Tag: Iceland

  • ویڈیو: سیاح آتش فشاں کا نظارہ کرنے کے لیے کہاں کا رخ کر رہے ہیں؟

    ویڈیو: سیاح آتش فشاں کا نظارہ کرنے کے لیے کہاں کا رخ کر رہے ہیں؟

    بڈاپسٹ: سیاح جہاں دنیا کے بھر کے خوب صورت شہروں کا رخ کرتے ہیں وہاں وہ ایسے مقامات کی طرف بھی روانہ ہوتے ہیں جہاں کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹنے والا ہو، کیوں کہ یہ کسی بھی سیاح کی زندگی کا انوکھا واقعہ ہو سکتا ہے۔

    یورپی ملک آئس لینڈ ایسے ہی شان دار مقامات کا مرکز ہے جہاں سیاح آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کا نظارہ دیکھنے کی تمنا میں چلے آتے ہیں اور اس ملک میں سال بھر ’آتش فشاں کی سیاحت‘ کی گرماگرمی طاری رہتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ آئس لینڈ میں پچھلے ہفتے پھٹنے والے آتش فشاں سے لاوے کا آگ اگلتا دریا جیسے ہی کم ہوا، تو سیاحوں کی خوشی ماند پڑ گئی، روئٹرز کے مطابق لندن کی 49 سالہ خاتون ڈینٹل پریکٹس منیجر ہیزل لین نے جیسے ہی ٹی وی پر آتش فشاں پھٹنے کی فوٹیج دیکھی، انھوں نے فوراً ریکجاوک کے لیے ٹکٹ بک کروایا، تاکہ وہ پگھلے ہوئے سرخ آسمان کے نیچے شان دار لاوے کے دریا کا قریب سے مشاہدہ کر سکے۔

    ہیزل لین کا کہنا تھا کہ یہ خیال کتنا پاگل پن پر مبنی تھا کہ ریکجاوک جا کر آتش فشاں پھٹنے کا نظارہ کیا جائے، لیکن وہ اپنے بیٹے اور اس کی دوست کے ساتھ 22 دسمبر کو وہاں پہنچ گئیں لیکن افسوس کہ ریکجاوک سے تقریباً 40 کلومیٹر دور واقع آتش فشاں 18 دسمبر ہی کو پھٹ چکا تھا، اور اس سے لاوے کا بہاؤ بھی خاصا کم ہو چکا تھا۔

    واضح رہے کہ 4 لاکھ سے کم آبادی والے اس چھوٹے سے ملک آئس لینڈ میں 30 سے زیادہ فعال آتش فشاں ہیں، اس لیے سال میں کئی مرتبہ شوقین سیاحوں کے لیے مواقع دستیاب ہو سکتے ہیں، اور اسی لیے یہ یورپی جزیرہ آتش فشاں سیاحت کی اہم منزل ہے۔ آئس لینڈ کے علاوہ ہر سال ہزاروں سیاح میکسیکو اور گوئٹے مالا سے سسلی، انڈونیشیا اور نیوزی لینڈ کی آتش فشاں سائٹس کا رخ کرتے ہیں۔

    جنوب مغربی آئس لینڈ میں 2021 میں ایک آتش فشاں پھٹنے کے ساتھ ہی مقامی ٹور ایجنسیوں کی سرگرمیاں پھر سے عروج پر پہنچ گئی تھیں، اور ہزاروں سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا۔ مقامی ٹور ایجنسیاں آتش فشاں کے ساتھ ساتھ آئس لینڈ کے برفانی غاروں، گلیشیئرز اور جیو تھرمل پولز کے بھی دورے کرواتی ہیں، ان ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ گرنڈاویک میں آتش فشاں کے ساتھ سیاحوں کی ماند پڑتی دل چسپی پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔

    آئس لینڈ کے سابق صدر اولفور راگنار گرامسن نے 23 دسمبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پیش گوئی ہے کہ دو ہفتوں میں آتش فشانی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، اس لیے اپنی فلائٹس ابھی سے بک کروالیں۔

    اگرچہ آتش فشاں کا نظارہ کرنا ایک خطرناک عمل ہے، اس میں کئی سیاح ہلاک بھی ہو چکے ہیں، تاہم سنسنی خیزی کے متلاشی سیاحوں کے لیے مشکل چوٹی چڑھنے، آتش فشاں کے گڑھے کے پاس چہل قدمی اور ہوا میں گندھک کی بو محسوس کرنے سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہو سکتی۔

    ابھی گزشتہ برس جب ہوائی میں دنیا کا سب سے بڑا فعال آتش فشاں پہاڑ ماونا لوا 1984 کے بعد پہلی بار پھٹا، تو ہزاروں تماشائی اس کے آگ اگلتے لاوے کے دھاروں کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تاہم اس میں جان بھی سکتی ہے، دسمبر کے آغاز میں انڈونیشیا کا ماراپی آتش فشاں پہاڑ پھٹا تو اس سے 22 کوہ پیما گڑھے کے قریب ہلاک ہوئے، انڈونیشیا میں بھی 100 سے زیادہ فعال آتش فشاں پہاڑ واقع ہیں۔ نیوزی لینڈ میں بھی وائٹ آئی لینڈ میں آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔

    کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو تمام تر حفاظت کے ساتھ آتش فشاں کے مقام کا ٹور کرواتی ہیں، جرمنی کی کمپنی والکینو ڈسکوری چلانے والے ماہر ارضیات اور آتش فشاں ماہر ٹام فائفر ہر سال تقریباً 150 افراد کو جاوا، سولاویسی، سسلی اور آئس لینڈ سمیت ایسے دیگر مقامات پر لے کر جاتے ہیں۔

  • جدید ٹیکنالوجی : سائنسدانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر اسے کیا بنا دیا؟

    جدید ٹیکنالوجی : سائنسدانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر اسے کیا بنا دیا؟

    بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی جا رہی ہے جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ خوردنی اجناس میں پروٹین کی مقدار بھی کم ہو رہی ہے۔

    اس حوالے سے سوئٹزر لینڈ میں سائنسدانوں نے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اب دنیا کی سب سے بڑی اس مشین نے کام کا آغاز کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے کھینچ کر چٹان میں تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ نے یورپی ملک آئس لینڈ میں کام شروع کردیا۔

    A facility for capturing CO2 from air of Swiss Climeworks AG is placed on the roof of a waste incinerating plant in Hinwil, Switzerland July 18, 2017. REUTERS/Arnd Wiegmann/File Photo

    اس پلانٹ کو "اورکا” کا نام دیا گیا ہے، اورکا آئس لینڈ کی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب توانائی ہے۔ یہ پلانٹ چار یونٹس پر مشتمل ہے اور ہر یونٹ دو دھاتی باکسز پر مشتمل ہے جو دیکھنے میں شپنگ کنٹینر جیسے نظر آتے ہیں۔

    اس پلانٹ کو سوئٹزر لینڈ کی کمپنی کلائم ورکس اور آئس لینڈ کی کمپنی کارب فکس نے تیار کیا ہے۔ کمپنیوں کے مطابق یہ پلانٹ ہر سال ہوا میں موجود 4 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یو ایس ماحولیاتی ادارے کے مطابق یہ مقدار 870 گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کے برابر ہے جبکہ اس پلانٹ کی لاگت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ہے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کرنے کے لیے پلانٹ کے پنکھوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کو کلکٹر میں اکٹھا کرتا ہے جس کے اندر ایک فلٹر میٹریل بھی ہے۔

    جب فلٹر میٹریل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جاتی ہے تو یہ کلکٹر بند ہوجاتا ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تاکہ میٹریل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کیا جاسکے۔

    اس کے بعد یہ گیس پانی میں مکس ہوتی ہے اور بعد ازاں ایک ہزار میٹر گہرائی میں ایک چٹان میں نصب کردی جاتی ہے تاکہ اسے ٹھوس شکل دی جاسکے۔

    کمپنیوں کو توقع ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکے گی مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

  • ابلتا ہوا آتش فشاں لوگوں کے لیے پکنک پوائنٹ بن گیا

    ابلتا ہوا آتش فشاں لوگوں کے لیے پکنک پوائنٹ بن گیا

    ریکیاوک: یورپی ملک آئس لینڈ میں آتش فشاں پہاڑ سے بہتا لاوا لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا، لوگ بڑی تعداد میں یہاں پہنچ کر پکنک منانے لگے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آئس لینڈ میں لاوا اگلنے والا آتش فشاں پکنک پوائنٹ بن گیا، ماؤنٹ فائگرج فال میں موجود آتش فشاں جمعے کی رات پھٹا تھا اور اس میں موجود ایک دراڑ کی وجہ سے لاوا باہر نکل آیا ہے۔

    اس پہاڑ سے لاوا اگلنے کا یہ واقعہ 800 سال سے زائد عرصے میں پہلی بار رونما ہوا ہے۔

    لاوا بہنے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں یہاں پہنچ گئے اور تصاویر بنانے لگے۔ کچھ افراد نے کھولتے ہوئے لاوا پر ہاٹ ڈاگز پکانے کا تجربہ بھی کیا۔

    ابتدائی طور پر اس مقام کو بند کر دیا گیا تھا، تاہم ہفتے کی شام لوگوں کو یہاں آنے کی اجازت دے دی گئی۔

    آتش فشاں پہاڑ کے قریب دن کے اوقات میں گاڑیوں کی طویل قطاریں نظر آرہی ہیں اور ہزاروں افراد کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

    سیاحوں اور سائنس دانوں کے علاوہ عام مقامی افراد بھی آگ اگلتے پہاڑ کے سامنے تصاویر بنوا کر قدرت کے اس انوکھے عمل کو اپنے لیے یاد گار بنا رہے ہیں۔

  • زمین اچانک آگ اگلنے لگی، ہولناک منظر کی ویڈیو، کمزور دل والے نہ دیکھیں

    زمین اچانک آگ اگلنے لگی، ہولناک منظر کی ویڈیو، کمزور دل والے نہ دیکھیں

    ریکجیک : آئس لینڈ میں ہزاروں زلزلوں کے بعد آخر کار آتش فشاں پھٹ گیا، زمین سے نکلنے والے آگ کے شعلوں اور ابلتے ہوئے لاوے نے دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیا۔

    آئس لینڈ کے دارالحکومت ریکجیک کے قریب واقع گیلڈن آڈالور میں آتش فشاں پھوٹ پڑا۔ اس کا نظارہ واقعی انوکھا ہے۔ ہر طرف آگ ہی آگ دیکھنے کو مل رہی ہے تاہم آتش فشاں کے قریب واقع شہروں کو اس سے کسی طرح کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔

    آئس لینڈ کے محکمہ موسمیات کے دفتر نے بتایا ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں اس علاقے میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے زلزلوں کے بعد جمعہ کے روز دارالحکومت ریکجیک کے قریب آئس لینڈ میں آتش فشاں پھٹ گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آئس لینڈ کے دارالحکومت ریکجیک سے40کلومیٹر دور آتش فشاں پھٹنے کے بعد سرخ بادل نے رات کے آسمان کو روشن کردیا۔ اس علاقے میں ایک فلائی زون بھی قائم کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس آتش فشاں تک پہنچنے کے لئے سیاحوں کو تقریباً 8 کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑا لیکن یہاں پہنچنے کے بعد دوبارہ سڑک پر واپس پہنچنے میں انہیں کافی دشواریوں کا بھی سامنا رہا۔

    اس سفر کے تعلق سے ایک سیاح ایگل اورن کا کہنا ہے کہ اس آتش فشاں تک پہنچنے کے لیے ہم نے تقریبا تین گھنٹے کا سفر کیا ہے۔

    گذشتہ رات 100 سے زیادہ ریسکیو اہلکاروں نے مسافروں کو بحفاظت واپس ان کی گاڑیوں تک پہنچانے میں کافی مدد کی ہے، جبکہ اس علاقے کا موسم بھی کافی خراب ہے۔ خراب موسم کی وجہ سے اس آتش فشاں کو عوام کے لئے بند کردیا گیا ہے۔

    ہفتوں انتظار کے بعد آخرکار آئس لینڈ کا یہ آتش فشاں پھوٹ پڑا، گذشتہ تین ہفتوں میں 50 ہزار سے زائد یہاں زلزلے آئے جس کے بعد جمعہ (19 مارچ) کی شام اس کے پھٹنے کی شروعات ہوئی۔

    اس حوالے سے پروفیسر جینیوا یونیورسٹی جوئل رچ نے بتایا کہ ہم یہاں تقریباً دو ہفتوں سے ہیں، یہاں کا نظارہ واقعتا بے حد شاندار ہے، ہم اس علاقے میں کافی کچھ معلومات یکجا کرنے آئے ہیں۔

    کافی انتظار کے بعد ہمیں یہ سب دیکھنے کو ملا، آتش فشاں کا پھٹنا ہمارے لیے بے حد منفرد تجربہ ہے۔ ہم نے یہاں آتش فشاں کو پھٹتے دیکھا اور یہ نظارہ ہمارے لیے بے حد لاجواب ہے۔

  • ایک ماہ کے دوران 40 ہزار زلزلے، شہریوں کا سونا محال ہوگیا

    ایک ماہ کے دوران 40 ہزار زلزلے، شہریوں کا سونا محال ہوگیا

    آئس لینڈ میں گزشتہ 1 ماہ کے دوران 40 ہزار زلزلے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں، ان زلزلوں کی وجہ ایک بڑی پگھلی ہوئی چٹان میگما ہے جو اس خطے کے نیچے ایک کلومیٹر تک کھسک چکی ہے اور سطح پر آنے کے لیے زور لگا رہی ہے۔

    آئس لینڈ میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران زلزلے کے ہزاروں جھٹکے محسوس کیے جاچکے ہیں، جس کو سائنسدانوں نے غیر معمولی ارضیاتی ایونٹ قرار دیا ہے۔

    آئس لینٖڈ کے علاقے گرینڈوک کی رہائشی ریننویگ گیوڈمنسڈوٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم مسلسل زلزلے کے جھٹکے محسوس کررہے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی رسیوں سے بنے کمزور پل پر چل رہے ہیں۔

    یہ علاقے آتش فشانی ہاٹ اسپاٹ کے جنوبی حصے میں واقع ہے جہاں 24 فروری سے اب تک 40 ہزار سے زائد زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاچکے ہیں، یہ تعداد گزشتہ پورے سال میں ریکارڈ ہونے والے زلزلوں سے زیادہ ہے۔

    یورشین اور شمالی امریکی ٹیکٹونیک پلیٹوں کے درمیان واقع آئس لینڈ کو اکثر زلزلوں کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ یہ پلیٹیں ہر سال 2 سینٹی میٹر کی رفتار سے آہستگی سے متضاد سمت میں سرکتی رہتی ہیں۔

    حالیہ ہفتوں میں زلزلوں کی وجہ ایک بڑی پگھلی ہوئی چٹان میگما ہے جو اس خطے کے نیچے ایک کلومیٹر تک کھسک چکی ہے اور سطح پر آنے کے لیے زور لگا رہی ہے۔

    آئس لینڈ کے محکمہ موسمیات کی ماہر سارا بارسوٹی نے بتایا کہ ہم نے اتنی زیادہ زلزلے کی سرگرمیاں کبھی نہیں دیکھیں، کچھ زلزلوں کی شدت 5.7 تک ریکارڈ کی گئی ہے۔

    مارچ کے شروع میں آئس لینڈ کے حکام نے اس peninsula میں آتش فشاں پھٹنے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ توقع ہے کہ اس سے بین الاقوامی فضائی سفر متاثر نہیں ہوگا یا قریبی علاقوں کو بہت زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔

    ماہرین کو توقع ہے کہ آتش فشاں سے خارج ہونے والا لاوا ممکنہ طور پر ہوا میں 20 سے 100 میٹر تک اچھلے گا۔

  • شاہ محمود کا آئس لینڈ کے وزیر خارجہ کو فون، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اظہار تشویش

    شاہ محمود کا آئس لینڈ کے وزیر خارجہ کو فون، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اظہار تشویش

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آئس لینڈ کے ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے، جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق شاہ محمود قریشی اور وزیر خارجہ آئس لینڈ کے مابین کشمیر میں نافذ کرفیو پر گفتگو ہوئی اور صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کی جانب سےانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، نہتے مسلمان 4 ہفتے سے لگاتار بدترین کرفیو کا سامنا کر رہے ہیں.

    عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارتی مظالم کا پردہ چاک کر رہی ہیں. مقبوضہ کشمیر میں نیاانسانی المیہ جنم لیتا دکھائی دے رہا ہے.

    بھارت جابرانہ اقدامات سے خطے کا امن تہہ وبالا کرنےکےدرپے پر ہے، نہتےمسلمانوں کوبھارتی بربریت سےبچانےکیلئےعالمی بردارکوکرداراداکرنا ہوگا.

    مزید پڑھیں: بھارت غلط فہمی میں نہ رہے، اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، شاہ محمود قریشی

    کشمیر کی صورت حال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیرخارجہ آئس لینڈ نے اظہار تشویش کیا.

    خیال رہے کہ بھارتی نے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے کشمیر میں‌ آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے۔ اس فیصلے پر کشمیری عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا۔

    اپنے جابرانہ اقدام پر پردے ڈالنے کے لیے بھارتی نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    یورپی ملک آئس لینڈ میں ایک 700 سال قدیم گلیشیئر پگھل کر مکمل طور پر ختم ہوگیا، اس موقع پر مقامی افراد کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور افسوس کا اظہار کیا جس کے بعد یہ اجتماع گلیشیئر کی آخری رسومات میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ گلیشیئر جسے ’اوکجوکل‘ کا نام دیا گیا تھا 700 برس قدیم تھا اور ایک طویل عرصے سے مقامی افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کر رہا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں کمی دیکھی جارہی تھی تاہم چند روز قبل یہ گلیشیئر مکمل طور پر پگھل کر ختم ہوگیا جسےالوداع کہنے کے لیے سینکڑوں لوگ امڈ آئے۔

    گلیشیئر کے خاتمے پر مقامی انتظامیہ نے اس کا باقاعدہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جبکہ اس مقام پر ایک یادگار بھی بنا دی گئی ہے۔

    اس موقع پر جمع ہونے والے شرکا نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں کلائمٹ چینج سے نمٹنے اور زمین سے محبت کرنے کے اقوال درج تھے۔ شرکا نے گلیشیئر کی موت پر چند منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مزید 400 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آئس لینڈ سمیت دنیا بھر میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اگر ان کے پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 200 برس میں آئس لینڈ کے تمام گلیشیئرز ختم ہوجائیں گے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ایک اور برفانی علاقے گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف بھی نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    دوسری جانب قطب شمالی کے برفانی رقبہ میں بھی 6 لاکھ 20 ہزار میل اسکوائر کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

  • روہنگیا مہاجرین کو جزیرے پر منتقل کرنے کا منصوبہ تیار

    روہنگیا مہاجرین کو جزیرے پر منتقل کرنے کا منصوبہ تیار

    نیویارک: بنگلادیش میں پناہ لینے والے لاکھوں مہاجرین کو ملک کے دور افتادہ جزیرے پر منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے تیار کردہ منصوبے کے تحت روہنگیا مہاجرین کو بنگلادیش کے باسان چار نامی جزیرے پر منتقل کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ تارکین وطن کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا۔

    انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق مذکورہ جزیرے پر بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ سیلاب کے خطرات ہمیشہ منڈلاتے ہیں جس کے باعث ایک نیا بحران کھڑا ہوسکتا ہے۔

    منصوبے سے متعلق بنگلادیش اور اقوام متحدہ کے درمیان بات چیت جاری ہے، حکام نے ہر صورت انسانی حقوق کا خیال رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

    منصوبے میں کہا گیا ہے کہ جزیرہ باسان میں منتقلی جبری نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر ہوگی اور اس کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور اقدار کا خیال رکھا جائے گا۔

    قبل ازیں بنگلادیش میں پناہ لینے والے روہنگیئن مہاجرین کی ملک واپسی کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن وہ بےسود ثابت ہوئے۔

    بنگلادیش کا مزید روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار

    گذشتہ سال جنوری میں میانمار اور بنگلادیش کے درمیان مہاجرین کی واپسی سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا، میانمار کا کہنا تھا کہ ان کا ملک سلسلہ وار تارکین وطن کو ملک واپس لائے گا، البتہ بنگلادیش نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ ان کا ملک ایک ہی دفعہ تمام مہاجرین کو وطن واپس بھیجے گا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سال اگست میں برما کی ریاست رکھائن میں ملٹری آپریشن کے نام پر برمی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تھی جس کے باعث مجبوراً لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے تھے۔

  • سیاحت کے لیے20 محفوظ ممالک، بھارت 16 ویں نمبرپر

    سیاحت کے لیے20 محفوظ ممالک، بھارت 16 ویں نمبرپر

    کیا آپ سیاحت کے شوقین ہیں، اگر ہاں تو  محفوظ ترین ممالک کی یہ فہرست آپ ہی کے لیے ہے جس میں آئس لینڈ کو سیاحت کے لیے سب سے محفوظ قراردیا گیا ہے جبکہ بھارت اس میں سولہویں نمبر پر ہے۔

    فٹ فار ٹریول نامی ویب سائٹ نے یہ فہرست جرائم کی شرح ، دہشت گرد حملوں کا خدشہ، قدرتی آفات اور سیاحوں کو میسر صحت کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی ہے۔ اس فہرست کے لیے ڈیٹا ورلڈ اکانومک فنڈ کی رپورٹس، ورلڈ رسک رپورٹ برائے قدرتی آفات اور فارن آفس کی دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے کی جانے والی اسسمنٹ رپورٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

    آئس لینڈ اس فہرست میں سب سے اوپر ہے جس کا سبب وہاں قدرتی آفات کے خطرے کا انتہائی کم ہونا اور جرائم کی کم ترین شرح ہے۔ دوسری جانب دہشت گرد حملوں کا ممکنہ نشانہ بننے کے خطرے کے باوجود ’یو اے ای‘ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    سنگاپور اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے تاہم یہاں سفر کرنے والوں کو زیکا وائرس کے خدشے کا سامنا رہے گا۔ چوتھا محفوظ ترین ملک اسپین ہے جبکہ اس کے بعد آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان ، مراکش، اردن اور بارباڈوس کا نمبر ہے۔

    مذہبی شدت پسندی ، صحت کی سہولیات کی عدم فراہی ، ریپ اورجرائم کی بڑھی ہوئی شرح کے سبب بھارت اس فہرست میں سولہویں نمبر ہے ۔ اس فہرست نے جنوبی افریقا کو سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جبکہ دہشت گردوں حملوں کے شدید خدشات کے سبب ترکی اس فہرست میں دوسرے نمبرپر ہے۔

    سیاحت کے لیے بے شمار قدرتی مقامات سے مالا مال پاکستان بدقسمتی سے اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے سبب امید ہے پاکستان آئندہ برس اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔