کراچی: ایک اور تھانے دار رشوت کے عوض کراچی میں منشیات فروشی کی سرپرستی کے الزام کی زد پر آ گیا ہے، گرفتار ملزم نے ایس ایچ او ابراہیم حیدری پر منشیات فروشی کی سرپرستی کا الزام لگا دیا۔
تفصیلات کے مطابق سکھن پولیس کے ہاتھوں گرفتار ملزم شمشیر نے ویڈیو بیان میں اہم انکشاف کیا ہے، شمشیر کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او ابراہیم حیدری رشوت لے کر منشیات فروشی کی سرپرستی کر رہا ہے۔
ملزم کو کچھ روز قبل سکھن پولیس نے ریڑھی گوٹھ بس اسٹاپ سے گرفتار کیا تھا، اس نے اپنے بیان میں کہا ’’میں علی اکبر شاہ گوٹھ میں رہتا ہوں، میں اور میرا بھائی منشیات فروخت کرتے ہیں، ایس ایچ او ابراہیم حیدری کا بیٹر شاہنواز ہر ہفتے ہم سے پیسے لے کر جاتا ہے۔‘‘
ملزم شمشیر نے کہا ’’شاہنواز بیٹر کو ہر ہفتے 40 ہزار روپے ایس ایچ او کے لیے، 5 ہزار اپنے لیے لیتا ہے۔‘‘
ویڈیو بیان کے مطابق ملزم پہلے بھی 3 مرتبہ گرفتار ہو کر جیل جا چکا ہے، وہ کورنگی اور ابراہیم حیدری پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔
کراچی: شہر قائد کے ایک علاقے میں ایک شہری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان سے ڈاکو 69 لاکھ روپے چھین کر لے گئے، اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے، جو موقع واردات پر موجود کسی نے شخص نے بنائی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کو ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے، جس میں کراچی کے ضلع ملیر کے علاقے ابراہیم حیدری میں ایک کار سوار شہری سے لٹیرے لوٹ مار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
موبائل سے بنائی گئی اس ویڈیو میں سفید شلوار قمیض میں ملبوس 2 موٹر سائیکل سوار کار سوار سے رقم چھین کر لے جاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان سے ڈاکو 69 لاکھ روپے چھین کر لے گئے ہیں، شہری کے مطابق وہ ایک کاروباری آدمی ہے اور مختلف مقامات سے وصولی کر کے ابراہیم حیدری پہنچے تھے۔
ویڈیو بنانے والا چند ہی قدم کے فاصلے پر موجود ایک دکان میں موجود تھا، جسے کوئی دوسرا شخص ویڈیو بنانے سے منع بھی کرتا سنائی دیتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سڑک پر کوئی مشکوک سرگرمی جاری تھی۔
پولیس حکام کے مطابق شہری کو جائے واردات کے قریب ہی ایک جگہ سے 1 لاکھ کی وصولی کرنا تھی، جیسے ہی وہ کار میں بیٹھے، ملزمان آئے اور کیش رقم چھین کر لے گئے۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بظاہر مشکوک لگ رہا ہے، اور اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہے، جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
کراچی کا علاقہ ابراہیم حیدری ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے، تاریخی اوراق کے مطابق ایک زمانے میں یہ بستی عظیم دریائے سندھ کا راستہ تھی جو یہاں سے گزرتا تھا۔ پھر وقت بدلا تو دریا نے بھی اپنا راستہ بدل لیا اور یوں یہاں سے گزرنے والا راستہ خشک ہوگیا۔ طویل عرصے تک یہ جگہ یوں ہی خشک رہی، اس کے بعد سمندر نے خالی راستہ دیکھا تو اپنا ڈیرہ جما لیا۔
کہا جاتا ہے کہ سمندر کے یہاں آجانے کے بعد ایک بار کچھ ماہی گیر یہاں چند لمحوں کو ٹھہرے تو انہیں یہ جگہ بے حد پسند آئی اور وہ یہیں بس گئے، تب سے اب تک یہ علاقہ ماہی گیروں کا علاقہ ہے۔
اس علاقے میں قدم رکھتے ہی مچھلی کی مخصوص مہک ہر جانب پھیلی محسوس ہوتی ہے، علاقے میں ماہی گیری سے متعلق تمام ساز و سامان کی دکانیں موجود ہیں جن میں سرفہرست جالوں کی دکانیں ہیں۔
یہاں پر کشتی سازی کے بھی کئی کارخانے موجود ہیں جہاں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کشتیاں تیار کی جاتی ہیں، کشتی سازی کا کام کراچی کے ابراہیم حیدری کے علاوہ بلوچستان کے شہروں گوادر، پسنی، جیوانی اور سونمیانی وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں جہاں کشتی سازی جدید مشینوں کے ذریعے انجام دی جارہی ہے، وہیں پاکستان میں اب بھی یہ کام انسانی ہاتھوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ لکڑی کی کٹائی کے لیے چند ایک مشینوں کے استعمال کے علاوہ بقیہ تمام کام کاریگر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں اور ان کے سخت ہاتھ ایسی مضبوط کشتیاں تیار کرتے ہیں جو بڑے بڑے سمندری طوفانوں سے نکل آتی ہیں۔
کاشف کچھی بھی ابراہیم حیدر کے رہائشی ہیں، وہ ایک کشتی ساز کارخانے کے نگران ہیں جہاں سینکڑوں کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔ کاشف ڈسٹرکٹ کونسلر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سماجی کارکن بھی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ کشتیاں بنانے کے لیے زیادہ تر لکڑی باہر سے درآمد کی جاتی ہے، اس سے قبل اس کے لیے مقامی لکڑی استعمال کی جارہی تھی تاہم ملک میں غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں خطرناک کمی آئی ہے جس کے بعد اب کشتی سازی کی صنعت جزوی طور پر درآمد شدہ لکڑی پر انحصار کر رہی ہے۔
پاکستان میں تحفظ ماحولیات کے ایک ادارے کے غیر سرکاری اور محتاط اندازے کے مطابق ملک میں کشتی سازی کے لیے سالانہ 12 لاکھ کیوبک فٹ درآمد شدہ جبکہ 2 لاکھ کیوبک فٹ مقامی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔
کاشف نے بتایا کہ کشتی سازی کے لیے کیکر، برما ٹیک، شیشم اور چلغوزے کے درختوں کی لکڑی کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ لکڑی کاٹنے کے لیے ٹرالی مشین اور بینسا مشین استعمال ہوتی ہیں، کاشف کے مطابق لکڑی کے بڑے اور چوڑے تختے ہی اس مقصد کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔
کیا فائبر لکڑی کا متبادل ہوسکتا ہے؟
کشتی سازی سے جنگلات پر پڑنے والے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک دہائی قبل فائبر گلاس کی کشتیاں بنانے کا رجحان شروع ہوا، تاہم کاشف کچھی کے مطابق فائبر کی کشتی کے حوالے سے بے شمار تحفظات ہیں۔
پہلا تشویشناک امر تو یہ ہے کہ اگر فائبر کی کشتی بنائی جائے تو اس کی لاگت میں کم از کم 4 گنا اضافہ ہوجاتا ہے، لکڑی کی وہ کشتی جو 10 سے 12 لاکھ روپے میں تیار ہوجاتی ہے، اسی سائز کی فائبر کی کشتی بنانے جائیں تو صرف اس میں فائبر کا کام ہی 40 سے 45 لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی دیگر بنائی کے اخراجات الگ ہیں۔
فائبر کی کشتی کا وزن برابر کرنے کے لیے لامحالہ اس میں لکڑی ہی لگائی جاتی ہے۔ یوں اس کی بنائی کے تمام اخراجات کشتی مالکان کی پہنچ سے باہر ہوجاتے ہیں۔
فائبر سے بنی کشتی
کاشف کے مطابق دوسرا پہلو اس کے غیر محفوظ ہونے کا بھی ہے۔ لکڑی کی کشتی سمندر میں کسی وزنی اور ٹھوس شے سے ٹکرا جائے تو وہ ایسے جھٹکے برداشت کرسکتی ہے، سمندر میں کسی نوکیلی شے سے لکڑی کی کشتی میں معمولی سا سوراخ ہوجاتا ہے جو عارضی طور پر کوئی کپڑا ٹھونس کر بند کیا جاتا ہے تاکہ کسی کنارے تک پہنچا جاسکے اور پھر اس کی باقاعدہ مرمت کی جاسکے۔
فائبر کی کشتی کسی چیز سے ٹکرا جائے تو اس کے پھٹنے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ایک بار اسے نقصان پہنچ جائے تو وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے جس کے بعد اس پر سوار ماہی گیر سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔
کشتی کس کی ملکیت ہوتی ہے؟
کشتیوں کی بنائی کے حوالے سے کاشف نے مزید بتایا کہ چھوٹی کشتی کو ہوڑا کہا جاتا ہے، جبکہ بڑی کشتی، لانچ کہلاتی ہے۔ سب سے چھوٹی کشتی 15 سے 16 فٹ طویل ہوتی ہے جس میں 2 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس کی لاگت 80 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
بعض بڑی کشتیوں کی قیمت 2 کروڑ تک بھی جا پہنچتی ہے۔
کشتی میں لکڑی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد اسے سمندر میں اتارا جاتا ہے اور چند دن پانی میں رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے نکال کر اس میں انجن اور دیگر مشینری لگائی جاتی ہے۔
کشتی تیاری کے مراحل میںکشتی تیاری کے مراحل میںکشتی کا اندرونی حصہ۔ تصویر: جی ایم بلوچ
کاشف نے بتایا کہ کسی ایک ماہی گیر کے لیے کشتی خریدنا آسان بات نہیں، اکثر اوقات کئی ماہی گیر مل جل کر کشتی خریدتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔
بعض افراد جو کشتی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ خرید کر اسے ٹھیکے پر یا کوئی اور طریقہ کار طے کرنے کے بعد ماہی گیروں کے حوالے کردیتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت میں منافع کے حصے دار ہوتے ہیں۔
آبی آلودگی کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ
کاشف کچھی نے بتایا کہ ہر ماہ یا مہینے میں دو بار کشتی کے بیرونی پیندے پر مچھلی کی چکنائی کا ایک آمیزہ لگایا جاتا ہے، اس سے لکڑی خشک نہیں ہوتی۔ خشک لکڑی سمندر کے نمکین پانی سے جلد خراب ہوسکتی ہے تو یہ چکنائی کشتی کی عمر بڑھا دیتی ہے، علاوہ ازیں اس سے کشتی کی رفتار بھی متوازن رہتی ہے۔
کشتیوں پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جس کے لیے رنگ ساز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں
البتہ اب آبی آلودگی کے باعث کشتیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خراب ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ پہلے ایک کشتی کی عمر 12 سے 15 سال تک ہوتی تھی تاہم اب یہ جلد خراب ہونے لگی ہیں۔
کاشف کے مطابق فیکٹریوں کا سمندر میں ڈالا جانے والا فضلہ جس میں زہریلے کیمیکل شامل ہوتے ہیں، ایک طرف تو سمندری حیات کے لیے موت کا پروانہ ہیں تو دوسری طرف کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
ماہی گیروں کی عقیدت و روایات
کاشف نے بتایا کہ ماہی گیر سمندر سے رزق کماتے ہیں لہٰذا سمندر ان کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے، وہ اپنے کام سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ سمندر پر جانے سے قبل وضو کرنا نہیں بھولتے۔
زیادہ تر ماہی گیر کوشش کرتے ہیں کہ اگر ان کے جال میں مچھلیوں کے علاوہ کوئی اور سمندری جانور آجائے، جیسے کچھوا، یا دیگر آبی جانداروں کے بچے، تو وہ انہیں احتیاط سے واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان معصوم بے زبان جانداروں کی بددعائیں انہیں سخت نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندروں میں غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، ’ہم اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں ٹرالنگ کے لیے ان ممالک سے لوگ آتے ہیں جہاں سمندر میں شکار کے سخت قوانین اور پابندیاں ہیں، ان ممالک میں چین، روس، جرمنی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔
ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی ٹرالنگ پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے سمندری وسائل سے مقامی ماہی گیروں کو فائدہ ہو اور ہمارے قیمتی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔
کراچی: شہر قائد کے علاقے ابراہیم حیدری میں کتےکا گوشت بنوانے کی خبر غلط ثابت ہوئی، پولیس کا کہنا ہے کہ نجی ٹی وی نے سنسنی پھیلانے کیلئے جھوٹی خبر کا ڈرامہ رچایا ۔
کراچی میں کتے کے گوشت کی خبر نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی ، لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ خبر افواہ ثابت ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک نجی ٹی وی نے سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے ایسا کیا ۔
پولیس کے مطابق ابراہیم حیدری سے پکڑے جانےو الے مبینہ کتےکے قصائی اصل میں نشے باز ہیں جنہیں بکرا کاٹنے کا کہہ کر کتے کاٹنے پر مجبور کیا گیا اور اس کےبعد ریٹنگ کی ریس جیتنے کیلئے یہ غلط خبر نشر کی گئی۔
کراچی: شہرقائد میں کتے کا گوشت فروخت کرنے والے دو افراد رنگے ہاتھوں گرفتار ملزمان ابراہیم حیدری کے ایک مکان میں کتے کا گوشت کاٹ رہے تھے۔
کراچی کے علاقےابراہیم حیدری میں کتے کا گوشت فروخت کرنے والے دو افراد گرفتار رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔
پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان گزشتہ 6 ماہ سے یہ گھناؤنا کام کررہے تھے۔ جس کے لئے وہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر انہیں زہریلا گوشت کھلا کرمارتے اور پھر ان کا گوشت مختلف علاقوں میں فروخت کردیتے تھے۔
ملزمان کا کہنا تھا کہ 500 روپے کے عوض بکرے کا گوشت کٹوانے کے لئے ہمیں ہائی روف پر لایا گیا تھا ، تاہم ہمیں پہنچنے کے بعد علم ہوا کہ یہ بکرے نہیں کتے کا گوشت ہے۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے جب کہ ان کے ایک ساتھی کی تلاش جاری ہے۔
مذہبی اسکالر مفتی عمیر صدیقی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں کتے کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ کتے کا گوشت فروخت کرنے والے حرام کام کررہے ہیں ، ایسے گھناونے کام کرنے والوں کو کوڑوں کی سزا دینی چاہیئے۔