Tag: humans

  • جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    عالمی ادارہ صحت جہاں ایک طرف تو متعدد وباؤں کے پھیلاؤ کے حوالے سے متنبہ کرچکا ہے، وہیں اب ادارے نے ایک اور وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم اور زمین کی بڑھتی ہوئی حدت دنیا کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس ساری صورتحال میں ایک طرف توخشک سالی کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے خوراک کے مسائل جنم لینے لگے ہیں تو وہیں جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں بھی منتقل ہونے لگی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریان مائک نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ منکی پاکس اور لاسا بخار جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہوچکا ہے اور ان کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی بڑھتی جارہی ہے جس سے انسان اور جانور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ خوراک کی تلاش سمیت دیگر عوامل میں اپنا رویہ تبدیل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں تیزی سے انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں جو تشویش ناک ہے۔

    ڈاکٹر ریان مائک نے لاسا بخار کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں لاسا بخار کئی ممالک میں پھیل رہا ہے جو کہ دراصل افریقی خطے میں چوہوں میں پایا جانے والا وائرل بخار تھا، لیکن اب اسے انسانوں میں پھیلتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایبولا وائرس کے محدود حد تک پھیلنے میں بھی پانچ سال تک لگ جاتے تھے مگر اب کسی وائرل بیماری کے پھیلاؤ میں 5 ماہ کا وقفہ بھی مل جائے تو اسے خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔

    اسی طرح ڈاکٹر ریان مائک نے ماضی میں بندروں میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یقینی طور پر بیماریوں کے پھیلاؤ میں موسمیاتی تبدیلی کا دباؤ شامل ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے سربراہ نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب صرف افریقہ میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کے دنیا کے 30 ممالک میں 550 تک کیسز رپورٹ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    برطانوی ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت کیا ہے، یہ جین 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے انسانی جسم کے اندر ایک ایسے جین کو دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے مریضوں کی موت اور پھیپھڑوں کے افعال فیل ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کیوں کچھ افراد میں دیگر کے مقابلے میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جین کا یہ ورژن کروموسوم کے خطے میں ہوتا ہے جو 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مخصوص جین ایل زی ٹی ایف ایل 1 دیگر جینز کی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور وائرسز کے خلاف پھیپھڑوں کے خلیات کے ردعمل کے عمل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔

    جین کی یہ قسم سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیات میں وائرس کو جکڑنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جین مدافعتی نظام پر اثرات مرتب نہیں کرتا جو بیماریوں سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کا کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں ویکسینز کا ردعمل معمول کا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خلاف پھیپھڑوں کا ردعمل انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر طریقہ علاج میں وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل بدلنے میں توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر راغب علی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر ہیں مگر جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں بیماری سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر سائمن بیڈی نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں اس جین کے ممکنہ کردار کے حوالے سے مناسب شواہد دیے گئے ہیں مگر اس دریافت کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    مریخ پر انسانی آبادی بسائے جانے کے حوالے سے مختلف ریسرچز اور تجربات پر کام جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مریخ پر انسانی آبادی شروع کرنے کے لیے 110 انسان درکار ہوں گے۔

    فرانس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولی ٹیکنیک میں کیے گئے مطالعے میں دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کم از کم کتنے انسان مریخ پر زیادہ سے زیادہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ کم از کم 110 انسان ان محدود وسائل کے اندر مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ افراد ایک کالونی بنا کر رہیں گے اور ان کی کالونی آکسیجن سے بھری ایک گنبد نما جگہ ہوگی۔ ان افراد کو اپنی زراعت خود کرنی ہوگی۔

    اس تحقیق میں ایک میتھامیٹیکل ماڈل استعمال کیا گیا جس سے کسی دوسرے سیارے میں زندگی کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی، تحقیق میں کہا گیا کہ اس کالونی میں اہم ترین عوامل میں سے ایک، ایک دوسرے سے اشتراک یا شیئرنگ کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر اس آبادی کا کسی وجہ سے (متوقع طور پر کسی جنگ کی صورت میں) زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا یا مریخ پر رہنے والوں نے خود ہی اپنی خود مختار حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تو 110 افراد کی آبادی محدود وسائل میں آسانی سے مریخ پر زندگی گزار سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ زمین کو خطرناک ماحولیاتی خطرات سے دو چار کرنے کے بعد اب انسانوں کو زمین اپنے لیے ناقابل رہائش لگنے لگی ہے اور اس حوالے سے دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں جن میں مریخ سرفہرست ہے۔

    امریکی ارب پتی ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپیس ایکس پروگرام پر اس امید پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ جلد مریخ پر ایک انسانی آبادی آباد ہوجائے گی۔

  • انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

    زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

    دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

    پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

    اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

    اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

    زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

    4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

    اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

    حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

    اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

    ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

    دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

    اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

    اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

    قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

    یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

  • انسان کا دماغ مرنے کے بعد بھی کام کرتا ہے

    انسان کا دماغ مرنے کے بعد بھی کام کرتا ہے

    کیا انسان کو روح قبض ہونے کے بعد کوئی احساس ہوتا ہے؟ یہ ایک طویل بحث ہے جس کا حتمی نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔

    طبی ماہرین اور محققین نے مختلف تحقیقات کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش بھی کی اسی طرح یورپ اور امریکا کے سائنسی ماہرین نے ایک اور مطالعاتی تجزیہ کیا۔

    ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ’مرنے کے بعد انسان کا دماغ کام کرتا ہے اور انہیں اپنی موت کا خود بھی احساس ہوتا ہے‘۔

    حالیہ تحقیق میں امریکا اور یورپین ممالک کے ایسے کیسز کو شامل میں کیا گیا جن کی اموات دل کے دورے کے باعث ہوئیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اب وہ حتمی نتیجے تک پہنچ گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    ڈاکٹر سیم پارینو کا کہنا ہے کہ ’تحقیق میں شامل کیے جانے والے افراد اپنی موت سے قبل ارد گرد کے حالات سے بخوبی واقف تھے اور وہ دیکھ رہے تھے کہ ڈاکٹرز اُسے بچانے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’جب انسان کا دل کام کرنا بند کردیتا ہے اُس کے بعد بھی وہ اپنے ارد گرد جمع ہونے والے لوگوں کی آواز کو نہ صرف سنتا ہے بلکہ انہیں ویسے ہی پہچانتا بھی ہے‘۔

    ڈاکٹر سیم کا کہنا ہے کہ ’آخری وقت میں انسان کو اپنی موت کا علم ہوجاتا ہے اور اُسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ زندگی کی بازی ہارنے جارہا ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھاکہ ’میڈیکل کی تعلیم کے مطابق انسان کا دل بند ہوجائے تو وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، مگر دھڑکن بند ہونے سے صرف خون کی روانی رکتی ہے اور دماغ اُسی طرح کام کرتا رہتا ہے‘۔

    محقق کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’مردہ شخص کا دماغ اُس وقت تک کام کرتا ہے جب تک وہ اپنی موت کو تسلیم نہ کرلے، عام طور پر دو سے چار گھنٹے بعد دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے‘۔

    یہ بھی پڑھیں: نیند کے دوران اونچائی سے گرنے کا احساس کیوں

    نیویارک بروک یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر پارینہ کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم نے تحقیق کے دوران عارضہ قلب میں مبتلا افراد کو بہتر طبی سہولیات فراہم کیں پھر بھی کچھ کی اموات واقع ہوئیں۔

    پارینہ کا کہنا ہے کہ ’جب آپ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں تو دماغ تسلیم نہیں کرتا مگر کچھ گھنٹوں بعد اُسے ماننا پڑتا ہےکہ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا، اس کے بعد ہی انسان کی موت واقع ہوتی ہے‘۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • لال بیگوں کے آٹے سے پروٹین بھری ڈبل روٹی انسانی خوراک کے لیے تیار

    لال بیگوں کے آٹے سے پروٹین بھری ڈبل روٹی انسانی خوراک کے لیے تیار

    برازیلیا: برازیل کے تحقیقی ماہرین نے انسانی جسم میں موجود پروٹین کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لال بیگوں والی ڈبل روٹی تیار کرلی جسے مستقبل میں عام خوراک کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق برازیل کی یونیورسٹی آف ریو گرانڈ نے اقوام متحدہ کی پیش گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی ڈبل روٹی تیار کرلی جو مستقبل میں انسان استعمال کرسکیں گے۔

    تحقیقاتی ماہرین نے اقوام متحدہ کی آبادی سے متعلق رپورٹ کو سامنے رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2050 تک کراہ ارض پر انسانوں کی آبادی 9 کھرب 70 ارب سے تجاوز کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگر آبادی اتنی تعداد میں بڑھ گئی تو انسانی خوراک کی نہ صرف قلت ہوگی بلکہ قحط پڑجائے گا۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے خدشے کے باعث نہ صرف خوراک میں کمی ہوجائے گی بلکہ انسان کے درکار پروٹین کی مقدار کو فراہم کرنا بھی ناگزیر ہوجائے گا۔

    ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے برازیل کے تحقیقاتی ماہرین نے آٹے اور معدے میں لال بیگوں کو ملا کر ایسی ڈبل روٹی تیار کی جو انسانی جسم میں موجود پروٹین کی مقدار کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

    مزید پڑھیں: رنگ گورا کرنے کی کریمز میں لال بیگوں کا استعمال

    محقق اندریسا جینزن کا کہنا تھا کہ ڈبل روٹی کے لیے گندگی میں بیٹھنے والے لال بیگ استعمال نہیں کیے گئے بلکہ پالتو ’لابسٹر‘ نامی لال بیگوں کو آٹے میں شامل کیا گیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ابتدائی مرحلے میں شمالی افریقہ میں پائے جانے والے لال بیگوں کو لاکر آٹے کے ساتھ پیسا گیا، مارکیٹ میں ان لال بیگوں کی قیمت 51 ڈالر فی کلو ہے۔

    برازیل کے محققین کا کہنا تھا کہ پروٹین کی کمی کو ویسے تو دیگر کیڑوں کو استعمال کر کے بھی پورا کیا جاسکتا ہے مگر لال بیگوں کا چناؤ دو وجوہات کی بنا پر کیا گیا، پہلی تو یہ کہ ان میں سب سے زیادہ پروٹین موجود ہے اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ کراض ارض پر یہ لاکھوں سال سے موجود ہیں جو قدرتی طور پر اپنا ارتقائی عمل اور جنیاتی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: چین نے تیس کروڑ امریکی لال بیگ کیوں پال لیے؟

    محققین کی جانب سے تیار کی جانے والی ڈبل روٹی کو جینزن نے پروٹین سے بھرپور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تیاری کے لیے استعمال ہونے والے آٹے میں 10 فیصد لال بیگوں کا استعمال کیا گیا جس سے پروٹین میں 133 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ایک عام ڈبل روٹی میں 9.7 گرام پروٹین ہوتے ہیں۔

    اندریسا کا کہنا تھا کہ ڈبل روٹی اور عام ڈبل روٹی میں کوئی خاص فرق نہیں کیونکہ ہم نے اس کی ساخت، خوشبو، رنگ اور ذائقے کا مشاہدہ کیا تو کوئی خاص تبدیلی نظر آئی البتہ کچھ کھانے والوں کو یہ مونگ پھلی کے ذائقے جیسے لگ سکتے ہیں۔

  • چودہ ہزار سال قبل انسان روٹی کھاتے تھے، حیران کُن شواہد دریافت

    چودہ ہزار سال قبل انسان روٹی کھاتے تھے، حیران کُن شواہد دریافت

    عمان: محکمہ آثار قدیمہ نے دنیا کا سب سے قدیم تندور اور روٹی کا ٹکڑا دریافت کرنے کا دعویٰ کردیا جو تقریبا 14ہزار سال قبل انسانوں کے استعمال میں تھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اردن کے سیاہ صحرا میں محکمہ آثار قدیمہ کو زمین کی کھدائی کے دوران پرانی اشیاء ملیں جنہیں دیکھ کر ماہرین خود بھی حیران رہ گئے۔

    محکمے کے ماہرین نے مشاہدے کے بعد بتایا کہ صحرا سے ملنے والی اشیاء دراصل ’روٹی‘ اور تندور ہے جسے انسان ہزاروں سال قبل اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 14 ہزار سال قبل انسان جنگلی گندم میں کچھ پودوں کی جڑیں ملا کر آٹا تیار کرتے اور پھر اس کی روٹی اپنی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کرتے تھے، یہ دراصل آج استعمال ہونے والی ‘ڈبل روٹی‘ کی طرح ہے جس کی شکل گول نہیں بلکہ چوکور ہے۔

    آثار قدیمہ کی ٹیم کے ماہرین کا کہنا تھا کہ روٹی کا ذائقہ مختلف اجناس کی طرح تھا جسے مختلف کھانوں، سالن وغیرہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا اس کے ساتھ ہی دو ممکنہ تندور بھی موجود تھے جہاں یقینی طور پر آٹے کو پکا کر روٹی بنائی جاتی ہوگی۔

    ماہرین حالیہ  دریافت کو اہم اور قیمتی قرار دے دیا کیونکہ اس سے قبل سیاہ صحرا کے مقام سے جو شواہد ملے تھے وہ 5 ہزار سال پرانی تھے۔

    حیران کُن طور پر تندور کے پاس ایسے شواہد بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قبل مسیح میں انسان کو نہ صرف اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کا شعور تھا بلکہ وہ آگ کا استعمال کرتے ہوئے کھانا بھی بناتے تھے۔

    محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت ہونے والی چیزوں پر تحقیق کا آغاز کردیا جس میں کچھ نئے اشارے ملنے کی توقع بھی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسان میں کتے کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے، تحقیق

    انسان میں کتے کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے، تحقیق

    نیویارک: امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ انسان میں پالتو جانوروں خصوصاً کتے کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جانوروں پر انسانی رویے کے اثرات اور اُن پر عمل درآمد سے متعلق امریکی یونیورسٹی اوریجن اسٹیٹ یونیورسٹی میں تحقیق ہوئی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی زخمی جانور کی زندگی کو محفوظ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا  بلکہ اصل معاملہ اُس کی تنہائی کو دور کرنا ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ خصوصاً کتے پالنے والے افراد کے اندر ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذکورہ جانور کے مسئلے کو ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر انسانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔

    یونیورسٹی کی پروفیسر لورین بروبکر کا کہنا تھا کہ ہم سوچتے ہیں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی انسان جانور کے مسائل یا پریشانی کو سمجھ سکے مگر تحقیق میں ایسے نتائج سامنے آئے جو ہم سب کے لیے حیران کن تھے۔

    تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مالکان اپنے کتوں کی ذہانت کو بڑھانے کے لیے انہیں تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ چاک و چوپند رہیں اور اسی طرح 31 جانور ایسے ہیں جو انسان کی توجہ بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کتے انسانوں کی طرح الفاظ اور موسیقی سمجھنے کے اہل

    لورین بروبکر کا کہنا تھا کہ عام اور پالتو کتوں میں تربیت کا فرق واضح ہوتا ہے انہیں مالکان کی جانب سے مختلف ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ گلی اور شاہراؤں پر گھومنے والے کتے انسانی رویے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

    پروفیسر لورین نے مزید کہا کہ گھروں میں پالے جانے والے کتوں کو کمروں میں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز ہوتی ہے جبکہ انہیں یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ اگر کھانا کھایا جارہا ہے تو اُس میں منہ نہ ڈالیں اسی طرح پڑھائی یا کام کے دوران کسی فرد کو تنگ نہ کریں۔

    تحقیق کے دوران دیگر جانوروں کی مالکان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کو بھی دیکھا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جب کوئی مالک ہاتھ پھیلا کر اپنے پالتو کتے مخاطب کرتا ہے تو وہ بھاگ کر اس کے پاس آجاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔