Tag: IDP`s

  • قبائلی علاقوں سے بے گھر 97 فیصد آئی ڈی پیز واپس آچکے: پی ڈی ایم اے

    قبائلی علاقوں سے بے گھر 97 فیصد آئی ڈی پیز واپس آچکے: پی ڈی ایم اے

    پشاور: صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں سے بے گھر آئی ڈی پیز میں سے 97 فیصد واپس آچکے ہیں۔ حکومت آئی ڈی پیز پر اب تک 45 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ کے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر کمپلیکس ایمرجنسی ونگ ذیشان عبد اللہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت انٹرلی ڈس پلیسڈ پرسنز (آئی ڈی پیز) پر اب تک 45 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔

    ذیشان عبداللہ کے مطابق شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز خاندانوں کو 12 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں، ماہانہ نقد مالی امداد پر اب تک 31 ارب روپے خرچ ہوئے۔ قبائلی علاقوں سے بے گھر آئی ڈی پیز میں 97 فیصد واپس آچکے ہیں۔

    ڈائریکٹر ایمرجنسی ونگ کا کہنا تھا کہ واپس آنے والوں کو 35 ہزار فی خاندان بھی دیے جاتے ہیں، فی خاندان کیش پر اب تک ساڑھے 8 ارب خرچ ہوئے ہیں۔ مکانات کو نقصانات پر اب تک 21 ارب 90 کروڑ ادا کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ علاقے کلیئر ہونے پر مزید متاثرین آئیں گے۔

    خیال رہے کہ رواں برس بجٹ میں قبائلی علاقوں کے لیے 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ افوج پاکستان نے بھی رواں مالی سال کے دفاعی اخراجات میں رضاکارانہ کمی کا فیصلہ کیا تھا۔

    وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اس بچت کے نتیجے میں میسر آنے والا سرمایہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع اور بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے گا۔

  • گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    پشاور: ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر اور اس کے خلاف مسلح افواج کی جنگ نے جہاں ایک طرف تو ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی وہیں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوگئے تھے۔ گو کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، لیکن اب ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہاں کی خصوصاً خواتین، جو کبھی آئی ڈی پیز تھیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2009 میں شروع کیے جانے والے سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ اس وقت اندرونی طور پر ہجرت کرنے والے افراد (انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسن) کی سب سے بڑی تعداد تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    یہ لوگ برسوں کا جما جمایا گھر چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں آ بسے اور یہاں سے ان کی زندگی کا ایک تلخ دور شروع ہوا۔

    اپنے علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والے افراد ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی قطاروں کی خواری اٹھانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنی پڑی، اور بچے تعلیم، کھیل اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔

    یہ وہ حالات تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    سنہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن شمالی وزیرستان، اور فاٹا کے علاقوں میں شروع کیا گیا اور اس بار یہاں کے لوگوں کو دربدری اور ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

    آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں 20 لاکھ کے قریب افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ دربدری، بے بسی اور بے چارگی کا ایک اور دور تھا تاہم اس بار انتظامات کچھ بہتر تھے۔

    ایک سال کے اندر ہی متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ تمام متاثرین کی حتمی واپسی کے لیے دسمبر 2016 کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی بھی آپریشن سے متاثر ہونے والے قبائلین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

    کیا واپس جانے والوں کے لیے زندگی پہلے جیسی ہے؟

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس جانے والوں نے حکومتی امدادی رقم سے اپنے گھر بار تعمیر کر کے نئی زندگی کا آغاز کردیا ہے۔ اکثر کی زندگی آپریشن سے پہلے جتنی خوشحال تو نہیں، تاہم وہ ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

    لیکن درحقیقت سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔

    مینگورہ کی 29 سالہ خدیجہ بی بی آپریشن سے قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجائے کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر کو انہیں چھوڑنا پڑے گا، اور چھوڑنا بھی ایسا جو ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گا۔

    جب آپریشن شروع ہوا تو خدیجہ بی بی اپنا اور اپنے خاندان کا ضروری سامان اٹھائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپ میں آ بسیں، لیکن رکیے، وہ بسنا نہیں تھا، وہ تو خدیجہ بی بی کے لیے مجبوری کی حالت میں سر چھپانے کا ایک عارضی ٹھکانہ تھا جو ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔

    ساری عمر بڑی سی چادر میں خود کو چھپائے خدیجہ بی بی نے بہت کم گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔ اگر وہ گھر سے باہر گئی بھی تھیں تو باعزت طریقے سے، اپنے شوہر کے ساتھ باہر گئی تھیں۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں لد کر آنے، اور ایک خیمے میں پڑاؤ ڈال لینے کا تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

    فوج کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور دیگر اشیا کے لیے قطاروں میں لگنا، چھینا جھپٹی، خوراک کے لیے ہاتھا پائی اور تکرار، اور رہنے کے لیے کپڑے سے بنا ہوا ایک خیمہ جہاں رہ کر صرف انہیں یہ اطمینان تھا کہ کوئی غیر مرد اندر جھانک نہیں سکے گا۔

    ان تمام حالات نے خدیجہ بی بی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بالکل تبدیل کردیا۔ پچھلی زندگی کا سکون، اطمینان اور خوشی خواب و خیال بن گئی۔ بالآخر برا وقت ختم ہوا، ان کے علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا اور خدیجہ بی بی کے خاندان اور ان جیسے کئی خاندانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی، لیکن یہ خوف، بے سکونی اور نفسیاتی الجھنیں اب ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن چکی تھیں۔

    اور ایک خدیجہ بی بی پر ہی کیا موقوف، ٹوٹے پھوٹے تباہ حال گھروں کو واپس آنے والا ہر شخص کم و بیش انہی مسائل کا شکار تھا، اور خواتین اور بچے زیادہ ابتر صورتحال میں تھے۔

    واپسی کے بعد بھی زندگی آسان نہیں

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم و صحت کے لیے سرگرم ادارے اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹنے والے آئی ڈی پیز کو صحت کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے صدمہ وہ جو انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے سہنا پڑا۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن 2009 میں شروع ہوا جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی میں ابھی تک برقرار ہیں، وہاں کے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوچکے ہیں اور اس میں مرد و خواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ کسی ناقابل یقین حادثے یا سانحے کے ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحے کی تلخ یادیں، ان کی وجہ سے مزاج، صحت اور نیند میں تبدیلیاں اور مختلف امراض جیسے سر درد، ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہونا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ایک جما جمایا گھر چھوڑ کر، جہاں آپ نے ایک طویل عرصے تک پرسکون زندگی گزاری ہو، کسی انجان مقام پر جا رہنا آسان بات نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز نے بھی ان امن پسند لوگوں کو دربدر کردیا جس کے باعث یہ گھر واپسی کے بعد بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

    فطری حاجت کے مسائل

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں رہائش کے دوران قبائلی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کا کبھی اس سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک آئی ڈی پی کیمپ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ خواتین کو فطری حاجت سے متعلق بے شمار مسائل ہیں۔ خواتین نے شکایت کی کہ ان کے لیے بنائے گئے واش رومز یا پانی بھرنے کی جگہیں ان کے کیمپوں سے بہت دور تھیں، وہاں پر اندھیرا ہوتا تھا اور بعض اوقات باتھ روم کے دروازوں کی کنڈیاں درست نہیں تھیں۔

    گلالئی کے مطابق ان پردہ دار خواتین کے لیے ایسے غیر محفوظ بیت الخلا کا استعمال مشکل ترین امر تھا، نتیجتاً بے شمار خواتین گردوں کے امراض میں مبتلا ہوگئیں، ہر روز جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی تھی وہ الگ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان غیر محفوظ باتھ رومز کی وجہ سے جنسی ہراسمنٹ کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے۔

    گھریلو تشدد میں اضافہ

    ایک اور مسئلہ جو ان خواتین نے اس دربدری کی زندگی میں سہا، وہ تشدد تھا جو ان کے مردوں نے ان پر کیا۔

    گلالئی کے مطابق انہیں خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں مہاجروں جیسی زندگی گزارنے لگے تو ان کی زندگی سے سکون اور اطمینان کا خاتمہ ہوگیا جس کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ ان کے مردوں نے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    خواتین نے بتایا کہ جب مرد کیمپ سے باہر نامساعد حالات سہہ کر آتے تو ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن اپنے عروج پر ہوتی جو انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے نکالنی شروع کردی۔

    بیشتر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے گھروں میں ایک پرسکون زندگی گزارتے تھے تو اس وقت کبھی ان کے مردوں نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

    دماغی و نفسیاتی امراض میں اضافہ

    خیبر پختونخواہ میں معمولی پیمانے پر دماغی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان کے مطابق مہاجر کیمپوں سے لوٹ کر آنے والے شدید دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق لوگ ہر وقت ایک نامعلوم خوف اور بے چینی کے حصار میں رہنے لگے۔ ان کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ڈر کر اٹھ جایا کرتے تھے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ فطری سخت جانی کے سبب مردوں نے تو ان مسائل پر کسی حد تک قابو پالیا، تاہم خواتین اور بچے مستقل مریض بن گئے۔

    اس حوالے سے گلالئی نے بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے بچوں سے ان کی تعلیم کے حوالے سے بات کی، تو بچوں نے انہیں بتایا کہ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پڑھنے کے دوران ان کے سر میں مستقل درد ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، جبکہ رات کو سونے کے دوران بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔

    اور صرف بچے ہی نہیں خواتین بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی نے ان کی نفسیات و مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ ہنسنا بھی بھول گئی ہیں۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن کے بعد اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ جنگ کے نقصانات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ادارے (ری ہیبلی ٹیشن سینٹر) قائم کیے جاتے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں، اس طرح کے اداروں کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔

    پھر سنہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوگیا اور اس بار مختلف قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی کو دربدری اور اس کے بعد کم و بیش سوات آپریشن کے متاثرین جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری پرانی عادت ہے ہم ماضی کے تجربات سے کبھی سبق نہیں سیکھتے‘۔ گلالئی نے کہا۔

    جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، اور بہت جلد یہ پھر سے خوشحال اور آباد علاقے بن جائیں گے جہاں شاید پہلے سے جدید سہولیات موجود ہوں، لیکن اس جنگ میں معصوم لوگوں نے جو اپنے پیاروں سے محرومی کے ساتھ ساتھ، اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خراج ادا کیا، اس کے اثرات تا عمر باقی رہیں گے۔

  • ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی

    ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی

    بنوں : پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی۔

    نیشنل بھابھی نےننھے ہاتھوں میں مہندی لگائے بچوں کو چارگھنٹے انتظار کرایا اور پھر تاخیرسےآنےپرمعذرت کرلی۔ریحام خان بنوں اسپورٹس کمپلیکس پہنچیں۔

    جہاں انھوں نے شمالی وزیر ستان کی متاثرہ خواتین اور بچوں کے ساتھ عید منائی۔ ان کا کہناتھا کہ وہ ہر خوشی اور غم میں متاثرہ افراد کے ساتھ ہیں۔

    اس سے قبل عمران خان اور ان کی اہلیہ نے بذریعہ ہیلی کاپٹر بنوں پہنچنا تھا لیکن خراب موسم کے باعث عمران خان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔

    ریحام خان بھی بذریعہ روڈ چار گھنٹے کی تاخیر سے آئی ڈی پیز کیمپ پہنچیں جہاں آئی ڈی پیز خواتین نے ان کا استقبال کیا۔ ریحام خان بنوں اسپورٹس کمپلیکس میں عید مناتے بچوں کے ساتھ گھل مل گئیں۔

    انہوں نے بچوں میں تحائف تقسیم کئے اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھایا۔ تقریب سے خطاب میں ریحام خان نے کہا کہ تحریک انصاف اور خیبر پختونخوا حکومت آئی ڈی پیز کے ساتھ ہے۔

  • وزیراعظم، آرمی چیف کا شمالی وزیرستان کا دورہ

    وزیراعظم، آرمی چیف کا شمالی وزیرستان کا دورہ

    پشاور: وزیراعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے جنگ زدہ علاقوں سےدہشتگردی کاخاتمہ کردیا، امن قائم کرنےپرفوج شاباش کی مستحق ہے۔

    وزیر اعظم نوازشریف اورپاک فوج کے سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے آج بروز جمعہ شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کا دورہ کیا۔

    فوجی حکام نےوزیراعظم اور آرمی چیف کودہشت گردوں سےکلیئرکرائےگئے علاقوں سے متعلق بریفنگ دی۔

    وزیراعظم نوازشریف اورجنرل راحیل شریف نے دورےکے دوران قبائلی عمائدین سے بھی ملاقات کی۔

    اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ متاثرہ علاقوں سےدہشت گردی کاخاتمہ کردیا،امن قائم کرنے پرپاک فوج شاباش کی مستحق ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ شمالی وزیرستان کے رہائشیوں نے بہت عظیم قربانیاں دیں ہیں۔ جن کے گھر والے اس جنگ کا شکار ہوئے حکومت ان کے دکھ کا ازالہ تو نہیں کرسکتی لیکن ان کے آنسو ضرور پونچھ سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی پیز کی فلاح و بہبود میں پاک آرمی کا کردار لائقِ تحسین ہے۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں ترقی کے ایک نئے دورکا آغاز ہوگا۔

    وزیر اعظم نے نقل مکانی کرنے والوں میں تحائف تقسیم کئے۔

    وزیر اعظم نے پشاور میں بارش سے متاثرہ افراد میں امدادی رقوم کے چیک بھی تقسیم کئے۔

  • آئی ڈی پیز کی واپسی : سترہ ہزار سے زائد خاندان گھروں کو روانہ

    آئی ڈی پیز کی واپسی : سترہ ہزار سے زائد خاندان گھروں کو روانہ

    شمالی وزیرستان : آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کی واپسی کے عمل میں تیزی آگئی۔ تین مختلف قبائل کے سترہ ہزار دو سو تریپن خاندان واپس اپنے علاقوں کو روانہ ہو گئے۔

    خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان کے آپریشن متاثر آئی ڈی پیز کی واپسی کا دوسرامرحلہ جاری ہے۔ اس سلسلےمیں تین مختلف قبائل کےسترہ ہزاردو سوتریپن خاندان واپس اپنےگھروں کو روانہ کردیئےگئے۔

    اےآر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئےسرکاری حکام کاکہناتھا کہ بارہ ہزار تین سو چودہ خاندان باڑہ خیبرایجنسی روانہ ہوئےجنہیں نوہزارآٹھ سو تہتر اے ٹی ایم کارڈز جاری کئے گئے۔

    چار ہزار سات سو نواسی خاندان جنوبی وزیرستان روانہ ہوئے، جنہیں دو ہزارچارسوانہترسم کارڈز اوردو ہزار نو سو اےٹی ایم کارڈز جاری کئےگئےجبکہ شمالی وزیرستان جانیوالے ایک سو پچاس خاندان کو ایک سو سینتیس اے ٹی ایم کارڈزجاری کیےگئے۔

    پہلے مرحلے میں چالیس ہزار پانچ سو خاندان جنوبی وزیرستان، خیبرایجنسی اور شمالی وزیرستان اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔

    حکومت کیجانب سےاس پروگرام کےتحت واپس جانیوالےہرخاندان کو پچیس ہزار روپے نقد اور دس ہزار روپے ٹرانسپورٹ کےاخرجات کی مد میں ادا کیےجا رہےہیں۔

    نادرا کیجانب سےفاٹاسےتین لاکھ دس ہزارسات سو انتیس خاندانوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

  • اسحاق ڈارکی امریکی سفیرسے ملاقات

    اسحاق ڈارکی امریکی سفیرسے ملاقات

    اسلام آباد: امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے وفاقی دارالحکومت میں وزیرِخزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔

    اسحاق ڈار نے امریکی سفیر سے گفتگو کے دوران حال ہی میں کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی716ملین امریکی ڈالرکی قسط کے بارے میں گفتگو کی۔

    امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکہ سے مویشیوں کی پاکستان درآمد سے متعلق متعلقہ حکام کےساتھ تمام ترمعاملات طے پا چکے ہیں۔

    شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیزاورسیلاب متاثرین کی بحالی سے متعلق امورپربھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

  • کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے، آرمی چیف

    کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے، آرمی چیف

    پشاور: پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پشاورہیڈ کوارٹر کادورہ کیا اور قبائلی علاقہ جات میں جاری آپریشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات دیں۔

    تفصیلات کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف آج سہہ پہر پشاورہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں انہیں آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    بریفنگ میں آرمی چیف کو قبائلی علاقوں میں اب تک کی پیشرفت سے آگاہ کیا گیااورساتھ ہی ساتھ آپریشن کے سبب بے گھر ہونے والے قبائلیوں کی دیکھ بھال سے متعلق امور کے بارے میں بھی آرمی چیف کو آگاہ کیا گیا۔

    آرمی چیف نے اس موقع پر آپریشن کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جلد از جلد حتمی مراحل تک پہنچانے کی ہدایت کی جبکہ آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے ہرممکن اقدام کرنے کا کہا۔

    واضح رہے کہ آج صبح ہی پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک انتہائی مطلوب کمانڈر عدنان الشکری کو ایک حملے میں ہلاک کیا ہے۔

  • خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات اپریل میں ہوں گے

    خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات اپریل میں ہوں گے

    پشاور: خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ نے اپریل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا، کہتے ہیں وفاقی حکومت آئی ڈی پیز کو بلاوجہ مسئلہ قرار دے رہی ہے۔

    پرویز خٹک نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا اور اس کے لئے اپریل کی تاریخ دی ہے۔

    کالاباغ دیم سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ڈیم بنانے سے پشاوراورنوشہرہ شہرڈوب جائے گااور زندہ قومیں اپنی بستیاں نہیں ڈبویا کرتیں۔

    آئی ڈی پیز کے موجوع پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت صفائی ستھرائی سے لےکردیگر معاملات میں سالانہ کروڑوں روپے آئی ڈی پیز پرخرچ کررہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بلاوجہ آئی ڈی پیز کے معاملے پر مسائل پیدا کررہی ہے ، وفاق کو چاہئے کہ مسائل پیدا کرنے کے بجائے بحالی میں اپنا کردار ادا کرے

  • فاٹا میں آپریشن منطقی انجام تک پہنچایاجائے، گرینڈ جرگہ

    فاٹا میں آپریشن منطقی انجام تک پہنچایاجائے، گرینڈ جرگہ

    اسلام آباد: فاٹا کی صورتحال سے متعلق گرینڈ قبائلی جرگےکا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا میں آپریشن کوجلد منطقی انجام تک پہنچایاجائے۔

    قبائلی جرگہ کےاعلامیےمیں مطالبہ کیاگیاہےکہ کلیئرشدہ علاقوں میں آئی ڈی پیزکی واپسی کا انتظام اورشہداء کےلواحقین کےلئے جامع پیکیج کا اعلان کیاجائے، تباہ انفرااسٹرکچر کی بحالی کیلئےخصوصی اقدامات کئے جائیں اور نقصان کے ازالے کیلئے معاوضہ ادا کیاجائے۔

    مشترکہ اعلامیہ میں مزیدکہاگیا ہے کہ فاٹامیں میڈیکل، انجینئرنگ اوردیگرفنی ادارےقائم کئےجائیں جرگے میں مختلف دینی وسیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

    جرگےسے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کاکہنا تھا کہ ’ملک میں آگ بجھائی جارہی ہے لیکن پانی نہیں بلکہ تیل ڈال کر‘۔

  • بنوں: متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران ایک بار پھر بد نظمی

    بنوں: متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران ایک بار پھر بد نظمی

    بنوں: متاثرین میں راشن کی تقسیم کےدوران آج ایک پھربدنظمی ہوئی۔ ند نظمی کی وجہ سے پولیس نے متاثرین پر لاٹھی چارج کردیا، متاثرین آپریشن کی جانب سے پولیس پر جوابی پتھراؤ بھی کیا گیا ہے۔

    شمالی وزیرستان کےمتاثرین راشن کی عدم فراہمی پر آج بھی سراپا احتجاج بن گئےاور پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے بھی مظاہرین کی ڈنڈوں سےخوب خاطر تواضع کی۔ دو روز پہلے بھی متاثرین کےاحتجاج کے بعد پولیس مظاہرین کو گرفتارکرکے لے گئی تھی۔

    گرفتار کئے جانے والوں کی رہائی کےلئے مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما نے رکن قومی اسمبلی محمد نذیر خان کے ساتھ نے سینٹرل جیل کے سامنے دھرنادیاہواہے۔

    دوسری جانب آئی جی خیبر پختونخوا ناصر خان نے مقدمےکےاندراج کا نوٹس لیتےہوئےایف آئی آر ختم کرنےکا حکم دے دیا ہے۔