Tag: human brain cells

  • چوہوں میں انسانی دماغ کے خلیات بنانے کا کامیاب تجربہ

    چوہوں میں انسانی دماغ کے خلیات بنانے کا کامیاب تجربہ

    سائنس دانوں نے چوہوں میں انسانی دماغ کے خلیات بنانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔

    بدھ کو جریدے نیچر میں شائع شدہ مقالے کے مطابق سائنس دانوں نے انسانی دماغ کے خلیات کو ننھے چوہوں کے دماغوں میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے، جہاں خلیوں میں نشوونما ہوتی اور انھیں رابطے بناتے دیکھا گیا۔

    یہ ریسرچ اسٹڈی انسانی دماغ کی نشوونما اور اس انتہائی پیچیدہ عضو کو متاثر کرنے والی بیماریوں کا بہتر مطالعہ کرنے کی کوشش کا حصہ تھی۔

    ماہرین انسانی جسم کے بعض اعضا کے کچھ سیلز کو جانوروں میں بنانے کے کامیاب تجربے کر چکے ہیں، ماہرین مردہ جانوروں کے اعضا کے کچھ سیلز کو بھی دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اب ماہرین نے انسانی دماغ کے، احکامات جسم تک پہنچانے والے ’نیورون‘ کے بعض سیلز کی چوہوں میں افزائش کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔

    اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے دماغ کے آرگنائڈز (جسم سے باہر تیار کیا گیا، عضو کا ایک چھوٹا اور سادہ ورژن) بنانے کے لیے پہلے انسانی جلد کے خلیات کو اسٹیم سیلز میں تبدیل کیا، اور پھر ان کو ملایا گیا تاکہ یہ کئی قسم کے دماغی خلیات بن جائیں، اس کے بعد یہ خلیے کئی گنا بڑھے، اور آرگنائڈز کی صورت اختیار کر گئے، جو سیریبرل کارٹیکس سے مشابہت رکھتے تھے، یعنی انسانی دماغ کی سب سے بیرونی تہہ جو یادداشت، سوچنے، سیکھنے، استدلال کرنے اور جذبات جیسی چیزوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

    سائنس دانوں نے ان آرگنائڈز کو چوہوں کے 2 سے 3 دن کے بچوں میں ٹرانسپلانٹ کیا، عمر کے اس مرحلے پر دماغ کے کنیکشن ابھی بن رہے ہوتے ہیں، آرگنائڈز اتنے بڑھ گئے کہ انھوں نے چوہے کے دماغ کے ایک تہائی حصے پر قبضہ جما لیا۔ آرگنائڈز کے نیورونز نے دماغ میں سرکٹس کے ساتھ ورکنگ کنکشنز تشکیل دے دیے۔

    خیال رہے کہ ’نیورون‘ انسانی دماغ کا وہ نظام ہے جو دماغی احکامات کو جسم کے دیگر حصوں میں منتقل کرتا ہے اور اس میں خرابی کے باعث ہی بعض دماغی اور جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ عام طور پر ’نیورون‘ میں خرابی کے باعث مرگی، آٹزم اور سکیزوفرینیا سمیت اسی طرح کی دیگر دماغی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

    سائنس دانوں نے ’نیورون‘ کے بعض سیلز کی چوہوں میں افزائش کر کے یہ پتا لگانے کی کوشش کی ہے کہ آخر اس نظام میں کس طرح کی خرابیوں کے باعث دماغی بیماریاں پھیلتی ہیں۔

    انسانی نیورونز اس سے قبل بھی چوہوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں تاہم یہ بڑی عمر کے چوہوں میں کیے گئے تھے، اسٹینفورڈ اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر پاسکا نے بتایا کہ پہلی بار ان آرگنائڈز کو ایک نوزائیدہ چوہے کے دماغ میں رکھا گیا ہے، جس نے انسانی جلد کے خلیوں سے اب تک کی سب سے جدید ترین انسانی دماغی سرکٹری پیدا کی، اور یہ دیکھا گیا کہ انسانی نیورونز امپلانٹ کیے جائیں تو جانور کے رویے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

  • کرونا وائرس انسانی دماغ کو متاثر کرتا ہے یا نہیں؟ نئی تحقیق میں بڑا دعویٰ

    کرونا وائرس انسانی دماغ کو متاثر کرتا ہے یا نہیں؟ نئی تحقیق میں بڑا دعویٰ

    کم وبیش دو سال سے پوری دنیا میں تباہی مچانے والے ‘کرونا وائرس’ پر ہزارہا تحقیق ہوچکی، اب نئی تحقیق میں بڑا دعویٰ کیا گیا ہے۔

    طبی جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق کے نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کووڈ نائنٹین کا باعث بننے والا کرونا وائرس انسانی دماغ کے خلیات کو متاثر نہیں کرسکتا۔

    تحقیقی نتائج سابقہ رپورٹس سے مختلف ہیں جن میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کرونا وائرس ناک کے راستے دماغی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔

    بیلجیئم اور جرمنی کے ماہرین کی اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وائرس ناک میں موجود معاون خلیات سسٹینٹاکولر کو تو متاثر کرسکتا ہے مگر وہ حس شامہ سے منسلک سنسری نیورونز (او ایس این ایس) کو متاثر نہیں کرسکتا۔

    جرمنی کے میکس پلانک ریسرچ کے ماہر پیٹر مومبیٹرز تحقیق کو انتہائی اہم فرق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرونا او ایس این ایس کو متاثر کرتا ہے تو وہاں سے وہ دماغ تک با آسانی سے پہنچ سکتا ہے اور دماغ کی زیادہ گہرائی میں جاکر طویل المعیاد نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت منظر عام پر

    اس کے مقابلے میں اگر وائرس صرف سسٹینٹاکولرخلیات کو متاثر کرتا ہے تو اس سے ہونے والا نقصان زیادہ دیرپا نہیں ہوتا، اس سے کووڈ کے مریضوں میں سونگھنے کی حس سے محرومی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

    ایک تخمینے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک فرد کے لیے یہ مسئلہ طویل المعیاد یا مستقل بھی ہوسکتا ہے، محققین کا کہنا تھا کہ اس کی ممکنہ وجہ او ایس این ایس کے ٹکڑے ہونا ہے چاہے ان کو نقصان نہ بھی پہنچے۔

    مگر محققین نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں موجود دیگر ذہنی و اعصابی علامات جیسے تھکاوٹ اور ذہنی دھند کا جائزہ نہیں لیا، ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی کو شک نہیں کہ مرکزی اعصابی نظام اس بیماری سے متاثر ہوتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایسا براہ راست وائرس سے ہوتا ہے یا اس کا کوئی بلا واسطہ میکنزم ہے، جیسے خون میں ورم کا ردعمل یا علاج وغیرہ۔