Tag: IHC

  • دیگرصوبوں سے ڈیپوٹیشن پر آئے  اساتذہ کو بڑا ریلیف مل گیا

    دیگرصوبوں سے ڈیپوٹیشن پر آئے اساتذہ کو بڑا ریلیف مل گیا

    اسلام آباد : ہائیکورٹ نے ڈیپوٹیشن پر آئے اساتذہ کو واپس بھیجنے سے روکتے ہوئے اساتذہ کوواپس صوبوں میں بھیجنے کا وفاقی نظامات تعلیمات کا فیصلہ معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائی کورٹ نے دیگر صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر آئے اساتذہ کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے اساتذہ کوواپس بھیجنے سے روک دیا اور اساتذہ کو واپس صوبوں میں بھیجنے کا وفاقی نظامات تعلیمات کا فیصلہ معطل کردیا۔

    بڑی تعداد آئی خواتین اساتذہ کمرہ عدالت میں خوشی سےرونےلگیں، آرڈر معطلی کےبعد اساتذہ کے پاس اسکول جانے کاراستہ کھل گیا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11دسمبر 2020 کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا بادی النظر میں وفاقی نظامت تعلیمات کا حکمنامہ برقرار نہیں رہ سکتا۔

    عدالت نے ڈی جی وفاقی نظام تعلیمات 9مارچ کو طلب کرتے ہوئے کہا وفاقی نظام تعلیمات بتائیں کہ ایسا حکمنامہ کیوں جاری کیا گیا، پالیسی کےمطابق ڈیپوٹیشن پرآئے اساتذہ کل سےاسکول جاسکیں گے۔

    عدالت نے اساتذہ کو صوبوں میں واپسی کے احکامات معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ڈائریکٹر لیگل وفاقی نظامت تعلیمات کوقانون کاعلم نہیں، ڈائریکٹر لیگل عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں، یکطرفہ فیصلوں سے اساتذہ ڈی چوک بیٹھنے ہر مجبور ہوئے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئندہ سماعت پر ڈی جی ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا ڈی جی بتائیں2006 یا پہلے کام کرنے والی اساتذہ کوکیوں دربدر کیا جارہا ہے۔

  • ‘ آن لائن امتحانات کا معاملہ ایچ ای سی کا ہے، عدالت اس میں کچھ نہیں کر سکتی’

    ‘ آن لائن امتحانات کا معاملہ ایچ ای سی کا ہے، عدالت اس میں کچھ نہیں کر سکتی’

    اسلام آباد : ہائی کورٹ نے آن لائن امتحانات کیلئے نجی یونیورسٹی کے طلباء کی درخواست پر ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ ایچ ای سی کا ہے، عدالت اس میں کچھ نہیں کر سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں آن لائن امتحانات کیلئے نجی یونیورسٹی کے طلباء کی درخواست پر سماعت ہوئی، نجی یونیورسٹی طلبا یونین کی جانب سے وکیل قاضی رشید اور عمار ستی عدالت میں پیش ہوئے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت یونیورسٹی انتظامیہ کو کویڈ کی وجہ سے ان لائن امتحانات لینے کا حکم دے اور حتمی فیصلے تک یونیورسٹی کو طلباء کے خلاف کارروائی سے روکے۔

    جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کا متعلقہ فورم تو ایچ ای سی ہے، وہاں کیوں نہیں دی، یہ معاملہ ایچ ای سی کا ہے، عدالت اس میں کچھ نہیں کر سکتی۔

    سلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دلائل کے بعد نجی یونیورسٹی کے طلباء کی درخواست نمٹا دی۔

    خیال رہے پنجاب کے شہر لاہور اور فیصل آباد میں آن لائن امتحان کیلیے طلبا کا احتجاج پرتشدد ہوگیا تھااور مشتعل مظاہرین نے یونیورسٹی کے دروازے کو آگ لگادی تھی۔

  • قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا  معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

    قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے 22 فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحال کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت نے استفسار کیا نوجوان بچوں کوکیوں روک رہے ہیں سہولت ان کو فراہم کریں، جس پر وکیل پی ٹی اے نے کہا وزارت داخلہ کو لکھا ہے سہولت دینے کے لیے تیار ہیں۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے جواب لکھاسیکیورٹی کی وجہ سے سہولت نہیں دے رہے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بنیادی حقوق کامسئلہ ہے اس لیے وفاقی کابینہ کوبھیج دیتے ہیں، پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ اس معاملے میں صوبے بھی شامل ہیں، عدالت کے پاس کوئی پیمانہ نہیں کہ سیکیورٹی صورتحال کاجائزہ لے۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے درخواست زیر التوا ہے ،کوئی فیصلہ نہیں ہوا، وفاقی کابینہ کو معاملہ بھیجنا ہے تو ٹائم فریم دے دیا جائے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ریاست کی ذمےداری ہے کہ بنیادی حقوق کاخیال رکھے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

    عدالت نے قراردیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولت شہریوں کابنیادی حق ہے اور صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی کامعاملہ ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی اور سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی۔

  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، وزارت خارجہ کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار

    ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، وزارت خارجہ کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست پر وزارت خارجہ کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری سطح کے افسرکو طلب کرلیا۔۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی وکیل ساجد قریشی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود پیش ہوئے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے وزارت خارجہ کی تفصیلی رپورٹ جمع کرادی، جسٹس عامرفاروق نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا رپورٹ میں کیاہے؟ جس پرڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزارت خارجہ کی رپورٹ میں ڈاکٹر عافیہ کی صحت، کونسل رسائی سمیت تمام چیزیں ہیں، ماہانہ بنیادوں پر ہمارا قونصلرعافیہ صدیقی۔کو دیکھنے جاتاہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ امریکی حکومت کے ساتھ معاملہ اٹھارہے ہیں، بابو والا کام نہیں بس چٹھی لکھ دینا، ریاست اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔

    درخواست گزار وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہے اور اسے پشاور سے اغوا کیا گیا، وزارت خارجہ صرف یہاں کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ جیل میں زیادتی کی گئی، طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، کوئی پتا نہیں وہ زندہ ہے یا مردہ۔

    جس پر جسٹس عامرفاروق نے استفسارکیاکہ کیا حکومت پاکستان نے امریکی حکومت سے اس سے متعلق کوئی بات کی ؟ وزارت خارجہ کا ذمہ دار افسر آکر بتائے کہ اب تک حکومت نے کیا کیا، ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا سٹیٹ کی زمہ داری ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ اس ایشو کو وزارت خارجہ کی جانب سے کون دیکھ رہا ہے؟ یہ کیس 4سال پہلے ڈاکٹر نور الحق قریشی کی عدالت میں تھا، آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں 4سال پہلے کھڑے تھے، رپورٹ میں لکھنے کو بہت کچھ لکھ دیتے ہیں، لیکن اصل میں کچھ ہوتا نہیں، جتنی بھی کوشش کریں اس سے متعلق دستاویزات سامنے رکھ کر آگاہ کریں۔

    درخواست گزار وکیل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں اسی سے متعلق ایک توہین عدالت کی درخواست بھی زیر سماعت ہے،عدالت نے کہاکہ دستاویزات کے بغیر یہ کیس کچھ بھی نہیں، ہم نے دستاویزات دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

    درخواست گزار وکیل نے مزید کہاکہ سری لنکا، ملائیشیا، یو اے ای سے قیدیوں کو واپس لایا گیا، مگر عافیہ صدیقی بارے حکومت کے پاس قانون نہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 8 دسمبر کو فارن سیکریٹری نے امریکی حکام کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی بارے فون پر بات کی۔

    عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ جوائنٹ سیکرٹری وزارتِ خارجہ زاتی حیثیت میں پیش ہوں اور کیس کی سماعت 10 فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔

  • ‘عدالت  کسی مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتی’

    ‘عدالت کسی مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتی’

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوازشریف کی تقاریر پر پابندی کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیئے کہ کسی مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا یافتہ مجرم وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر پر پابندی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    ہیومن رائٹس کمیشن، پی ایف یو جے اور دیگر صحافیوں کی جانب سے سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے کہا آپ ریلیف کس کے لئے مانگ رہے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عوام کے لئے ریلیف مانگ رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا پرویز مشرف والے کیس میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں، مشرف جب مفرور تھا تو عدالت نے ریلیف نہیں دیا، پیمرا آرڈیننس سیکنش 31 اے کے تحت پیمرا نے نوٹیفکیشن جاری کیا، چینل یا جو فریق متاثر ہے ان کو چاہیے متعلقہ فورم میں جائیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آئین کے آرٹیکل 19 پڑھ لیں، نواز شریف کی سی این آئی سی اور پاسپورٹ بلاک کیا گیا ہے، یہ درخواست سادہ نہیں ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ غیر جانب دار صحافیوں نے درخواست فائل کیا۔

    چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ مفرور کا تشرح کر دیں،جوڈیشل سسٹم کا امتحان ہے ۔ یہ عدالت کسی مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتے، رخواست میں سیکرٹری اطلاعات، چیرمین پیمرا اور جی ایم پیمرا کو فریق بنایا گیا ہے۔

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ پیمرا نے نواز شریف کی تقریر ٹی وی پر نہ دکھانے کے لئے یکم اکتوبر کو نوٹیفکیشن جاری کیا، پیمرا کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا پر غیر آئینی و غیر قانونی قدغن لگائی گئی ہے، پیمرا کی جانب سے جاری احکامات آئین کے آرٹیکل 19 اے سے متصادم ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 19 شہریوں کو آزادی اظہار رائے اور معلومات کی فراہمی کا حق فراہم کرتا ہے، عدالت پیمرا کا یکم اکتوبر کا حکم نامہ غیر قانونی قرار دے، مجھے کیس پر تیاری کے لئے وقت دے۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ آپ نے نہیں سوچھا کے یہ ریلیف سے پاکستان میں جتنے بھی مفرور ہیں سب کے لئے ہو گا،مفرور کو عدالتوں پر اعتماد کرنا ہوگا، اگر پیمرا کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہو تو بھی کسی مفرور کی درخواست پر ریلیف نہیں دے سکتے۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی۔

  • ‘کورونا کے دوران ٹک ٹاک کم مراعات یافتہ طبقے کیلئے آمدن کا ذریعہ’

    ‘کورونا کے دوران ٹک ٹاک کم مراعات یافتہ طبقے کیلئے آمدن کا ذریعہ’

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواستوں پر پی ٹی اے رولز طلب کرلئے، چیف جسٹس نے کہا ، کورونا کے دوران ٹک ٹاک کم مراعات یافتہ طبقے کیلئے آمدن کا ذریعہ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، درخواست گزاروں کی جانب سے اسامہ خاور اور حیدر امتیاز ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے۔

    وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ پی ٹی اے کے مذاکرات ہوتے رہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پی ٹی اے میں اس طرح کے فیصلے کون کر رہا ہے، کیا کچھ لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں؟ کون لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ اس لئے رولز بنانے بہت ضروری ہیں، کورونا کے دوران ٹک ٹاک کم مراعات یافتہ طبقے کیلئے آمدن کا ذریعہ رہا ہے، ٹک ٹاک انٹرٹینمنٹ کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ موٹروے پر بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا پھر موٹروے کو بھی بند کر دیں، پوری دنیا میں یہ نہیں ہوتا، دنیا آگے جا رہی ہے اور آپ پیچھے لے کر جا رہے ہیں، ہماری اخلاقیات اتنی مضبوط ہونی چاہئیں کہ کوئی چیز ان پر اثرانداز نہ ہو سکے۔

    عدالت نے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواستوں پر پی ٹی اے رولز طلب کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • گستاخانہ خاکوں کی اشاعت: وزیراعظم کو معاملہ وفاقی کابینہ میں رکھ کر عوامی جذبات کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم

    گستاخانہ خاکوں کی اشاعت: وزیراعظم کو معاملہ وفاقی کابینہ میں رکھ کر عوامی جذبات کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے متعلق درخواست پر وزیراعظم کو معاملہ وفاقی کابینہ میں رکھ کر عوامی جذبات کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اورنمائش پر سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

    پٹیشنر کی جانب سے طارق اسد ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش پر ترکی اور قطر سمیت دیگر مسلم ممالک نے احتجاج کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہےکہ فرانسیسی صدر نے خود دو عمارتوں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کرنے کا کہا۔

    وکیل نے کہا کہ عدالت وفاقی حکومت کو فرانس سے سفارتی و اقتصادی تعلقات منقطع کرنے ، فرانس کی مصنوعات کو پاکستان میں درآمد کرنے پر پابندی عائد کرنے اور فرانس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرنے کا حکم دے۔

    طارق اسد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت وفاقی حکومت کو حکم دے کہ وہ فرانس کے سفیر کو طلب کرکے اس بات پر مجبور کرے کہ فرانس کی حکومت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر معافی مانگتے ہوئے چارلی ہیبڈو میگزین کو گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے روکے۔

    وکیل نے مزید کہا وفاقی حکومت کو عالمی سطح پر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو جرم قرار دلوا کر اس کی کم سے کم سزاء عمر قید کے لئے قانون سازی کے متعلق اقدامات کرنے کا بھی حکم دے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے پاکستانی حکومت نے مذمت تو کی ہے ، نیشنل اسمبلی سے بھی قرارداد بھی پاس ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ سے قرارداد کا آنا بھی عوام کی ترجمانی ہے۔

    عدالت نے شہداء فاؤنڈیشن کی پٹیشن وزیراعظم کو بھیجتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھ کر عوامی جذبات کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ  کا  ٹک ٹاک پرعائد پابندی ختم کرنے کا عندیہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا ٹک ٹاک پرعائد پابندی ختم کرنے کا عندیہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کی جانب سے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پرعائد پابندی ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کی جانب سے ٹک ٹاک کی بندش کے فیصلے کے خلاف تحریری حکم نامہ جاری کردیا ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں ٹک ٹاک بندش کے فیصلے کو فوری معطل کرنے کی درخواست پر پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیوں نہ کیس کے حتمی فیصلے تک پی ٹی اے کا فیصلہ معطل کردیا جائے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ میں موبائل ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی تھی، جس میں وکیل نے کہا تھا کہ پی ٹی اے نے 9 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی، پی ٹی اے نے واضح حکم جاری کیے بغیر پریس ریلیز کے ذریعے پابندی عائد کی، پیکا ایکٹ کی سیکشن 37 ون کے تحت عارضی معطلی کا کوئی تصور نہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے نے وفاقی حکومت یا کابینہ کی منظوری کے بغیر فیصلہ کیا جو پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا جائے اور ہدایت کی جائے کہ ایسا کوئی بھی حکم جاری کرتے وقت وجوہات دی جائیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر پی ٹی اے کے سینئر افسر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کو عدالت سے رجوع کا موقع فراہم کردیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کو عدالت سے رجوع کا موقع فراہم کردیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیلئے قانونی نمائندہ مقرر کرنے سے متعلق بھارت کو عدالت سے رجوع کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے کہا بھارتی نمائندہ ہمارے سامنے پیش ہو ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیلئے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی اپیل پر سماعت ہوئی ،چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بینچ میں شامل تھے۔

    حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور عدالتی معاون سینئرقانون دان حامدخان بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ 2 عدالتی معاونین مخدوم علی خان اور عابد حسن منٹو نے معاونت سے معذرت کرلی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا پروگریس ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا عدالتی حکم پروزارت خارجہ نےبھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا، بھارت نے اپنے جواب میں اپنا پہلا مؤقف قائم رکھا، بھارت کلبھوشن یادیوکےمعاملےمیں سنجیدہ نہیں، عدالت کلبھوشن یادیو کے معاملے پر فیصلہ کرے، بھارت کے سفارتخانے کے نمائندے سےملاقات ہوئی، بھارتی سفارتخانہ وکیل مقرر کرنے کے لئے راضی نہیں ہوا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت نے اعتراضات اٹھائے پاکستان نےبامعنی قونصلررسائی نہیں دی، ایسالگ رہاہےبھارت کلبھوشن کی سزا سے متعلق فکر مند نہیں، بھارتی کلبھوشن کیس نہیں لڑنا چاہتے وہ سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں، کلبھوشن کوعدالتی احکامات سے آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے انکار کیا، پاکستان نے کلبھوشن کوقانونی نمائندہ مقررکرنے کے لئے آرڈیننس پاس کیا۔

    اٹارنی جنرل آف پاکستان نے آرڈیننس عدالت کو پڑھ کر سنایا، 4 ستمبر2020 کو بھارت کو خط لکھا، 7 ستمبر2020 کو بھارت نے خط کا جواب دیا، بھارت نے 4 اعتراضات اٹھائے، ایک اعتراض آرڈیننس پراٹھایا گیا، دوسرا اعتراض یہ کہ قونصلر رسائی صحیح طرح نہیں دی گئی، تیسرا اعتراض پاکستان نے غیرملکی وکیل کو اجازت دی، چوتھااعتراض یہ کہ پاکستانی کورٹ میں پیش ہونا ان کی خود مختاری کیخلاف ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت کلبھوشن کی قسمت سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہ رہاہے، بھارت یہ کیس نہیں لڑناچاہتا، بھارت نے کہا پاکستان کلبھوشن کو معنی خیز قونصلررسائی نہیں دینا چاہتا۔

    اے جی نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کےمطابق آرڈیننس سے کلبھوشن کو سہولت کا صرف تاثر دیا جارہا ہے ، آرڈیننس میں طریقہ کار سے متعلق کچھ واضح نہیں کیا گیا جبکہ ہم نے کہا طریقہ کا راس عدالت نےواضح کرنا ہے، بھارت کلبھوشن یادیوکےمستقبل کےحوالےسےکنسرنڈنہیں، بھارت دستاویزات کیلئےاس عدالت سے بھی رجوع کرسکتا ہے، ان کے جواب سے ثابت ہوتا ہے، بھارت عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنناچاہتا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا وفاقی حکومت استدعا کرتی ہے کہ کلبھوشن کیلئےوکیل مقرر کرے، بھارت تاثر دیناچاہتاہے پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہیں کر رہا، عدالت کلبھوشن کیلئے عدالتی نمائندہ مقرر کر سکتی ہے، ہم کلبھوشن یادیو کو شفاف ٹرائل کاموقع دینا چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر ہم کسی نمائندے کو مقرر کرتے ہیں تو اس کے کیا اثرات ہونگے؟ ہم جو بھی کریں قانون کے مطابق کریں گے، مطمئن کریں جب بھارت اورکلبھوشن متفق نہیں تو کیسے کیس چلا سکتےہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ نظرثانی کا نہیں بلکہ قانون نمائندہ مقرر کرنے کا ہے۔

    خالدجاوید کا کہنا تھا کہ یہ کیس کلبھوشن کیلئےقانونی نمائندہ مقرر کرنےکاہے، کلبھوشن یادیوکی قسمت کافیصلہ اس کی نظر ثانی اپیل پرہوگا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی مقصدعالمی عدالت کےفیصلے پر معنی خیز عملدرآمد ہے، عالمی عدالت انصاف نےماضی میں ایسےہی مقدمات میں فیصلے دیے ہوں گے، ان فیصلوں کی روشنی میں عدالت کی معاونت کریں، ان فیصلوں پرکس طرح عملدرآمد کیا گیا؟

    اٹارنی جنرل نے کہا بھارت کو صرف اتنا کرنا تھا کہ عدالت میں دستاویز کیلئے درخواست دینی تھی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ بھارت براہ راست اس عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، درخواست دے سکتا ہے اور پیش ہوسکتاہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارت کو عدالت سے رجوع کا موقع فراہم کرتے ہوئے کہا بھارت عدالت کے سامنے درخواست دائر کرے اور بھارتی نمائندہ ہمارے سامنے پیش ہو، بعد ازاں کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت 9 نومبرتک ملتوی کردی۔

    خیال رہے مخدوم علی خان کےبعدعابد حسین نے بھی عدالتی معاونت سےانکارکردیا ہے ، عابدحسین منٹو کا کہنا ہے کہ مجھےصحت اجازت نہیں دے رہی، خرابی صحت کےباعث عدالت کی معاونت نہیں کر سکتا، اس سے قبل مخدوم علی خان نے بھی عدالت سے معاونت کے لئے معذرت کی تھی۔

    عدالت نےمعاونین سےعالمی عدالت انصاف کےفیصلےکی روشنی میں معاونت کاحکم دیا تھا اور عدالتی معاونت کیلئے عابد حسین منٹو،حامدخان، مخدوم علی خان کو معاون مقرر کیا تھا ، اب عدالتی 3 معاونین میں صرف حامد خان رہ گئے ہیں۔

    ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کے ہائی کورٹ کے دو بار نوٹس کے باوجود بھارتی سفارت خانے نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    گزشتہ سماعت پر عدالت نے حکومت پاکستان کو ایک بار پھر کلبھوشن کے حقوق کیلئے بھارت سے رابطہ کرنے کا حکم دیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ یہ آئینی عدالت ہے فیئر ٹرائل مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کو موقع دیتے ہیں۔

    یاد رہے وزارت قانون نے اسلام آبادہائی کورٹ میں کلبھوشن کا قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست دائر کی تھی، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اس حوالے سے حکم صادر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو سکے۔

  • نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کی درخواست خارج

    نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کی درخواست خارج

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نےنوازشریف کی تقاریر کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کرخارج کردی اور کہا سیاسی مواد سے متعلق معاملات عدالتوں میں لانا عوامی مفاد میں نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حالیہ متنازعہ تقریر سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی۔

    عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف نے حالیہ تقریر میں ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور ان کی تقریر کے باعث ملکی اداروں کا وقار مجروح ہوا۔

    عدنان اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ نواز شریف عدالت سے سزایافتہ مجرم ہیں، عدالت نفرت آمیز تقریر پر نواز شریف پر پابندی عائد کرے اور پیمرا کو پابند کرے کہ نواز شریف کی تقریر آئندہ ٹی وی چینل پر نشر نا ہو۔

    جس کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم کی حالیہ متنازعہ کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی تقاریرکیخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے4صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی مواد سے متعلق معاملات عدالتوں میں لانا عوامی مفاد میں نہیں، اس طرح کی درخواستوں کیلئےمتبادل فورم موجود ہے، درخواست گزار مطمئن نہیں کرسکا ، کہ تقریر سے اس کے کون سے حقوق متاثر ہوئے۔

    درخواست عامر عزیز انصاری نام شہری نے دائر کی تھی ، درخواست میں نواز شریف، چیئرمین پیمرا، شہباز شریف اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

    خیال رہے نواز شریف نے اپنے خطاب میں اداروں پر تنقید کی تھی، بعد ازاں وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا تھا کہ نوازشریف کی تقاریر پر ہم قانونی پہلو دیکھ رہے ہیں، ملک دشمنی کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی کوئی قانون سے بالاتر ہے۔