Tag: horrific Crime

  • میری بیل : دس سالہ بچی سیریل کلر کیسے بنی؟ ہولناک کہانی

    میری بیل : دس سالہ بچی سیریل کلر کیسے بنی؟ ہولناک کہانی

    نیو کیسل : برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ بچی میری بیل سیریل کلر کیوں اور کیسے بنی؟ اس کمسن بچی نے پہلا قتل چار سالہ بچے کو مار کر کیا جس کے بعد یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 10 سالہ میری بیل نے 1968 میں پہلی واردات کی اور چار سالہ مارٹن براؤن کا گلا دبا کر قتل کیا۔

    اس واقعے کے دو ماہ بعد مریم بیل نے محلے کے تین سالہ برائن ہاؤ نامی بچے کی جان لی اور اس کی لاش کو مسخ کردیا۔

    اس سے پہلے کہ میری بیل مزید خوفناک جرائم کا ارتکاب کرتی اس نے کئی دیگر بچوں کا گلا دبا کر مارنے کی کوشش کی اور اپنی تحریروں میں مزید قتل کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

    یہ بچی کون تھی اور اس کا رویہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ 26مئی 1957میں ایک 16 سالہ سیکس ورکر ’بیٹی میک کریٹ‘ کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جس کی ماں کے دل میں اپنی بیٹی کے لیے کسی قسم کی کوئی محبت نہیں تھی۔

    میری بیل کی ابتدائی زندگی میں ہی اسے اس کی ماں کی جانب سے بری طرح نظر انداز اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا جو اس کی شخصیت کو بری طرح مسخ کرگیا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور وجہ بیٹی میک کریٹ کی گھر سے بار بار کی غیر حاضری تھی جو اس کے کام کا حصہ تھا۔

    اس حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیٹی نے میری بیل کو کسی عورت کے حوالے کرنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ثابت ہوئی اور میری بیل کا یہ رویہ بھی ماں کے اسی طرح کے سلوک اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔

    میری بیل کی یہ پریشان کن پرورش ہی اس کے پرتشدد رویے کی پیش گوئی کرتی تھی اور محض دس سال کی عمر تک وہ ایک خود غرض، چالاک اور پرتشدد خیالات کی حامل لڑکی بن چکی تھی۔

    اپنے پہلے قتل کی واردات سے چند ہفتے قبل میری بیل نے عجیب و غریب رویہ کا مظاہرہ کیا، 11مئی 1968 کو وہ ایک تین سالہ بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی، جو ایک منزلہ عمارت جتنی اونچائی سے گر کر شدید زخمی ہوگیا، ابتدائی طور پر اس بچے کے والدین نے اسے محض ایک حادثہ سمجھا۔

    اگلے دن مزید رپورٹس سامنے آئیں کہ میری بیل نے اسکول میں تین کم عمر لڑکیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد پولیس نے اسے پوچھ گچھ کے لئے طلب کیا اور نادان بچی سمجھتے ہوئے محض تنبیہہ کی اور چھوڑ دیا تاہم اس پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔

    اس کے بعد 25مئی کو اپنی 11ویں سالگرہ سے ایک دن پہلے میری بیل  نے انگلینڈ کے علاقے اسکاٹس ووڈ میں ایک خالی مکان میں مارٹن براؤن نامی بچے کو گلا دبا کر قتل کیا۔

    میری بیل کی ایک ہی دوست تھی جس کا نام نورما بیل تھا، میری بیل زیادہ تر اسی بچی کے ساتھ رہتی اور کھیلتی تھی۔

    میری بیل اور نورما نے ایک نرسری اسکول میں توڑ پھوڑ کی اور وہاں پر کچھ نوٹس چھوڑے جن میں مارٹن کی موت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستقبل میں مزید قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں، جنہیں پولیس نے مذاق اور شرارت کے سوا کچھ نہ سمجھا۔

    میری بیل قتل کرنے کے بعد ایک اعترافی نوٹ لکھا کرتی تھی اس بار بھی اس نے ایسا ہی کیا اور مارٹن کو قتل کرکے اس کی موت کی ذمہ داری قبول کی، تاہم پولیس کی جانب سے اسے توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔

    اس واقعے کے بعد برائن ہاؤ نامی ایک لڑکا 31 جولائی 1968 کو مردہ حالت میں پایا گیا، جس کو مبینہ طور پر میری بیل اور نورما نے گلا دبا کر قتل کیا اور لاش کو مسخ کردیا تھا جس کے بعد ان دونوں کو پولیس نے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا۔

    عدالت میں میری بیل کے اس عمل کو محض قتل کی لذت اور جذبات کی تسکین کا ذریعہ قرار دیا گیا، بعد ازاں عدالت نے اسے قتل کا مجرم قرار دے کر قید کی سزا سنائی، جبکہ اس کی دوست نورما بیل کو بے قصور گردانتے ہوئے مقدمے سے بری کر دیا گیا۔

    میری بیل کو قتل کے جرم میں 12 سال کی سزا کاٹنے کے بعد 23 سال کی عمر میں 2017 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا تب سے وہ آزادانہ زندگی گزار رہی ہے۔

  • کراچی : شوہر کو قتل کرکے ڈکیتی کا رنگ دینے کا ڈراپ سین

    کراچی : شوہر کو قتل کرکے ڈکیتی کا رنگ دینے کا ڈراپ سین

     کراچی کے علاقہ ملیر میں پولیس نے شہری کے قتل میں ملوث مقتول کی بیوی اور اس کے آشنا کو گرفتار کرکے غیر قانونی اسلحہ برآمد کرلیا۔

    پولیس کے مطابق ملزمان ایک نجی بلڈ بینک میں کام کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے، اس مقصد کیلئے ملزمان نے مقتول سہیل کے قتل کو ڈکیتی میں مزاحمت کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔

    بعد ازاں مقتول کی بیوی ملزمہ سدرہ کے موبائل فون سے ملنے والی معلومات نے بھانڈا پھوڑ دیا، ملزمہ نے قتل کے روز کاشف کو سہیل کے گھر سے نکلنے کی خبر دی تھی۔

    پولیس نے ملزم کاشف کو جی ایریا سعودآباد سےحراست میں لے کر غیرقانونی ٹی ٹی پستول برآمد کرلیا۔

    ملزم کاشف نے بتایا کہ سدرہ سے شادی کیلئے گھر والے راضی نہیں تھے، سہیل کو راستے سے ہٹانے کیلئے ڈکیتی میں مزاحمت پر فائرنگ کا پلان بنایا تھا۔ ملزم کے اعتراف جرم کے بعد مقتول کی بیوی ملزمہ سدرہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

  • وہ شخص جس نے اپنی بیوی کو تندور میں جلادیا

    وہ شخص جس نے اپنی بیوی کو تندور میں جلادیا

    بھارت میں سال 1995 میں ہونے والی قتل کی ایک ہولناک واردات ’تندور قتل کیس‘ کی روداد آج بھی سننے والوں کو خوف میں مبتلا کردیتی ہے جس نے اس وقت پورے ملک میں خوف کی لہر پیدا کردی تھی۔

    یہ کہانی بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے اس رہنما کی ہے جس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شدید غصے کے عالم میں کی گئی ایک سنگین غلطی اسے کہاں سے کہاں لے جائے گی جس نے اس کی زندگی کو برباد کرکے رکھ دیا۔

    ایک جرم کو چھپانے کیلئے دوسرا جرم کرنے والا سشیل شرما اپنی بیوی نینا ساہنی کا قاتل تھا اور 23سال جیل میں سزا کاٹ کر 2018 میں رہا ہوا۔ قتل کی یہ ہولناک واردات ’تندور قتل کیس‘ کے نام سے کئی سال اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنی رہی۔

    واردات کے وقت کیا ہوا؟

    یہ 2جولائی1995 کی رات کا واقعہ ہے جسے بھارتی اخبارات نے پولیس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شائع کیا کہ یہ قتل سشیل اور نینا (میاں بیوی) کے درمیان خراب تعلقات کا شاخسانہ تھا۔ سشیل کو اس بات کا شک تھا کہ اس کی بیوی کے کسی اور مرد سے ناجائز تعلقات ہیں۔

    اس کیس کے تحقیقاتی پولیس افسر میسویل پیریرا جنہوں نے اپنی کتاب میں قتل کے محرکات اور واردات کے طریقہ کار کا تفصیلی ذکر کیا ہے، کا کہنا ہے کہ سشیل نے نینا سے اُس رات اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جس سے وہ فون پر گفتگو کر رہی تھی جس کے جواب میں نینا نے بھی غصے سے جواب دیا کہ وہ اس کی زندگی میں مداخلت نہ کرے۔

    انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں سشیل کے سیاسی قد کاٹھ اور نینا کے سیاسی حلقوں میں خود اعتمادی کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نینا شوہر سے ڈرنے والی بیویوں میں سے نہیں تھی۔

    اس رات سشیل شراب کے نشے میں دھت تھا اور یہ بات سن کر شدید غصے میں بھی آگیا اور بقول سشیل کے اس رات نینا بھی نشے کی حالت میں تھی۔

    اسی اثناء میں غصے میں آ کر سشیل نے اپنی دراز سے پستول نکالا اور نینا پر پے در پے تین فائر کیے، ایک گولی اس کے سر پر دوسری اس کی گردن پر اور تیسری گولی نشانہ چوک کر کسی اور چیز کو جا لگی، جس کے بعد نینا نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔

    https://youtu.be/1xGoR8Hst_4

    لاش چھپانے کی منصوبہ بندی

    پیریرا کی کتاب کے مطابق سشیل نے واردات کے بعد اس بات کا یقین کیا کہ گولی کی آواز باہر کسی نے سنی تو نہیں پھر مطمئن ہونے کے بعد کمرے میں پھیلے ہوئے خون کو صاف کرکے لاش کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا۔

    پہلے اس نے لاش کو دریائے جمنا میں پھینکنے کا ارادہ کیا اور اسے لے کر باہر نکلا لیکن دریا پر لوگوں کو موجود پاکر اس نے حکمت عملی تبدیل کی اور لاش کو لے کر اپنے دوست کیشوو کمار کے ریسٹورنٹ پہنچا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

    کیشوو نے فوری طور پر ریسٹورنٹ کو بند کردیا، یہ رات گیارہ بجے کی بات ہے جب سشیل اور کیشوو نے مل کر لکڑیاں جمع کیں اور نینا کی لاش کو کاٹ کر تندور میں جلادیا۔

    کتاب میں لکھا ہے کہ جب مقتولہ نینا کی لاش جل رہی تھی تو اس وقت سشیل کو خیال آیا کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ یہ مجھ سے کیسے ہو گیا؟

    رات گیارہ بجے ریسٹورنٹ کے تندور میں لگنے والی آگ کے شعلوں نے گشت پر مامور پولیس اہلکار کی توجہ حاصل کی جب تک پولیس اہلکار وہاں پہنچتا اس سے قبل سشیل اور کیشوو موقع واردات سے فرار ہوچکے تھے۔

    بعد ازاں یہ خبر جلد ہی اخبارات کی شہ سرخیوں میں آئی اور سب کو چونکا دیا کیونکہ اس کا تعلق ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے ایک اہم سیاسی رہنما سے تھا۔

    بالآخر سشیل نے نو دن مفرور رہنے کے بعد خود کو بنگلور پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم سشیل نے قتل کا اعتراف تو کیا ہے اور ساتھ ہی کچھ سیاست دانوں کے نام بھی شامل کیے ہیں اس لیے شک تھا کہ وہ ہمیں کہانیوں سے الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    پولیس کیلئے نینا کی جلی ہوئی لاش کی شناخت کرنا بھی مشکل تھا بعد ازاں مقتولہ کے سابق دوست مطلوب کریم نے اس کی لاش کو شناخت کیا، اس کی لاش کے دو مربتہ پوسٹ مارٹم ہوئے۔

    دونوں رپورٹوں نے نینا کی موت کی وجہ کے بارے میں متضاد نتائج دیے، پہلی رپورٹ میں کہا گیا کہ نینا کی موت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئی اور شاید جب اسے کاٹا گیا تو وہ بے ہوش تھی جبکہ دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ نے پہلی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ نینا کو دو بار گولی ماری گئی تھی۔

    تندور قتل کیس کی سماعت میں دہلی کی ایک عدالت نے سال 2003 میں سشیل کو مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی پھر سال 2007 میں دہلی ہائی کورٹ نے اس کی سزا کو برقرار رکھا تاہم 2013 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

    مجھے اپنے کیے پر پچھتاوا ہے

    جیل میں 23 سال اسیری کاٹنے کے بعد اسے 2018 میں رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد سشیل نے کہا کہ مجھے اپنے کیے پر بے حد افسوس ہے اور میں دوسرے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کبھی بھی جذبات یا غصے میں آکر کوئی فیصلہ نہ کریں۔