Tag: Hornets

  • انتہائی خطرناک قاتل کیڑا اپنے انجام کو پہنچ گیا

    انتہائی خطرناک قاتل کیڑا اپنے انجام کو پہنچ گیا

    واشنگٹن : امریکی سائنس دانوں نے ملک بھر سے ’’قاتل بھڑوں‘‘ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، یہ کیڑے امریکا میں خوف کی علامت بنے ہوئے تھے۔ 

    دنیا کے سب سے بڑی بِھڑ (ہارنیٹ) جس نے 2013 میں چین میں 42 افراد کو ہلاک کیا تھا، کو امریکہ سے ختم کر دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ پانچ سال بعد ممکن ہوا ہے کہ جب پہلی بار اس خطرناک قاتل کیڑے کو واشنگٹن میں کینیڈین سرحد کے قریب دیکھا گیا تھا۔

    hornet

    امریکا کے زرعی محکمے نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ واشنگٹن میں 2021 کے بعد سے اس بھڑ (ہارنیٹ) کے کوئی آثار نہیں ملے اور اب اسے مکمل طور پر ختم کیا جا چکا ہے۔

    یہ بڑی کامیابی مقامی رہائشیوں کی مدد سے ممکن ہوسکی جنہوں نے اپنے علاقوں میں جال لگائے اور اس قاتل کیڑے کی نشاندہی کی۔

    محققین نے ایک زندہ ہارنیٹ کو پکڑ کر اس پر چھوٹا سا ریڈیو ٹریکنگ ٹیگ باندھا جس کی مدد سے وہ ایک جنگل میں واقع بھڑ کے مرکزی گھونسلے تک پہنچے۔ سائنس دانوں نے بھڑ کا گھونسلہ اس وقت تباہ کیا جب وہاں ملکہ ہارنیٹس نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔

    Washington

    رپورٹ کے مطابق ان خطرناک بھڑوں کی لمبائی 2 انچ (5 سینٹی میٹر) تک ہوسکتی ہے، ان قاتل کیڑوں نے سال2013 میں اس وقت دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی جب چین میں 42 افراد ان کے حملوں سے ہلاک اور 1,675 شدید زخمی ہوگئے تھے۔

    دیوہیکل ہارنیٹس (بھڑ ) شہد کی مکھیوں اور دیگر مقامی کیڑوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں، یہ بِھڑ محض 90منٹ میں شہد کی مکھیوں کا ایک پورا چھتہ ختم کر سکتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کے سروں کو کاٹ کر ان کے بچوں کو اپنے بچے کھلانے کے لیے لے جاتے ہیں۔

  • ویڈیو: حملہ آور سے بچنے کے لیے چمگادڑوں کی انوکھی تکنیک

    ویڈیو: حملہ آور سے بچنے کے لیے چمگادڑوں کی انوکھی تکنیک

    جانور اپنے دشمن سے بچنے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں، اور شکار پر وار کرنے کے لیے حملے کی مختلف تکنیکیں بھی اپناتے ہیں، اب ایسا ہی ایک طریقہ چمگادڑ کا بھی سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چمگادڑیں حملہ آور الوؤں سے بچنے کے لیے اپنی آواز بدل کر ڈنک دار مکھیوں یا تتیوں کی بھنبھناہٹ جیسی نقل اتارتی ہیں۔

    اگرچہ آواز یا شکل بدل کر دشمن کو ڈرانا یا اس سے بچنے کا ہنر اب تک کیڑے مکوڑوں میں ہی سامنے آیا ہے لیکن پہلی مرتبہ یہ خاصیت کسی ممالیے میں دریافت ہوئی ہے۔

    اٹلی میں واقع نیپلس فیڈریکو دوم یونیورسٹی کے سائنسداں ڈینیلو ریوسو نے کئی برس قبل چمگادڑ کی انوکھی بھنبھناہٹ سنی تھی جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے، جب جب وہ باہر نکلتیں مکھیوں جیسی آواز نکالتیں۔ اب انہوں نے اس مظہر کا بغور جائزہ لیا ہے۔

    انہوں نے چوہے جیسے کان والی ایک مشہور چمگادڑ (مایوٹس مایوٹس) کی ریکارڈنگ سنیں جو (شہد کی) مکھیوں اور تتلیوں جیسی تھیں۔ جب جب چمگادڑ کی آواز کسی الو سے ٹکرا کر واپس آئی تو وہ آواز مکھیوں کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔

    اگلے مرحلے میں انہوں نے دو اقسام کے الوؤں کو مختلف آوازیں سنائیں جن کی تعداد 16 کے قریب تھی۔ ان میں سے نصف جانور براہ راست ماحول میں تھے اور بقیہ 8 تجربہ گاہ میں رکھے گئے تھے۔

    اسپیکر قریب لا کر ہر الو کو چار مختلف آوازیں سنائی گئیں، اول، چمگادڑ کی اصل آواز، دوسری آواز جس میں وہ مکھیوں کی نقل کر رہی تھی، سوم یورپی تتیئے (ہارنیٹ) کی صدا اور چوتھی شہد کی مکھی کی آواز سنائی گئی۔

    تینوں اقسام کی بھنبھناہٹ سن کر سارے الو ایک دم پیچھے ہٹ گئے اور جیسے ہی انہوں نے چمگادڑ کی اصل آواز سنی وہ اسپیکر کے قریب آگئے۔

    ان میں سے کچھ الوؤں کا ردعمل مختلف بھی تھا اور وہ بھنبھناہٹ سن کر بہت زیادہ ڈرے تھے، شاید ماضی میں انہیں کسی مکھی یا ڈنک دار کیڑے نے کاٹا ہوگا یا ان کی یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ تازہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق سے ایک سوال پیدا ہوا کہ جب ایک قسم کی چمگادڑ نے خود کو بچانے کے لیے یہ حربہ سیکھا ہے تو بقیہ اقسام کے چمگادڑوں نے اسے اختیار کیوں نہیں کیا؟ اب ماہرین یہ جواب تلاش کر رہے ہیں۔

  • انگلینڈ میں قاتل بھڑوں کی بھرمار

    انگلینڈ میں قاتل بھڑوں کی بھرمار

    لندن: انگلینڈ میں قاتل ایشیائی بھڑوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، یہ بھڑ، بھڑوں سے الرجی والے افراد کو صرف ایک ڈنک سے مار سکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انگلینڈ میں قاتل ایشیائی بھڑوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

    ماہرین نے جزیرہ جرسی میں 70 سے زائد قاتل ایشیائی بھڑوں کا پتہ چلایا ہے۔

    زرد ٹانگوں والی یہ بھڑ، بھڑوں سے الرجی والے افراد کو صرف ایک ڈنک سے مار سکتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے قاتل بھڑ کہا جاتا ہے۔

    یہ بھڑ یومیہ 50 شہد کی مکھیوں کو کھا سکتی ہے اور یہ مقامی شہد کی مکھیوں کی تعداد کے لیے نہایت خطرناک صورتحال ہے۔