Tag: IHC hears

  • پاکستانی حکومت  کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی حکومت سے رابطہ  کا حکم

    پاکستانی حکومت کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی حکومت سے رابطہ کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل تقریری کیس میں ایک بار پھر پاکستانی حکومت کو بھارتی حکومت سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا بھارتی حکومت کلبھوشن کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کلبھوشن کے لیے قونصل تقرری سے متعلق کیس پر سماعت کی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی بینچ میں شامل تھے۔

    ڈپٹی اٹارنی نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، چیف جسٹس نے کہا محمد اسماعیل کا کیس کا کیا بنا، جس کی سزا پوری ہے، اس کو آزادی ہونا چاہیے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 22 جنوری تک محمد اسماعیل کو قید سے آزاد کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کیلئے ہائیکورٹ نے 4 مرتبہ نوٹس کے باوجود بھارتی ہائی کمیشن نے کوئی وکیل مقرر نہیں کیا ، بھارتی حکومت کلبھوشن کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے، ایک بار پھر پاکستانی حکومت بھارتی حکومت سے کلبھوشن کیلئے رابطہ قائم کرے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن کےلیےقونصل تقرری سےمتعلق کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت نے حامد خان سے عالمی عدالت انصاف کی روشنی میں معاونت طلب کرنے اور حکومت پاکستان کو کلبھوشن کیلئے ایک بار پھر بھارت سے رابطہ کرنےکا حکم دیا تھا، وزارت قانون کی جانب سے دارئر درخواست بھارتی جاسوس کیلئے وکیل مقرر کرنے کیلئے ہے، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اس حوالے سے حکم صادر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو سکے۔

  • بااثرشخصیت کو قید میں سہولتیں اور غریب بنیادی سہولت سے محروم ہے ،چیف جسٹس اطہرمن اللہ

    بااثرشخصیت کو قید میں سہولتیں اور غریب بنیادی سہولت سے محروم ہے ،چیف جسٹس اطہرمن اللہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اڈیالہ جیل کے قیدی کےعلاج سے متعلق کیس میں ریمارکس میں کہا بااثر شخصیت کو قید میں سہولتیں غریب کو بنیادی سہولت تک نہیں ملتی، قوانین کے مطابق ریاست کو بیمار قیدی کو آزاد کرنے کا اختیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے بیمار قیدی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی، منسٹری آف ہیومن رائٹس کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا۔

    عدالت نے کہا آپ کےنمائندے تو ہیومن رائٹس ایشوز کا جائزہ لے رہے ہوں گے ، جس پر ہیومن رائٹس نمائندہ نے بتایا جیل انتظامیہ سےکہاکہ قیدیوں کا تفصیلی طبی معائنہ ہوناچاہیے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ریاست کی قید میں اگر کچھ ہو تو ریاست پر ذمہ داری آتی ہے، جیل میں تو صفائی ستھرائی کے حالات بھی اچھے نہیں، جس پر سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹ منسٹری کوبہت اچھا لگا آپ نےہماری توجہ اس جانب دلوائی۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر آج تک کسی کو احساس نہ ہوا، کہیں رکاوٹ یا کمی ہے تو حکومت کو آگاہ کریں ، قیدی مکمل طور پر ریاست پر انحصار کرتا ہے تو نمائندے کا کہنا تھا عدالت حکم دے توہم لیگل معاونت کےمنتخب نمائندوں میں تبدیلی کرنا چاہتےہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی قید میں مر جائے تو اس کی انکوائری ہوتی ہے کے نہیں تو سرکاری افسر نے بتایا قیدمیں انتقال پرانکوئری ہوتی ہے، عدالت نے استفسار کیا آج تک قید میں کسی کی موت کاذمہ دار کمیشن نے حکومت کو ٹھہرایا ؟ جس پر سرکاری افسر نے جواب دیا کسی انکوائری کمیشن نے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔

    چیف جسٹس نے کہا پھر آپ کی کمیشن نے کیسے انکوائری کی ہے، بااثرشخصیت کوقید میں سہولیات جبکہ غریب کوبنیادی سہولیات تک نہیں دی جاتیں، قانون موجود ہے،قانون پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

    قوانین کےمطابق ریاست کو بیمارقیدی کو آزاد کرنے کااختیار ہے، ریاست رولز کے مطابق کسی کی سزا معاف کر سکتی ہے، ریاست کو کام کرنا چاہیے، ریاست کام کر نہیں رہی ، قیدی کی درخواست عدالت تک آنےکا مطلب ریاست ذمہ داری سےغافل ہے، جیل سےآنےوالی درخواستوں کوان کورٹ کی بجائےکمیشن کو منتقل کر دوں گا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔

  • آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج  ہوگی

    آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، عدالت نے پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی اسپیشل بینچ درخواست پر سماعت کرے گا۔

    گذشتہ سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کرلی تھی جبکہ فریال تالپورکی درخواست پر نیب کونوٹس جاری کردیا تھا۔

    فاروق ایچ نائیک نے بتایا تھا آصف زرداری دل، شوگرسمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ، عدالت طبی بنیاد پردرخواست ضمانت منظور کرے ، ان کو24 گھنٹےطبی امدادکی ضرورت ہے جبکہ فریال تالپور اسپیشل بچی کی والدہ ہے۔

    ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ میڈیکل بورڈ آصف زرداری کی رپورٹ آیندہ سماعت سے پہلے عدالت میں پیش کرے۔

    مزید پڑھیں : درخواست ضمانت، آصف زرداری کی نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • درخواست ضمانت، آصف زرداری کی  نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    درخواست ضمانت، آصف زرداری کی نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کرلی جبکہ فریال تالپورکی درخواست پر نیب کونوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی اسپیشل بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

    فاروق ایچ نائیک آصف زرادری اور فریال تالپور کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے، فاروق ایچ نائیک نے بتایا آصف زرداری دل، شوگرسمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ، عدالت طبی بنیاد پردرخواست ضمانت منظور کرے ، ان کو24 گھنٹےطبی امدادکی ضرورت ہے جبکہ فریال تالپور اسپیشل بچی کی والدہ ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا میڈیکل رپورٹ کیس کیساتھ منسلک ہے، میڈیکل بورڈ کس نے تشکیل دیا ہے؟وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا جی بالکل کیس کے ساتھ منسلک ہے ، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیاتھا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ پمز انتظامیہ کو ہدایت کرتے ہیں میڈیکل بورڈ تشکیل دے اور میڈیکل بورڈآصف زرداری کی نئی رپورٹ آئندہ سماعت سےپہلےپیش کرے جبکہ فریال تالپور کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    پارک لین اور منی لاڈرنگ اسیکنڈل میں آصف زرادری اور فریال تالپور کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    بعد ازاں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پررجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعتراضات لگادیے، جس میں کہا تھا درخواست کے ساتھ منسلک میڈیکل رپورٹ کی کاپیاں آدھی کٹی ہوئی ہیں اور سابق صدراور فریال تالپور کےوکیل کورجسٹرارآفس میں طلب کرلیا گیا تھا۔

    دوسری جانب سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکی درخواستوں پرجانچ پڑتال کی گئی  اوردرخواستیں  سماعت کے لئے مقرر کردی گئیں تھیں۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے  سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو  فیصلہ سنانےسےروک دیا اور حکم دیا خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویزمشرف کیس کا فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجربینچ نے سماعت کی ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سماعت میں سیکریٹری قانون کی جگہ جوائنٹ سیکریٹری پیش ہوئے تو عدالت نے حکم دیا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون پیش ہوں اور کہا کل حکم  دیا تھا کہ مستند ریکارڈ پیش کریں۔

    وفاق کی جانب سےایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجدالیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے ،  تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا  آپ نےقانون  پڑھا؟ سیکریٹری قانون کدھرہیں وہ کیوں نہیں آئے؟سیکریٹری قانون کوکہیں ،آدھےگھنٹےمیں پہنچیں ۔

    جسٹس عامر فاروق  نے کہا سیکریٹری قانون کوکل ریکارڈسمیت طلب کیاتھا،  ریکارڈکی اصل دستاویزلیکرآئیں کاپیاں نہ لائی جائیں، آئین کےمطابق ٹرائل شروع ہو تو مکمل کرناآئینی تقاضہ ہے ، کیس میں وفاقی حکومت کا کہنا ہے پراسیکیوشن کیلئےتیارنہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کی آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں،  اگرآپ تیار نہیں توآئندہ ہفتے کر دیتے ہیں،  عدالتی حکم پر وزارت قانون ریکارڈ پیش نہیں کر  سکا تو عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش  کرتے ہوئے کہا آپ کیس پردلائل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس میں جسٹس عامرفاروق نے کہا آپ یہ ذہن میں رکھیں آپ فریق نہیں پٹیشنرہیں، فوٹو کاپیزپیش نہ کریں،اصل ریکارڈ لےکر آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جاری نوٹیفکیشنزبتائیں۔

    ایڈیشنل اےجی  نے بتایا چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سےججزکی تقرری ہوتی رہی، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ خود کہتاہےشکایت غلط ہے، توپھرآپ وفاق کی حیثیت سےشکایت واپس لیں۔

    عدالت نےمشرف کے وکیل کی سرزنش کرکےروسٹرم سےاٹھا دیا اور کہا کرسی پربیٹھ جائیں،  جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ  ہم رٹ کس کودیں ، وفاق خود  فریق بن گیا ہے ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس میں کہا ایک شخص عدالت میں آکرکہتاہےجوکیاغلط کیا،  چیف جسٹس  کےمزاحیہ ریمارکس پر  وکلااور سائل ہنس  پڑے، وفاقی حکومت نے پراسیکیوشن ٹیم واپس لےلی ، عدالت کے لئے بھی مسئلہ ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار  کیا خصوصی عدالت کا ٹریبونل کب بنا، ان کا نوٹیفکیشن کب ہوا، تو ایڈیشنل اےجی نے بتایا کہ نومبرکو2019 کو ٹریبونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019  کو تشکیل ہوئی،  ججز میں جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔

    ساجد الیاس بھٹی نے کہا وزارت قانون کے نمائندے فائل لیکر باہرچلےگئے ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر  کا کہنا تھا کہ آپ کواتنےسالوں کےبعدمعلوم ہوا  وفاق کی شکایت درست نہیں، اگرایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لےلیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر1999کےاقدامات کوبھی غیرآئینی قراردیدیاگیا، آپ الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا اس حوالےسےابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا 3 نومبرکی ایمرجنسی کاٹارگٹ عدلیہ تھی،  سمجھنے کی کوشش کریں یہ غیرمعمولی حالات ہیں، جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ، آپ کہہ رہے ہیں ٹرائل کیلئےخصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی، اب آپ دلائل سےبتارہےہیں کہ ایسا نہیں ہے،  پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ 2013 کے بعد پہلی تبدیلی کب ہوئی،اےاےجی نے بتایا  جس جس تاریخ پرجو تبدیلی آئی اس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں ، نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ نے قانون پڑھا ہے؟  کیایہ نوٹی فکیشن واپس لیا جا سکتا ہے؟ تو اے اے جی نے جواب دیا کہ ایسی تشریح نہیں ، جس تک شکایت رہتی ہے واپس نہیں لیتے،جسٹس محسن اختر نے کہا خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جونوٹی فکیشن ہوئےوہ بتائیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کی مشاورت سےخصوصی عدالت کے ججوں کی تقرری ہوتی رہی،   جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظیربعد میں ملی گی یانہیں،کیا شکایت کرنے والا کہےکہ شکایت غلط ہے۔

    جسٹس عامر کا کہنا تھا کہ  شکایت غلط ہےتوٹھیک کس نےکرنی ہے،وفاقی حکومت نےکرناہےناں،  جبکہ جسٹس محسن اختر نے کہا کیاوفاقی حکومت پرویز مشرف کوپراسیکیوٹ نہیں کرناچاہتی،  جس پر ساجد الیاس بھٹی نے جواب دیا کہ    نہیں، ایسا نہیں ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں؟جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ یوں کہیں پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے،  کیاآج وفاقی حکومت پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل نہیں کرناچاہتی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے  استدعا کی خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔

    چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ  کا کہنا تھا کہ آپ زیادہ باتیں نہیں کریں،  جبکہ جسٹس محسن اختر  نے کہا وزارت قانون کی کیا ضرورت ہےاس قوم کو، جو  بھی وزارت قانون نے نوٹیفکیشن کیے غلط کیے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا 4 دسمبر کوپراسیکوشن ٹیم کےسربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا اور 30 جولائی 2018 کو پراسیکیوشن کےسربراہ نےاستعفی دیا، ٹیم کو   23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیس کی سماعت کب تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی، عدالت نے کہا ایک سال سے آپ نےہیڈآف پراسیکوشن کوکیوں تعینات نہیں کیا،  ہیڈآف پراسیکیوشن کو کس نےتعینات کرنا تھا، جوڈیشری یاایگزیکٹو نے؟  جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بت بتایا  تعینات ایگزیکٹو نےکرنا تھا۔

    جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی ضرورت ہے؟  وزارت قانون جو نوٹی فکیشن جاری کرتی ہےوہ غلط ہوتا ہے ،  سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہناتھا ایک شخص جس نےعدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے،  ہم نے اس  کے فیئر ٹرائل کےتقاضے پورے کرنے ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہا سربراہ پراسیکیوشن ٹیم کےاستعفےکےبعدوفاق نےنئی تقرری نہیں کی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکرٹری قانون عدالتی حکم پر پیش کیوں نہیں ہوئے ؟ وفاقی سیکرٹری قانون عہدے کا اہل نہیں۔

    عدالتی حکم پر سیکرٹری قانون اسلام آبادہائی کورٹ میں پیش ہوئے  ، چیف جسٹس نے  سیکرٹری قانون سے استفسار  کیا آپ نےکل فائل پڑھ لی ہے، سیکریٹری  قانون نے کہا  آپ آرڈر کریں، نوٹی فکیشن کے حوالے سے، جس پرجسٹس عامرفاروق نے کہا  ہائیکورٹ کےپاس سوموٹو ایکشن کےاختیارات نہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس سےمتعلق درخواستوں پرسماعت میں پرویزمشرف کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ  کے کیس کے دلائل  تووفاق کے وکیل نے دے دیے، جس پروکیل پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ  جی !میں مزید دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    پرویزمشرف کےوکیل  یرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا یہ آپ کےلیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نےمؤکل کی طرف سےدرخواست نہیں دی،  ملزم اشتہاری ہو  جائے تو اس کی طرف سےوکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا،   پرویز مشرف کے لیےمقرروکیل عمرے پر گئے ،انہیں بھی نہیں سنا گیا،  اشتہاری کو دوسرا  وکیل  دیا جا رہا ہےتومجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں ۔

    ،بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ  9 اکتوبر 2018 کووکالت نامہ داخل کیا،اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ تودرخواست گزار ہیں خوداپنی غلطیوں پر عدالت کو توجہ دلا رہے ہیں،  جب پرویز مشرف وردی میں تھےتو مکا دکھا رہےتھے، اب مشرف بہت ہی کمزور ہیں۔

    عدالت نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنےکی درخواستیں قابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ  کرلیا،  مشرف کیس کافیصلہ روکنےکی درخواستوں پر فیصلہ  آج ہی سنائےجانےکاامکان ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےڈویژن بینچ میں مقررتمام کیس ملتوی کردیے تھے ، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانےسےروک دیا، ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے  اور خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا تھا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا کہ مشرف اشتہاری ہیں، ہم آپ کو بطور  فریق نہیں سن سکتے۔

    مزید پڑھیں : آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے پوچھا سپریم کورٹ نے اس کیس سے متعلق جو فیصلہ دیا، کیا وہ آپ کو معلوم ہے؟ آپ کو تو حقائق ہی معلوم نہیں، وزارت داخلہ کے وکیل نےجواب دیا تھا انھیں ابھی فائل دی گئی ہے، جس پر عدالت نے سیکریٹری قانون کو طلب کرلیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • نواز شریف کے بعد عام قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست ، حکومتی جواب نہ آنے پر عدالت برہم

    نواز شریف کے بعد عام قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست ، حکومتی جواب نہ آنے پر عدالت برہم

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم  نوازشریف کےبعد عام قیدی بھی طبی بنیاد پرریلیف مانگنے لگے، سزائے موت کے قیدی کے خط پر حکومتی جواب نہ آنے پر چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تفصیلی حکم جاری کیاجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں آنکھوں کےعلاج کیلئے سزائےموت کے قیدی کے خط پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی ، سماعت میں چیف جسٹس نے حکومتی جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،میں تفصیلی حکم جاری کروں گا، عدالت کی سرزنش پرسرکاری وکیل نےجواب داخل کرانے کے لئے تین دن کی مہلت مانگی، چیف جسٹس کا کہنا تھا عدالت نے جواب کرانے کا حکم دیا تھا تو سرکاری وکیل نے کہا عدالت 3 دن کا وقت دے، بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے سماعت ملتوی کر دی۔

    گذشتہ روز سزائےموت کے قیدی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا ، قیدی خادم حسین کی جانب سےآنکھوں کےعلاج کیلئےخط لکھا ، خط میں استدعا کی تھی کہ بینائی کامسئلہ ہےعلاج کےلئےسہولت فراہم کی جائے۔

    عدالت نے خط کودرخواست میں تبدیل کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا تھا۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد عام قیدیوں نے بھی ریلیف مانگنا شروع کردیا

    یاد رہے لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیرون ملک جانے کے لیے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی ، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف کو علاج کےغرض سے 4 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے۔

    اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں جیلوں میں 10 ہزار بیمار قیدیوں نے طبی بنیاد پر رہائی کی درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نوازشریف کی طرح بیمار قیدیوں کو طبی بنیاد پر ضمانت دی جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نے درخواست چیف سیکریٹری پنجاب کو بھجوا دی تھی اورچیف سیکریٹری پنجاب کو درخواست پر فیصلے کی ہدایت کی تھی، عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ جیلوں میں 10 ہزارسے زائد قیدی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، جیلوں میں قیدیوں کو علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

  • توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو  نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آبادہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس کردیا اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف کیس وفاقی وزیر کے کیس کے ساتھ منسلک کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئیں ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی۔

    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

    وکیل شائستہ تبسم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو ٹی وی شو میں ڈیل کے تحت نوازشریف، مریم کی رہائی کاذکرہوا، وفاقی وزیر نےحکومت اور ن لیگ ڈیل میں دیگراداروں کا ذکر کیا، جس پر عدالت نے کہا اگر ڈیل ہوئی ہےتو حکومت کو فیصلہ کرنے دیں۔

    جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کوئی وفاقی وزیر اس طرح کے بیان نہیں دے سکتا،عدالت پیمرا سے ٹرانسکرپٹ منگوا لے، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا یہ حساس معاملہ ہے، کابینہ کے رکن اس طرح بیان دے؟سمجھ نہیں آتا۔

    جہانگیرجدون ایڈووکیٹ نے کہا وفاقی وزیر نے میڈیکل بورڈ کے رپورٹ پر تنقید کی ، جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر اس طرح تنقید کرتے رہتے ہیں، میڈیکل بورڈ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا زیر سماعت کیسز پر کوئی بحث نہیں کر سکتا، تو فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج ہی وزیر اعظم کو متعلقہ ویڈیو کلپ سنا دوں گی، چیف جسٹس ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ حکومت کا ہے اور حکومت تنقید کرے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا، جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا آپ میرےکیس کوالگ سنیں ،مجھے چوہدری سرور سے کیا لینا دینا۔

    بعد ازاں عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت چودہ نومبرتک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے عدالت نےتوہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کوطلب کررکھا ہے ، فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم پرہفتے کو تحریری معافی نامہ جمع کرایا تھا، عدالت ان کے معافی نامے کا جائزہ لے گی۔

    یاد رہے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب میں ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادیا

    معاون خصوصی برائے اطلاعات کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، مقدمے پر اثر انداز ہونے کا تاثر ملا ہے تو اس پر بھی معافی مانگتی ہوں، عدالت یا مقدمے پر اثر انداز ہونے کی نیت نہیں تھی۔

    گذشتہ سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا، جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر  کل طلب

    انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر کل طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا وزارت داخلہ مطمئن کرے کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، وکیل جے یو آئی کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انصار الاسلام پرائیویٹ ملیشیا نہیں بلکہ جمیعت علماء اسلام کا حصہ ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن ڈنڈے تو ہیں، جس پر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت کی ممبر ہے تو پھر تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، وکیل کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ہمیں وزارت داخلہ نے سنے بغیر پابندی لگا دی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں؟ رائے کے مطابق تویہ نوٹیفکیشن ہی غیرمؤثرہے، جب تنظیم کاباقاعدہ وجودنہیں تو پابندی کیسےلگ سکتی ہے، خاکی کےبجائےسفیدوردی پہن لیں توپھرکیاہوگا۔

    وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم قائداعظم کے دور سے کام کررہی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کم از کم آپ کوحکومت پوچھ تولیتی کہ یہ تنظیم کیاہے، 24 اکتوبر کوانصارالاسلام پرپابندی کانوٹیفکیشن جاری ہوا، عجیب بات ہےایک چیزموجود نہیں اورپابندی لگ گئی۔

    عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڈھے دس بجے تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا کہ وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کر لی، عدالت کا کہنا ہے کہ انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی اور درخواست ضمانت منظور کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبیعت کےپیش نظر ان کی العزیزیہ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، ہائی کورٹ نے دو رکنی بینچ چیف جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

    کیس میں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کی کاپی بھی منسلک کردی گئی ، میڈیکل رپورٹ کےمطابق نوازشریف زندگی اورموت کی کشمکش میں ہیں اور حالیہ میڈیکل رپورٹ میں نوازشریف کودل کےدودےکی علامت ظاہرہوئی ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ میں نوازشریف کی ضمانت کے لیے درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث کے معاون وکیل خواجہ عدنان نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے پیش ہوئے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کل بھی آپ آئےتھے،آج کونسی جلدی ہے۔

    وکیل خواجہ عدنان نے بتایا نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ لاہورہائی کورٹ میں بھی جمع کرائی تھی، انھیں معمولی ہارٹ اٹیک ہواہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قیدیوں سےمتعلق حکومت نےفیصلہ کرنا ہے۔

    عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کرلی اور کہا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

    عدالت نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر سماعت4 بجے تک ملتوی کردی۔

    5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری


    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 4بجے تک جواب طلب کرلیا اور ٹاک شو میں تضحیک آمیز گفتگو اور ڈیل کی خبریں چلانے پر چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے کہا اینکر پرسن عدالت کو مطمئن کریں کہ ڈیل کہاں ہوئی ہے، عدالت کےسامنےاپنی پوزیشن واضح کریں، میڈیا کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے، عدالت کانام لےکرڈیل کی خبریں چلانااچھی بات نہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت میں زیر سماعت معاملے کو زیر بحث کیوں لایا گیا، حکم ہے زیرالتوا معاملے کو زیر بحث نہ لایا جائے تو پھر کیوں لایا گیا؟

    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا


    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا، چیف سیکرٹری پنجاب، اے جی آفس، نیب پراسیکیوٹر جنرل کوبذریعہ فون آگاہی دی جبکہ 5اینکرپرسنز کو بھی عدالتی حکم سے بذریعہ فون آگاہ کیا گیا۔

    عدالت نےوزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نمائندہ مقررکرکےپیش ہونےکاحکم دیا اور کہا تمام نمائندگان عدالت کوبتائیں وہ سزامعطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں وہ نوازشریف کی صحت کے ذمہ دار ہوں گے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل قاسم چوہان اسلام آبادہائی کورٹ پہنچ گئے، وزیراعلیٰ پنجاب کی نمائندگی ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل کریں گے جبکہ اینکرپرسنزاور تجزیہ کار بھی ہائی کورٹ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ، اینکرپرسنز سے عدالتی نوٹس پردستخط لے لیے گئے۔

    سیکریٹری داخلہ اور نیب کی ٹیم بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئی ہے ، نیب ٹیم کا کہنا ہے کہ نوازشریف اس وقت نیب کی تحویل میں نہیں، عدالت جو پوچھے گی اس کا جواب دیں گے۔

    نوازشریف کی درخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع


    نوازشریف کی طبی بنیادوں پردرخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا وکیل آگےآئیں باقی لوگ پیچھے جائیں، اینکر  پرسنز روسٹرم پر آجائیں، آج تک ہم نےبرداشت کیالیکن اب برداشت نہیں ہوسکا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اینکرپرسنز سے مخاطب ہوکر کہا طویل عرصےسےاس طرح کی باتیں سن رہےہیں، آپ کےتجزیےججزاورعدلیہ پربوجھ بنتے ہیں، ڈیل کی خبردی، کیا عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہے، آپ سب کو معذرت سے بلایا ہے۔

    عدالت نے اینکر پرسنز سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہا ایسی باتوں سےاداروں،عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتاہے، آپ کے پروگراموں کی ٹرانسکرپٹ  دیکھی ہے، بتائیں ڈیل کس کی ہے؟میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایک ہائی کورٹ نے ضمانت دی کیا یہ ڈیل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی جج پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا، ہائی کورٹ کے ججز اپنے حلف کی مکمل پاسداری کریں گے۔

    چیئرمین پیمرا کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا چیئرمین پیمرا کہاں ہیں ؟ تو ڈی جی پیمرا نے بتایا چیئرمین  پیمرا شہر سے باہر ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈی جی پیمراکی سرزنش کرتے ہوئے کہا پیمرا نے ایکشن کیوں نہیں لیا، پیمرا سویا ہوا ہے، ہم جو فیصلہ دیں پنڈوراباکس کھل جاتا ہے ،  آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں، اللہ کا حکم ہے سنی سنائی بات آگے مت کرو، جسٹس محسن اختر نے کہا
    آپ  تو خوش ہوتے ہوں گے کہ روز ججز کی تضحیک ہورہی ہے۔

    اینکر پرسن کی بات کرنے کی کوشش پر عدالت نے چپ کرادیا اور جسٹس محسن اختر نے تنبیہ کی آپ اپنے ٹون ٹھیک کریں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہرادارےمیں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، ایمانداری سے بتائیں کیا پیمرا کام کررہاہے اور سوال کیا انصاف کے تقاضوں میں رکاوٹ ڈالنے پر کتنے مقدمات بنائے۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ ملک اس لئے حاصل نہیں ہوا تھا کہ اس کا یہ حشر کیا جائے، جوبات ریڑھی والا کرتا ہے وہی بات ٹی وی پر ہو رہی ہوتی ہے ،  جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا پیمرا بتائے ڈیل کون کررہا ہے، آپ سب لوگ وکلا تحریک میں میرے قریب رہے، یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے ڈیل ہورہی ہو یہ درست  نہیں، ہمارے بغیر ڈیل ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کیا سیکرٹری داخلہ ضمانت درخواست کی مخالفت کرتے ہیں؟ آپ لوگوں کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موصول ہورہی ہیں، تو سیکرٹری داخلہ عدالت کو بریف کیا ، جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کا ہے، ہرشخص یہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ  دار ہے، حکومت نے میڈیکل بورڈ بنایا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جیل مینوئل کے مطابق سزا معطل کرنے کا اختیار حکومت کو ہوتا ہے، طبی بنیاد پر سزا معطل ہونے کا کیس عدالت آنا ہی نہیں چاہیے ، بات صرف نواز شریف کی نہیں کیونکہ وہ عدالت میں آ سکتے ہیں، ہزاروں لوگ علاج کیلئے نہ وکیل کرسکتےہیں نہ عدالت آسکتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا ہر ترجمان کہتا ہے ، عدالتیں جو کہیں گی وہ کریں گے، حکومتی میڈیکل بورڈ کہتا ہے نواز شریف کی حالت ٹھیک  نہیں، اگر وزیراعلیٰ پنجاب صورتحال سے مطمئن ہیں تو بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا نواز شریف کے معاملے پر حکومت نے اپنا کام نہیں کیا، آدھے گھنٹے میں بتائیں، حکومت ذمہ داری لے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے  استفسار کیا وزیراعلیٰ پنجاب سے رابطہ کریں، کیا چیئرمین نیب ضمانت کی مخالفت کررہے ہیں۔

    ایڈیشنل پروسیکیوٹر نیب نے کہا ہمیں فی الحال کوئی ہدایت نہیں، ابھی باہر جائیں اور چیئرمین نیب سے ہدایات لیکر بتائیں، کیا چیئرمین بیان حلفی دیتے ہیں منگل  تک نوازشریف کو کچھ ہوا تو وہ ذمہ دارہوں گے ؟ ضمانت کی مخالفت کریں یا پھر بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ہر ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں لیں گے ، ہمارے سامنے اس وقت معاملہ صرف منگل تک کا ہے، تمام ادارے عدالت کو  آدھے گھنٹے میں ہاں یاناں میں جواب دیں۔

    چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہے، کیا وزیراعلیٰ منگل تک نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری لیتے ہیں، عدالت کوہاں یاناں میں صاف جواب چاہیے۔

      نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع


    اسلام آباد ہائی کورٹ میں  نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا حکومت اورادارے کہیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کر دیں گے، تاہم ذمہ داری حکومت پرہی ہوگی۔

    نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نےنہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں ، فیڈریشن ذمہ داری لے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھو کھر نے کہا مختصر بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا نہیں ہاں یا نہ میں عدالت کو بتائیں تو جنرل طارق کھوکھر نے مزید کہا مہربانی کرکے مجھے بات تو کرنے کی اجازت دیں، میں پھر روسٹرم چھوڑ دوں؟

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کس جماعت کی حکومت پنجاب میں ہے،وفاق ذمہ داری لے، جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاآپ منگل تک کی ذمہ داری لیں گے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا جی ہم ذمہ داری نہیں لےسکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا مزیدآدھاگھنٹہ لیں، آپ صرف ہاں یانہ میں بتائیں ، سیکٹری  داخلہ آپ عدالت میں ہیں،ہاں یانہ میں جواب دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا سیکٹری داخلہ صاحب عدالت کےساتھ سیاست نہ کھلیں ، کیاحکومت نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت کر رہی  ہے؟ حکومت ذمہ داری لےبھی توای سی ایل سےنام وفاق نے نکالنا ہے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا عدالت میرٹ پرفیصلہ دے، نوازشریف پنجاب حکومت کی تحویل میں ہیں ،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ذمہ داری لیں یا پھر نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہیں، سیکریٹری داخلہ صاحب ہاں یانہ بتادیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا وفاقی حکومت کےترجمان توکہتےہیں عدالت جوفیصلہ کرے، ہربات کوعدالت کےگلےمیں نہ ڈالاجائے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے چیف جسٹس نے استفسار کیا پنجاب حکومت کیا کہتی ہے، ہم ذمہ داری نہیں لیں گےآپ بتادیں، آپ ذمہ داری لیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کردیتے ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو اگر کچھ ہوا تو نیب اور وفاق ذمہ دار ہوگا، تینوں حلف نامے نہیں دے رہے تو ہم ضمانت منظور کرلیں گے، کوئی ذمہ داری لے اور عدالت کو آگاہ کرے۔

    نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت کی سماعت میں پھر آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

    وقفے کے بعد عدالت نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا، عدالت نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے رہی ہیں، ماضی کے فیصلوں میں سزا یافتہ قیدیوں پر اصول وضع کر چکے ہیں، آج حکومتوں سے پوچھا گیا کہ عدالتی فیصلے پر کس حد تک عمل کیا گیا، تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں واضح جواب نہیں دے سکیں۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی جاتی ہے، انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی منظور کی جا رہی ہے۔ عدالت نے 20 لاکھ روپے کے 2 مچلکے بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔

    نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست


    یاد رہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی ، العزیزیہ کیس میں ضمانت کیلئے درخواست دائرکی گئی، جس میں کہا گیا تھا نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے اور استدعا کی نوازشریف کی طبیعت کے  پیش نظر سماعت آج ہی کرے۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سروسزاسپتال کی ٹیم نے میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جبکہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے ضمانت کی مخالفت کی ، جس پر عدالت نے نو رکنی بورڈ کو تحریری رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی اور سماعت منگل تک ملتوی کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا نواز شریف کو ضمانت قانونی طور پر نہیں مل سکتی، درخواست کو میڈیکل صورتحال کے مطابق دیکھ رہے ہیں، ہم فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے۔

    بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا، نوازشریف کی ضمانت چوہدری شوگرملزکیس میں منظور کی گئی تھی۔