Tag: Ibn e Insha

  • اردو کے عظیم شاعر و مزاح نگار ابن انشاء کا 93 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    اردو کے عظیم شاعر و مزاح نگار ابن انشاء کا 93 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    یسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں، جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہو ں انہی میں معروف ادیب، شاعر،مترجم و سفارتکار ابن انشا بھی شامل ہیں، اردو ادب کے ہرفن مولا ابن انشا کا آج 93 واں یوم پیدائش ہے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہونے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد تھا, ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاء کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا “بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔

    ” چاند کسے پیارا نہیں لگتا؟ لیکن انشا پر تو چاند نے جادو سا کر رکھا تھا

    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا

    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    تصنیفات میں چاند نگر، دلِ وحشی ، اس بستی کے اک کوچے میں ، آوارہ گر د کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلئے ، نگری نگری پھرا مسافر، خمارِ گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق بھی ابن انشا تھے۔

    ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

    انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں۔ ان ہی میں سے ایک معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارت کار ابن انشا بھی شامل ہیں۔ اردو ادب کے ہر فن مولا ابن انشا کی آج 40 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927 کو پیدا ہونے والے ابن انشا کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیو پاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کیے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنے والے ادیب و شاعر ابن انشا نہ صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنے والی تمام خوبیاں و اصناف موجود تھیں۔

    انشا جی نے اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تاروں کو چھولیتے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشا کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا تھا، ’بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے‘۔

    ابن انشا کی تصنیفات میں چاند نگر، دل وحشی، اس بستی کے اک کوچے میں، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلیے، نگری نگری پھرا مسافر، خمار گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ کے خالق بھی ابن انشا تھے۔

    ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ 11 جنوری 1978 کو انشا جی دنیا سے کو چ کر گئے۔ اردو ادب کا یہ عظیم ستارہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    برصغیر کے نامور شاعر اور سفر نامہ نگار ابن انشاء کو دنیا سے کوچ کیے ہوئے انتالیس سال بیت گئے۔ ان کی شاعری اورمزاحیہ تحریریں آج بھی مقبول عام ہیں۔ ابنِ انشاء شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، انہوں نےغزلیں نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز تھا۔

    ابن انشاء کا اصلی نام شیر محمد خان اور تخلص انشاء تھا۔ آپ 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں کے اسکول میں حاصل کی۔ گاوٴں سے کچھ فاصلے پر واقع اپرہ قصبہ کے اسکول سے مڈل اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔

    انیس سو چھیالیس میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگرام کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔

    insha-post-01

    روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ کچھ عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد آپ لاہور تشریف لے آئے، آپ کی بھرپور ادبی زندگی کا آغاز لاہور ہی سے ہوا۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    ابنِ اِنشاء ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے غزل و نظم، سفر نامہ، طنز و مزاح اور ترجمے کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اپنی شاعری و نثر کے وہ اَنمٹ نقوش چھوڑے کہ جن کی بنا پر اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہوگیا۔

    insha-jee

    ابن انشاء سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر علاج کی غرض سے لندن گئے اور گیارہ جنوری 1978 کو وہیں وفات پائی، وفات کے بعد انہیں کراچی میں دفن کیا گیا۔ ابن انشاء اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں مگر ان کی یادیں چاہنے والوں کو دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ۔

    ان کی تصانیف میں

    شعری کلام: چاند نگر ۔ پہلا مجموعہ ۔ اس بستی کے اک کوچے میں، دوسرا مجموعہ، چینی نظمیں

    نثری تصانیف میں : اردو کی آخری کتاب ، خمار گندم ، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں

    (ابن انشاء کی وہ شاہکارغزل جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔)
    جسے استاد امانت علی خان نے گا کر امر کردیا

    انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

  • شاعرومزاح نگارابن انشا کو کوچ کئے 37 برس گئے

    شاعرومزاح نگارابن انشا کو کوچ کئے 37 برس گئے

    کراچی :  معروف شاعر اور مزاح نگار ابنِ انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، جن کی طبع میں سیلانی، لغت رومانی، شعر میں آہنگ میر سی روانی اور نثر میں شعورِ عصر سے جولانی تھی۔

    تصنیفات میں چاند نگر، دلِ وحشی ، اس بستی کے اک کوچے میں ، آوارہ گر د کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلئے ، نگری نگری پھرا مسافر، خمارِ گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے۔شامل ہیں۔

    مزاح کے پردے میں ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بلیغ طنز انہی کا طرہ امتیاز ہے، پیروڈی کا انداز، وسعت معلومات، سیاسی بصیرت اور صورتِ واقعہ سے مزاح کشید کرنا وہ خاص عناصر ہیں جن کی بدولت ابن انشاءکو ’ادبی لیجینڈ‘ کا تاج ملا۔

    مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاءکے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔

    ” چاند کسے پیارا نہیں لگتا؟ لیکن انشاپر تو چاند نے جادو سا کر رکھا تھا

    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا

    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا،

    زمانہ شوق سے سن رہا تھا مگر چاند نگر کا یہ دیوانہ گیا رہ جنو ری انیس سو اٹھتر دنیا سے کو چ کر گیا۔