Tag: honor killing

  • غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کی پراسرار موت

    غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کی پراسرار موت

    حیدرآباد : غیرت کے نام پر داماد کو قتل کرنے والا شخص گھر سے مردہ حالت میں ملا، پولیس نے خود کشی کا شبہ ظاہر کیا ہے، ماروتی راؤ2018 میں24سالہ پرانئے کے قتل معاملہ کا اصل ملزم تھا۔

    تفصیلات کے مطابق عزت کے نام پر قتل کی واردات کے اصل ملزم کی موت واقع ہوگئی، ماروتی راؤ سال2018 میں 24سالہ داماد پرانئے کے قتل معاملہ کا اصل ملزم تھا جو حیدرآباد کے ایک علاقہ میں واقع اپنے کمرہ نمبر306میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ملزم ماروتی راؤ حیدرآباد کیوں آیا تھا؟ پولیس نے اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال منتقل کردیا۔

    پولیس نے شبہ ظاہر کیا کہ اس نے خودکشی کی ہے، ماروتی راؤ پر پرانئے کے قتل کے لئے ایک کروڑ روپئے کی رقم ادا کرنے کا بھی الزام ہے۔

    واضح رہے کہ مقتول پرانئے نے ملزم ماروتی راؤ کی بیٹی سے شادی کی تھی، ذات کی اونچ نیچ پر اس نے شادی کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ پرانئے دلت تھا اور ملزم کی ذات اونچی تھی۔

    جائے واردات پر قتل کی یہ واردات سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی تھی جس نے پوری ریاست میں سنسنی پھیلادی تھی، قتل کے وقت ماروتی راؤ کی بیٹی حاملہ تھی۔

    بعد ازاں اپریل2019میں عدالت سے ماروتی راؤ اور اس معاملہ کے دیگر ملزمان کی ضمانت منطور ہوگئی تھی کیونکہ پولیس اندرون 90دن چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ ضمانت پر رہائی کے بعد سے ملزم مریال گوڑہ میں واقع اپنے مکان میں رہ رہا تھا۔

    پولیس کا خیال ہے کہ ماروتی راؤ نے زہر پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے، پولیس مختلف زاویوں سے اس معاملہ کی جانچ کررہی ہے، تاہم صورتھاقل پوقسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد واضح ہوگی۔

  • غیرت کے نام پر قتل: شواہد نہ ہوئے تو معاونت کرنے والوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے: سپریم کورٹ

    غیرت کے نام پر قتل: شواہد نہ ہوئے تو معاونت کرنے والوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے: سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کیا غیرت کے نام پر قتل کے الزام پر بغیر شواہد سزا دینا شروع کردیں؟ اگر اتنا کافی ہے تو معاونت کے الزام والے لوگوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی سعیدہ بی بی کے غیرت کے نام پر مبینہ قتل کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔

    درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ سعیدہ بی بی کے والد نے 2018 میں بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کروایا، والد پیر رحمٰن ہی اس کیس کے مدعی ہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے مقدمہ ساڑھے 5 ماہ بعد درج ہوا؟ کیا اس قتل کا کوئی گواہ نہیں؟

    مدعی کے وکیل نے کہا کہ کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. چیف جسٹس نے کہا کہ پیش رفت اس لیے نہیں ہوئی کہ کوئی گواہ نہیں۔

    وکیل مدعی نے کہا کہ یہ قتل غیرت کے نام پر کیا گیا ہے، ہائیکورٹ نے اپریل 2019 میں شریک ملزمان کی ضمانت منظور کی۔ سعیدہ بی بی کے شوہر کے بھائی ( دیور) نے اپنی بھابھی (مقتولہ) پر الزام عائد کیا تھا۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا خاتون (مقتولہ) وفات پاچکی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ کچھ علم نہیں خاتون تاحال منظر سے غائب ہے۔ خاتون کے بھائی نے جرگہ کے سامنے تسلیم کیا کہ خاتون کو قتل کیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی برآمدگی ہوئی ہے جس پر وکیل نے کہا کہ کوئی برآمدگی نہیں ہوسکی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیا غیرت کے نام پر قتل کے الزام پر بغیر شواہد سزا دینا شروع کردیں؟ اگر اتنا کافی ہے تو معاونت کے الزام والے لوگوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست خارج کردی۔

  • کراچی : پسند کی شادی کرنے والی ایک اور خاتون کا غیرت کے نام پر قتل

    کراچی : غیرت کے نام پر ایک اور خاتون کو قتل کردیا گیا، مقتولہ کا جرم یہ تھا کہ اس نے گھر والوں کی ناراضگی مول لے کر پسند کی شادی کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے لسبیلہ میں نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے ایک خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ مقتولہ نایاب بی بی زوجہ یوسف کمال نے کچھ عرصہ قبل پسند کی شادی کی تھی، مقتولہ نایاب کا آبائی تعلق چارسدہ سے تھا اور وہ دو بچوں کی ماں تھی۔

    پولیس کے مطابق قتل میں خاتون کے چچا سمیت دیگر رشتےدارملوث ہیں، مقتولہ کی لاش پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال منتقل کردی گئی ہے۔

    واردات سے متعلق پولیس کو بیان دیتے ہوئے مقتولہ کے پڑوسی اظہر گل نے بتایا کہ مقتولہ نایاب اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک سال سے رہائش پذیرتھی، متاثرہ خاندان میرے بھائی کے گھر میں کرائے پر مقیم تھا۔

    پڑوسی کے مطابق مقتولہ دو سالہ بیٹی اور6ماہ کے بیٹے کی ماں تھی، مقتولہ کاشوہر یوسف بہادرآباد میں ڈرائیور کی نوکری کرتا ہے، خاتون کا شوہر قتل کرنے والے ملزمان کے تعاقب میں گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : کراچی میں خاتون اور دیور غیرت کے نام پر قتل

    واضح رہے کہ اس سے قبل کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں پسند کی شادی کرنے والی خاتون اور اُس کے دیور کو قتل کردیا گیا تھا، مقتولین کا تعلق بلوچستان سے تھا، مقتولہ کے شوہر کا کہنا ہے کہ سالے نے فون کر کے بتایا ہم نے انہیں قتل کردیا۔

    فضیلہ کے خاوند تاج محمد نے پولیس کو بیان دیا کہ ہم نے پسند کی شادی کی تھی جس سے لڑکی کے گھر والے خوش نہیں تھے، میں شارجہ میں تھا وطن واپس آیا تو سالے نے فون کر کے بتایا کہ ہم نے تمھارے بھائی اور بیوی کو قتل کردیا ہے اُن کی لاشیں اٹھوا لو۔

  • پنجاب میں غیرت کے نام پر بیوی کا قتل، شوہر گرفتار

    پنجاب میں غیرت کے نام پر بیوی کا قتل، شوہر گرفتار

    لاہور: پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں پیش آیا انسانیت سوز واقعہ جہاں غیرت کے نام پر شوہر نے اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقہ ڈھلوکی سے تعلق رکھنے والی چالیس سالہ نسرین آٹھ روز قبل اپنے بھتیجے محمد سجاد کے ساتھ گھر سے بھاگی تھی تاہم پنچائتی فیصلہ ہونے پر دو روز قبل ہی گھر واپس پہنچی جس کے بعد شوہر نے غیرت کے نام پر بیوی کو قتل کر دیا۔

    کاہنہ پولیس کے مطابق سات بچوں کی ماں نسرین کو اس کے شوہر اشرف نے مبینہ طور پر کرنٹ لگا کر قتل کیا اور موقع سے فرار ہوگیا تاہم مقدمہ درج کرنے کے بعد ملزم کی گرفتاری کے لئے لاہور کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے جس میں ملزم کی گرفتار عمل میں آئی۔

    سال 2017: گیارہ ماہ میں 343 خواتین غیرت کے نام پر قتل

    پولیس حکام کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خاتون کی عمر چالیس سال تھی جسے ملزم نے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا تاہم پولیس نے ملزم کے خلاف قتل دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

    غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں:‌ارم خالد

    خیال رہے کہ واقعے کی خبر ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ پہنچے جس کے بعد فرانزک ٹیموں نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور مختلف اہم شواہد اکٹھے کیے البتہ پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے مردہ خانے منتقل کر دیا ہے جبکہ گرفتار ملزم سے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسکول ٹیچرکوتحفظ دینے کی خاطرشادی کرنے والا پولیس اہلکار’ کاروکاری‘ قرار

    اسکول ٹیچرکوتحفظ دینے کی خاطرشادی کرنے والا پولیس اہلکار’ کاروکاری‘ قرار

    جیکب آباد: جہالت کے اندھیرے دور کرنے والی اسکول ٹیچر اور سندھ پولیس کا جوان وڈیروں کے حکم پر کاروکاری قرار دے دیے گئے‘ دونوں جان بچانے کے لیے کراچی آگئے ہیں اور چیف جسٹس اور آئی جی سندھ سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کاروکاری کے فیصلے کا نیا کیس سامنے آیا ہے ۔ گاؤں میں اسکول چلانے پر خانزادی نامی خاتون کو گاؤں بدر کردیا گیا تھا ‘ جسے پناہ دینےکے لیے سندھ پولیس کے ریزرو اہلکار محبوب نے اس سے شادی کرلی‘ جس پر جرگے نے مشتعل ہوکر دونوں کو کارو کاری کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    سندھ کے کالے قانون کاروکاری سے پولیس بھی محفوظ نہ رہ سکی، درخت کے نیچے بچیوں کو تعلیم دینے والی لڑکی کو گاوں سے نکالنے پر سندھ ریزرو پولیس کے اہلکار نے شادی کرلی،،، گاوں کے وڈیروں نے دونوں کو کاری قرار دے کر جان سے مارنے کا حکم دے دیا۔

    اس جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جان بچا کر کراچی بھاگ آئے ہیں‘ اور یہاں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔

    اے آ روائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس اہلکار محبوب کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کا جوان ہوتے ہوئے بھی آج تک پولیس نے مدد نہیں کی‘ وڈیرے اور خانزادی کے رشتہ دار بہت خطرناک ہیں ہمیں مار دیں گے۔محبوب نے یہ بھی کہا کہ وڈیروں نے میرے گھر اور زمینوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے‘ اپنی اہلیہ اور 9 ماہ کے بچےکے ساتھ روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔اسکول چلانے کے جرم میں نکالے جانے والی لڑکی سے شادی کرنا میرا جرم بن گیا ہے۔

    دوسری جانب اسکول ٹیچر خانزادی کا کہنا ہے کہ پولیس سمیت سب کے پاس گئے لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی ‘ ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ‘ ہمیں انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ خانزادی کا کہنا ہے کہ علاقے کے منتخب نمائندے کہتے ہیں کہ تمہارے مخالف وڈیروں کے سبب 5 ہزار سے زائد ووٹ ہمیں ملتے ہیں‘ لہذا دو ووٹوں کی وجہ سے ہم اپنے پانچ ہزار ووٹ خراب نہیں کرسکتے۔

    دریں اثناء آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے مبینہ طور کاروکاری قرار دیئے جانے والے جوڑے کے حوالے سے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئےایس ایس پی جیکب آباد سے جامع انکوائری پولیس اقدامات پر مشتمل رپورٹ فی الفور طلب کرلی ہے‘ انہوں نے حکم دیا ہے کہ کاروکاری قرار دیے جانے والے لڑکا اور لڑکی سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد کے تحفظ کے لیے تمام تراقدامات اٹھائے جائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • فیصل آباد: غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کر دیا

    فیصل آباد: غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کر دیا

    فیصل آباد: کڑی ولا میں‌ بھائی غیرت کے نام پر بہن کو قتل کر کے فرار ہوگیا، پولیس نے قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ فیصل آباد کے علاقے کڑی ولا میں‌ پیش آیا، جہاں‌ غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو راڈ اور قینچی کے وار کر کے قتل کر دیا۔

    تھانا نشاط آباد کے علاقے کڑی ولا کے رہائشی نوجوان یاسر نے اپنی بہن پر الزام لگایا، جس پر دونوں‌ میں‌ تلخ کلامی ہوئی، جو جلد جھگڑے میں تبدیل ہوگئی۔

    ملزم یاسر نے اپنی بہن کے سر اور گردن پر لوہے کی راڈ اور قینچی سے پے در پے وار کیے، جس سے وہ موقع ہی پر دم توڑ گئی۔ واقعے کے بعد ملزم فرار ہوگیا۔

    یہ بھی پڑھیں: عمر کوٹ، غیرت کے نام پر شوہر نے بیوی کو ڈنڈے مار مار کر قتل کردیا

    پولیس نے مقتولہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر کے لواحقین کی درخواست پر قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں سالانہ سیکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ 2017 میں پاکستان میں سو سے زائد خواتین کو ان کے سگے رشتہ داروں نے غیرت کے نام قتل کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • ظالم باپ نے بیٹی کو قتل کرکے لاش جلادی

    ظالم باپ نے بیٹی کو قتل کرکے لاش جلادی

    بھارت کی ریاست تلنگنانہ میں مبینہ طور پر باپ نے نو عمر بیٹی کو قتل کرکے لاش کو آگ لگادی‘ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے قتل کا راز کھول دیا۔

    تفصیلات کے مطابق‘ بھارتی ریاست تلنگانہ میں باپ نے اپنی 13 سالہ بیٹی کو اسکول میں ایک لڑکے سے بات کرنے پرقتل کردیا ۔

    ابتدائی طور پر ظاہر کیا گیا کہ یہ خودکشی کی واردات ہے‘ لڑکی کے باپ نے خود ہی تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ لڑکی نے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کرلی۔

    پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے لڑکی کے باپ کے جھوٹ کا پول کھول دیا‘ جس میں بتایا گیا کہ لڑکی کی موت دم گھٹنے سے واقع ہوئی ہے بعد ازاں اس کی لاش کو جلایا گیا ہے‘ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا کہ لڑکی کی زبان باہر امڈ آئی تھی جو گلاگھونٹے جانے کی تصدیق کرتی ہے۔

    مقامی تھانے کے انسپکٹر کے مطابق والد لڑکی کے والد نےمبینہ طور پر پہلے بھی کئی بار مذکورہ لڑکے سے بات کرنے سے منع کیا تھا‘ تازہ واقعے میں جب مقتولہ سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ ایک معمول کی گفتگو تھی۔

    لڑکی کے جواب سے والد غصے میں آگیا اور نوعمر دوشیزہ کو گلہ گھونٹ کر مارڈالا‘ جب اسے احساس ہوا کہ بیٹی مر چکی ہے اور وہ گرفتار ہوسکتا ہے‘ تو اس نے لاش پر مٹی کا تیل چھڑک کرا ٓگ لگادی۔

    مزید تفتیش سے پولیس کو معلوم ہوا کہ والدین ہمیشہ اپنی بیٹی کومعاشرتی حدود میں رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے اور اسے ٹی وی پر موسیقی کے پروگرام سننے کی بھی اجازت نہیں تھی‘ جس کا سبب لڑکی کا گلوکارہ بننے کاشوق تھا۔پولیس نے لڑکی کے ماں باپ کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غیرت کے نام پر باپ نے بیٹی کو گلا گھونٹ کر مار دیا

    غیرت کے نام پر باپ نے بیٹی کو گلا گھونٹ کر مار دیا

    اسلام آباد: دارالحکومت میں ایک باپ نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کو گلا گھونٹ کر مار دیا۔

    اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ تھانہ گولڑہ کی حدود میں پیش آیا جہاں ملزم اعجاز نے اپنی بیٹی کو جان سے مار دیا جس پر پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔

    قتل کے بعد پولیس کو بیان قلم بند کراتے ہوئے ملزم باپ اعجاز نے کہا کہ اس نے بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کیا، بیٹی کو کئی بار سمجھایا، سختی بھی کی مگر وہ بازنہیں آئی جس پر اسے جان سے مارنا پڑا۔

    ملزم نے کہا کہ بیٹی کے قتل کے لیے اس نے کسی سے نہ مشورہ کیا او نہ ہی کسی کو آگاہ کیا، آج صبح 9 بجے کے قریب اس کا گلا دبا دیا۔

    تھانہ گولڑہ پولیس نے ملزم اعجاز کے خلاف بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کردیا

    تین روز قبل بھی ایسا ہی واقعہ لاہور میں پیش آیا جہاں رائے ونڈ میں باپ نے 19 سال کی بیٹی کو کلہاڑی سے قتل کردیا، ملزم امام دین نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کو اپنی بیٹی کے چال چلن پر شبہ تھا۔

  • لاہور: باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کردیا

    لاہور: باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کردیا

    لاہور: پنجاب کے دارلحکومت کے علاقے رائے ونڈ میں باپ نے شک کی بنیاد پر انیس سال کی بیٹی کو کلہاڑیوں کے وار سے قتل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے رائے ونڈمیں باپ نے انیس سال کی بیٹی کو کلہاڑی سے قتل کردیا، رائے ونڈ کے قریب کھنڈ کے علاقہ کے رہائشی ملزم امام دین نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کو اپنی بیٹی کے چال چلن پر شبہ تھا جس کے باعث اس نے اپنی بیٹی کو کلہاڑی کے وار کر کے بے رحمی سے قتل کر دیا۔

    پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم امام دین کو گرفتار کر کے قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا، مقتولہ کی لاش کو رائے ونڈ پولیس نے تحویل میں لے کر جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا۔اہل خانہ کے مطابق سفاک باپ نے صرف شک کی بنیاد پر بیٹی کو موت کے گھاٹ اتارا اور اُسے صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا۔

    یاد رہے ملک بھر میں غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کیا جاتا ہے، گزشتہ برس کراچی کے علاقے سائٹ میں ایک بھائی نے صرف شک کی بنیاد پر بہن کو چھریوں کے وار سے قتل کرکے اُس کی لاش کو گلی میں رکھ کر ویڈیو بنوائی تھی۔

    پڑھیں: ’’ جماعت اسلامی نے غیرت کے نام پر قتل بل کی مخالفت کردی ‘‘

  • خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کاعالمی دن آٹھ مارچ کو منایاجاتاہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اوران کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے‘ پاکستان میں 2016 اس معاملے پر قانون سازی کے حوالے سے ایک بہتر سال رہا۔

    خواتین نے دنیا کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرکے ثابت کیا ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیرکوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہوسکتا۔ خواتین کی معاشرے میں اسی اہمیت کواجاگرکرنے کےلیے دنیا بھرمیں ان کاعالمی دن منایا جاتاہے۔

    خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد ان بہادرخواتین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑی، اس دن پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پھیلی تنظیمیں خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کیلئے کوششوں کو اجاگر کرنے کے لئے واکس اورتقاریب کا اہتمام کریں گی۔

    women-post-7

    خواتین کے عالمی دن پرملک بھرمیں تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں حوا کی بیٹیاں آج بھی ظلم کی شکارہیں، ہرسال پاکستان میں خواتین پرتشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اورجو رپورٹ نہیں ہوپاتے ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    خواتین کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟


    آج سے تقریباً سو سال قبل نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کرسڑکوں پرگھسیٹا گیا تاہم اس بد ترین تشدد کے بعد بھی خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی۔

    women-post-2

    خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی۔

    اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 1656 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا فیصلہ کیا۔

    پہلی عالمی کانفرنس کے 107 سال بعد


    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھرمیں، ترقی یافتہ اورغیر ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی سے قطع نظر ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے ذہنی، جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہے اوریہی خواتین کے بے شمار طبی و نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم بشمول تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوچکا ہے۔

    پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2004 سے 2016 تک 7 ہزار 7 سو 34 خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس عرصے میں غیرت کے نام پر15 ہزار 222 قتل (جو منظر عام پر آسکے، بشمول مرد و خواتین) کیے گئے۔

    women-psot-8
    ان 12 سالوں میں 5 ہزار 508 خواتین کو اغوا کیا گیا، 15 سو 35 خواتین کو آگ سے جلایا گیا جبکہ ملک کے طول وعرض میں 1843 گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ یا شکایت درج کی گئی۔

    وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2012 سے ستمبر 2015 کے عرصے کے دوران 344 اجتماعی یا انفرادی واقعات پیش آئے۔ 860 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، 72 خواتین کو جلایا گیا، 90 تیزاب گردی کے واقعات پیش آئے، گھروں سے باہرمختلف اداروں اوردفاتر میں جنسی طورپرہراساں کرنے کے 268 واقعات کی رپورٹ کی گئی اور 535 خواتین پرگھریلو تشدد کے واقعات پیش آئے۔

    یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو میڈیا کی بدولت منظر عام پر آسکے یا ان کی شکایت درج کروائی گئی۔ زیادتی کے واقعات‘ ہراسمنٹ اور تشدد کے ہزاروں کیسز ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطردبادیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    women-post-4

    اقوام متحدہ اس نامعلوم شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیتی ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    سنہ 2014 میں 2013 کی نسبت زیادتی کے واقعات میں 49 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اور عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹس میں یہ لرزہ خیز انکشاف ہوا کہ  2014 میں ہرروزچار پاکستانی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    کم عمری میں شادی


    بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی جانب سے جاری کردہ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 21 فیصد شادیوں میں دولہا یا دولہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کا اصرار ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہے۔

    پاکستان میں بچپن میں کی گئی شادی سے متعلق حتمی اعداد و شمار اکٹھا کرنا مشکل ہے، کیونکہ پاکستان میں اکثر پیدائش کے ریکارڈ میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ یوں یہ جاننا مشکل ہے کہ شادی کے وقت دولہا یا دولہن کی اصل عمر کیا ہے۔

    women-post-3

    خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہی ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ مذہبی حلقوں کی مخالفت بتایا جاتا ہے‘ سن انیس سو تہتر کے آئین میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر جنسی تشدد کو روکنے کی پہلی کوشش 43 سال بعد کامیاب ہوسکی۔

    غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگا

    پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے 2014 میں غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایک بل پیش کیا تھا جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اتفاق کیا تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے کیے جانےوالے اعتراضات کے سبب تین سال تک یہ معاملہ التوا کا شکاررہا یہاں تک کہ اکتوبر 2016 میں اسے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔

    women-post-5

    واضح رہے کہ بل پیش کیے جانے سے منظور کیے جانے تک کے درمیانی عرصے سے کم و بیش 2300 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا‘ اعدادوشمار کے مطابق بل پیش ہونے کے بعد اس نوعیت کے واقعات ریکارڈ ہونے میں حیرت انگیز طورپر اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    سندھ اسمبلی میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل

    سندھ اسمبلی نے اپریل 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے ایک بل منظور کیا تھاجس کے تحت کم عمری میں شادی قانونی طورپرجرم قرارپائی۔

    کم عمری میں شادی کی روک تھام کا بل 2013 میں شرمیلا فاروقی اورروبینہ سعادت قائم خانی نے پیش کیا تھا۔ اس بل کے تحت کم عمری کی شادی کے جرم میں شریک ملزمان کو تین سال تک کی قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ سنائی جاسکتی ہیں۔

    یاد رہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت ملک کی پہلی اسمبلی تھی جس نے خواتین کے تحفظ کے لیے اس نوعیت کا بل پاس کیا۔

    بلوچستان میں ہراسمنٹ‘ گھریلو تشدد کے خلاف بل


    بلوچستان اسمبلی نے گزشتہ سال جنوری 2016 میں ایک بل متفقہ طور پر پاس کیا جس کے تحت خواتین کو کام کے مقام پر ہراسمنٹ کا نشانہ بنانے پر کارروائی کی جاسکے گی۔

    women-post-6

    یہ بل صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے 2015 میں پیش کیا تھا‘ اس سے قبل سنہ 2014 میں بلوچستان اسمبلی گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے بھی ایک بل پاس کرچکی ہے اور خواتین کے ساتھ زیادتیی اور تیزاب گردی کے حوالے سے ایک بل تاحال زیرِ غور ہے۔

    پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل منظور


    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں فروری 2016 خواتین کو گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشدد، بدکلامی اورسائبرکرائمز سے تحفظ دینے کا بل منظور کیا۔

    پنجاب میں منظور ہونے والے بل کے تحت خواتین کو جسمانی ‘ جنسی ذہنی یا معاشی استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کے لیے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں متعین کی گئی ہیں یہاں تک کہ پروٹیکشن آفیسر کو اس کے کام سے روکنے کی صورت میں بھی چھ ماہ کی قید ہوسکتی ہے۔

    women-post-1

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی تحقیق بتاتی ہے کہ عام تاثر کے برعکس دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس جرم کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔

    اسی طرح آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ عورت کے خلاف اس جرم میں بھی سب سے آگے ہے۔

    عورت فاؤنڈیشن کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگرصوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

    پنجاب کے صنعتی شہرفیصل آباد میں پورے ملک میں سب سے زیادہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔

    خیبرپختونخواہ ابھی تک سوچ رہا ہے


    خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک بل ڈرافٹ کراسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا جس نے پنجاب کے ویمن پروٹیکشن بل کی طرح اسے بھی مسترد کردیا۔ تاہم خیبر پختونخواہ حکومت تاحال اس پرغور کررہی ہے۔

    وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے مشیر برائے انفارمیشن مشتاق غنی نے اس حوالےسے کہا تھا کہ حکومت اس بل کو ری ڈرافٹ کرکے اسے اسلامی قوانین کے مطابق بنارہی ہے، تاحال یہ بل دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوسکاہے۔

    women-post-9

    واضح رہے کہ دوہزارتیرہ میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے جتنی بھی قانون سازی کی ان میں سے یہ واحد بل ہے جسے اسلامینظریاتی کونسل میں بھیجا تھا۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے پنجاب میں پیش کیے جانے والے ویمن پروٹیکشن بل کی بھی مخالفت کی تھی۔

    گھریلو تشدد صلاحیتوں کو متاثرکرتا ہے


    اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی ایوارڈ یافتہ پاکستانی ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت پرانتہائی مضراثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سے ان کی سماعت متاثر ہوسکتی ہے ‘ اسقاطِ حمل‘ جوڑوں اور ہڈیوں کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق اس سب سے بڑھ کر انہیں شدید ڈپریشن کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے جس کے سبب کسی بھی خاتون کی اپنے بچوں کی نگہداشت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو کہ آئندہ نسلوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    women-post-10

    قانون سازی توہورہی ہے اورانسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز اٹھارہی ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اورخواتین
    کے حقوق سے جڑے تمام افراد یہ طے کریں کہ خواتین کے حقوق سلب نہ کیے جائیں ‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے‘ مردوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ ہمارے معاشرے میں موجود خواتین ہمارے برابرکی انسان ہیں اور اتنے ہی حقوق رکھتی ہیں جتنے ہم رکھتے ہیں۔

    یاد رکھیے کہ ایک آزاد‘ خود مختار اور مستحکم ماں ہی ایک آزاد‘ خود مختار اورمستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے اور آج عورتوں سے ان کے حقوق چھیننے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔