Tag: human health

  • موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ دنیا کے مستقبل کو تشکیل دینے والے دو اہم ستون ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے مراد عالمی آب و ہوا میں اہم، طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔

    دنیا بھر میں ماحول سورج، زمین اور سمندروں، ہوا، بارش اور صحراؤں میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثر یہ ہے کہ بحرالکاہل کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایسے طوفانوں کو جنم دے رہا ہے جو زیادہ زیادہ بارشیں برساتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

    حالیہ برسوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تلخ حقائق سے نمٹ رہا ہے، اسے متعدد ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے ماحولیاتی نظام، معیشت اور معاشرتی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک قوم کو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔

    ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کو مختلف طریقوں سے متاثر کرسکتی ہے جس کی وجہ سے مندرجہ ذیل مسائل جنم لیتے ہیں۔

    حشرات الارض کی پیداوار

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت اور فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ مچھروں اور دیگر حشرات کی افزائش نسل کے لئے بہتر ماحول فراہم کرتا ہے، اس وجہ سے ان کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں

    درجہ حرارت اور بارشوں میں اضافہ خصوصاً گرمیوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے ذریعے دیگر انفیکشن کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    سانس کی بیماریاں

    اکثر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے جو ہوا کے ذریعے پھیپڑوں میں داخل ہو کر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ، پھیپڑوں اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ

    ماحولیاتی تبدیلی حیران کن طور پر ذہنی صحت سے وابستہ مسائل میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق پانچ برس میں درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری اضافے سے ذہنی امراض میں 2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک درجہ حرارت میں اضافہ 14ہزار افراد کی خودکشی کی وجہ ہو گا۔

  • کانوں کا میل انسانی صحت کیلئے کتنا مفید ہے ؟ جانیے

    کانوں کا میل انسانی صحت کیلئے کتنا مفید ہے ؟ جانیے

    کان کا میل وہ مواد ہے جو کان کے اندر موجود غدود میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے کئی اہم کردار ہیں، یہ میل ہمارے لیے کتنا کارآمد اور مفید ہے اس کا اندازہ آپ کو اس رپورٹ سے ہوجائے گا۔

    کانوں کے میل کو عمومی طور پر ایک گندی چیز سمجھا جاتا ہے جس کا صاف کیا جانا ضروری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کانوں کا میل بھی ایک حد تک ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔

    کان کے میل کا کام کیا ہوتا ہے؟
    یہ کان میں خشکی ہونے سے روکتا ہے، یہ کان کو دھول کے ذرات سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے انفیکشن کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

    کانوں کی صفائی اچھی بات ہے لیکن کانوں کو بالکل ہی صاف کردینا یہ صحت کے لیے مضر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کانوں کا میل جسے انگریزی میں
    ایئرویکس کہتے ہیں، قدرت کا عطا کردہ عجیب مدافعتی نظام ہے۔

    اس کی سطح چپکدار ہوتی ہے اور یہی چپ چپاہٹ ہم کو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے، یہ چپکدار مادہ باہر سے داخل ہونے والے جراثیم ، گردوغبار، فنگس یا کیڑے مکوڑوں کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے۔ ضرر رساں مادے اس پر چپک جاتے ہیں اور اندر تک نہیں پہنچ پاتے۔

    کانوں کے میل میں ایک انتہائی اہم خامرہ موجود ہوتا ہے جسے لائزوزوم کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا حیاتیاتی سالمہ ہوتا ہے جو کیمیائی تعامل کے ذریعے خوردبینی حیاتیات کے خلیوں کو توڑ دیتا ہے۔

    لائزوزوم جراثیم اور فنگس وغیرہ کو 2 مرحلوں میں ختم کرتا ہے، اوّل جب کوئی جراثیم داخل ہوتا ہے تو میل کی چپکدار سطح اُسے اپنے ساتھ چپکا لیتی ہے۔

    اس سے جراثیم کی حرکت رُک جاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں کمیمیائی عمل کے ذریعے اس جراثیم کے خلیات کو توڑ دیا جاتا ہے جس سے مضر صحت مادہ وہیں ختم ہوجاتا ہے۔

  • تکیے کے غلاف پر کتنے اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں؟ حیران کن حقائق

    تکیے کے غلاف پر کتنے اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں؟ حیران کن حقائق

    عام طور پر بہت سے افراد اپنے بستر کی صفائی کے بارے میں لاپرواہ ہوتے ہیں، ایسے لوگ تکیے اور چادروں کی صفائی کو غیر اہم سمجھتے ہیں، اس سے کئی خطرناک بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    آسٹریلوی ویب سائٹ بزنس انسائڈر کی جانب سے کرائے گئے سروے میں بتایا کہ اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کے پچپن فیصد غیر شادی شدہ مردوں نے سال میں صرف چار بار اپنے بستر کی چادر تبدیل کرنے کی تصدیق کی، یہ وہ بستر تھے جن میں وہ مزید سو نہیں سکتے تھے۔

    ہر شخص ایک رات میں تقریبا 15 ملین جلد کے خلیات تیار کرتا ہے، لیکن وہ آپ کی چادروں میں جمع نہیں ہوتے کیونکہ دھول کے ذرے ان کو کھا جاتے ہیں۔جتنا زیادہ عرصہ آپ بستر کی چادریں نہیں دھوئیں گے اسی قدر ان مخلوقات کو کھانا زیادہ ملے گا اور وہ اس کی دوبارہ نشوونما کریں گے،لہذا اگر آپ زیادہ عرصے تک اپنی چادریں نہیں دھوتے تو آپ سینکڑوں ہزاروں مکڑی نما مخلوقات کے ساتھ سوتے ہیں۔

    آسٹریلوی ویب سائٹ کے مطابق بستر میں موجود گردوغبار سے کچھ پروٹین بنتے ہیں جو حساس جلد والے لوگوں کو خارش، آنکھوں کی بیماریوں، نزلہ اور کئی جلدی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ بستر میں موجود گردوغبار ہی صرف بیماریوں کا باعث نہیں بنتی بلکہ اگر آپ لمبے عرصے تک بستر یا تکیہ نہیں دھوتے تو اس پر جراثیم کا بڑا گروہ تیار ہوجاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق عام تکیہ پر سولہ مختلف اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں جو اپنی نشوونما بھی کرتے ہیں ان میں سب سے عام اور انتہائی خطرناک ایسپرگیلوس فیومیگاٹس ہے، یہ جسم پر الرجی اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ دوسرے اعضاء کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

    ایک دوسری تحقیق کے مطابق بغیر دھوئے ہوئے بستروں کی چادروں اور تکیے کے غلافوں پر پالتو جانوروں کے برتنوں سے 39 فیصد زیادہ جراثیم ہوتے ہیں، اسی طرح بیت الخلا کی نشست سے ہزاروں فیصد زیادہ بیکٹریا تکیے کے غلاف پر ہوتے ہیں، یہ بعض حالات میں انتہائی خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  موسم سرما میں کرونا وائرس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

    خوفناک بات یہ ہے کہ چہرے پر دانے بستر کی گندگی کی وجہ سے بنتے ہیں، کیونکہ روزانہ بستر پر کاسمیٹکس، لوشن، تیل وغیرہ پہنچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ ٹشو کی طرح گندا ہوجاتا ہے ، پھر کسی رات یہ ساری گندگی آپ کے جسم پر منتقل ہوجاتی ہے اور جسم کے مساج بند کردیتی ہے، جس سے دانے پیدا ہوجاتے ہیں۔

    خوش قسمتی سے ان سب پریشانیوں سے بچنے کا آسان حل بستر کی چادروں کو زیادہ سے زیادہ دھونا ہے، ماہرین ہفتہ میں ایک بار گرم پانی سے بستر اور تکیہ کی چادروں کو دھونے کا مشورہ دیتے ہیں، اس سے بیکٹریا اور گردوغبار ختم ہوجاتی ہے اسی طرح داغ وغیرہ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔

  • صوبے کے عوام اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، شہباز شریف

    صوبے کے عوام اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، شہباز شریف

    لاہور : وزیراعلٰی شہباز شریف نے کہا ہے کہ صوبے کے عوام اپنی جان سے زیادہ عزیزہیں۔ ملاوٹ مافیا کو انسانی صحت سے نہیں کھیلنے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دو گھنٹے طویل ویڈیو کانفرنس کی، جس میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی اور مستقبل کے لائحہ عمل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

    وزیراعلٰی پنجاب نے کہا کہ صوبے کے عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میرا مشن ہے اور پنجاب فوڈ اتھارٹی اس مشن کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء تیار اور فروخت کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، ملاوٹ مافیا کو انسانی صحت سے نہیں کھیلنے دیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ صوبے کے عوام انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف قانون کے تحت بلاامتیاز کارروائی جاری رکھی جائے۔


    مزید پڑھیں:  مسلم لیگ ن نےسیاست کوہمیشہ عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا‘ شہبازشریف


    انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی گندے پانی سے سبزیاں کاشت کرنے والو ں کے خلاف تسلسل کے ساتھ کارروائی جاری رکھے اور فوڈ سیفٹی کے بارے میں اقدامات کو نصاب میں شامل کرنے کیلئے فوری طور پر کام کیا جائے۔

    وزیراعلٰی نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عملے کی بیرون ملک تربیت کا انتظام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں فوڈ کمپنیوں کی سپانسرشپ کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے لئے فوڈ کورٹس بھی بنائی جائیں گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • باربی کیو کا گوشت انسانی صحت کے لیے مفید

    باربی کیو کا گوشت انسانی صحت کے لیے مفید

    لندن : عید قربان پر باربی کیو کا اپنا ہی ایک مزہ ہے اور ہر گھر میں اسکا اہتمام کیا جاتا ہے، گوشت کے پکوان کئی طریقوں سے بنائے جاتے ہیں لیکن باربی کیو مقبول ترین طریقہ ہے اور صحت بخش بھی ہے۔

    عید کے دنوں گھروں میں باربی کیو کرنے کا رواج بہت پرانا ہے اور رات کو گھر کی چھتوں پر یا صحن میں بیٹھ کر تکے بوٹی کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

    حال ہی میں امپیریئل کالج لندن کے ماہرین کی جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مصالحہ لگا کر میرینٹ ہوا اور ہلکی آنچ پر پکا گوشت ذائقے دار ہوتا ہے جبکہ ہلکی آنچ پر کھانے پکانے میں تیل بھی کم استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گوشت پکاتے وقت ہمیشہ ادرک لہسن کا استعمال ضرور کریں کیونکہ ادرک لہسن کا پیسٹ گوشت کے موجود مضر اجزاء کو ناکارہ بنانے میں مدد دیتا ہے جبکہ دل کی شریانوں میں چربی جمنے سے روکتا ہے۔

    برطانوی ماہرین کے مطابق گوشت کو بوٹیوں کی با نسبت قیمے کی صورت میں پکاکر کھانا زیادہ مفید ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت کو روسٹ کرتے وقت اگر اس میں خشخاش ، رائی، خشخاش، ناریل، بادام اور املی کے پیسٹ اور ہری مرچ اور لہسن کا پیسٹ استعمال کریں تو اس سے نہ صرف گوشت کا ذائقہ بڑھ جائے گا بلکہ مضر اثرات بھی ختم ہوجائیں گے۔

    باربی کیو بنانے وقت ایک بات کا خیال رکھیں کہ گوشت کو بہت زیادہ نہیں جلائیں کیونکہ ایسا کرنے پر ایسے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو صحت کیلئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔