Tag: HUNGER

  • ایران میں قید برطانوی شہری نے 15 روز بعد بھوک ہڑتال ختم کردی

    ایران میں قید برطانوی شہری نے 15 روز بعد بھوک ہڑتال ختم کردی

    تہران : برطانوی شہری نازنین زغری نے 15 روز قبل اپنی بیٹی کی پانچویں سالگرہ کے موقع کی گئی بھوک ہڑتال ختم کردی، اپنی اہلیہ سے اظہار یکجہتی کیلئے شوہر رچرڈریٹکلف نے بھی لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر بھوک کررکھی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے دارالحکومت تہران میں بغاوت کے جرم میں قید برطانوی شہری خاتون نازنین زغری ریٹکلف نے بھوک ہڑتال ختم کردی ہے،انھوں نے پندرہ روز قبل اپنی بیٹی کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی اور جیل حکام کی جانب سے ملنے والا کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا۔

    غیرلکی خبررساں ادارے کے مطابق ان کے خاوند رچرڈ ریٹکلف نے بھی گذشتہ پندرہ روز سے اپنی بیوی سے اظہار یک جہتی طور پر لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر بھوک ہڑتال کررکھی تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ نازنین نے سیب اور کیلے کے ساتھ تھوڑا سا دلیا کھایا ہے۔مجھے اس پر کچھ اطمینان ہوا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ بھوک ہڑتال کو اور طول دیں، رچرڈ نے لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ سبکدوش وزیراعظم تھریزا مے کی جگہ جو کوئی بھی برسر اقتدار آئے ،اس کو ان کی اہلیہ کے کیس کو ترجیح دینی چاہیے۔

    برطانوی شہزادی کو سپاہِ پاسداران انقلاب نے اپریل 2016ءمیں تہران کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا، وہ اس وقت اپنی بائیس ماہ کی بچی گبریلا کے ہمراہ ایران میں اپنے خاندان سے ملنے کے بعد واپس برطانیہ جارہی تھیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ایک ایرانی عدالت نے انھیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں قصور وار قرار دے کر پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن اب ان کے خلاف سکیورٹی سے متعلق الزامات پر ایک نیا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔

    تہران کی انقلابی عدالت کے سربراہ موسیٰ غضنفر آبادی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ نازنین زغری ریٹکلف کے خلاف نئے الزامات سکیورٹی سے متعلق ہیں۔

    ایرانی حکام کے مطابق اس کیس میں پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے عاید کردہ نئے الزامات پر اس خاتون کو مزید سولہ سال تک قید کا سامنا ہوسکتا ہے۔

  • خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان بھوک کا شکار ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے۔

    آج کی دنیا جہاں ایک جانب اپنی تاریخ کے جدید ترین دور میں داخل ہونے پر فخر کر رہی ہے وہیں اس جدید دنیا میں عوام کی کثیر تعداد بھوک و پیاس کا شکار ہے۔

    خوراک کا عالمی دن منانے کا آغاز 1979 سے ہوا، اقوام متحدہ نے اس سال کا عنوان ’بھوک کا خاتمہ 2030 تک ممکن ہے‘ رکھا ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ 22 ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں، ان میں سے 16 ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔

    مزید پڑھیں: بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کی شرح سب سے زیادہ ایشیائی ممالک میں ہے، بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر رواں برس 14 واں ہے اور یہاں کی 21 کروڑ آبادی میں سے پانچ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں پیٹ بھرکر روٹی میسر نہیں۔

    پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے پانچ سال سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    سنہ 2015 میں شروع کیے جانے والے پائیدار ترقیاتی اہداف میں بھوک کا خاتمہ دوسرے نمبر پر ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگر کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور کم وسائل میں زیادہ زراعت کی جائے تو سنہ 2030 تک اس ہدف کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔

  • بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ جس وقت آپ اپنے آرام دہ گھر یا دفتر میں گرما گرم کافی یا کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں کوئی بچہ بھوک سے مر جاتا ہے؟

    آپ کے کھانے پینے اور کام کرنے کے دوران ہر 10 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ بھوک سے لڑتا ہوا موت کی وادی میں اتر رہا ہوتا ہے۔ ہر رات جب آپ کھانا کھا کر ایک پرسکون نیند سونے جارہے ہوتے ہیں، آپ کے ارد گرد ہر 8 میں سے 1 شخص بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ پوری دنیا بھر میں 85 کروڑ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق اس تشویش ناک حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پاکستان ایک ایسا خوش نصیب ملک ہے جو دنیا میں خوراک اگانے والا آٹھواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے۔

    ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار جبکہ 8 فیصد سے زائد بچے بھوک کے باعث 5 سال سے کم عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    دنیا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس ساری صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور آگے بڑھ کر بھوک کے اس عفریت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال رابن ہڈ آرمی ہے جو پاکستان اور بھارت سمیت 13 ممالک میں بھوک کے خلاف برسر پیکار ہے۔

    اس ’فوج‘ کی بنیاد کا سہرا نیل گھوش نامی نوجوان کے سر ہے جو پرتگال میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں اسی مقصد کے لیے کام کرتے ایک ادارے ’ری فوڈ‘ سے متاثر ہو کر نیل نے ایسا ہی قدم بھارتی عوام کے لیے بھی اٹھانے کا سوچا۔

    ابھی وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے فیس بک پر اپنے ہم خیال کچھ پاکستانی دوست ٹکرائے۔ اور پھر ان سب نے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں بھوک مٹانے کے اس سفر کا آغاز کیا۔

    مستحق افراد کو کھانا پہنچانے اور بھوک کو ختم کرنے کا عزم لیے اس تحریک کا آغاز ڈھائی سال قبل اس دن سے کیا گیا جب ورلڈ کپ 2014 میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ نئی دہلی اور کراچی میں 6 رضا کاروں نے مختلف ریستورانوں سے کھانا جمع کر کے کچی آبادی کے غریب افراد کا پیٹ بھرا۔

    ان نوجوانوں کا مقصد اور طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ مختلف ریستورانوں اور ہوٹلوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرنا اور انہیں نادار و مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔ 6 رضا کاروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک ڈھائی سال بعد اب 13 ممالک کے 41 شہروں میں پھیل چکی ہے اور اس میں شامل رضاکاروں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

    اس تحریک کے بانیوں نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کام، اس کے طریقہ کار اور تجربے کے بارے میں بتایا۔

    تحریک کا نام غریبوں کے ہمدرد لٹیرے رابن ہڈ کے نام پر کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں نیل گھوش کا کہنا تھا کہ انگریزی تخیلاتی کردار رابن ہڈ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو بخش دیا کرتا تھا۔

    جب انہوں نے اس کام آغاز کیا تو وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ خوارک کی ایک بڑی مقدار کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور خصوصاً شادیوں میں بے تحاشہ کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو ہزاروں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔

    خوشحال افراد کے ضائع شدہ اسی کھانے کو کام میں لا کر غریب اور مستحق افراد کے پیٹ بھرنے کا خیال رابن ہڈ کے نظریے سے کسی قدر ملتا جلتا ہے، لہٰذا اس تحریک کو رابن ہڈ آرمی کا نام دیا گیا۔ تحریک میں شامل رضا کاروں کو بھی رابنز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کس طریقہ کار کے تحت اس کھانے کو مستحق افراد تک پہنچایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تحریک کے ایک اور بانی رکن نے بتایا کہ آرمی میں شامل ہر رضا کار کو کچھ مخصوص ریستوران اور اسی علاقے کی قریبی غریب آبادیوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

    ہر رضا کار اکیلا، یا 2 سے 3 کی تعداد میں اپنے طے کردہ ریستوران سے کھانا جمع کرتے ہیں، (جو ان کے لیے پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے) اس کے بعد وہ انہیں قریب میں موجود مستحق افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تحریک کسی قسم کی چندے یا عطیات کی محتاج نہیں۔

    ابتدا میں انہیں ریستورانوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کو کھانا دینے کے لیے بہت گفت و شنید کرنی پڑی۔ اب کئی ریستوران خود ہی ان سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بے شمار ریستوران ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔

    ایک رابن کا کہنا تھا کہ جب وہ کھانا جمع کرتے ہیں تو وہ ہر قسم کی غذا ہوتی ہے۔ پھل، سبزیاں بھی، مرغن اور چکنائی بھرے کھانے اور کیک، مٹھائیاں وغیرہ بھی جو بعض اوقات صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن وہ کھانے کی غذائیت کو نہیں دیکھتے۔ ’ہمارا مقصد بھوکے افراد کا پیٹ بھرنا ہے، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے بمشکل اپنی زندگی میں کچھ اچھا کھایا ہوگا۔ ایسے میں اگر ان کی صحت اور غذائیت کے بارے میں سوچا جائے تو یہ کھانے سے بھی محروم ہوجائیں گے جو ان کے ساتھ ظلم ہوگا‘۔

    تحریک کے بانی نیل گھوش نے بتایا کہ بھارت میں ان کے رضا کار شادیوں سے بھی بچ جانے والا کھانا جمع کرتے ہیں اور ان دنوں میں ان کی مصرفیات بے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں جب شادیوں کا موسم چل رہا ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے ان کے رضا کار آدھی رات کو بھی کھانا جمع کرنے پہنچتے ہیں اور اسی وقت مستحق آبادیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ صبح تک یہ کھانا خراب نہ ہوجائے۔

    نیل نے بتایا کہ بھارت میں عموماً بہت پر تعیش شادیاں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں ضائع ہونے والے کھانے کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ ایک بار حیدرآباد دکن میں ایک شادی سے بچ جانے والے کھانے سے 970 غریب افراد کو کھانا کھلایا گیا۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    اس تحریک سے منسلک رابنز کا کہنا ہے کہ جب وہ کھانا لے کر انہیں مستحق افراد تک پہنچانے جاتے ہیں تو انہیں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تب ان پر زندگی ایک نئے پہلو سے ظاہر ہوتی ہے۔

    کھانے کا انتظار کرنے والے غریب بچے بے حد خوشی، محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بڑے انہیں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ یہ سب انہیں خوشی تو فراہم کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم اور انسانی غیر ذمہ داری اور چشم پوشی کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہوجاتے ہیں۔

    رابن ہڈ آرمی پاکستان میں اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم ہے جبکہ بھارت کے کئی شہروں میں کام کر رہی ہے۔

    یہ رضا کار اب ان غریب علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر اسکول قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ غریب بچے اپنی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو سکیں۔

  • آج دنیا بھرمیں خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھرمیں خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان بھوک کا شکار ممالک میں گیارہویں نمبر پر ہے۔

    آج کی دنیا جہاں ایک جانب اپنی تاریخ کے جدیدترین دور میں داخل ہونے پر فخر کر رہی ہےوہیں اس جدید دنیا میں عوام کی کثیر تعداد بھوک و پیاس کا شکار ہے ، اور آج بھی یہی سوال درپیش ہے کہ کیا دنیا بھوک و پیاس کم کرنے کے وسائل پیدا کرسکی۔

    خوراک کا عالمی دن منانے کا آغاز انیس سو اناسی سے ہوا، اقوام متحدہ نے اس سال کا عنوان ’’موسم بدل رہا ہے ‘ غذا اور زراعت کو بدلیے ‘‘ تجویز کیا ہے، اقوام متحدہ خوراک کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ زراعت کو بھی اہمیت دی رہا ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اسی کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں، جن میں بائیس ممالک ایسے ہیں، جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں، ان میں سے سولہ ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔

    بھوک کے شکارممالک میں پاکستان گیارہویں نمبر پر*

    دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو بھوک کی شرح سب سے زیادہ ایشیاء کے ممالک میں ہے، بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبرگیارہواں ہے اور یہاں کی اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی میں سے پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں، جنھیں پیٹ بھرکر روٹی میسر نہیں۔

    سال 2008 میں پاکستان کے پوائنٹس 35 اعشاریہ ایک تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں بھوک میں کمی کچھ کم ہوئی ہے۔لیکن درجہ بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی غذا کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تشویشناک صورتحال سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔

    پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور آٹھ اعشاریہ ایک فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

  • تھرمیں مرنے والے بچوں کی تعداد اُنتالیس ہوگئی

    تھرمیں مرنے والے بچوں کی تعداد اُنتالیس ہوگئی

    مٹھی:تھر پارکرمیں غذائی قلت نے مزید دوبچوں کوموت کےمنہ میں دھکیل دیا،مرنےوالےبچوں کی تعداداُنتالیس تک پہنچ گئی ہے۔

    تھرمیں بھوک اور پیاس بچوں کےلئے بن گئی موت کا پیغام،ادویات کی کمی ہو یا صاف پانی کا سوال حکمرانوں کے دعووں کے سواکچھ بھی میسر نہیں،تعلقہ اسپتال چھاچھروں میں بارہ دن کا بچہ دم توڑ گیا جبکہ سول اسپتال مٹھی میں نومولود بچہ ادویات نہ ہونے کی وجہ سےجان سےگیا۔

    تھر پارکرتحصیل ڈیپلو،اسلام کوٹ،چھاچھرو،نگر پارکر اور ڈائیلی سمیت مختلف علاقوں کے طبی مراکز میں متعدد بچے زیرعلاج ہیں۔

    تھر پارکار کی ضلعی انتظامیہ نے گیارہ ماہ میں غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی سے دوسوپچہتر بچوں کی اموات کی رپورٹ حکومت سندھ کےحوالے کردی ہے۔