Tag: human body

  • انسانی جسم کس حد تک گرمی برداشت کرسکتا ہے؟

    انسانی جسم کس حد تک گرمی برداشت کرسکتا ہے؟

    ملک بھر کے کئی شہروں میں شدید گرمی کی لہر جاری ہے بدھ کے روز شہر کراچی میں رواں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ ہوا جبکہ جمعرات کو گرمی 43 ڈگری تک جانے کا امکان ہے اور شہر میں ہیٹ ویو کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی جسم کتنا درجہ حرارت برداشت کر سکتا ہے؟ اگر آپ اس بات سے لاعلم ہیں تو زیرنظر مضمون میں اس کی مکمل تفصیلات بیان کی جارہی ہیں۔

    گرمی

    ماہرین صحت کے مطابق انسانی جسم کا نارمل درجہ حرارت 98.9 ڈگری فارن ہائیٹ ہے، جو آپ کے باہر کے درجہ حرارت کے 37 ڈگری سیلسیس کے برابر ہے جو 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کو برداشت کر سکتا ہے۔

    انسانی جسم میں ایک خاص میکانزم ‘ہومیوسٹاسس’ ہوتا ہے، جو اس درجہ حرارت میں بھی انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔

    انسان 42 ڈگری درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر درجہ حرارت اس سے زیادہ ہو تو یہ انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کرنے لگ جائے تو لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    دھوپ

    اس کے علاوہ اگر درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ جائے تو لوگوں کو بے ہوشی، چکر آنا یا گھبراہٹ جیسی شکایات ہو سکتی ہیں، لو بلڈ پریشر کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ زیادہ دیر تک 48 سے 50 ڈگری یا اس سے زیادہ درجہ حرارت میں رہیں تو پٹھے مکمل طور پر ری ایکٹ کر سکتے ہیں جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ انسانوں کے لیے 50 ڈگری کا درجہ حرارت برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    نئی اور پرانی تحقیق کیا کہتی ہے؟ 

    سال 2010 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا تھا کہ زیادہ نمی والے علاقے میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ انسانی جسم کے برداشت کی آخری حد ہے۔

    اس سے زیادہ درجہ حرارت میں انسانی جسم پسینے کو بخارات بنا کر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ پاتا اور جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

     احتیاطی تدابیر

    جبکہ حالیہ نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ درجہ حرارت اور نمی کا امتزاج صحت مند افراد کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ جب درجہ حرارت اور نمی کے امتزاج سے جسمانی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے تو اسے آخری حد کہا جاتا ہے اور حد عبور ہونے کے بعد وہ ایسا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور مختلف مسائل کا خطرہ رہتا ہے۔

  • ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں شہری ہوا بازی یا سول ایوی ایشن کا دن منایا جارہا ہے، فضائی سفر ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے لیکن بہت کم لوگ واقف ہیں کہ فضائی سفر کے دوران ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    زمینی سفر کے مقابلے میں فضائی سفر کے دوران پیش آنے والی جسمانی تبدیلیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ آئیں ان کیفیات اور ان کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    جسم میں پانی کی کمی

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 3 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ہمارے جسم سے ڈیڑھ لیٹر پانی خارج ہوجاتا ہے۔

    جسم کی سوجن

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم سوج جاتا ہے، ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے جسم کی گیس میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے جسم سوجن اور معدے کے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    آکسیجن کی کمی

    ہوائی جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ عام دباؤ سے 75 فیصد بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سر درد اور آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    جراثیموں کا حملہ

    ہوائی جہاز میں کھلی فضا کا کوئی گزر نہیں ہوتا اور کئی گھنٹے تک ایک ہی آکسیجن طیارے میں گردش کرتی رہتی ہے یوں یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے نہایت موزوں بن جاتی ہے۔

    فضائی سفر کے دوران جراثیموں کی وجہ سے آپ کے نزلہ زکام میں مبتلا ہونے کا امکان 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    حس ذائقہ اور سماعت متاثر

    ہوائی جہاز کے سفر کے دوران آپ کے ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات یعنی ٹیسٹ بڈز سن ہوجاتے ہیں جس سے آپ کسی بھی کھانے کا ذائقہ درست طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔

    علاوہ ازیں کئی گھنٹے طیارے اور ہوا کا شور سننے سے جزوی طور پر آپ کی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔

    تابکار شعاعیں

    فضائی سفر کے دوران آپ تابکار شعاعوں کی زد میں بھی ہوتے ہیں، 7 گھنٹے کی فلائٹ میں ایکس رے جتنی تابکار شعاعیں آپ کے جسم کو چھوتی ہیں۔

    ٹانگیں سن ہوجانا

    فضائی سفر کے دوران مستقل بیٹھے رہنے سے خون کی گردش متاثر ہوتی ہے جس سے ٹانگیں سن اور تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اس سے نجات کا حل یہ ہے کہ موقع ملنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کریں اور مائع اشیا کا زیادہ استعمال کریں۔

    فضائی سفر کے دوران جسم میں پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں اور تکالیف عارضی اور کچھ وقت کے لیے ہوتی ہیں لہٰذا تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

    سفر کے بعد آرام کرنے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جسم خود بخود معمول کی حالت پر آجاتا ہے۔

  • انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    سائنس دانوں نے انسانی جسم کا ایک نیا حصہ دریافت کر لیا ہے، جس نے اکیسویں صدی میں لوگوں کو حیران کر دیا، یہ کارنامہ سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انجام دیا ہے۔

    اس وقت جب کہ ناسا نے آج ہی اربوں میل دور کائناتی اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے 10 بلین ڈالرز لاگت کی ایک نئی خلائی دوربین لانچ کر دی ہے، ہم ابھی تک انسانی جسم کا مکمل پتا لگانے سے بہت دور ہیں، اور اس کا ایک بڑا ثبوت سائنس دانوں کی جانب سے یہ نئی دریافت ہے۔

    طبی جریدے اینلز آف اناٹومی کے مطابق طبی سائنس دانوں نے انسانی جلد کے نیچے ایک نیا حصہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نچلے جبڑے میں موجود مسلز کی ایک تہہ ہے جو چبانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، نیسلٹڈ ڈیپ نامی یہ مسل (پٹھا) جبڑوں کے مسلز کا حصہ ہے جو گالوں اور نچلے جبڑے کے عقب میں ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق 2017 تک یہ مانا جاتا تھا کہ انسانی جسم میں 78 اعضا ہیں مگر پھر میسینٹری (آنتوں کو معدے کے بیرونی حصے سے جوڑنے والی جھلی) کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ تعداد 79 ہوگئی جب کہ 2018 اور 2019 میں بھی 2 نئے حصے دریافت کرنے کے دعوے سامنے آئے۔

    نئے دریافت شدہ مسل کو کوئی چیز چبانے کے دوران گالوں کے پیچھے انگلیاں رکھ کر محسوس بھی کیا جا سکتا ہے، اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ 2 تہوں پر مبنی مسل ہے، مگر کچھ ماہرین نے ایک تیسری اور زیادہ پراسرار تہہ کا خیال ظاہر کیا تھا۔

    سوئٹزرلینڈ کے یونیورسٹی سینٹر فار ڈینٹل میڈیسین باسل کے محققین نے بتایا کہ متضاد خیالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے جبڑے کے اس مسل کی ساخت کی منظم جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا، اور اس طرح جبڑے کے مسل کی اس تیسری تہہ کو آخر کار دریافت کر لیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ masseter مسلز (عضلات) کی گہرائی میں موجود ایک تیسری تہہ واضح طور پر افعال کے باعث دیگر 2 تہوں سے الگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کا یہ نیا مسل نچلے جبڑے کو مستحکم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق بھی کی جائے گی۔

    ماہرین نے اس نئے حصے کا نام Musculus masseter pars coronidea کا نام تجویز کیا ہے۔

  • ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو 5 درجہ سینٹی گریڈ تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کر سکتا ہے۔

    میٹا فیبرک بظاہر عام ٹی شرٹ کا کپڑا لگتا ہے لیکن یہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے جو مڈ انفرا ریڈ ریڈی ایشن کو خارج کرتی ہے اور یوں پہننے والے کا درجہ حرارت گھٹاتی ہے۔

    جریدے سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹیسٹ میں ظاہر ہوا کہ عام سوتی کپڑے پہننے والے شخص کے مقابلے میں میٹا فیبرک پہننے والا شخص اپنے درجہ حرارت کو 4.8 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔ محققین کے مطابق میٹا فیبرک کی کم لاگت اور اعلیٰ کارکردگی اسے ملبوسات اور کولنگ ایپلی کیشنز کے لیے کارآمد بناتی ہے۔

    انسانی جلد ایم آئی آر خارج کرتی ہے، جو دوسری انفرا ریڈ تابکاری کی طرح آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن گرمی کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔ گو کہ جلد کا عام درجہ حرارت تقریباً 37 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میٹا فیبرک پہننے سے یہ 31 سے 32 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے ایسا کپڑا ایجاد کیا ہے جسے مختلف رنگوں میں پیش کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ایسے وقت میں اپنے جسم کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    یہ ہواچونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ووہان ٹیکسٹائل انڈسٹری، چنگ ڈاؤ کے انٹیلی جنٹ ویئریبل انجینئرنگ ریسرچ سینٹر اور بیجنگ کے چائنا ٹیکنالوجی اکیڈمی کے محققین کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

  • کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے جسم کے تمام خلیات کچھ عرصے بعد تحلیل ہو کر نئے سرے سے بننا شروع ہوجاتے ہیں؟

    ہمارا جسم آج سے 10 سال قبل جیسا تھا آج اس سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے تمام اعضا کے خلیات ایک خود کار نظام کے تحت پرانے ہو کر ٹوٹتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیات لیتے جاتے ہیں۔

    آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے جسم کا کون سا حصہ کتنے عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    بال

    ہمارے سر کے بال 2 سے 7 سال کے اندر ٹوٹتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ بالکل نئے بال آجاتے ہیں۔

    ناخن

    ہمارے پاتھ پاؤں کے ناخنوں کی عمر 6 ماہ ہے۔ 6 ماہ بعد نئے ناخن پرانے ناخنوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔

    خون کے سرخ خلیات

    ہمارے خون کے سرخ خلیات ہر 4 ماہ بعد نئے خلیوں سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    ہڈی

    ہمارے جسم کی ہر ہڈی 10 سال بعد تبدیل ہو کر نئی بن جاتی ہے۔

    ڈھانچے کے عضلات

    ہمارے ڈھانچے کے تمام عضلات ہر 15 سال بعد نئے ہوچکے ہوتے ہیں۔

    خلیہ

    جسم میں موجود خلیے بذات خود نئے سرے سے تشکیل پانے میں 2 سے 4 ہفتے کا وقت لیتے ہیں۔

    دماغی نیورونز

    ہمارے دماغی نیورونز کبھی تبدیل نہیں ہوتے اور پیدائش سے لے کے موت تک یکساں رہتے ہیں۔

  • انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    کیا آپ جانتے ہیں کہ انگڑائی لینا یا آنکھوں سے آنسوؤں کا جاری ہونا بے مقصد نہیں ہے بلکہ ان جیسے کئی افعال انسانی جسم کو نقصان سے بچانے کے لیے ازخود رونما ہوتے ہیں۔

    انسانی جسم کو قدرت نے اس قدر پرپیچ انداز میں ڈیزائن کیا ہے کہ سائنسداں آج بھی اس کے بہت سے افعال سمجھنے سے قاصر ہیں، جیسے جیسے ریسرچ آگے بڑھ رہی ہے ، جسم  کے ہر فعل  کا ایک نیا مقصد سامنے آرہا ہے۔

    میڈیکل سائنس جیسے جیسے ترقی کررہی ہے ، انسانی جسم کی ایک ایک حرکت کی وضاحت کرتی جارہی ہے اور ذیل میں ہم انسانی جسم کے آٹھ ایسے افعال  اور ان کے پیچھے پوشیدہ مقاصد آپ کے سامنے بیان کررہے ہیں ، جنہیں جان کر بے اختیار آپ سبحان اللہ کہہ اٹھیں گے۔

    مندرجہ ذیل آٹھ افعال انسانی جسم کے دفاعی نظام کا حصہ ہیں جن کا مقصد جسم کو پہنچنے والے انتہائی بڑے نقصان کے خلاف مدافعت کرنا ہے۔

    چھینک

    ناک سانس کی آمد و رفت کا بنیادی ذریعہ ہے اور آپ کو چھینک اس وقت آتی ہے جب ناک  میں ہوا کی گزرگاہ کسی چیز سے الرجی کا شکار ہو یا اس میں  کچرا بھر گیا ہو، درحقیقت یہ اس کچرے کو باہر نکالنے  اور ہوا کی گزر گاہ کو صاف رکھنے کے لیے انسانی جسم کا خود کار ذریعہ ہے۔

    انگڑائی لینا

    عموماً انگڑائی لینے کے عمل کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن صبح اٹھتے ہی اکثرافراد انگڑائی لیتے ہیں، ایسا کرنے سے طویل وقت تک لیٹنے رہنے کے سبب سست پڑجانے والے نظامِ خون  کو  اٹھنے  کے بعد  بحال کرنا ہوتا ہے اوراس سے  جسم کےمسلز کام کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔

    جمائی لینا

    جمائی کو عام طور پر سستی کی نشانی تصور کیا جات  ہے اوراس کے بارے میں متعدد خیالات موجود ہیں، لیکن طبی طورپراس کا بنیادی مقصد دماغ کو بہت زیادہ گرم ہونے سے بچانا ہے۔

    رونگٹے کھڑے ہونا

    ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جسم کے رونگٹے خوف کی حالت میں کھڑےہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو جسم رونگٹے کھڑے کرکے جسم سے حرارت کے اخراج کی شرح کو کم کرتا ہے، اس طرح سرد موسم میں گرم رہنا آسان ہوجاتا ہے۔

    یاداشت کھونا

    کئی باراس وقت لوگ یاداشت سے عارضی طور پر محروم ہوجاتے ہیں جب وہ کسی ناخوشگوار واقعے سے گزرتے ہیں، یہ دماغ کی جانب سے آپ کو ٹراما سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔

    آنسو

    آنسوؤں کے 2 مقاصد ہوتے ہیں، یہ آنکھوں کو بیرونی اشیاءسے تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ جذباتی دفاعی ڈھال بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسان اس وقت روتے ہیں جب وہ اپ سیٹ ہوتے ہیں تاکہ خود کو جذباتی تکلیف سے بچاسکیں۔

    ہاتھوں میں جھریاں

    جب ہم کسی نم ماحول ہوتے ہیں تو  ایسے وقت  میں انسانی ہاتھوں پر جھریاں نمودار ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ یہ  ہے کہ جسم پھسلنے والے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکے، یہ جھریاں ہاتھوں کی گرفت بہتر کرتی ہے اور گرنے یا چوٹ لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ہچکیاں

    اگر آپ کو ہچکیاں آرہی ہیں تو ضروری نہیں کہ کوئی آپ کو یاد کررہا ہے ۔ہچکیاں اس وقت آتی ہیں جب لوگ بہت تیزی سے کچھ کھالیں، اس عمل سے جسم آپ کو تیزی سے کھانے سے روکتا ہے تاکہ غذا ہضم کرنا آسان ہوجائے۔

  • انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    انسانی جسم حیرت انگیز معلومات و صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں گے، اتنے ہی حیران ہوتے جائیں گے۔

    آج ہم آپ کو انسانی جسم سے متعلق ایسے ہی کچھ حیران کن حقائق سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔


    جلد

    کیا آپ جانتے ہیں آپ کے بستر کے نیچے جمع زیادہ تر مٹی، آپ کی مردہ جلد ہوتی ہے جو سونے کے دوران جھڑتی ہے۔


    ہڈیاں

    ایک ننھے بچے میں عام انسان کی نسبت 60 ہڈیاں زیادہ موجود ہوتی ہیں یعنی کل 350 ہڈیاں۔ نشونما کے دوران کچھ ہڈیاں آپس میں جڑتی چلی جاتی ہیں جس کے بعد بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک انسان میں 206 ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔


    پلکیں

    ہماری پلکوں میں نہایت ننھے ننھے کیڑے یا لیکھیں موجود ہوتی ہیں۔


    دانت

    دانت ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کسی نقصان کی صورت میں خود سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔


    دماغ

    جب ہم نیند سے جاگتے ہیں تو ہمارے دماغ کی توانائی سے ایک ننھا سا لائٹ بلب باآسانی روشن کیا جاسکتا ہے۔


    ڈی این اے

    اگر ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی این اے کو کھول کر سیدھا کیا جائے تو یہ 10 ارب میل کے فاصلے پر محیط ہوگا، یعنی اس کی لمبائی زمین سے سیارہ زحل تک اور پھر واپس زمین جتنی ہوگی۔


    سانس لینا

    انسان وہ واحد ممالیہ جانور ہے جو بیک وقت سانس لینے اور نگلنے کا کام نہیں کرسکتا۔


    ڈائٹنگ

    ڈائٹنگ کرنے والے افراد کا دماغ غذا کی کمی کے باعث اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔


    موت

    انسانی جسم کی موت کے 3 دن بعد وہ انزائم جو زندگی میں آپ کا کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی انزائم مردہ جسم کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔


    مزید پڑھیں: جان بچانے کے بارے میں 7 غلط تصورات

    مزید پڑھیں: طبی طور پر فائدہ پہنچانے والی عام عادات

    کیسی لگیں آپ کو یہ حیران کن معلومات؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔