عمل کے دوران "عارضی مدافعتی دفاع” حاصل ہو۔

    خاتون کو جب سے شدید مائیولائیڈ لیوکیمیا (ہڈی کے گودے میں خون بنانے والے خلیات میں بننے والا کینسر) کے علاج کے لیے آنول نال کا خون دیا گیا تھا، تب سے (14 ماہ) وہ ایچ آئی وی وائرس سے نجات پا چکی ہیں، اور انھیں اینٹی ریٹرو وائرل علاج کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔

    دوسری طرف دونوں مرد، جو ایچ آئی وی سے ٹھیک ہونے والے پہلے دو مریض تھے، وائرس کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے گزارے گئے تھے، جب کہ خاتون کا کیس ایچ آئی وی کے خلاف جنگ میں ایک نئے طریقے کی نشان دہی کرتا ہے۔

    براؤن اور کاسٹیلیجو دونوں نے ایسے ڈونرز سے بون میرو ٹرانسپلانٹ حاصل کیے تھے، جن کے گودے میں ایچ آئی وی کو روکنے والی میوٹیشن موجود تھی، اس قسم کی میوٹیشن نایاب ہے اور اکثر شمالی یورپی نسل کے ڈونرز ہی میں پائی جاتی ہے۔

    اگرچہ بون میرو ٹرانسپلانٹ دونوں کیسز میں کامیاب ثابت ہوا تھا، لیکن اس کے مضمرات بھی ہوتے ہیں، جیسا کہ براؤن تقریباً اس طریقہ کار کے بعد موت کے منہ میں پہنچ گیا تھا، اور کاسٹیلیجو کا وزن شدید طور پر کم ہو گیا تھا، سماعت میں کمی پیدا ہوئی اور انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑا۔

    جب کہ اسٹیم سیلز کے ذریعے ٹھیک ہونے والی خاتون 17 دن بعد ہی اسپتال سے ڈسچارج ہو گئی تھیں، خاتون کے اندر اُس قسم کی بیماری بھی ظاہر نہیں ہوئی جسے graft versus host disease (GvHD) کہا جاتا ہے، اس میں عطیہ شدہ خلیات جسم کو غیر سمجھ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور تباہی مچاتے ہیں، دونوں مرد اس کا شکار ہوئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق خاتون نے 2017 میں اپنا ٹرانسپلانٹ کروایا تھا، اور 3 سال بعد ایچ آئی وی کی دوا لینا چھوڑ دی۔ واضح رہے کہ یہ خاتون امریکا میں ایچ آئی وی کے 25 مثبت مریضوں میں سے ایک تھیں، جن کا ٹرانسپلانٹ ہو چکا ہے اور جن کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

    یہ پچیس افراد وہ ہیں جنھیں ایچ آئی وی وائرس کے ساتھ ساتھ کینسر اور اسی طرح کی دیگر سنگین بیماریاں لاحق ہیں، جن کے علاج کے لیے انھیں آنول نال کے خون سے لیے گئے اسٹیم سیلز ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہیں۔

    یہ مریض علاج کے لیے سب سے پہلے کیموتھراپی سے گزرتے ہیں تاکہ کینسرزدہ مدافعتی خلیات کو ختم کیا جا سکے، اس کے بعد ڈاکٹر ان میں ایک مخصوص جینیاتی تغیر کے حامل افراد سے اسٹیم سیلز لے کر پیوند کاری کرتے ہیں، اس جینیاتی تغیر (جینیٹک میوٹیشن) کی وجہ سے ان ڈونرز میں اُن ریسپٹرز کی کمی ہوتی ہے، جنھیں وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ افراد پھر ایچ آئی وی کے خلاف مدافعتی نظام تیار کرتے ہیں۔ خاتون کا کیس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈاکٹر یوون برائسن اور جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیبورا پرساؤڈ کی سربراہی میں ہونے والی بڑی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔

  • ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    مغربی یورپی ملک نیدر لینڈز یا ہالینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کئی دہائیوں سے ایچ آئی وی کی ایک متعدی قسم پھیل رہی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے یورپ میں ایچ آئی وی وائرس پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیدر لینڈز میں مہلک وائرس کی ایک متعددی قسم کئی دہائیاں قبل ہی پھیلنا شروع ہوئی۔

    ماہرین نے مختلف یورپی ممالک کے ایچ آئی وی وائرس کے شکار مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 17 ایسے کیسز ملے جو کہ باقی ایچ آئی وی مریضوں سے مختلف تھے۔

    مذکورہ 17 میں سے دو مریضوں کا تعلق یورپ کے مختلف ممالک سے تھا جبکہ بقیہ 15 مریض نیدر لینڈز کے تھے اور ان میں ایچ آئی وی کی ایک ہی قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔

    سائنس دانوں نے بعد ازاں نیدر لینڈز کے تمام ایچ آئی وی مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 109 مریض ایسے ملے جو ایک ہی طرح کے متعددی وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

    ماہرین کو معلوم ہوا کہ 109 افراد 1990 سے سال 2000 کے درمیان ایچ آئی وی کی امریکا اور یورپ میں پائی جانے والی عام قسم بی کی ذیلی قسم جسے سائنسدانوں نے وی بی کا نام دیا ہے، سے متاثر ہوئے۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی کی مذکورہ قسم سے متاثر ہونے والے افراد کا مدافعتی نظام دیگر اقسام کے مقابلے زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے، تاہم ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ قسم کا ایچ آئی وی کا عام ادویات سے بھی علاج ممکن ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ نیدر لینڈز میں دریافت ہونے والی ایچ آئی وی کی نئی قسم 2010 کے بعد کم متعدی ہونا شروع ہوئی اور اب وہ پہلے جیسی خطرناک نہیں رہی۔

    سائنسدانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایچ آئی وی کی نئی قسم کا دریافت ہونا خطرے کی بات نہیں، دنیا بھر میں مذکورہ مرض کی بھی کئی قسمیں ہیں اور ہر خطے میں الگ قسم پائی جاتی ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی بار ایچ آئی وی جسے (ہیومن امیونیو ڈیفی شنسی وائرس) کہتے ہیں، اسے 1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی مذکورہ وائرس دنیا میں موجود تھا مگر میڈیکل سائنس کے فقدان کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔

    مذکورہ وائرس خطرناک موذی مرض ایڈز یعنی (اکوائرڈ امیونٹی ڈیفی شنسی سنڈروم) کا سبب بنتا ہے، جس میں 10 سال کے اندر ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عام طور پر ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد ادویات سے مریض کا وائرس ایڈز میں تبدیل نہیں ہوتا، تاہم بعض اوقات احتیاط نہ کرنے اور مکمل علاج نہ کروانے پر ایچ آئی وی کا مریض ایڈز کا شکار بن جاتا ہے۔

    ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کو عام طور پر لوگ ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں، تاہم حقیقت میں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونا ایڈز کا مریض بن جانا نہیں ہوتا۔

  • ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت

    ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت

    طبی محققین نے ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے ماں کے خون میں موجود ایچ آئی وی (ایڈز) کے وسیع پیمانے پر اسٹرینز کو بلاک کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    نئی ریسرچ نے نوزائیدہ بچوں میں ایچ آئی وی (human immunodeficiency virus) کی منتقلی کو روکنا ممکن بنا دیا ہے، محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس کی مدد سے ماں کے خون میں وائرس کے اسٹرینز کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ تحیقی ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایچ آئی وی انفیکشن ماں کے رحم میں کچھ بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور کچھ میں نہیں ہوتی، تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ویل کورنیل میڈیسن اینڈ ڈیوک یونی ورسٹی کی ٹیم نے اس سوال کے جواب کی تلاش میں نوزائیدہ بچے میں وائرس کی منتقلی کی روک تھام کا طریقہ معلوم کر لیا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا ممکنہ طریقہ کار ہے جس کی مدد سے یہ پیش گوئی ممکن ہے کہ ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایچ آئی وی کی منتقلی ہوگی یا نہیں۔

    محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اہم نکتے کی نشان دہی بھی ہوئی ہے کہ وائرس کی اس منتقلی کو کس طرح روکا جا سکے گا۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو ماں سے دوران حمل، وضع حمل، یا دودھ پلانے کے دوران ایچ آئی وی کی منتقلی کو ’ماں سے بچے کو منتقلی‘ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی علاج کی عدم موجودگی میں اس منتقلی کی شرح 15 سے 45 فی صد تک ہوتی ہے، اگر دوران حمل یا وضع حمل اور دودھ پلانے کے دوران مؤثر علاج ہو تو یہ شرح 5 فی صد تک بھی کم ہو سکتی ہے۔

  • امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    واشنگٹن : سائنسدانوں نے پہلی بار ادویات اور جین ایدیٹنگ کی مدد سے لیبارٹری کے چوہے کے پورے جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی سے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس 2 نکاتی طریقہ کار کی مدد سے اس لاعلاج مرض کے شکار انسانوں کے لیے پہلی بار علاج تشکیل دیا جائے گا اور انسانوں پر اس کی آزمائش اگلے سال سے شروع ہوگی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اب تک صرف 2 افراد کے ایچ آئی وی کا علاج ہوسکتا ہے جو کہ دونوں بلڈ کینسر کا شکار تھے اور ایک خطرنک بون میرو ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزر کر دونوں بیماریوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔مگر یہ طریقہ کار ہر ایک پر کام نہیں کرتا بلکہ کچھ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض ایچ آئی وی اور کینسر دونوں بیماریوں کا شکار ہوں۔

    امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کے ماہرین نے ایچ آئی وی سے نجات دلانے والے نئے طریقہ کار کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی جو کہ 5 سال سے اس پر کام کررہے تھے۔

    اس طریقہ کار میں انہوں نے آہستی سے اثر کرنے والی ادویات اور جین ایڈیٹنگ کرسپر کاس 9 کا استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں لیبارٹری کے ایک تہائی چوہوں کے مکمل جینوم سے ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس کامیابی پر ہمیں یقین ہی نہیں آیا، پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ اتفاق ہے یا گرافس میں کوئی گڑبڑ ہے، مگر کئی بار اس عمل کو دہرانے کے بعد ہمیں یقین آیا ہے کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ طبی جریدوں نے بھی ہم پر یقین نہیں کیا اور کئی بار ہمارے مقالے کو مسترد کیا گیا اور ہم بڑی مشکل سے یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ایچ آئی وی کا علاج اب ممکن ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے نجات اس لیے لگ بھگ ناممکن ہوتی ہے کیونکہ یہ وائرس جینوم کو متاثر کرتا ہے اور خود کو خفیہ مقامات پر چھپا کر کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھالیتا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ویسے اس وقت ایسی انتہائی موثر ادویات موجود ہیں جو اس وائرس کو دبا دیتی ہیں اور مریض میں یہ وائرس ایڈز کی شکل اختیار نہیں کرپاتا جس سے صحت مند اور لمبی زندگی گزارنا ممکن ہوجاتی ہے، تاہم یہ ادویات ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

    اب محققین اس نئے طریقہ کار کو بندروں پر آزمائیں گے اور توقع ہے کہ اگلے سال موسم گرما میں انسانوں پر اس کا ٹیسٹ شروع ہوگا۔محققین کا کہنا تھا کہ ابھی اسے مکمل علاج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی کا مکمل علاج ممکن ہے۔

  • پاکستان میں ایک لاکھ 32 ہزار افراد ایڈز کا شکار، سروے رپورٹ

    پاکستان میں ایک لاکھ 32 ہزار افراد ایڈز کا شکار، سروے رپورٹ

    اسلام آباد : پانچویں قومی ایچ آئی وی ایڈز سروے رپورٹ جاری کر دی گئی، جس کے مطابق ملک میں ایک لاکھ 32 ہزار افراد ایچ آئی وی ایڈز کا شکار پائے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ تقریب رونمائی میں عالمی امدادی اداروں یو این ایڈز اورڈبلیو ایچ او کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ سربراہ قومی انسداد ایڈز پروگرام ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے پارٹنرز کے ہمراہ سروے رپورٹ جاری کی۔

    چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل قومی ایڈز سروے رپورٹ کے زریعے ملک میں چار مخصوص گروہ میں ایڈز شرح کی جانچ کی گئی ہے۔

    رپورٹ مندرجات کے مطابق خواجہ سراء،جسم فروش مرد اور خواتین سمیت سرنج کے زریعے نشہ کرنے والے افراد کو قومی ایڈز سروے کا حصہ بنایا گیا ہے، نتائج کے مطابق ملک میں سرنج سے نشہ کرنے والے 38.4فیصد افراد میں ایڈز کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ جسم فروشی سے وابستہ 2.2فیصدخواتین جبکہ جسم فروشی کے شعبے سے وابستہ 12.5فیصد مردوں میں ایڈز پایا گیا ہے ۔

    رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران 14.6فیصد خواجہ سراؤں میں ایچ آئی وی ایڈز کی تصدیق ہوئی ہے۔


    مزید پڑھیں : پاکستان میں ایڈز کا تشویشناک پھیلاؤ


    ایڈز سروے کاا نعقاد ملک کے 23 بڑے و صنعتی شہروں میں کیا گیا تھا، ملک بھر سے 8606مقامات کو قومی ایڈز سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔

    سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 60 ہزار تک جا پہنچی جبکہ دوسرے نمبر پر سندھ ہے ، جہاں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 52 ہزار ہوگئی ہے، بلوچستان میں 3 ہزار اور خیبرپختونخوا میں 11 ہزار افراد ایچ آئی وی ایڈز کا شکار پائے گئے۔

    مارچ2016 سے دسمبر2016 تک جاری رہنے والے قومی ایڈز سروے کیلئے عالمی امدادی ادارے گلوبل فنڈ نے ایک ملین ڈالر کے فنڈز فراہم کئے تھے جبکہ رپورٹ کی تکمیل کیلئے یو این ایڈز،ڈبلیو ایچ او سمیت گلوبل فنڈ کا تعاون حاصل رہا ۔

    قومی ایڈز سروے میں پنجاب کے 13،سندھ کے6 شہر شامل کئے گئے تھے، بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے دو،دو شہر قومی ایڈز سروے کا حصہ تھے۔

    تقریب سے خطاب میں قومی انسداد ایڈز پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر عبدالبصیر اچکزئی کا کہنا تھا کہ قومی ایڈز سروے ملک میں جان لیوا بیماری کی وسیع پیمانے پر تشخیص اور علاج کے لئے مدد گار ثابت ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے چنیوٹ میں ایڈز کا بدترین پھیلاؤ

    عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے چنیوٹ میں ایڈز کا بدترین پھیلاؤ

    لاہور: صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں ایڈز کے مزید 2 کیس سامنے آگئے جس کے بعد صرف چنیوٹ میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 57 ہوگئی۔ اب تک 17 افراد ایڈز کے مرض سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کے باعث مرض گاؤں سے شہر کی طرف بھی پھیلنے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق چنیوٹ کے علاقہ چک نمبر127 بھٹی والا میں ڈھائی ماہ قبل محکمہ صحت کی طرف سے ہیپاٹائٹس کا کیمپ لگایا گیا تو وہاں 70 افراد کے ٹیسٹوں میں سے 42 میں ایچ آئی وی کا رزلٹ مثبت آیا جس کے بعد ضلعی حکومت سمیت صوبائی حکومت بھی حرکت میں آگئی۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں ایڈز کا تشویشناک پھیلاؤ

    مذکورہ مقام پر مختلف کیمپ لگاتے ہوئے ان افراد کے خون کے نمونے پی سی آر کے لیے لاہور بھجوائے گئے جس کی رپورٹ تاحال ضلعی آفیسرز تک نہیں پہنچائی گئی تاہم محکمہ صحت کی طرف سے وہاں ادویات اور بچاؤ کے طریقوں سے متعلق پمفلٹ تقسیم کردیے گئے۔

    ایڈز کے پھیلاؤ کے خوف سے وہاں مریضوں سمیت دیگر لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔ علاقہ میں موجود طالبات کا اسکول تعداد کم ہوجانے کے باعث بچوں کے اسکول میں ضم کردیا گیا ہے۔

    ایڈز کے مریضوں میں 5 سال کی بچی سے 80 سال کی خاتون تک کے افراد شامل ہیں۔

    اہل علاقہ کے مطابق جاوید نامی ایک شخص دبئی سے 10 سال قبل بیماری کی وجہ سے واپس آیا اور دو ماہ بعد واپس جانے لگا تو ایئرپورٹ سے اسے بیماری کی وجہ سے واپس بھیج دیا گیا۔ 6 ماہ بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ جاوید نامی اس شخص نے علاقہ کے عطائی ڈاکٹروں سے علاج کروایا تھا۔

    ایڈز کے باعث چک نمبر127 کے 2 خاندانوں میں 17 افراد کی ہلاکت بھی ہوچکی ہے جبکہ اب لوگ شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کررہے جس کے باعث یہ مرض شہری علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایڈز کا علاج قابل رسائی لیکن مریضوں میں خطرناک اضافہ

    دوسری طرف محکمہ صحت کے مطابق یہ مرض جنسی تعلق سے نہیں بلکہ خون کی غیر محفوظ منتقلی، عطائی ڈاکٹروں کی طرف سے ایک ہی سرنج کو بار بار استعمال کرنے اور حجام کی دکانوں پر موجود بلیڈ کے دوبارہ استعمال سے پھیل رہا ہے۔

    سی او ہیلتھ کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر عطائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر تحصیل کا ڈپٹی ڈی ایچ او روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ جمع کروا رہا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ جس بھی تحصیل میں عطائی ڈاکٹر موجود ہوگا اس علاقہ کے ڈپٹی ڈی ایچ او کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلونجی،کینسراورلیوکیمیا کے علاج میں موثر

    کلونجی،کینسراورلیوکیمیا کے علاج میں موثر

    کلونجی کے بیج کینسر،لیوکیمیا،ایچ آئی وی،ذیا بیطس،بلڈ پریش،کولیسٹرول اورنظام ہاضمہ کےامراض کےعلاج میں انتہائی موثر ہوتی ہے۔

    اسلامی تعلیمات میں کلونجی کوانسان جسم کےلیےمفید قراردیا گیا ہے، جس کا اعتراف اب سائنس داں اور محقق بھی کررہے ہیں،فلوریڈا میں کی گئی تحقیق کےمطابق کلونجی کینسر اور لیوکیمیا میں بھی مفیدہے۔

    اینٹی کینسرکیمو تھراپی کےمضراثرات ومضمرات کے ازالہ میں بھی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے،کلونجی کےاستعمال سےمریضوں کی قوت مدافعت میں زبردست اضافہ دیکھا گیا، کلونجی کےمرکب کےاستعمال سےنظام ہضم کی کارکردگی میں انتہائی بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔